Episode 11 - Markaa E Haq O Batil By Hammad Hassan Khan

قسط نمبر 11 - معرکہٴ حق و باطل - حماد حسن خان

شہادت ِ فرزندان ِ حضرت مسلم بن عقیل 
حضرت مسلم بن عقیل کوفہ کے بگڑے ہوئے حالات کو دیکھ کر اپنے بچوں حضرت محمد  اور حضرت ابراہیمکو قاضی شریح کے ہاں حفاظت کی غرض سے بھیج چکے تھے۔ تاریخ کی کتب میں یہ بھی آتا ہے کہ محمد و ابراہیم دونوں ہی معصوم تھے۔ ان کو بھی حضرت مسلم بن عقیل  کی شہادت کے بعد شہید کر دیا گیا ۔

”روضة الشہداء“ میں ملا حسین کاشفی نے اس واقعہ کی تفصیل یوں بیان کی ہے کہ حضرت مسلم بن عقیل  نے ان دونوں شہزادوں کو یہ کہہ کر قاضی شریح کے پاس بھیج دیا تھا کہ بیٹو!تم ادھر ٹھہرو ۔میں تمہارے چچا ہانی کی رہائی کے لیے جنگ کرنے جا رہا ہوں اور ابھی لوٹ آتا ہوں ۔ وہ دونوں اسی لمحے سے اپنے باپ کے لوٹنے کا انتظار کر رہے تھے۔

(جاری ہے)

