Episode 8 - Markaa E Haq O Batil By Hammad Hassan Khan

قسط نمبر 8 - معرکہٴ حق و باطل - حماد حسن خان

 ابن ِ زیاد کا کوفے میں داخلہ 
عبیدالله بن زیاد، بصرہ سے اپنے اہلِ خانہ اور۵۰۰سواروں کے ساتھ کوفہ کی طرف روانہ ہوا۔ان میں سے کچھ راستے میں ہی ٹھہر گئے مگر اس نے کچھ پرواہ نہ کی اور برابر چلتا رہا۔قادسیہ کے مقام پر پہنچ کر اس نے سترہ افراد کو اپنے ساتھ لیا اور باقی کو وہیں چھوڑااور دھوکہ دینے کے لیے حجازی لباس پہن کر اونٹ پر سوار ہوا اور چند آدمیوں کو ساتھ لے کر حجازی راستے سے مغرب اور عشاء کے درمیان کوفہ میں داخل ہوا۔
رات کے اندھیرے میں مکر و فریب کے ساتھ پہنچنے سے ا س کا مطلب یہ تھا کہ اس وقت کوفیوں میں یزید کے خلاف اک لہر دوڑی ہوئی ہے۔ لہٰذا ایسے طور پر داخل ہونا چاہیے کہ وہ ابنِ زیاد کوپہچان نہ سکیں اور سمجھیں کہ حضرت اما م حسین تشریف لے آئے ہیں تاکہ امن و امانیت کے ساتھ وہ کوفہ میں داخل ہو سکے۔

(جاری ہے)

