Episode 3 - Markaa E Haq O Batil By Hammad Hassan Khan

قسط نمبر 3 - معرکہٴ حق و باطل - حماد حسن خان

ساٹھ ہجری کے اختتام سے پناہ مانگنے کا حکم 
حضرت امام حسین  کی شہادتِ عظمیٰ کی یہ ایک منفرد خوبی ہے کہ حضور نبیٴ اکرم ﷺ نے اس کی تفصیلات بہت پہلے بتا دیں تھیں جس کی جزئیات سے اہلِ بیت واقف ہو چکے تھے اور انہیں بہ خوبی پتہ چل چکا تھا کہ مستقبل میں کیا ہونے والا ہے۔ان حیرت انگیز اور قبل از وقت تفصیلات کو معجزانہ پیشن گوئی کے سوا کوئی نام نہیں دیا جا سکتا ۔
یہی وجہ ہے کہ میدان ِ صفین کی طرف جاتے ہوئے راستے میں حضرت علی  شیرِ خدا نے کربلا کے ان مقامات کی نشان دہی کر دی تھی جہاں ان حضرات کو شہید ہونا تھا ۔
ان واقعات کا بہ نظر غور جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ حضور نبی ِ اکرم ﷺ نے دیگر تفصیلات کے ساتھ بعض خاص لوگوں کو ماہ و سا ل سے بھی آگاہ کر دیا تھا ۔

(جاری ہے)

اور وہ حتمی طور پر جانتے تھے کہ یہ افسوس ناک سانحہ کب وقوع پذیر ہونے والا ہے۔

حضرت ابوہریرہ  بھی ان خاص لوگوں اور محرم راز دوستوں میں سے تھے جنہیں اچھی طرح علم تھا کہ ساٹھ ہجری کے اختتام تک سیاسی اور ملکی حالات مستحکم نہیں رہیں گے بلکہ ان میں نمایاں تبدیلیاں آ جائیں گی۔حکومت کی دیکھ بھال ایسے غیر صالح اور اوباش نوعمر لوگوں کے ہاتھ میں آ جائے گی جن کے پیشِ نظر امانتِ الٰہی نہیں بلکہ تعیش ِ زندگی ہو گی۔اور وہ اقتدار کو عیش و عشرت ، شراب و کباب، بد معاشی ، آوارگی ، بد کاری اور عوام پر ظلم و ستم ڈھانے کے لیے بے دریغ استعمال کریں گے۔
حضرت ابو ہریرہ  اکثر یہ دعا کیا کرتے تھے ”میں ساٹھ ہجری کے اختتام اور نو عمر لوگوں کی امارت سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں “
ان کا مطلب یہ تھا کہ ایک خوفناک دور شروع ہونے والا ہے جس میں اوباش لڑکے سلطنت و حکومت پر قابض ہوں گے جس سے امتِ مسلمہ کو ناقابلِ تلافی نقصان ہو گا۔ایسے اوباش لڑکوں کے بارے میں آپ ﷺ نے پہلے سے خبردار فرما دیا تھا :
” اس امت کی ہلاکت قریش کے اوباش نوجوانوں کے ہاتھوں ہو گی۔
بیشک میری امت میں جھگڑا و فساد بے وقوف اوباش نوجوانوں کے ہاتھوں برپا ہو گا۔“
حضرت ابوہریرہ  نے ایک اور روایت میں فرمایا کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ:
” اہل ِ عرب کے لیے اس شر کی وجہ سے تباہی و بربادی ہے جو ساٹھ ہجری کے اختتام پر قریب آ چکی ہے۔“
امانت کو مالِ غنیمت اور صدقہ و زکوٰة کو تاوان خیال کیا جائے گا۔
اور گواہی شخصی جان پہچان کی بنا پر ہو گی۔اور فیصلہ ذاتی خواہش کی بنا پر ہو گا۔
حضرت امِ سلمہ  روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
” ( میرے جگر گوشہ )حسین ابن ِ علی کو ساٹھ ہجری کے اختتام پر شہید کر دیا جائے گا۔ جب ایک اوباش نوجوان ان پر چڑھائی کرے گا۔“
حضور نبیِ اکرم ﷺ کی پیشن گوئی کے مطابق ساٹھ ہجری میں قبیلہ قریش کے شخص بنوامیہ کا اوباش نوجوان یزید بن معاویہ تخت نشین ہو ا۔
اور اکسٹھ ہجری کے ابتدائی دس دنوں میں سانحہٴ کربلا پیش آیا ۔جس کا واضح مطلب یہ ہو اکہ حضور ﷺ نے یزید کی حکومت سے پناہ مانگنے کا حکم فرمایا تھا ۔اور بتا دیا تھا کہ یہی وہ شخص ہو گا جواہل ِ بیت کے خون سے ہاتھ رنگے گا۔اس لیے حضور ﷺ کے حکم کی پیروی میں حضرت ابو ہریرہ  یزید کی نوخیز اور لا اوبالی حکومت اور اس کے ظلم و ستم سے بھرپور دور سے پناہ مانگا کرتے تھے۔
آپ کی دعا قبول ہوئی اور آپ  ایک سال پہلے ہی فوت ہو گئے۔
 یزید کی تخت ِ نشینی اور طلب ِ بیعت
   حضرت امیر معاویہ کی وفات کے بعد یزید نے تخت نشین ہوتے ہی اپنی بیعت کے لیے ہر طرف خطوط اور حکم نامے جاری کر دیے۔اس وقت مدینہ منورہ کے گورنر ولید بن عقبہ تھے۔اس کو اپنے باپ کی وفات کی اطلاع کی اور کہا کہ ہر خاص و عام سے میری بیعت لو اور حسین بن علی ، عبد اللہ بن زبیر اور عبد اللہ بن عمر سے پہلے بیعت لو اور ان سب کو ایک لمحے کی بھی مہلت نہ دو۔
کیوں کہ یہ امتِ مسلم کی ایسی بلند پایہ شخصیات ہیں کہ جن سے یزید کو اندیشہ تھا کہ کہیں ان میں سے کوئی فرد خلافت کا دعویٰ نہ کردے۔اس لیے یزید کے لیے اپنی حکومت کی مضبوطی کے لیے ضروری تھا کہ وہ ان حضرات سے بیعت لے۔لہذاٰ اس نے تخت نشین ہوتے ہی مدینہ کے گورنر ولید بن عقبہ کو اپنے باپ حضرت امیر معاویہ  کی وفات کی خبر کے ساتھ ہی یہ حکم نامہ جاری کر دیا کہ حضرت امام ِ حسین ، حضرت عبد اللہ بن عمر  اورحضرت عبد اللہ بن زبیر   سے میرے حق میں بیعت لو۔اور جب تک وہ میری بیعت نہ کریں انہیں ہرگز مت چھوڑو ۔
(تاریخ الطبری۶: ۲۴)

Chapters / Baab of Markaa E Haq O Batil By Hammad Hassan Khan