Episode 9 - Markaa E Haq O Batil By Hammad Hassan Khan

قسط نمبر 9 - معرکہٴ حق و باطل - حماد حسن خان

اُمِ ہانی کی گرفتاری 
ہانی بن عروہ کوفہ میں ایک مقتدر شخصیت تھے ۔ ابن ِ زیاد کے ساتھ ان کے پہلے سے تعلقات تھے ۔ حضرت مسلم بن عقیل  کے آنے سے پہلے ان کاابن ِ زیادکے پاس آنا جانا رہتا تھا ۔ حضرت مسلم بن عقیل  کے اپنے گھر آنے کے بعد انہوں نے بیماری کا بہانہ کر کے ابن ِ زیاد سے میل ملاپ ترک کر دیا۔
ابن ِ زیاد چونکہ تمام حالات سے باخبر ہو چکا تھا تو ایک دن اس نے ہانیکا ذکر کرتے ہوئے پوچھا کہ دوسرے امرا کے ہمراہ ہانی ہمیں ملنے کیوں نہیں آتا؟لوگوں نے بتایا کہ وہ بیمار ہے۔ ابن ِ زیاد نے کہا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ وہ اپنے گھرکے دروازے پر بیٹھا رہتا ہے۔ اس کے بعد چند امرا ہانی کے پاس گئے اور کہا کہ ابن ِ زیاد کو آپ سے کچھ بدگمانی ہو گئی ہے ۔

(جاری ہے)

اس لیے آپ ہمارے ساتھ چلیں تاکہ صفائی ہو جائے اور بدگمانی دور ہو جائے۔ہانی اندر گئے اور حضرت مسلم بن عقیل  سے بات کی۔ اور تیار ہو کر امرا کے ساتھ ابن ِ زیا د کے پاس چلے گئے۔گورنر ہاؤس پہنچ کر جب ہانی  نے ابن ِ زیاد کو سلام کیا تو اس نے سلام کا جواب نہ دیا۔ ہانی اس سلوک پر متعجب ہوئے اور دل میں کھٹکا اور خوف محسوس ہوا۔کچھ دیر بعد ابن ِ زیادنے کہا، ا ے ہانی!مسلم بن عقیل کہاں ہے؟انھوں نے کہا مجھے معلوم نہیں۔
اس پروہ یمنی غلام اٹھ کھڑا ہوا جو حمص( شام) کے مسافر کے روپ میں قیام پذیر رہا تھا۔ اور اس نے ہانی کے سامنے حضرت مسلم بن عقیل  کے ہاتھ پر بیعت کی تھی ۔اور 3000 درہم کا نذرانہ بھی پیش کیا تھا ۔ابن ِ زیاد نے پوچھا کہ کیا تم اس کو جانتے ہو؟ہانی نے کہا ہاں۔ غلام کو دیکھ کر نادم ہوئے اور کہا اے امیر! خدا آپ کا بھلا کرے۔ خدا کی قسم میں نے انہیں اپنے گھر آنے کی دعوت نہیں دی تھی بلکہ وہ اپنے آپ میرے گھر آ گئے تھے۔
