Episode 23 - Markaa E Haq O Batil By Hammad Hassan Khan

قسط نمبر 23 - معرکہٴ حق و باطل - حماد حسن خان

خیموں میں آتش زدگی
حضرت امامِ حسین  نے اپنے خیموں کو اس طرح سے باندھا تھا کہ کوفی ایک رخ کے سوا کسی طرف سے حملہ نہیں کر سکتے۔ابنِ سعد نے اس خیال کے تحت کہ ہر طرف سے حملہ کیا جا سکے حکم دیا کہ خیمے اکھاڑ دیے جائیں ۔کوفی جب خیمے اکھاڑنے کے لیے آگے بڑھے تو امام ِعالی مقام  کے کچھ جانثار خیموں کے اندر آ گئے اورخیموں کی طرف آنے والوں،اکھاڑنے والوں اور لوٹ مار کرنے والوں کو تلوار اور تیروں سے ہلاک کرنا شروع کر دیا۔
ابن سعد نے جب اپنے ساتھیوں کی ہلاکت اور ناکامی دیکھی تو حکم دیا کہ خیموں کو جلا دیا جائے۔چنانچہ خیموں کو آگ لگا دی گئی ۔اور وہ جلنے لگے۔حضرت امامِ حسین  نے دیکھا تو فرمایا کہ ان کو خیمے جلانے دو تب بھی وہ چاروں طرف سے حملہ نہیں کر سکیں گے کیونکہ پہلے خیمے حائل تھے اب آگ حائل ہے ۔

(جاری ہے)

