Episode 2 - Markaa E Haq O Batil By Hammad Hassan Khan

قسط نمبر 2 - معرکہٴ حق و باطل - حماد حسن خان

تاریخِ اسلام اور شہادتیں 
تاریخِ اسلام میں بیشمار شہادتیں ہوئیں اور ہر شہادت اپنی جگہ ایک نمایاں اہمیت ، انفرادی قدر و منزلت اور مقام کی حامل ہے۔ہر شہادت میں اسلام کی بقاء ودوام، آقا ﷺ کے دین اور آپ ﷺ کی سنتِ مبارکہ کی حیات ِ جاوداں کے راز پوشیدہ ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ تاریخِ اسلام میں ہر شہادت اپنی جگہ اہم شمار کی جاتی ہے لیکن شہادتِ امامِ حسین کا واقعہ کئی اعتبارسے باقی تمام شہادتوں سے مختلف اور منفرد ہے۔اس کی انفرادیت کی ایک وجہ یہ ہے کہ آپ خانوادہٴ رسول ﷺ کے چشم و چراغ تھے۔ اور ایسے چشم و چراغ کہ جنہوں نے بارگاہ ِ رسالت ﷺ کی گود میں پرورش پائی تھی۔

(جاری ہے)

آپ ﷺ کے مبارک کاندھوں پر سواری کی تھی۔

آپ ﷺ کے لعابِ دہن کو اپنی غذا بنایا تھا ۔اور جنہیں نبیِ کریم ﷺ کا بیٹا ہونے کا شرف حاصل تھا۔اس لیے غربت ، پردیس اور مظلومیت کی حالت میں یزیدیوں کے ہاتھوں شہادت باقی شہادتوں پر ایک نمایاں فوقیت اور برتری رکھتی ہے۔
خلافت ِ راشدہ کی مدت 
حضور نبی ِ اکرم ﷺ نے اپنے بعد قائم ہونے والے دور ِ حکومت کی پہلے ہی نشان دہی فرما دی تھی۔
حضرت سفینہ  روایت کرتے ہیں کہ حضور نبیِ اکرم ﷺ نے فرمایا میری امت میں خلافت تیس برس تک رہے گی۔پھر اس کے بعد ملوکیت ہو گی۔
حضور نبی ِ اکرم ﷺ کے فرمان کے مطابق خلافتِ راشدہ آپ ﷺ کے بعد تیس سال تک ہو گی۔اس کے بعد دورِ ملو کیت کا آغاز ہو گا۔
خیر و فلاح پر مبنی طرزِ حکومت بدل دیا جائے گا۔ اور امتِ مسلمہ میں سیاسی اقتدار کی جو شکل رائج پائے گی وہ ملوکیت کی صورت میں ہو گی۔ حضورِاکرم ﷺکی پیشن گوئی کے مطابق حضرت ابو بکر صدیق  دو برس، تین ماہ دس دن تک تختِ خلافت پر فائزرہے ۔پھر خلیفہٴ ثانی حضرت عمر ِ فاروق  نے دس برس ،چھے ماہ اورچار دن تک اس منصب کو زینت بخشی۔پھر خلیفہٴ ثالث یعنی تیسرے خلیفہ حضرت عثمانِ غنی  کا دور آیا۔
آپ  گیارہ برس، گیارہ ماہ اوراٹھائیس دن تک خلیفہ رہے۔آپ  کے بعد خلیفہٴ چہارم حضرت علی کرم اللہ وجہہ چار برس نو ماہ تک اس اعلیٰ منصب پر فائز رہے اور آپ تبلیغِ دین کے لیے جو کچھ کر سکتے تھے ،بڑی جان فشانی ، جرات و ہمت اور نہایت جوش و جذبے کے ساتھ وہ سب کچھ کیا۔آپ کی شہادت کے بعد آپ  کے صاحبزادے حضرت امامِ حسین  نے یہ عہدہ سنبھالا اور تقریبا ً چھ ماہ اس منصب پر فائز رہے۔
سیدنا امامِ حسین کے دورِخلافت کے چھ ماہ شمار کر کے تیس برس تک مشتمل یہ زمانہ عہد ِخلافتِ راشدہ کہلاتا ہے۔
حضرت علی  شیرِ خدا کے اعلان ِ خلافت کے ساتھ ہی ملک شام میں حضرت امیر معاویہ نے اپنی آزاد حکومت کا اعلان کر دیا۔اور حضرت علی  کی خلافت کو تسلیم نہ کیا ۔اس پر امتِ مسلمہ متفق رہی ہے کہ خلافت بہر طور حضرت علی  کا حق تھا۔
آپ  ہی خلیفہٴ بر حق اور خلیفہٴ راشد تھے۔حضرت امیر معاویہ  کا یہ فیصلہ آئمہ اہل ِ سنت کے ہاں اجتہادی خطا کے طور پر لیا جاتا ہے۔واضح رہے کہ اجتہاد کا مطلب ہے کہ زمانے کے مطابق علمائے امت کا مل کر ایسا فیصلہ کرنا جو امت کے لیے آسانی کرے مگر وہ شرح کے خلاف نہ ہو ۔اگر وہاں ایسا فیصلہ ہو جائے جو کسی کو تو فائدہ دینے کے لیے ہو مگر وہ امت کے لیے نقصان دہ ہو۔
تو وہ اجتہاد غلط تھاکیونکہ اس کی ضرورت نہیں تھی ۔اور اس سے نقصان بھی ہونے کا خطرہ تھا۔
