Episode 35 - Markaa E Haq O Batil By Hammad Hassan Khan

قسط نمبر 35 - معرکہٴ حق و باطل - حماد حسن خان

یہاں ایک اور نہایت حیرت انگیز واقعہ رونما ہوا۔یزیدی فوج کے بد بخت سپاہیوں نے امام ِ عالی مقام  کے لشکر کے خیموں سے جو درہم و دینا ر لوٹے تھے اور جو دینار انہوں نے راہب سے لیے تھے ان کو تقسیم کرنے کے لیے جب تھیلیوں کے منہ کھولے تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہ سب درہم و دینار ٹھیکریاں بنے ہوئے تھے۔ان کی ایک طرف آیت ِ مبارکہ لکھی ہوئی تھی ۔
” اور اے مخاطب !تو یہ ہرگز خیال مت کرنا کہ یہ ظالم جو کچھ کرتے ہیں اللہ ان کے (اعمال) سے بے خبر ہے“(سورة ابرہیم ۱۴:۴۲)
جبکہ ان کے دوسری طرف یہ آیت لکھی ہوئی تھی:
” اور جن لوگوں نے ظلم ڈھایا ہے ان کو بہت جلد معلوم ہو جائے گا کہ انہیں کس کروٹ لوٹایا جائے گا “(سورة الشعراء۲۶:۲۲۷)
یزیدی فوج کے پاس درہم و دینار کے ٹھیکریاں بن جانے میں ایک تنبیہ بھی تھی کہ تم نے اس فانی اور مادی دنیا کے لیے دین چھوڑا اور آل ِ رسول ﷺ پر ظلم و ستم کیا ہے۔

(جاری ہے)

