Episode 34 - Markaa E Haq O Batil By Hammad Hassan Khan

قسط نمبر 34 - معرکہٴ حق و باطل - حماد حسن خان

ابن زیاد کے دربار سے یزید کے دربار تک سفر کے دوران کے مختلف واقعات
1 ۔ دوران ِ سفر امام زین العابدین  کی حالت
اس کے بعد ابن ِ زیاد نے بد بختوں کی ایک جماعت کے ساتھ دوسرے شہداء کے سروں کو اور اسیران ِ اہلِ بیت کو یزید کے پاس اس حالت میں بھیجا کہ حضرت امام زین العابدین  کے ہاتھ پاؤں اور گردن میں زنجیریں ڈال دیں گئیں۔
جبکہ عورتوں کو اونٹوں کی ننگی پیٹھ پر بیٹھایا گیا تھا۔ابن زیاد نے اپنے سپاہیوں کو تاکید کر دی کہ وہ سروں کو نیزوں پر چڑھا کر لوگوں کو بتاتے ہوئے جائیں کہ یزید کی مخالفت کرنے والے اس انجام سے دوچار ہوتے ہیں تاکہ لوگ ڈر کر مخالفت سے باز رہیں۔ 
2 ۔ ابن ِ عفیف کی شہادت
ابن ِ زیاد کی طرف سے اعلان ہوا کہ تمام لوگ جامع مسجد میں جمع ہو جائیں ۔

(جاری ہے)

