Episode 23 - Mann Kay Muhallay Mein By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر23 - من کے محلے میں - شکیل احمد چوہان

فجر کے بعد نکاح پڑھا کر حکیم صاحب نے اپنا وعدہ پورا کر دیا۔ ماہم پورے مان سمان کے ساتھ اپنے گھر سے رخصت ہوئی تھی۔ اُس کے باپ کی زبان بھی جیت گئی اور ماہم نے اپنا محبوب بھی پا لیا تھا۔
وہ اُس کے ساتھ دُلہن بنی گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گئی۔ مزمل کی سفید مرسڈیز اِس بار دُلہن کی طرح سجھی نہیں تھی۔ سجاوٹ کا کام فجر کے بعد ہی سے ماڈل ٹاؤن میں شروع ہو چکا تھا۔

پچھلی رات کے واقعے کے بعد حکیم عاقل انصاری نے اپنی خالہ ممتاز بیگم کو ساری صورتِ حال سے آگاہ کر دیا تھا۔
ممتاز بیگم نے خود ہی خوشی خوشی حکیم صاحب کو ماہم اور مزمل کے نکاح کی اجازت دے دی تھی۔ ماڈل ٹاؤن میں سب کو معلوم تھا سوائے مزمل کے۔ تقریباً 400 دنوں تک چلنے والی محبت کی یہ کہانی اب 72کلو میٹر کی مسافت طے کر رہی تھی۔

(جاری ہے)


مزمل چپ چاپ گاڑی ڈرائیو کر رہا تھا اور ماہم اُس کے پہلو میں بیٹھی تھی۔

خاموش محبت کے کردار اب بھی خاموش ہی تھے۔ دونوں چور نگاہوں سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔ بات کرنے کی ہمت دونوں میں نہیں تھی یا پھر اُن دونوں نے کوشش ہی نہیں کی یا پھر وہ دونوں ہی لکھنو کے نوابّوں جیسے تھے۔ اس کی خبر مجھے بھی نہیں ہے۔
مزمل کے ہارن دینے سے پہلے ہی گھر کا مین گیٹ کھُل گیا۔ وائیٹ مرسڈیز چلتی ہوئی گھر کے داخلی دوازے پر جا کے رُکی۔
ایک طرف بلقیس اور باذلہ کھڑی تھیں۔ دوسری طرف باسط اور بینش کھڑے تھے۔ چاروں کے ہاتھوں میں گلاب کی پتیوں سے بھری ہوئی پلیٹیں تھیں۔ مزمل گاڑی سے اُترا اُس نے جلدی سے ماہم کا دروازہ کھولا اور اپنا دائیاں ہاتھ ماہم کی طرف بڑھایا ماہم نے پہلے مزمل کے بڑھے ہوئے ہاتھ کو دیکھا پھر ایک نگاہ اپنے محبوب پر ڈالی۔
وہ نکاح کے بعد اپنے مجازی خدا کو پہلی بار چھونے والی تھی۔
اُس نے مسکراہٹ دباتے ہوئے اپنا ہاتھ مزمل کے ہاتھ میں دے دیا۔ گاڑی سے اُترنے کے بعد اُن کو چار سیڑھیاں چڑھنی تھی۔ ماہم کو یاد آیا مسجد کی بھی چار ہی سیڑھیاں تھیں جو گلی کی طرف اُترتی تھیں۔
آخری سیڑھی پر پہنچ کر اُن دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ سامنے اُن کی راہوں میں گلاب کے پھول پتیوں کی شکل میں بکھر کر لیٹے تھے۔ مزمل اُن گلاب کی پتیوں پر پاؤں رکھنے ہی لگا تھا۔
ماہم نے اُس کا ہاتھ دبایا اور مزمل کی طرف دیکھا۔ مزمل نظروں کا حکم سمجھ گیا۔
مزمل نے اپنے لیدر کے شوز اُتار دیئے۔ ماہم کے ہونٹوں پر میٹھی مسکراہٹ نے انگڑائی لی۔ اُس نے بھی اپنی ہیل والی سینڈل اُتار دی۔ ماہم کے پیروں میں مہندی رچی ہوئی تھی۔
جرابیں اُتارنے کے بعد مزمل کے سفید پاؤں اور بھی سفید نظر آ رہے تھے۔
وہ دونوں ننگے پاؤں چلتے ہوئے اپنی دادی کی طرف بڑھے۔
اُن کے اوپر پھولوں کی برسات ہو رہی تھی۔ دادی کے پاس پہنچ کر مزمل بولا :
”دادو! یہ ہے آپ کی بہو“ ممتاز بیگم دو بازؤں والی کرسی سے اُٹھیں اور ماہم کی پیشانی سے بوسہ لے لیا۔
”دادو! میں چلتا ہوں…“مزمل نے اِک نظر ماہم کو دیکھا۔ وہی اِک نظر جو وہ چار سودنوں سے دیکھتا آرہا تھا۔ وہ لاؤنج سے اوپر جاتی ہوئی سیڑھیوں کی طرف بڑھ گیا۔ وہ اپنے کمرے میں پہنچا جس کی سجاوٹ کا کام ہو رہا تھا۔