چنانچہ ایسا ہی ہوا ۔یزیدی لشکر آگ کے حائل ہونے کی وجہ سے پشت سے حملہ نہ کر سکا۔

شمر نے حضرت امامِ حسین  کے خیمے میں جو کہ دوسرے خیموں سے ذرا الگ تھا اور جس میں خواتین اور بچے تھے ۔نیزہ مارا اور ساتھیوں سے کہا کہ اس خیمے کو آگ لگا دو۔اور جو اس خیمے میں موجود ہیں ان کوبھی جلا دو۔حضرت امام ِ حسین  نے جب یہ دیکھا تو پکار کر کہا:
او ذی الجوشن کے بیٹے !تو میرے اہل ِ بیت کو آگ میں جلانا چاہتا ہے۔
خدا تمہیں آگ میں جلائے ۔
شمر کے ساتھیوں میں حمید بن مسلم نے شمر کو روکا اور غیرت دلائی کہ تیرے جیسے بہادروں کا عورتوں کے ساتھ ایسا سلوک کرنا نہایت شرمناک ہے۔خدا کی قسم تمہارا مردوں کو قتل کر دینا بھی تمہارے امیر کو خوش کرنے کے لیے کافی ہے۔مگر شمر نہ مانا اور پھر جب اسے شیث بن ربعی نے روکا تو وہ اپنے ارادہ سے باز آیا۔
اولادِ عقیل کی شہادت
حضرت عبد اللہ بن مسلم بن عقیل نے امام ِ عالی مقام  سے راہ ِ حق میں سر کٹانے کی اجازت طلب کی۔آپ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔فرمایا بیٹا میں تمہیں کیسے اجازت دے دوں ابھی تمہارے باپ کی جدائی کا داغ میرے دل سے نہیں مٹا۔عرض کیا میں اپنے باپ کے پاس جانے کے لیے بیقرار ہوں ۔
حضرت امام ِ حسین  نے ان کاشوق ِ شہادت دیکھ کر ان کواجازت دے دی۔ہاشمی نوجوان نے میدان میں آ کر مقابلے کے لیے پکارا۔کوفی لشکر سے قدامہ بن اسد جو بڑا بہادر سمجھا جاتا تھا آپ سے لڑنے کے لیے آیا۔تھوڑی دیر تک دونوں میں تلوار چلتی رہی۔آخر عبد اللہ نے تلوار کا ایسا وار کیا اور وہ کھیرے کی طرح کٹ کر زمین پر ا گرا۔پھر کسی کی ہمت نہ ہوئی کہ وہ تنہا آپ  کے مقابلے میں آتا۔
آپ شیر ببر کی طرح ان پر حملہ آور ہوئے۔صفوں کو درہم برہم کرتے ہوئے گھستے چلے گئے۔ بہت سوں کو زخمی کیا اور کئی ایک کو جہنم میں پہنچایا۔آخر نوفل بن مظاحم حمیری نے آپ کو نیزہ مار کر شہید کر دیا۔
حضرت جعفر بن عقیل  اپنے بھتیجے حضرت عبد اللہ بن مسلم  کی شہادت کے بعد اشکبار آنکھوں کے ساتھ میدان میں آئے۔
اور یہ رجزپڑھی کہ میں مکہ کا رہنے والا ہوں۔ہاشمی نسل اورغالب گھرانے کا ہوں۔بیشک ہم سارے قبیلوں کے سردار ہیں۔اور حسین  تمام لوگوں میں سب سے زیادہ پاکیزہ ہیں۔پھر آپ  نے لڑنا شروع کیا بہادری کے ایسے جوہر دکھائے کہ بہت سے یزیدیوں کو جہنم رسید کیا ۔اور خاک میں ملا دیا۔دشمن جب ان کامقابلہ تلواروں سے نہ کر سکے تو چاروں طرف سے گھیرکر تیروں کی بارش شروع کر دی۔
آخر عبد اللہ بن عزرہ کے تیر سے شہید ہو کر آپ  بہشت ِ بریں میں جا پہنچے۔
حضرت عبد الرحمن عقیل  اپنے بھائی کو خون و خون میں لت پت دیکھ کر بے چین ہو گئے اور بھوکے شیر کی طرح کوفیوں پر جھپٹ پڑے۔صفوں کو درہم برہم کر دیا اور دشمنوں کے میدان کو خون سے لالہ زار بنا دیا۔آخر عثمان بن خالد جہنی اور بشر بن سوط ہمدانی نے مل کر آپ کو شہید کر دیا۔
دونوں بھائیوں کی شہادت کے بعد حضرت عبد اللہ بن عقیل  شیر ببر کی طرح میدان میں کود پڑے ۔اور شمشیر زنی کے وہ جوہر دکھائے کہ بڑے بڑے بہادروں کے دانت کھٹے کر دیے۔اور بہت سے کوفیوں کو جہنم میں پہنچا دیا۔آخر میں عثمان بن خالد جہنی اور بشر بن سوط ہمدانی کے ہاتھوں شہید ہوئے۔
فرزندانِ علی کی شہادت
اولادِ حضرت عقیل  کی شہادت کے بعدحضرت علی مشکل کشا کے فرزندوں کی باری آئی۔
حضرت محمد بن علی  جواسماء بنتِ خصیمہ کے بطن سے تھے ۔امامِ عالی مقام  سے اجازت لے کر میدان میں آئے ۔اپنی بہادری کے جوہر دکھائے اور بہت سے دشمنوں کو قتل کیا۔آخر قبیلہ بنی ابان کے ایک آدمی نے آپ کو زخمی کیا اور جب آپ  زمین پر گر گئے تو اس نے آپ کا سر تن سے جدا کر دیا۔
اب حضرت عثمان بن علی  ،حضرت عبد اللہ بن علی اور حضرت جعفر بن علی کھڑے ہوئے۔
حضرت علی  کے یہ تینوں فرزند ام البنین کے بطن سے تھے۔امام ِ عالی مقام  کے ایسے وفادار جانثار تھے کہ جب شمر عبید اللہ ابن ِ زیاد کا خط لے کر کربلا کی طرف روانہ ہو رہا تھا تو عبید اللہ بن ابی محل جو ام البنین کا بھتیجا تھا۔اس نے ابن زیاد سے کہا کہ ہمارے خاندان کی ایک لڑکی کے فرزندامام ِ حسین  کے ساتھ ہیں۔آپ  ان کے لیے امان نامہ لکھ دیجیئے۔
ابن ِ زیاد نے ام ِالبنین کے چاروں فرزند حضرت عباس  اور ان تینوں حضرات  کے امان نامہ لے کر ان تینوں حضرات کے پاس پہنچا اور کہا کہ آپ  کے ماموں زاد بھائی نے آپ  کے لیئے ابن ِ زیاد سے امان نامہ لکھ کر بھیجا ہے۔ان چاروں غیرت والے بہادر جوانوں نے بیک زبان کہاہمارے بھائی کو ہماری طرف سے سلام کہہ دینا اور کہنا کہ ہم کو ابن ِ زیاد کی امان کی ضرورت نہیں۔
خدا ئے تعالی کی امان ہمارے لیے کافی ہے۔شمرذی الجوشن، ام البنین کے خاندان کا ہی آدمی تھا۔ابنِ زیاد کے خط عمر وبن سعد تک پہنچانے کے بعد اس نے بھی جماعتِ حسینی کی طرف کھڑے ہو کر آواز دی کہ ہماری بہن کے بیٹے کہاں ہیں ؟انہوں نے کہا ہم سے کیا کہنا چاہتے ہو؟ اس نے کہا کہ تم لوگوں کے لیے امان ہے۔ان جوانوں نے جواب دیا۔خدا کی پھٹکار ہو تجھ پر اور تیری امان پر کہ تیری امان ہمارے لیے ہے اور فرزند ِ رسول ﷺ کے لیے نہیں ہے۔
(طبری)
پھر حضرت عباس  کے یہ تینوں بھائی ایک ایک کر کے میدان میں جاتے ہیں اور ہر ایک سینکڑوں کوفیوں پہ بھاری ہوتا ہے۔ حیدری طاقت سے یزیدی لشکروں کی صفوں کو درہم برہم کر دیتے ہیں۔اور آخر کار بہت سے یزیدیوں کو قتل اور زخمی کرنے بعد فرزند ِ رسول ﷺ پر اپنی جان قربان کر دیتے ہیں۔

Chapters / Baab of Markaa E Haq O Batil By Hammad Hassan Khan