اور ایسا ہی ہوا۔اہلِ کوفہ جن کو امامِ عالی مقام  کی آمد کا انتظار تھا ۔

حجازی رستے سے حجازی ساز و سامان کے ساتھ آتا دیکھ کر رات کی تاریکی میں ہر شخص نے یہی سمجھا کہ حضرت امامِ حسین  تشریف لا رہے ہیں۔
سب لوگوں نے نعرے بلند کیے۔ابنِ زیاد بد نہاد کسی کو کچھ جواب نہ دیتا تھا بلکہ آوازوں کو سنتا اور سب کو بغور دیکھتا ہوا چلا جا رہا تھا۔شور سن کر اور بھی لوگ گھروں سے نکل آئے ۔ اور ہر شخص فرزندِ رسول ﷺ سمجھ کر آگے بڑھنے لگا۔
جب مجمع بہت زیادہ ہو گیا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ راہ چلنے میں رکاوٹ پیدا ہونے لگی تو اس وقت مسلم بن عمرو باہلی جو ابنِ زیاد کے ساتھ تھا اس نے پکار کر کہا کہ” راستہ چھوڑو “ یہ امیر عبیداللہ بن زیاد ہیں۔ان الفاظ کو سن کر لوگوں کو بہت رنج ہوا۔افسوس کرتے ہوئے سب اپنے اپنے گھروں کو واپس ہو گئے اور صرف دس بیس آدمیوں کے ساتھ ابنِ زیا د گورنر ہاوس میں داخل ہوا۔
(طبری ۱۸۴ ج ۲ )
گورنر ہاؤس میں داخل ہونے کے بعد ابنِ زیاد نے عا م اعلان کرنے کا حکم دیا۔منادی کی گئی اور لوگ جمع ہو گئے۔ابنِ زیاد گورنر ہاؤس سے نکل کر لوگوں کے پاس آیا اور اللہ کی حمدو ثنا ء کے بعدخطاب کیا۔
امیرالمومنین(یزید) نے مجھے تمھارے امور ، تمھاری حدود اور تمھارے اموال پر حاکم بنا کر بھیجا ہے۔
انھوں نے حکم دیا ہے کہ میں تمھارے مظلوموں کے ساتھ انصاف کروں، حاجت مندوں کوعطا کروں۔ مطیع و فرمانبردار پر احسان کروں اور تم میں سے مشکوک اور نافرمان لوگوں پر سختی کروں ۔میں تم پراس کے احکام نافذکروں گا اور ان احکام کی پیروی کراؤں گا۔
(البدایہ و النہایہ ۸ ۔ ابن اثیر ۴:۲۴ )
ٍ اس تقریر کے بعد ابنِ زیاد نے کوفہ کے سرکردہ لوگوں کو گرفتا ر کر لیا اور ان سب سے تحریری ضمانت مانگی کہ وہ اور ان کے قبیلے کے افراد کسی مخالف کو اپنے ہاں پناہ نہیں دیں گے اور نہ کسی قسم کی مخالفانہ سرگرمیوں میں حصہ لیں گے ۔
اور اگر کسی نے حکومت کے کسی مخالف کو پناہ دے رکھی ہے تو وہ اس کو پیش کرے گا۔ اور جو اپنی تحریر کی پابندی کرے گا وہ بری ہو جائے گا۔ جو ایسا نہیں کر پائے گا اس کا مال اور جان دونوں حلال ہو جائیں گے ۔اس کو قتل کر کے اسی کے دروازے پر لٹکا دوں گا اور اس کے تمام لواحقین بھی محفوظ نہیں رہیں گے ۔ابنِ زیاد کی آمد اور ڈرانے دھمکانے سے اہل ِ کوفہ خوف زدہ ہو گئے اور ان کے خیالات میں تبدیلی آنے لگی۔
ان حالات کے پیش ِ نظر حضرت مسلم بن عقیل نے مختار بن عبیدہ کے ہاں رہنا مناسب نہ سمجھاکیونکہ کوفہ میں مشہور ہوچکا تھا کی آپ یہاں قیام پذیر ہیں۔ آپ رات کی تاریکی میں وہاں سے نکل کر ہانی بن عروہ کے ہاں چلے آئے جو قبیلہ مز حج کے سرداراور محبِ اہل ِ بیت تھے۔ وہ کہنے لگے کہ آپ یہاں نہ آتے تو اچھا تھا۔ آپ نے فرمایا کہ میں خاندان ِ رسالت کا ایک غریب الوطن مسافر ہوں مجھے پناہ دیں۔
ہانی نے کہا کہ اگر آپ میرے مکان میں داخل نہ ہو چکے ہوتے تو میں یہ کہتا کے آپ یہاں سے چلے جائیں ۔لیکن اب میری غیرت کے خلاف ہے کہ میں آپ کو گھر سے نکال دوں۔ہانی نے مکان کے عورتوں والے حصے کے محفوظ کمرے میں آپ کو چھپا دیا۔ اور سوائے محدود و مخصوص لوگوں کے دوسروں کو اس راز سے مطلع نہ کیا ۔ (ابن اثیر ۴:۲۵)
حضرت مسلم بن عقیل کی تلاش 
حضرت مسلم بن عقیل، ہانی بن عروہ کے گھر میں ٹھہرے ہوئے تھے۔
کافی لوگ خفیہ طور پر آتے جاتے تھے اور بیعت کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ ادھر ابن ِ زیادمسلسل اس تلاش میں تھا کہ کسی طرح پتہ چلے کہ حضرت مسلم بن عقیل کو کس شخص نے پناہ دی ہے۔ آخر اس نے اپنے ایک غلام کو بلایا اور اسے 3000 درہم دیتے ہوئے کہا کہ مسلم بن عقیل اور ان کے ساتھیوں کو تلاش کر کے ان سے ملاقات کرنا اور انہیں یہ مال دے کر بتانا کہ تم بھی اہل ِ بیت کے محبین میں سے ہو۔
اس طرح وہ غلام جامع مسجد میں حضرت مسلم بن عوسجہ کے پاس آیا جو نماز پڑھ رہے تھے۔ غلام نے لوگوں سے کہتے سنا کہ یہی شخص حضرت اما م حسین کے نمائندہ کے طور پر لوگوں سے بیعت لیتے ہیں۔ جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو اس غلام نے حضرت مسلم بن عوسجہ سے کہا کہ بندئہ خدا میں شامی ہوں۔ اور اللہ کا مجھ پہ خاص کرم ہے کہ میں محبِ اہل ِ بیت ہوں۔ میرے پاس یہ 3000 درہم ہیں۔
میں اہل ِ بیت کے اس فرد کی خدمت میں بطور ہدیہ پیش کر کے ان کی بیعت کرنا چاہتا ہوں جو میری معلومات کے مطابق مکہ سے کوفہ تشریف لائے ہوئے ہیں ۔اور نواسہٴ رسول ﷺ حضرت امام ِ حسین کے لیے بیعت لیتے ہیں۔ اوریہ بھی کہ آپ وہ گھر جانتے ہیں جہاں وہ ٹھہرے ہوئے ہیں۔آپ سے درخواست ہے کہ میرے ساتھ اس واقعہ کے حصول میں تعاون فرمائیں اور مجھے ان کی خدمت میں لے جائیں۔
حضرت مسلم بن عوسجہنے اسکی غیرت مندی پر خوشی کا اظہار کیا۔ اور فرمایا کہ جس سے تم محبت کرتے ہو تم اسے پا لو گے ۔اور اللہ تعالیٰ تمہارے سبب سے اپنے نبی ﷺ کے اہل ِ بیت کی مدد فرمائے گا۔ (ابن اثیر ۴:۲۵)
مسلم بن عوسجہبغیر کسی تحقیق و تفتیش کے اس مکار غلام کو حضرت مسلم بن عقیل کے پاس لے گئے۔ جو لگاتار پندرہ دن وہاں مقیم رہ کے مسلم بن عقیل کی نشست و برخاست اور سرگرمیوں کے بارے میں پوری پوری معلومات حاصل کرتا رہا۔
غلام نے حضرت مسلم بن عقیل کے حکم پر ابنِ زیاد کا دیا ہوا مال عرب کے مشہور شاہ سوار ابو ثمامہ عامری کو دے دیا جو امام کی جانب سے اموال کا ذمہ دار تھا ۔غلام نے واپسی پر حضرت مسلم بن عقیل  کی قیام گاہ اور اس گھر کے مالک کا پتہ اور آپ کی سرگرمیوں کی مکمل تفصیل ابن ِ زیاد کو بتا دی۔(البدایہ والنہایہ ۸:۱۵۳)

Chapters / Baab of Markaa E Haq O Batil By Hammad Hassan Khan