وہ بغیر کچھ بولے تیار ہوا اور فیکٹری کے لیے نکل گیا۔ باذلہ ایک کمرے میں ماہم کو لے گئی۔ اُس کے پیچھے پیچھے ممتاز بیگم بھی پہنچ گئیں۔
”ماہم بیٹی! وہ میانوالی گیا ہے۔ رات مجھے بتا رہا تھا۔ اُسے سرامکس کا بزنس بڑا راس آیا ہے۔ میانوالی کی ایک پارٹی ہے۔ وہ اپنی فیکٹری بیچ رہی ہے۔ اُس کی ڈیل کرنے گیا ہے۔ گھبرانے کی کوئی بات نہیں حنیف اور وکیل صاحب اُس کے ساتھ ہیں۔
شام تک واپس آجائے گا۔
ممتاز بیگم متواتر بول رہی تھیں اور ماہم خاموشی سے سُن رہی تھی۔
”ماہم بیٹی! تم کپڑے چینج کر لو اور فریش ہو جاؤ… پھر ناشتہ کرتے ہیں۔“ ماہم نے اپنے عروسی لباس کی طرف دیکھاپھر ایک نظر کمرے سے جاتی ہوئی ممتاز بیگم پر ڈالی۔
بھابھی! آپ یہ پہن لیں!“ باذلہ نے ایک سوٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ ماہم کو صرف بھابھی یاد رہا باقی وہ کچھ یاد نہیں رکھنا چاہتی تھی۔

”باذلہ! یہ اُتار دوں…؟“ ماہم نے اپنے عروسی لباس کی طرف دیکھ کر سوالیہ انداز میں پوچھا۔
”جی ہاں… شام کو بیوٹیشن آجائے گی۔ آپ پھر سے تیار ہوں گی اور بیگم صاحبہ کا خریدا ہوا لہنگا پہنیں گی۔ بیگم صاحبہ کل رات کو کہہ رہی تھیں :
”باذلہ میں اپنی ماہم کو مزمل کے لیے خود تیار کرواؤں گی۔“
”بھابھی! آپ کا لہنگا بھی بہت خوبصورت ہے، لیکن پہنا تو آپ نے کسی اور کے لیے ہی تھا۔

آخری بات ماہم کے دل پر جا کے لگی۔ وہ اُٹھی اور جلدی سے شمعون کے لیے پہنا ہوا عروسی لباس اُتار کر سادہ کپڑے پہن لیے۔ ناشتہ کیا اور ممتاز بیگم کے کہنے پر سو گئی۔
#…#
مزمل پچھلی سیٹ پر سکون کی نیند سو رہا تھا۔ جب کہ حنیف گاڑی ڈرائیو کر رہا تھا۔ حنیف کے برابر میں مزمل کا وکیل بیٹھا تھا۔
لاہور سے میانوالی تک سارے رستے مزمل سوتا رہا۔
ڈیل فائنل کرنے کے بعد واپسی پر وہ ماہم کے خیالوں میں کھویا ہوا تھا اُسی وقت دل سے آواز آئی جو کہ دل ہی کی تھی :
”مزمل صاحب! میں نے صحیح کہا تھا نا! صرف وہ چیز نا ممکن ہے جسے انسان نا ممکن سمجھتا ہے۔ دل کی دھرتی کا درد، دوائی سے دور نہیں ہوتا اُس کے لیے اُمید اور دعائیں درکار ہوتی ہیں۔ اُمید آپ نے چھوڑی نہیں دُعا کا مشورہ تو میرا تھا“ دل نے سینے کے اندر ننھے بچے کی طرح اُچھلتے ہوئے کہا۔ دماغ نے آج دل کو منہ لگانا مناسب نہیں سمجھا۔
مزمل تخیل کی وادی میں کھویا ہوا تھا۔ گاڑی لاہور کی طرف رواں دواں تھی۔ مزمل نے آنکھیں بند کر رکھی تھیں اُس نے بند آنکھوں کے ساتھ منہ میں کہا :
”میری ماہم!!“

Chapters / Baab of Mann Kay Muhallay Mein By Shakeel Ahmed Chohan