Episode 26 - Markaa E Haq O Batil By Hammad Hassan Khan

قسط نمبر 26 - معرکہٴ حق و باطل - حماد حسن خان

عون و محمد کی شہادت
حضرت بی بی زینب  نے امام ِ عالی مقام  سے درخواست کی کہ میرے دونوں بیٹوں کو بھی میدان میں جانے کی اجازت دیں ۔حضرت امام حسین  نے انکار کر دیاکیونکہ ان دونوں کی عمر ابھی نو، د س سال ہی تھی۔پھر حضرت بی بی زینب  اور دونوں شہزادوں نے منت کی اور اجازت کی درخواست کی کہ ہمیں اجازت دیں۔
امام ِ عالی مقام  نے فرمایا کہ اپنے ارادے سے باز آجاؤ۔اس پر عون و محمد  نے التجا کی کہ ہماری کم عمری پر نہ جائیے۔ہماری رگوں میں بھی شیرِخدا کا خون ہے۔ہم بھی میدان ِ جنگ میں لڑ کردشمن کا مقابلہ کریں گے۔حضرت امام ِ حسین  نے بچوں کی دلیرانہ گفتگو سن کر حضرت بی بی زینب  سے فرمایامیری طرف سے اجازت ہے۔

(جاری ہے)

حضرت بی بی زینب  خوش ہو گئیں۔

اور انہوں نے اپنے دونوں بچوں کو نصیحت کی کہ یاد رکھوکہ اگر تم سے پوچھا جائے کہ تم کون ہو تو یہ ہرگز مت کہنا کہ تم زینب کے بیٹے ہو۔ کہنا کہ ہم حضرت امام حسین  کے غلام ہیں ۔اور دونوں کو میدانِ جنگ میں روانہ کر دیا۔
جب عمر بن سعد نے دونوں کو دیکھا تو دیکھتے ہی پکارا کہ میں یہ تو جانتا ہوں کہ تم زینب  کے بیٹے اور امام حسین  کے بھتیجے ہو۔
مگر مجھے تمہاری بھولی صورت دیکھ کے رحم آ گیا ہے۔ادھر آؤ میری طرف آ جاؤ۔یہاں تمہیں پانی بھی اور کھانا بھی ملے گا اور انعام بھی۔عمر بن سعد کی اس بات سے عون و محمدتڑپ اٹھے اور جواب دیاکہ اوہ ظالم !ہم نہ زینب کے بیٹے ہیں نہ حسین  کے بھتیجے۔ہم تو امام حسین  کے غلام ہیں۔اور ہم تمہارے لالچ میں آنے والے نہیں۔ہم اللہ کی راہ میں لڑنے کے لیے آئے ہیں۔
اور پھر عون و محمد کے نعروں سے زمین ِکربلا ہل گئی۔عون نے دائیں طرف سے اور محمد نے بائیں طرف سے حملہ کیا ۔ان کی تلواریں چمکیں اور نیزے ہوامیں لہرائے اور دشمن حیران رہ گئے کہ ان دو بچوں نے میدان ِ جنگ میں بہادری کے ایسے جوہر دکھائے جو اپنی مثال آپ ہیں۔عمر بن سعد نے کمسن بچوں کو جب ایسے بہادری سے جنگ کرتے دیکھا تو چلا اٹھاکہ یہ نو دس سال کے بچے جو تین دن کے بھوکے پیاسے ہیں انہیں تم لوگ ابھی تک قتل نہیں کر سکے۔
تو سب نے مل کر تیروں اور تلواروں کی بوچھاڑ کر دی۔چھوٹے بھائی کے سینے میں تیرلگا تو بڑا بھائی جھک کر نکالنے لگا تو دشمن نے تلوار سے وار کر دیا اور دونوں بھائی اکٹھے ہی جام ِ شہادت نوش کر گئے۔