جب لوگ جمع ہو گئے تو ابن ِ زیاد منبر پرچڑھا اوراپنی فتح و کامرانی اور قتل ِ حسین  کے ذکر کے بعد کہا کہ حسین جماعت میں تفرقہ ڈال کر حکومت چھیننا چاہتے تھے۔اس پر عبداللہ بن عفیف ازدی جو حضرت علی  کے اصحاب میں سے تھے اور اپنی بینائی دونوں آنکھوں سے کھو چکے تھے اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا کہ افسوس ابن ِ زیاد !نبیوں کی اولاد کو قتل کرتے ہو اور صدیقوں جیسی باتیں کرتے ہو۔
ابن ِ زیاد کو اس پر طیش آیا اور اس کے حکم سے انہیں قتل کر کے سولی پر لٹکا دیا گیا۔اور حضرت امام ِ حسین کے سر مبارک کو نیزے پر نصب کر کے ابن زیاد کے حکم پر کوفہ کی گلی کوچوں میں پھرایا گیا اور زہیر بن قیس کے ہا تھ معززین کے ایک وفد کی صورت میں یزید کے پاس ایک گھڑ سوار دستے کی نگرانی میں شام بھیج دیاگیا۔
3 ۔ ایک غیبی شعر
امام ِ عالی مقام  کے سر مبارک کو لے جانے والے قافلے کے راستے میں ایک منزل پر ایک گرجا گھر تھا ۔
رات گزارنے کے لیے قافلے نے وہاں قیام کیا ۔اور بقول ابن کثیر وہ لوگ آپ  کا سر مبارک اپنے پاس ہی رکھ کر شراب پینے لگے کہ اتنے میں پردئہ غیب سے ایک آہنی قلم نمودار ہوئی ۔دیوار پر اس نے لکھا ۔ترجمہ: 
”کیا حسین  کو شہید کرنے والے یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ قیامت کے روز اُن کے نانا ﷺ اِن کی شفاعت کریں گے“(البدایہ و النہایہ)
بعض روایات میں یہ بھی آیا ہے کہ یہ شعر پہلے سے ہی دیوار پہ لکھا ہوا تھا ۔
بد بختوں نے جب یہ دیکھا تو بہت تعجب ہوا اور گرجا گھر کے راہب سے پوچھا کہ یہ شعر کس نے لکھا ہے اور کب کا لکھا ہوا ہے؟
راہب نے کہا کہ کس نے لکھا ہے یہ تو مجھے معلوم نہیں البتہ اتنا جانتا ہوں کہ تمہارے نبیﷺ کے زمانے سے پانچ سو برس پہلے کا لکھا ہوا ہے۔
عیسائی راہب کا اسلام قبول کرنا
جس گرجا میں یہ قافلہ ٹھہرا ہوا تھا اس گرجا کے راہب نے جو شہیدوں کے سروں کو نیزوں پر اور چند عورتوں کو اسیری کی حالت میں دیکھا تو اس کے دل پربڑا اثر ہوا۔
اس نے یہ حالت دریافت کی۔جب اس کو سب معلوم ہوا تو وہ سخت حیران ہوا اور کہنے لگا کہ تم لوگ بہت بُرے ہو۔کیا کوئی اپنے نبی کی اولاد کے ساتھ ایسا سلوک کر سکتا ہے جیسا تم نے کیا؟پھر اس راہب نے کہا کہ اگر تم ایک رات کے لیے اپنے نبی کے نواسے کا سر میرے پاس رہنے دو اور مجھے ان عورتوں کی خدمت کا موقع دو تو میں تم کو دس ہزار دینار اس کے بدلے میں دوں گا۔
وہ لوگ دولت کے غلام تھے اس لیے انہوں نے دس ہزار دینار کی خاطر رات کو راہب کے پاس پڑاؤ کرنا قبول کر لیا ۔راہب نے اپنا گھر خالی کر لیا ۔پردے دار مقدس بیبیوں کو گھر کی چار دیواری میں ایک صاف کمرہ رات گزارنے کے لیے پیش کیا۔اور اپنی خدمت پیش کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تو مجھے بتائیں۔میں مسلمان نہیں ہوں ۔میرے دل میں تمہارے خاندان کی بڑی عزت ہے۔
راہب نے گرجے کے خادموں سے کہا کہ رات بھر ان مقدس عورتوں کی خدمت کرو کیونکہ یہ مسلمانوں کے نبی کی بیٹیاں ہیں۔اور وہ خود امام ِ عالی مقام  کا سرِ مبارک ایک دھلے ہوئے صاف طشت میں رکھ کر چہرئہ مبارک کو مقدس زلفوں اور داڑھی مبارک جو غبار اور خون میں اٹے ہوئے تھے... کو دھونے لگا۔ اس نے چہرئہ مبارک دھو کر صاف کیا اور عطر کافور لگا کر معطر کیا۔
پھر بڑے ادب و تعظیم کے ساتھ ساری رات سرِانور کے سامنے بیٹھا زار و قطار روتا رہا۔
ساری رات اس خدمت کے عوض خانوادئہ رسولﷺ کی مقدس بیبیاں اس راہب کو دعائیں دیتی رہیں۔اور سرِحسین  بھی زبانِ حال سے اسے دعائیں دیتا رہا۔یہاں تک کہ راہب کی قسمت کا ستارہ چمکا اور اس کی آنکھوں سے حجابات اٹھ گئے ۔اور وہ نور جو خولی کی بیوی نے عرش سے فرش تک پھیلا ہوا دیکھا تھا وہ راہب پر بھی آشکار ہو گیا۔
اور اس نے بھی دیکھا کہ ایک ہالہٴ نور ہے جو سرِحسین  کے گرد طواف کر رہا ہے۔جب اس نے یہ حیرت انگیز منظر دیکھا اور سرِمقدس کے رعب و جلال کا مشاہدہ کیا تو اس کے دل کی کیفیت بدل گئی۔اس کی محبت اور حسن ِ عقیدت کا صلہ ملنے کا انتظام ہو گیا۔اس کی زباں سے بے ساختہ کلمہ ٴشہادت جاری ہو گیا۔چونکہ اس نے دنیا کی دولت قربان کی تھی اس لیے اسے ایمان کی دولت عطا فرما دی گئی ۔اب اس کے لیے اہلِ بیتِ نبوت سے دور رہنا نا ممکن ہو گیاچنانچہ جب اگلے روز قافلہ روانہ ہوا تو وہ بھی مطیع و خادم بن کر ساتھ ہو لیا۔(الصداعق المحرقد)

Chapters / Baab of Markaa E Haq O Batil By Hammad Hassan Khan