ابن ِ زیا د نے کہا پھر انہیں یہاں لے آؤ۔
ہانی نے کہا کی خدا کی قسم! اگر وہ میرے پاؤں کے نیچے بھی ہوتے تو میں ان کے اوپر سے پاؤں نہ اٹھاتا ۔یہ سن کر ابن ِ زیاد نے کہا اسے میرے قریب لاؤ ۔جب ہانی  کو ابن زیاد کے قریب لایا گیا تو اس نے ہانی کے چہرے پر نیزے سے وار کیا جس سے ان کا چہرہ اور ناک زخمی ہو گیا۔
ہانی، ابن ِ زیاد پر حملہ کرنے کے لیے ایک سپاہی سے تلوار چھین کر سونتنے لگے تو لوگوں نے انہیں پکڑ لیا۔ابن ِ زیاد نے کہا کہ اب تم نے اپنا خون حلال کر دیا ہے کیوں کہ تم خارجی ہو۔اس کے بعد ابن ِ زیاد کے حکم سے انہیں ایک کمرے میں بند کر دیا گیا۔ہانی  کی قوم بنی مزحج یہ سمجھ کر کہ قتل کر دیے گئے ہیں،گورنر ہاؤس کے دروازے پر جمع ہو گئی۔ ابن ِ زیاد نے ان کاشورو غل سنا تو قاضی شریح سے، جو ان کے پاس تھے کہا آپ ان لوگوں کے پاس جائیں اور کہیں کہ امیر نے انہی صرف مسلم بن عقیل کے بارے میں پوچھ گچھ کے لیے روک رکھا ہے۔
قاضی شریح نے انہیں جا کر کہا کہ تمہارے سردار زندہ ہیں اور امیر نے انہیں اک ہلکی سی ضرب لگائی ہے۔ تم واپس چلے جاؤ۔خود کو اوراپنے سردار کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ اس پر وہ سب اپنے گھروں کو واپس چلے گئے ۔
حضرت مسلم بن عقیل  نے جب یہ خبر سنی تو سوار ہو کر نکل آئے اور اپنے حامیوں کو مدد کے لیے بلایا ۔فوراً ہی چار ہزارکوفی آپ  کے گرد جمع ہو گئے۔
آپ انہیں لے کر ابن ِ زیاد کی طرف روانہ ہو گئے۔راستے میں آپ  لوگوں کو ہانی  کے معاملے کی طرف توجہ دلاتے رہے اور انہیں اختلاف و انتشار سے بچنے کی تلقین کرتے رہے۔ اس دوران گورنر ہاؤ س کے محافظوں نے آپ  کو دیکھ لیا اور چلائے کہ مسلم بن عقیل  آ گئے ہیں ۔ابن ِ زیا د اور اس کے ساتھی بھاگ کر محل میں داخل ہو گئے اور دروازے بند کر لیے۔
 