دن گزرا پھر رات گزر گئی۔ حضرت مسلم بن عقیل  نے واپس آنا تھا نہ وہ واپس آئے ۔بچے پریشانی میں کچھ کھا پی بھی نہیں رہے تھے۔قاضی شریح بھی بچوں کی حالت دیکھ کر آہ بھر کر سر جھکا لیتے ۔ کیونکہ وہ بچوں کو اصل بات بتانے کی ہمت نہیں کر پا رہے تھے۔دو دن کچھ نہ کھایا اور انتظار کیا ۔اور انتظار طویل ہو گیا تو ابرہیم  اپنے بڑے بھائی سے کہنے لگا کہ بھائی !خدا جانے کہ ابا جان کب آئیں گے ؟ میں تو مدینے کی گلیوں اور دوستوں کے لیے اداس ہو گیا ہوں ۔
میرا دل چاہتا ہے کہ میں اُڑ کے مدینے پہنچ جاؤں۔ میرے دوست کیا کہیں گے کہ ابراہیم ہمیں کوفہ جا کر بھول گیا۔ ایسی ہی معصوم باتیں آپس میں کرتے جسے سن کر قاضی شریح اور ان کے گھر والوں کا کلیجہ منہ کو آ جاتا۔
اسی دوران میں کوفے کی گلیوں میں یہ ا علان ہونے لگا کہ جو کوئی مسلم بن عقیل  کے دونوں بیٹوں کو گرفتار کر کے لائے گا اسے انعام و اکرام سے نوازاجائے گا ۔
اور جو شخص انہیں اپنے گھر میں پناہ دے گا اسے سخت سزا دی جائے گی۔ اس پر جاسوس بچوں کو ہر طرف تلاش کرنے لگے۔اب قاضی شریح سے نہ رہا گیا اور وہ دل تھام کر بڑی پریشانی کی حالت میں شہزادوں کے ساتھ عرض کرنے لگا میں بڑے افسوس کے ساتھ تمہیں یہ خبر سنانے پر مجبور ہوگیا ہوں کہ تمہارے بابا حضرت مسلم بن عقیل  کو شہید کر دیا گیا ہے۔اورہزاروں کوفی جو کل تک تمہارے ہاتھ چومتے تھے اور تمہارے دامن چھو چھو کر اپنی آنکھوں سے لگاتے تھے اور تمہارے بابا کے ہاتھ پر بیعت کر کے ان کی خاطر کٹ مرنے کا اعلان کرتے تھے سب کے سب تمہارا ساتھ چھوڑ چکے ہیں ۔
اب سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں کہ تم چپکے سے مدینہ چلے جاؤ۔ اگر میں مزید تمہیں یہاں ٹھہراؤں تو کسی بھی لمحے تمہاری گرفتاری عمل میں آسکتی ہے۔انہوں نے اپنے بیٹے اسد کو بلا کر کہا میں نے سنا ہے کہ آج باب العراقین سے ایک قافلہ مدینہ روانہ ہونے والا ہے۔ان دونوں کو وہاں لے جاؤ اور کسی ہمدرد اور محبِ اہل ِ بیت کے سپرد کر کے اس کو حالات سے آگاہ کر دینا۔
اور تاکید کر دینا کہ ان دونوں کو بحفاظت مدینے پہنچا دے۔اسد جب ان دونوں کو لے کر پہنچا تو پتہ لگا کہ قافلہ کچھ دیر پہلے ہی چلا گیا۔ وہ بچوں کو لے کر تیزی سے آگے بڑھا اور جب قافلے کی گرد نظر آئی تو بچوں کو قافلے کی گرد دیکھ کر کہا کہ وہ دیکھو قافلے کی گرد نظر آ رہی ہے۔ تم لوگ جلدی سے جا کر ان میں مل جاؤ۔میں واپس جاتا ہوں ۔ یہ کہہ کر وہ واپس چلا گیا اور بچے تیزی سے آگے بڑھنے لگے ۔
مگر تھوڑی دیر بعد گرد غائب ہو گئی ۔ اور انہیں قافلہ نہ ملا ۔معصوم بچے ان حالات اور تنہائی سے گھبرا کر رونے لگے۔
ابنِ زیاد کاا علان سن کر مال و متاع کا لالچ رکھنے والے سپاہی بچوں کی تلاش میں نکلے ہوئے تھے ۔تھوڑی دیر بعد انھوں نے بچوں کو پکڑ لیا۔اور ابن ِ زیاد کے پاس پہنچا دیا۔اس نے حکم دیا کہ ان کو تب تک جیل میں رکھو جب تک میں امیرالمومنین یزید سے پوچھ نہ لوں کہ ان کے ساتھ کیا سلوک کرنا ہے۔
جیل کے داروغہ کا نام مشکور تھا ۔وہ محبِ اہلِ بیت تھا ۔اسے بچوں کی بے بسی پر بہت ترس آیا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ بچوں کی جان بچانی ہے چاہے اپنی جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔ وہ رات کے اندھیرے میں بچوں کو جیل سے نکال کر اپنے گھر لے آیا ۔کھانا کھلایا اپنی انگوٹھی بطور نشانی دی اور انہیں قادسیہ کی راہ پر لگا کر کہا کہ تم لوگ اسی راستے پر چلتے جاؤ۔