علامہ تفتازانی لکھتے ہیں ” اہل ِ حق کا ایک بات پر اتفاق ہے کہ اس پورے معاملے میں حضرت علی  درست تھے۔“
حضرت امیر معاویہ کے جداگانہ اعلانِ حکومت کے بعدحضرت علی  کے ساتھ ان کی کشمکش کا آغاز ہو گیا۔
جو کہ حضرت علی کی زندگی میں جاری رہا۔جس کے نتیجے میں جنگِ جمل اور جنگِ صفین جیسے چھوٹے بڑے معرکے ہوئے اور پھر حضرت علی کی شہادت کے بعد حضرت امام حسین جب مسند خلافت پر بیٹھے تو امیر معاویہ نے ان کی خلافت کو بھی تسلیم نہ کیا۔اس طرح مسلمانوں کے دو گروہوں کے درمیان اختلاف قائم رہا ۔اس اختلاف کو ختم کرنے کے لیے حضرت امام ِ حسین  نے چھ ماہ میں ہی چند شرائط پر مسند ِ خلافت چھوڑ کر امیر معاویہکو مسلمانوں کا امیر تسلیم کر لیا۔
مرکز ِ خلافت کی کوفہ منتقلی
حضرت علی  نے اپنے دور میں تخت ِ خلافت مدینہ منورہ سے منتقل کر کے کوفہ میں قائم کر لیا تھا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت امیر معاویہ  کا دارالحکومت دمشق تھاجو کہ مدینہ سے بہت دور اور لمبی مسافت پر تھا۔
اس قدر دور رہ کر پوری خلافت کے انتظام و انصرام میں دشواری ہوتی تھی۔اس لیے اس دشواری اور اس علاقے میں ہونے والی مسلسل بغاوتوں پر قابو پانے کے پیش ِ نظر آپ  نے دارالحکومت کوفہ کو منتخب فرمایا۔جب حضرت علی  نے اپنی خلافت کا مرکز کوفہ قرار دیا تو وہ جو خود کو شیعان ِ علی ( حضرت علی  کا گروہ)کہلانے والے تھے۔ہر طرف سے سمٹ سمٹ کر حضرت علی  کے قرب کے خیال سے کوفہ میں جمع ہونے لگے۔
اور کثرت کے ساتھ انہوں نے کوفہ میں سکونت اور رہائش اختیار کی۔اور اس طرح کوفہ شیعان ِ علی  کا مرکز بن گیا ۔
اس دور میں چار جماعتیں وجود میںآ ئیں جن میں سے ایک جماعت ایسی تھی جس نے کھل کر حضرت علی  کی حمایت کی اور بنو امیہ اور دیگر شخصیات کی مخالفت کا اعلان کر دیا۔اس جماعت نے خود کو ’ شیعان ‘ کی جماعت قرار دیا ۔
وہ اسی سیاسی حمایت کی بنا پر آگے چل کر ”جماعت شیعان ِ علی “ قرار پائی ۔
یاد رہے کہ جو شیعان ِ علی کا نام اس وقت معروف ہوا اس سے فقہی اور مذہبی نقطئہ نظر سے وہ شیعہ مکتب ِ فکر مراد نہیں تھا جو بعد میں باقاعدہ فقہ ( فقہٴ جعفریہ )کی تدوین و تالیف کے بعد وجود میں آیا۔بلکہ اس سے مراد حضرت علی  اور حضرت امیر معاویہ  کے درمیان اختلاف کے وقت حضرت علی  کی سیاسی حمایت کے طور پر پیدا ہونے والا گروہ ہے۔
دوسرا طبقہ بنو امیہ کی حمایت پر وجود میں آیا۔پہلے پہل یہی دو گروہ آپس میں متصادم رہے۔
(بنو امیہ، قبیلہ قریش کی ایک شاخ ہے جس میں سے خاندان حضرت امیر معاویہ بھی ہے۔ ایسے ہی جیسے کہ قبیلہ قریش کی ایک شاخ بنو ہاشم ہے جس میں سے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا خاندان ہے)
تیسرا اسی دور میں ایک اور طبقہ وجود میں آیا جس نے حضرت علی  اور حضرت امیر معاویہ  دونوں کی مخالفت کی۔
اس طبقے نے ان دونوں ہستیوں کے خلاف ایک مسلح کشمکش کا آغا ز کیا۔یہ طبقہ خوارج کہلاتا ہے۔یہ خارجی نماز روزے کے پابند تھے۔نوافل ، تہجد ، کثرت ِ ذکر اور کثرت ِ تلاوت جیسے اعمال بھی بجا لاتے تھے۔”ان الحکمالا للہ “یعنی ”حکم صرف اللہ کا “ کانعرہ بلند کرتے تھے۔لیکن معاذاللہ حضرت علی  اور حضرت امیر معاویہ کو واجب القتل اور کافر گردانتے تھے۔
چوتھا طبقہ کثیر صحابہ کرام اور ان کی پیروی کرنے والوں کا تھا ۔جو حضرت علی  کی خلافت کو برحق جانتے تھے۔لیکن حضرت معاویہ  کے بارے میں خاموش تھے۔

Chapters / Baab of Markaa E Haq O Batil By Hammad Hassan Khan