یاد رکھو!دین تو تم نے چھوڑ ہی دیا ہے مگر جس فانی اور بے وفا دنیا کے لیے تم نے دین چھوڑا ہے وہ بھی تمہارے ہاتھ نہیں آئے گی اور تم دنیا اور آخرت میں خسارہ پانے والوں میں ہو جاؤ گے۔
ایک صحابی کا پیار اسیرانِ کربلا کے لیئے
جب یزید پلید کو معلوم ہوا کہ اسیرانِ کربلا اور حضرت امام حسین  وغیرہ کے سر عنقریب دمشق پہنچنے والے ہیں تو اس نے پورے شہر کو آراستہ کرنے اور سب کو خوشی منانے کا حکم دیا۔
نبی کریم ﷺ کے ایک صحابی سہل تجارت کے لیئے ملک شام آئے ہوئے تھے۔ جب وہ دمشق شہر میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ سب لوگ خوشی منا رہے ہیں ۔ انہوں نے لوگوں سے وجہ پوچھی تو بتا یا گیا کہ اہلِ عراق نے حسین ابن ِ علی کے سر کو یزید کے پاس ہدیہ بھیجا ہے۔ تمام اہل شہر اس کی خوشی منا رہے ہیں۔حضرت سہل نے ایک سرد آہ بھری اور پوچھا کہ حضرت امام حسین کا سر مبارک کون سے دروازے سے لائیں گے۔
بتایا گیا کہ بابِ الساعتہ سے ۔آپ اس تیزی سے بڑھے اور بڑی دوڑ دھوپ کے بعد اہل ِبیت تک پہنچ گئے۔ آ پ نے دیکھا کہ ایک سر ہے جو رسول اللہﷺ کے سر سے بہت زیادہ مشابہ ہے، نیزے پر چڑھا رکھا ہے، جسے دیکھ کر آپ بے اختیا ر رو پڑے۔
اہلِ بیت میں سے ایک نے پوچھا کہ تم ہم پر کیوں رو رہے ہو؟ حضرت سہل نے پوچھا کہ آپ کا نام کیا ہے؟ فرمایا میرا نام سکینہ بنتِ حسین ہے۔
انہوں نے فرمایا اور میں آپ کے ناناجان نبی کریمﷺ کا صحابی ہوں۔ اگر میرے لائق کوئی خدمت ہو توحکم فرمائیے۔حضرت سکینہ نے فرمایا میرے والد کے سرِ انور کو سب سے آگے کرادیجیئے تا کہ لوگ ادھر متوجہ ہو جائیں اور ہم سے دور رہیں۔ حضرت سہل  نے ۴۰۰ درھم دے کر امامِ عالی مقام کے سر مبارک کو آگے کرا دیا۔
6 ۔ حضرت بی بی سکینہ  
قافلہ چلا جا رہا تھا کہ رات کے وقت ایک مقام پر حضرت امامِ حسین  کے سر مبارک والا نیزہ جس نے پکڑ رکھا تھا وہ زور لگانے پر بھی آگے نہیں بڑھ پا رہا تھا۔
سب نے بہت زور لگایا پر کچھ نہ ہوا ۔تو سب کو خیال آیا کہ بی بی سکینہ ساتھ موجود نہیں ہیں۔ذرا فاصلے پر جا کے ڈھونڈا تو بی بی سکینہ وہاں کہیں گر گئیں تھیں۔اور اپنے بابا جان کو پکار پکار کے رو رہیں تھیں۔انہیں اپنے ساتھ قافلے میں لایا گیا تو قافلہ چل پڑا اور امامِ حسین  کے سر مبارک والا نیزہ بھی آرام سے آگے چلنے لگا۔اور حضرت بی بی سکینہ کے بارے میں ہی بتایا جاتا ہے کہ آپ  شام کے ایک قید خانے میں اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملیں۔
حضرت امامِ حسینکا سرِمبارک دربار ِ یزید میں
جب سرِ حسین  دیگر شہداء کے سروں اور اسیرانِ کربلا کے ہمراہ یزید کے دربار میں پہنچا تو یزید نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا؟؟ اس سلسلے میں مختلف روایات کتبِ تاریخ سے ملتی ہیں۔مختصراً دو روایات یہاں بتائی جائیں گی۔
پہلی روایت:
ایک روایت کے مطابق جب شہداء کے سر اور اسیرانِ کربلا یزید کے پاس دمشق پہنچے تو یزید نے دربار لگایا اور عوام و خواص کو دربار میں آنے کی اجازت دی۔
لوگ اندر داخل ہوئے تو انہوں نے دیکھا کہ امامِ حسین کا سرِ انور یزید کے سامنے رکھا ہوا تھا۔یزید کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی جو وہ آپ  کے دندان مبارک پر مارتاتھا اور کہتا تھا کہ اب تو ان کی اور تمہاری مثال ایسی ہی ہے کہ جیسے حصین ابن الحمام نے کہا ہی کہ” تمہاری قوم نے انصاف کرنے سے انکار کر دیا تھا پس ان تلواروں نے انصاف کر دیا۔جو ہمارے دائیں ہاتھ میں تھیں جن سے خون ٹپکتا ہے۔
انہوں نے ایسے لوگوں کی کھوپڑیاں توڑیں جو ہم پر غالب تھے۔اور وہ نہایت نافرمان اور ظالم تھے“
حضرت ابو برزہ اسلمی نے جب یہ دیکھا کہ یزید حضرت امام حسین  کے دندان ِ مبارک پر چھڑی مار رہا ہے تو وہ یہ بے ادبی برداشت نہ کر سکے۔انہوں نے یزید سے کہااے یزید ! تو اپنی چھڑی حضرت امام حسین کے دانتوں پر مار رہا ہے؟ ( اس گستاخی سے باز آ جا) میں نے بارہا نبیٴ کریم ﷺ کو ان ہونٹوں کو چومتے ہوئے دیکھا ہے۔
بے شک اے یزید ! کل قیامت کے دن جب تو آئے گا تو تیرا شفیع ابن ِ زیاد ہو گا اور حسین  آئیں گے تو ان کے شفیع حضرت محمد ﷺ ہوں گے۔یہ کہہ کر ابو برزہ وہاں سے چلے گئے ۔(البدایہ وا لنہایہ)
دوسری روایت:
دوسری روایت کے مطابق جب حضرت امامِ حسین کا سرِانور یزید کے پاس لا کر اس کے آگے رکھا گیا تو اس نے مثال دیتے ہوئے یہ شعر پڑھا۔
”اے کاش ! بدر میں قتل ہونے والے میرے اشیا خ بنو خزرج کا نیزوں کی ضربوں پر چیخنا چلانا دیکھتے۔ہم نے تمہارے دو گنا اشراف کو قتل کر دیاہے اور یوم ِ بدر کا میزان برابر کر دیا ہے“(البدایہ وا لنہایہ)
یزید جو برملا نواسہٴ رسول ﷺ کے لبان ِ مبارک پر چھڑی مار کر کہہ رہا تھا کہ اگر آج میرے وہ بزرگ زندہ ہوتے جو غزوئہ بدر میں مروائے گئے تھے تو میں انہیں بتاتا کہ تمہارے قتل کا بدلہ میں نے حسین  کی شہادت کی صورت میں نبی ِ کریم ﷺ کے خاندان سے لے لیا ہے۔
ایمان کی بات تو یہ ہے کہ اس کھلے اعلان کے بعد اس کے ایماندار ہونے کا کوئی امکان باقی نہیں رہتا ۔نہ ہی اسلام ، آخرت، جنت کے ساتھ یزید کے کسی تعلق کو کوئی تصور کیا جا سکتا ہے۔

Chapters / Baab of Markaa E Haq O Batil By Hammad Hassan Khan