Episode 12 - Markaa E Haq O Batil By Hammad Hassan Khan

قسط نمبر 12 - معرکہٴ حق و باطل - حماد حسن خان

ادھر وہ نیک بی بی دن بھر ان دونوں شہزادوں کی خدمت میں لگی رہی۔اور ہر طرح سے ان کی دل جوئی کرتی رہی۔پھر رات کو کھانا کھلا کر ان دونوں کو الگ کمرے میں سلا کر واپس ہی آئی تھی کہ اس کاشوہر حارث آگیا۔عورت نے پوچھا آج دن بھر آپ کہاں تھے ؟ حارث نے کہا کہ داروغہ مشکور نے مسلم بن عقیل  کے بچوں کو رہا کر دیا تو امیر عبیداللہ بن زیاد نے ا علان کیا کہ جو شخص ان کو پکڑ کر لائے گا اسے بہت انعام دیا جائے گا۔
میں انہی بچوں کی تلاش میں دن بھر پریشان رہا۔ یہاں تک کہ اس بھاگ دوڑ میں میرا گھوڑا بھی مر گیا ۔ اور مجھے ان کی تلاش میں پیدل چلنا پڑا۔عورت نے کہا کہ اللہ سے ڈرو اور اہل ِ بیت کے بارے میں ایسا خیال دل سے نکال دو۔ اس نے کہا چپ رہ تجھے کیا معلوم کہ ابن ِ زیاد نے کہا ہے کہ جو شخص ان بچوں کو لائے گا وہ اسے مالا مال کر دے گا۔

(جاری ہے)