حضرت مسلم بن عقیل  محل کے دروازے پر پہنچ کر اپنے لشکر سمیت ٹھہر گئے ۔مخالف قبائل کے سردار جو کہ اس وقت ابن ِ زیاد کے پاس موجود تھے ابن ِ زیاد کے حکم سے محل کی دیواروں پر چڑھ گئے۔ اور اپنی اپنی قوم کے ان آدمیوں کو جو حضرت مسلم بن عقیل  کے ساتھ تھے انہیں واپس چلے جانے کو کہا ۔اور ان سے کچھ وعدے بھی کیے اور ڈرایا دھمکایا بھی۔
اس کے علاوہ ابن ِ زیا د نے کچھ سرداروں کو محل کے باہر بھی بھیجا تاکہ دوسرے لوگوں کو مسلم بن عقیل  کی حمایت سے باز رکھ سکیں اور ساتھ والوں کو خبر دار کر سکیں جس میں وہ کامیاب رہے۔انہوں نے کچھ اور حربے بھی استعمال کیے یعنی کسی عورت کو اس کے بیٹے ، بھائی کے پاس بھیجا اور انہیں امام کا ساتھ چھوڑ کر گھر چلنے کی یوں ترغیب دی کہ حضرت مسلم بن عقیل  کے پاس تمہارے علاوہ اور بھی بہت سے لوگ موجود ہیں۔
تمہارے چلے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا ۔کچھ لوگ اپنے عزیزوں کے پاس آئے اور انہیں شامی فوجوں کی طاقت سے مرعوب کیا۔ فوج کی شام سے روانگی کی خبر سنی اور واپس نہ جانے کی صورت میں شامی فوج سے مقابلہ اور انجام سے ڈرایا۔
نتیجہ یہ ہوا کہ رفتہ رفتہ لوگوں نے حضرت مسلم بن عقیل کا ساتھ چھوڑنا شروع کر دیا اور نمازِ مغرب تک صرف تیس آدمیوں کی مٹھی بھر جماعت آپ  کے ساتھ رہ گئی۔
آپ  نے انہی تیس افراد کے ساتھ نمازِ مغرب ادا کی اور آہستہ آہستہ وہ بھی ساتھ چھوڑ گئے۔ اور اب یہ حالت تھی کہ کوئی بھی حامی یا ہمدردی جتانے والا بھی ساتھ نہ تھا ۔اندھیرا چھا گیا۔ اور آپ  پریشانی کے عالم میں چلتے رہے ۔ اور طوعہ نامی ایک عورت کے دروازے پر جا پہنچے۔جو اپنے گھر کے دروازے پر بیٹھی اپنے بیٹے بلال کا انتظار کر رہی تھی ۔
حضرت مسلم بن عقیل  نے اس عورت سے کہا مجھے پانی پلائیں۔ اس نے آپ کو پانی پلایا اور کچھ دیر کے لیئے اندر چلی گئی ۔دوبارہ جب باہر نکلی تو بدستور اجنبی کو دروازے پر پایا۔ اس نے پوچھا کہ کیا تم نے پانی نہیں پیا ؟ آپ  نے فرمایا کہ پی لیا ہے۔ تو وہ بولی کہ بعافیت سے چلو اور اپنے گھر جاؤ۔تمہارامیرے گھر کے دروازے پہ کھڑا رہنا مناسب نہیں۔
اس پر آپ  جانے لگے تو فرمایا کہ اے اللہ کی بندی! اس شہر میں میرا کوئی گھر اور قرابت داری نہیں۔کیا آپ مجھ پر ایک احسان کریں گی جس کا کل ہم آپ کو اتنا اجر بھی دیں گے جو آپ کو کفایت بھی کرے گا۔ اس نے کہا کہ بندئہ خدا وہ کیا احسان ہے؟ آپ نے کہا کہ میں مسلم بن عقیل  ہوں اور اس قوم نے مجھ سے جھوٹ بولا اور دھوکہ دیا ہے۔ اس نے کہا کہ آپ مسلم بن عقیل ہیں؟آپ  نے فرمایا کہ ہاں۔
اس عورت نے کہا کہ آپ  اندر آ جائیں ۔پھر اس عورت نے آپ  کے لیے اک علیحدہ کمرے میں بچھونہ بچھا دیا اور رات کو کھانا پیش کیا ۔ مگر آپ  نے کھانا نہ کھایا ۔ تھوڑی دیر بعد اس عورت کا بیٹا بھی آ گیا ۔جب اس نے اپنی ماں کو بار بار اس کمرے میں آتے جاتے دیکھا تو پوچھا کہ معاملہ کیا ہے ؟اس عورت نے کہا کہ بیٹا اس بات کو چھوڑو مگر جب بیٹے نے اصرار کیا تو اس کی ماں نے راز فاش نہ کرنے کا عہد لے کر اسے حضرت مسلم بن عقیل  کا حال بتایا۔
اس پر وہ ساری رات خاموشی سے لیٹا رہا اور کوئی بات نہ کی۔
ادھر ابن ِ زیاد اپنے امراء اور اشراف کے ساتھ محل سے نیچے اترا اور جامع مسجد میں نماز ادا کی۔ نماز کے بعد امراء سے حضرت مسلم بن عقیل  کا مطالبہ کیا اورا علان کیا کہ جس کے پاس وہ پائے گئے اور اس نے ہمیں اطلاع نہ دی تو اسکا خون ہمارے لیے مباح ہو گا۔اور جو شخص انہیں لے آئے گا اسے انعام دیا جائے گا۔ اس کے علاوہ ابن ِ زیاد نے مسلم بن عقیل  کی تلاش کا کام پولیس کے سپرد کیا اور انہیں سختی سے چوکس رہنے کی ہدایت کی۔

Chapters / Baab of Markaa E Haq O Batil By Hammad Hassan Khan