شہادت ِ حضرت ِ عباس علمدار
ٍ اب وہ وقت آ گیا کہ امام ِ عالی مقام  کے علمدار حضرت عباس بن علی  ،امام پاک سے میدان جنگ میں جانے کی اجازت طلب کر رہے ہیں۔
اور عرض کرتے ہیں کہ:
بھائی جان! پیارے بھائی بھانجے تو بھوکے پیاسے جامِ شہادت نوش کر گئے مگر اب ننھے ننھے شیر خوار بچوں کا پیاس سے تڑپنا اور ان کا بلکنا مجھ سے نہیں دیکھا جاتا۔مجھے اجازت دیجیے کہ میں جا کر فرات سے ایک مشکیزہ پانی لے آؤں اور ان پیاسوں کو پلاؤں ۔
امامِ عالی مقام کی آنکھیں اشکبار ہو گئیں فرمایا:بھائی عباس تم ہی میرے علمدار ہو۔
اگر تم پانی لانے میں شہید ہو گئے تو میرا علم کون اٹھائے گا ؟اور میرے زخم ِ دل پر مرہم کون لگائے گا۔ حضرت عباس  نے عرض کیا ،میری جان آپ  پر قربان ،مجھے پانی لانے کی اجازت ضرور دیجیے کہ اب ننھے بچوں کی تکلیف میری قوت ِ برداشت سے باہر ہے۔بس اب آخری تمنا یہی ہے کہ ساقیٴ کوثر کے جگر پاروں کو چند گھونٹ پانی پلا کر میں بھی آپ  کے لیے قربان ہو کر اپنے بھائیوں کے پاس پہنچ جاؤں ۔
حضرت امام حسین  نے جب حضرت عباس  کی طرف سے بہت اصرار دیکھا تو انہیں سینے سے لگایا اور اشک بار آنکھوں سے انہیں اجازت دے دی۔
وہ اک مشکیزہ کندھے پہ لٹکاکر گھوڑے پر سوار ہوئے اور فرات کی طرف روانہ ہوئے۔ یزیدی فوج نے جب حضرت عباس کو فرات کی طرف جاتے دیکھا تو روک دیا۔آپ  نے فرمایا اے کوفیو!خدائے تعالیٰ سے ڈرواور رسولِ پاک ﷺ سے شرماؤ۔
افسوس صد افسوس کہ تم لوگوں نے بے شمار خطوط بھیج کر نواسہٴ رسول ﷺ کو بلایا۔ اور جب وہ سفر کی مشقتیں اٹھا کر تمہاری زمین پر جلوہ افروز ہوئے تو ان کے ساتھ بے وفائی کی۔دشمنوں سے مل کر ان کے تمام رفقاء اور عزیز و اقارب کو شہید کر دیا۔چھوٹے چھوٹے بچوں کو ایک ایک بوند پانی کے لیے ترسا رہے ہو۔سوچو قیامت کے دن ان کے نانا جان نبیٴ محترم نور ِ مجسم ﷺ کو کیا منہ دکھاؤ گے؟کوفیو نے جواب دیا کہ اگر ساری دنیا بھی پانی ہو جائے تب بھی ہم تمہیں پانی کا ایک قطرہ نہیں لینے دیں گے۔
جب تک حسین یزید کی بیعت نہ کر لیں۔ظالموں کا یہ جواب سن آپ کو جلال آ گیا۔فرمایا:
”حسین  سر کٹا سکتے ہیں پر باطل کے سامنے جھک نہیں سکتے“
پھر حضرت عباس  شیر کی طرح ان پر جھپٹ پڑے۔اور اپنی تلوار دھواں دھار چلانے لگے۔یہاں تک کہ بہت سے دشمنوں کو موت کی نیند سلاتے ہوئے فرات تک پہنچ گئے۔