جب قادسیہ پہنچ جانا تو کوتوال سے ملنا اور اسے میری انگوٹھی دکھانا اور سارے حالات بتانا ۔وہ ہمارا بھائی ہے وہ تم لوگوں کو بحفاظت مدینہ پہنچا دے گا۔ 
دونوں بچے قادسیہ کی راہ پر چل پڑے۔ مگر چونکہ اُنہیں بھی اس چھوٹی عمر میں شہادت سے سرفراز ہونا تھا اس لیے وہ راستہ بھول گئے۔رات بھر چلنے کے بعد جب صبح ہوئی تو دونوں بھائی گھوم پھر کر اسی جگہ پہنچے جہاں سے کوفہ کے باہر قادسیہ کے راستے پر چلے تھے۔
یہ دیکھ کر ان کے معصوم دل دہل گئے ۔وہ خوف زدہ ہو گئے کہ کہیں پھر کوئی پکڑ کر ابن ِ زیاد کے پاس نہ پہنچا دے۔ انہیں قریب ہی اک کھوکھلا درخت نظر آیا۔ دونوں اسی درخت کی آڑ میں جا کر بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر بعد اک لونڈی پانی بھرنے آئی۔ اس نے جب بچوں کو دیکھا تو قریب آئی اور ان دونوں کے نورانی چہروں میں شانِ شہزادگی دیکھ کر کہاشہزادو! تم لوگ کون ہو اور یہاں کیوں چھپے بیٹھے ہو؟انہوں نے کہا ہم یتیم اور بے بس ہیں اور راہ بھٹکے ہوئے مصیبت زدہ مسافر ہیں۔
لونڈی نے کہا تمہارے باپ کا نام کیا ہے؟باپ کا نام سنتے ہی ان دونوں کی آنکھوں سے آنسو جاری ہونے لگے۔ اس نے کہا کہ تم مسلم بن عقیل  کے بیٹے ہو؟ تو وہ اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے ۔لونڈی نے کہا میں جس کی لونڈی ہوں وہ محب ِاہلِ بیت ہیں۔آؤ چلو ان کے پاس لے جاتی ہوں ۔دونوں بھائی اس کے ساتھ چل پڑے۔
لونڈی انہیں اپنی مالکہ کے پاس لے گئی اور سارا واقعہ بتایا۔
مالکہ ان دونوں شہزادوں کی آمد پر بہت خوش ہوئی ۔ اس خوشی میں اس نیک مالکہ نے اس لونڈی کو آزاد کر دیا۔اور دونوں شہزادوں کے ساتھ بڑی محبت سے پیش آئی ۔اور تسلی دلائی کہ فکر نہ کرو اور لونڈی سے کہا کہ ان دونوں کی تشریف آوری کا راز پوشیدہ رکھے۔ میرے شوہر حارث کو نہ بتانا ۔
ادھر ابن زیاد کو جب معلوم ہوا کہ مشکور داروغہ نے دونوں بچوں کو رہا کر دیا ہے تو اس نے مشکور کو بلا کر پوچھا کہ تم نے دونوں بچوں کا کیا کیِا ہے؟ تو اس نے کہا کہ میں نے اللہ اور اس کے رسولﷺ کی رضا اور خوشنودی کے لیے ان دونوں کو رہا کر دیا ہے۔
ابن ِ زیاد نے کہا کہ تو مجھ سے ڈرا نہیں ؟ اس نے کہا جو اللہ سے ڈرتا ہے وہ کسی سے نہیں ڈرتا ۔ابن ِ زیاد نے کہا تجھے ان بچوں کی رہائی پر کیا ملا ؟ مجھے امید ہے کہ انہیں رہا کرنے کے سبب حضور ِ انور ﷺ قیامت کے روز میری شفاعت فرما دیں گے۔ البتہ تو مسلم بن عقیل  کو شہید کرنے کے سبب اس سعادت سے محروم رہے گا۔ ابنِ زیاد اس جواب سے غضب ناک ہو گیا اور کہا کہ میں ابھی تجھے سخت سزا دیتا ہوں۔
اس پر مشکور نے کہا ایک نہیں ہزار جانیں بھی ہوں تو اب ان پر قربان ہیں ۔ ابن ِ زیاد نے کہا کہ اس کو اتنے کوڑے مارو کہ یہ مر جائے اور پھر اس کا سر تن سے جدا کر دو۔ جلاد نے جب کوڑے مارنے شروع کیے تو مشکور نے پہلے کوڑے پر کہا بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ دوسرے پر کہا الہ العالمین! مجھے صبر عطا فرما۔ تیسرے کوڑے پر کہا خدا وند! مجھے بخش دے۔ چوتھے پر کہا الہ العالمین! مجھے اہلِ بیتِ نبوت کی محبت میں یہ سزا مل رہی ہے۔پانچویں پر کہا یا الہی! مجھے اپنے رسولِ پاک ﷺ اور ان کے بیت ِ اطہار کے پاس پہنچا دے۔ پھر اس کے بعد خاموش ہو گئے اور جلاد نے ان کاکام تمام کر دیا۔( انا للہ وا نا الیہ راجعون)

Chapters / Baab of Markaa E Haq O Batil By Hammad Hassan Khan