اور لوگ بھی بچوں کی تلاش میں لگے رہے ہیں۔

عورت نے کہا کہ کتنے بدنصیب ہیں لوگ جو دنیا کہ خاطر ان یتیم بچوں کو دشمن کے حوالے کرنے کے لیے تلاش میں لگے ہوئے ہیں ۔ اور اس دنیا کے عوض اپنا دین برباد کر رہے ہیں۔ کل حشر میں وہ رسول ِ خدا ﷺ کو کیا منہ دکھائیں گے۔حارث کا دل تباہ ہو چکا تھا۔ بیوی کے سمجھانے کا اس پر کوئی اثر نہ ہوا۔اس نے کہا کہ نصیحت کی ضرورت نہیں ہے۔میں نفع نقصان خود سمجھتا ہوں۔
چل تو کھانا لا اور وہ کھانا کھا کر سو گیا۔
آدھی رات کے بعد بڑے بھائی محمد نے خواب دیکھا اور بیدار ہو کر چھوٹے بھائی کو جگاتے ہوئے کہا کہ اٹھو اب سونے کا وقت نہیں رہا۔ ہماری شہادت کا وقت بھی قریب آ گیا ہے۔ ابھی میں نے ابا جان کو دیکھا وہ نبی ِ کریم ﷺ ، حضرت علی  ، حضرت فاطمہ  اور حضرت حسن  کے ساتھ جنت کی سیر کر رہے ہیں۔
اور حضور ِ پاک ﷺ ابا جان سے فرما رہے ہیں کہ تم چلے آئے اور اپنے بچوں کو ظالموں میں چھوڑ آئے ۔تو ابا جان نے عرض کیا کہ وہ بھی عنقریب آنے والے ہیں۔چھوٹے بھائی نے کہاکہ بھائی جان میں نے بھی اسی طرح کا خواب دیکھا۔ کیا سچ میں ہم لوگ کل صبح قتل کر دیئے جائیں گے؟ ہائے ہم اک دوسرے کو قتل ہوتے کیسے دیکھیں گے ۔یہ کہہ کر دونوں بھائی ایک دوسرے کی بانہوں میں بانہیں ڈال کر رونے لگے۔
ان کے رونے سے حارث کی آنکھ کھل گئی ۔ اس ظالم نے بیوی کو جگا کر پوچھا کہ یہ بچوں کے رونے کی آواز کہاں سے آ رہی ہے؟ عورت بیچاری سہم گئی اور اس نے کوئی جواب نہ دیا۔وہ خود اٹھ کر چراغ جلا کر اس کمرے کی طرف گیا جہاں سے بچوں کے رونے کی آواز آئی تھی۔ جب اندر داخل ہوا تو دیکھا کہ دو بچے روتے ہوئے بے حال سے ہو رہے ہیں۔
اس نے پوچھا تم کون ہو؟ بچے چونکہ اس گھر کو اپنے لیے پناہ گاہ سمجھے ہوئے تھے اس لیے انہوں نے صاف بتا دیا کہ ہم مسلم بن عقیل  کے شہزادے ہیں ۔ظالم یہ سنتے ہی غصے سے بے قابو ہو گیا۔ اور کہا کہ میں سارا دن ڈھونڈتے ہوئے بے حال ہو گیا اور تم ہمارے ہی گھر میں عیش کر رہے ہو۔ یہ کہتے ہوئے وہ آگے بڑھا اور بے رحمی سے انہیں مارنے لگا ۔اور دونوں بھائی درد اور تکلیف سے رونے چیخنے لگے۔
عورت بھاگی آئی اور حارث کے قدموں میں سر رکھ کر نہایت عاجزی سے روتے ہوئے کہنے لگی ارے یہ فاطمہ  کے راج دلارے ہیں۔ان کی چاند جیسی صورتوں پہ رحم کھا لے اورمیرا سر کچل کر ہوس کی آگ بجھا لے۔لیکن ان فاطمہ  کے جگر پاروں کو بخش دے۔حارث بد بخت نے اسے اتنی زور سے ٹھوکر ماری کہ وہ بچاری اک ستون سے ٹکرا کر لہو لہان ہو گئی۔ ظالم جب بچوں کو مارتے مارتے تھک گیا تو دونوں بھائیوں کی مشکیں کس دیں۔
اور دونوں کی زلفوں سے کھینچ کر ایک دوسرے سے باندھ دیا۔اور اس کے بعد یہ کہتا ہوا باہر نکل آیا کہ جس قدرتڑپنا ہے تڑپ لو۔ دن نکلتے ہی میری چمکتی ہوئی تلوار تمہیں ہمیشہ کے لیے موت کی نیند سلا دے گی۔
صبح ہوتے ہی ظالم نے تلوار اٹھائی ۔زہر میں بجھا ہوا خنجر سنبھالا اور خونخوار بھیڑیے کی طرح کوٹھڑی کی طرف بڑھا۔