پانی کے کنارے والی فوج نے جب آپ کو دیکھا تو آہنی دیوار بن گئے۔مگرشیرِخدا کے شیر مرتے کٹتے اور دشمنوں کی صفوں کو چیرتے پھاڑتے ہوئے آگے بڑھے اور گھوڑے کو فرات میں داخل کر دیا۔مشکیزہ بھرا اور ایک چلو ہاتھ میں لے کر پینا چاہا کہ ننھے بچوں کا پیاس سے بلکنا اور تڑپنا یاد آ گیا۔تو آپ کی عقیدت ِ ایمانی نے یہ گوارہ نہ کیا کہ ساقیٴ کوثر کے دُلارے اور علی و فاطمہ  کے جگر پارے تو پیاس میں تڑپیں اور ہم سیراب ہو جائیں۔
آپ  نے چلُو کا پانی گرا کر پانی کا بھرا مشکیزہ بائیں کندھے پر لٹکایا اور چل پڑے۔چاروں طرف سے شور ہوا کہ راستہ روک لو۔مشکیزہ چھین لو پانی بہا دو کہ اگر حسین  کے خیمے تک پانی پہنچ گیا تو ہمارا ایک بھی سپاہی نہیں بچے گا۔سب کی عورتیں بیوہ اور بچے یتیم ہو جائیں گے۔
حضرت عباس  اس کوشش میں رہے کہ کسی طرح اہل ِ بیت ِ نبوت تک یہ پانی پہنچ جائے۔
جب دشمنوں نے آپ کو چاروں طرف سے گھیر لیا تو آپ نے بپھرے ہوئے شیر کی طرح حملہ کرنا شروع کر دیا۔لاشوں پر لاشیں گرنے لگیں۔اور خون کی نالیاں بہنے لگی۔اورشیرِ خدا کے شیر نے ثابت کر دیا کہ میرے بازوؤں میں قوت ِ حیدری اور رگوں میں خونِ علی  ہے۔آپ  برابر دشمنوں کو مارتے کاٹتے اور چیرتے پھاڑتے ہوئے خیمہٴ حسینی کی طرف بڑھتے چلے جا رہے تھے کہ ایک بدبخت جس کا نام زرارہ تھا نے پیچھے سے دھوکہ دے کر ایسی تلوار چلائی کہ ہاتھ کندھے سے کٹ کر الگ ہو گیا۔
آپ  نے فورامشکیزہ داہنے کندھے پر لٹکا لیا ۔اور اسی ہاتھ سے تلوارِ علی چلاتے رہے کہ پھر اچانک نوفل بن ارزق خبیث نے دایاں بازو بھی کاٹ دیا۔آپ  نے مشکیزہ دانتوں سے پکڑ لیا۔مگر مشکیزہ کا خیمہٴ حسینی تک پہنچنا شاید اللہ تعالیٰ کو منظور نہیں تھا۔ایک بدبخت کا تیر مشکیزے کے اندر ایسے لگا کہ پار ہو گیا۔اور اس کا سارا پانی بہہ گیا۔
پھر ظالموں نے چاروں طرف سے آپ کو گھیر کر زخموں سے چور چور کردیا۔یہاں تک کہ آپ  گھوڑے کی زین سے زمین پر آگئے۔اور فرمایا:اے میرے بھائی جان !میری خبر گیری فرمائیں۔امامِ عالی مقام  دوڑ کر تشریف لائے دیکھا تو عباس  خون میں نہائے ہو ئے ہیں۔اور عنقریب جام شہادت نوش فرمانے والے ہیں۔شدت ِ غم سے امامِ عالی مقام کی زبان پر یہ کلمات جاری ہوئے کہ اب میری کمر ٹوٹ گئی۔پھر عباس  کی لاش خیمے کی طرف اٹھا کر لا رہے تھے کہ انکی روح قفس ِ عنصری سے پرواز کر گئی۔
( انا للہ وا نا الیہ راجعون)

Chapters / Baab of Markaa E Haq O Batil By Hammad Hassan Khan