جہاں بچے موجود تھے نیک بخت بیوی نے بھاگ کر پیچھے سے اس کی کمرتھا م لی۔ حارث نے اتنے زور سے اسے دھکا دیا کہ اس کا سر ایک دیوار میں جا لگا اور وہ وہیں گر پڑی۔وہ جب کوٹھڑی میں گیا تو چمکتی تلوار اور خنجر دیکھ کر دونوں بھائی کانپنے لگے ۔بد بخت نے آگے بڑھ کر دونوں بھائیوں کو زلفوں سے پکڑا اور نہایت بے دردی سے گھسیٹتا ہوا باہر لایا ۔تکلیف سے دونوں بھائی رونے لگے اور فریاد کرنے لگے لیکن اس ظالم کو ترس نہ آیا۔
سامان کی طرح اک خچر پر لاد کر دریائے فرات کی طرف چل پڑاجب اس کے کنارے پر پہنچا تو انہیں خچر سے اتارا اور ان کی مشکیں کھولیں اور انہیں اپنے سامنے کھڑا کیا۔ پھر میان سے تلوار نکالی۔ اتنے میں اسکی بیوی بھی گرتی پڑتی پیچھے آ پہنچی۔ آتے ہی اس نے شوہر کے ہاتھ پکڑ لیے اورخوشامد کرتے ہوئے کہا کہ خدا کے لیے اب بھی مان جاؤ۔ دیکھو بچوں کی جان سوکھی جا رہی ہے۔
تلوار ان کے سامنے سے ہٹا لو۔ مگر حارث پر پوری طرح شیطان سوار تھا۔ اس نے بیوی پر وار کیا وہ زخمی ہو کر گری اور تڑپنے لگی۔ بچے یہ منظر دیکھ کر اور سہم گئے ۔اب بد بخت اپنی خون آلود تلوار لے کر بچوں کی طرف بڑھا۔ چھوٹے بھائی پہ وار کرنا ہی چاہتا تھا کہ بڑا بھائی چیخ پڑا ۔ خدا کے لیے پہلے مجھے قتل کر دو۔ میں اپنے بھائی کی تڑپتی ہوئی لاش نہیں دیکھ سکتا۔
اور چھوٹے بھائی نے بھی کہا کہ میں بھی بڑے بھائی کی لاش کا منظر نہیں دیکھ سکوں گا۔ خدا کے واسطے پہلے مجھے ہی قتل کردو۔ظالم کی تلوار چمکی اور دو ننھی چیخیں بلند ہوئیں اور یتیم بچوں کا سر تن سے جدا ہو گیا۔( انا للہ وا نا الیہ راجعون)
قاتل کا انجام
حارث بد بخت نے بچوں کو شہید کرنے کے بعد ان کی لاش کو دریا ِئے فرات میں پھینک دیا۔
اور سروں کو تھیلے میں رکھ کر ابن ِ زیاد کو پیش کیا۔اس نے پوچھا کہ اس میں کیا ہے؟ حارث نے کہا کہ انعام و اکرام کے لیے دشمنوں کے سر کاٹ کر لایا ہوں ۔ابن ِ زیاد نے کہا کہ یہ سر کن دشمنوں کے ہیں ؟ حارث نے کہا کہ مسلم بن عقیل کے فرزند۔ابن ِ زیاد یہ سن کر غضبناک ہو گیا اور کہا کہ تجھے قتل کرنے کا حکم کس نے دیا تھا ؟ کمبخت میں نے امیر کو لکھا ہے کہ مسلم بن عقیل کے فرزند گرفتار ہو گئے ہیں ۔
اگر حکم ہو تو میں آپ کے پاس زندہ بھیج دوں۔اگر اب یزید نے زندہ بھیجنے کا حکم دیا تو میں کیا کروں گا؟ تم میرے پاس انہیں زندہ کیوں نہ لائے ؟ حارث نے کہا کہ مجھے اندیشہ تھا کہ شہر کے لوگ مجھ سے چھین لیں گے۔ابن ِ زیاد نے کہا کہ اگر چھین لینے کا ڈر تھا تو کسی محفوظ جگہ پر ان کو ٹھہرا کر مجھے اطلاع کرتے۔میں سپاہیوں کے ذریعے منگوا لیتا۔تم نے میرے حکم کے بغیر ان کو قتل کیوں کیا؟ پھر ابن ِ زیاد نے مجمع پہ نظر ڈالی اور ایک شخص جس کا نام مقاتل تھا اسے کہا کہ اس کمبخت کی گردن مار دو۔
چنانچہ حارث کی گردن مار دی گئی۔اور دنیا اور آخرت کا خسارہ پانے والوں میں ہو گیا۔ایک روایت میں بیان کیا جاتا ہے کہ مرنے سے پہلے جب مقاتل اسے گلیوں میں اسی طرح گھسیٹتا ہوا لے جا رہا تھا جس طرح اس نے ان معصوم بچوں کو گھسیٹا تھا تو حارث منتیں کر رہا تھا کہ مجھے اس قدر ذلیل نہ کر اور چھوڑ دے۔مقاتل نے کہا کہ تو آج ساری دنیا کی بھی دولت دے دے تو بھی تجھے نہ چھوڑوں گا تجھے تیری ہی تلوار سے جہنم رسید کروں گا۔

Chapters / Baab of Markaa E Haq O Batil By Hammad Hassan Khan