Episode 37 - Markaa E Haq O Batil By Hammad Hassan Khan

قسط نمبر 37 - معرکہٴ حق و باطل - حماد حسن خان

اہلِ بیت کی مدینہ منورہ واپسی
صحابیِ رسول نعمان بن بشیر  جو حضرت مسلم بن عقیل  کے ساتھ کوفہ میں سختی نہ کرنے کی وجہ سے گورنری سے معزول کر دیے گئے تھے۔یزید نے انہیں اہل ِ بیت رسالت کا ہمدرد سمجھ کر بلایا اور کہا کہ حسین  کے اہل و عیال کو عزت و احترام کے ساتھ مدینہ منورہ پہنچانے کا انتظام کرو اور پھر اپنے آپ کو قتل ِ حسین  سے بری ثابت کرنے لیے حضرت زین العابدین کو تنہائی میں بلا کر کہا کہ خدا کی لعنت ابن ِ زیاد پر ۔
اگر براہ ِ راست آپ کے والد کا اور میرا سامنا ہو جاتا تو جو کچھ وہ فرماتے میں منظور کر لیتا اور ان کو قتل کرنا ہرگز گوارہ نہ کرتا۔لیکن جو خدا کو منظور تھا وہ ہوا ۔اب آپ مدینہ منورہ تشریف لے جائیں۔

(جاری ہے)

مجھ کو وہاں سے خط لکھتے رہیئے گا ۔جس کی ضرورت ہو گی مجھے خبر کیجیے گا(طبری)

حضرت نعمان بن بشیر  کے ہمراہ تیس آدمیوں کا حفاظتی دستہ کیا گیا۔
وہ اہل ِ بیت کو لے کر مدینہ روانہ ہوئے۔اور راستہ بھر نہایت تعظیم و تکریم سے پیش آتے رہے۔
مدینہ طیبہ کے لوگوں کو واقعہ کربلا کی خبر پہلے ہی پہنچ چکی تھی۔جب یہ ستم رسیدہ قافلہ مدینہ شہر میں داخل ہوا تو اس قافلے کو دیکھنے کے لیے تمام اہل ِ مدینہ اپنے گھروں سے نکل آئے۔حضرت اُم لقمان بن عقیل بن ابی طالب اپنے خاندان کی عورتوں کے ساتھ روتی ہوئی نکلیں۔
اور یہ اشعار پڑھے :
”لوگو! کیا جواب دو گے جب نبیٴ کریم ﷺ تم سے پوچھیں گے کہ تم نے آخری امت ہونے کے باوجود کیا کیا،میرے بعد میری اولاد اور اہل ِ بیت کے ساتھ، ان میں سے بعض کو تم نے اسیر کیا اوربعض کا خون بہایا۔میں نے تم کو جو نصیحت کی تھی کہ میرے بعد میرے قرابت داروں کے ساتھ بُرا سلوک نہ کرنا ....سب کی جزا یہ تو نہ تھی“(البدایہ و النہایہ۔
ابن اثیر)
تمام اہل ِ مدینہ حضرت محمد بن حنفیہ ، ام المومنین حضرت سلمہ  اور خاندان کی دیگر خواتین بھی روتی ہوئی نکل آئیں ۔قافلہ سیدھا حضور بنیٴ کریم ﷺ کے روضہٴ اقدس پر حاضر ہوا۔ حضرت امام زین العابدین  جو ابھی تک صبر و رضا کے پیکر بنے ہوئے خاموش تھے جیسے ہی ان کی نظر قبرِ انور پر پڑی بس اتنا ہی کہنا تھا کہ نانا جان اپنے نواسے کا سلام قبول فرمائیں...کہتے ہی ان کا صبر کا پیمانہ چھلک گیا۔
اور وہ اس طرح درد کے ساتھ روئے اور حالات بیان کرنا شروع کیے کہ کہرام برپا ہو گیا۔
حضرت امام جعفر صادق  سے مروی ہے کہ واقعہ کربلا کے بعد حضرت امام زین العابدین  کی ہمیشہ یہ حالت رہی کہ آپ دن کو روزہ رکھتے اور رات کو اللہ کی عبادت میں گزار دیتے۔افطار کے وقت جب کھانا اور پانی سامنے آتا تو آپ فرماتے کہ میرے باپ اور بھائی بھوکے پیاسے شہید ہوئے۔
افسوس یہ کھانا اور پانی ان کو نہ ملا اور رونے لگتے۔یہاں تک کہ بمشکل چند لقمے اور چند گھونٹ پانی ہی پیتے۔اس میں بھی آپ کے آنسو مل جاتے تھے۔آپ کی آنکھوں سے کربلا کا تصور اور دل سے باپ اور بھائیوں کی یاد کبھی محو نہ ہوتی اور عمر بھر آنکھیں اشک بار ہی رہیں۔
سید الشہداء حضرت امامِ حسین کا سرِ انور کہاں دفن کیا گیا اس میں اختلاف ہے۔
مشہور یہ ہے کہ اسیرانِ کربلا کے ساتھ یزید نے آپ  کے سر مبارک کو مدینہ طیبہ روانہ کیاجو سیدہ فاطمہ زہرہ  یا حضرت امامِ حسن  کے پہلومیں دفن کیاگیا۔
سرِ حسین کی اعجازی شان
یزید بد بخت کے حکم پر شہداء کے سر اور اسیران ِ کربلا کو تین روز تک دمشق کے بازاروں میں پھرایا گیا ۔
حضرت منہال بن عمرو  سے مروی ہے کہ خدا کی قسم !میں نے حسین  کے سر کو نیزے پر چڑھے ہوئے دیکھا اور میں اس وقت دمشق میں تھا ۔سر مبارک کے سامنے ایک آدمی سورة کہف پڑھ رہا تھا۔جب وہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ( کیا تو نے جانا کہ بیشک اصحاب ِ کہف اور رقیم ہماری نشانیوں میں سے ایک عجوبہ تھے) پر پہنچا تو اللہ تعالیٰ نے سر مبارک کو گویائی دی۔اس نے یہ واضح کہا کہ اصحاب ِ کہف کے واقعہ سے میرا قتل کیا جانا اور میرے سر کا نیزے پر اٹھائے جانا عجیب تر ہے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ حضرت امامِ حسین کاقتل کیا جانا اور آپ کے سرِمبارک کو تن سے جدا کر کے نیزے پر چڑھا کر دمشق کے بازاروں میں پھرایا جانا یہ اصحابِ کہف کے واقعہ سے عجیب تر ہے۔کیوں کہ اصحابِ کہف نے تو کفر کے خوف سے اپنے گھر بار کو چھوڑا اور ترک ِ وطن کر کے ایک غار میں پناہ لی تھی۔مگر امامِ حسین  اور ان کے اہل ِ بیت اور دیگر ساتھیوں کے ساتھ جو ظلم و ستم اور ناروا سلوک ہوا وہ ایسے لوگوں کے ہاتھوں ہوا جو اسلام اور ایمان کے دعوے دار تھے ۔
جبکہ حضرت امامِ حسین پیغمبر ِ اسلام ﷺ کے نواسے اور جگر کے ٹکڑے تھے۔اصحابِ کہف نے اگرچہ کئی سوسال کی نیند کے بعد اٹھ کر کلام کیا تھا ۔مگر بہرحال وہ زندہ تھے مگر حضرت امامِ حسین  کے سرِ انور کاجسم ِ اقدس سے جدا ہو جانے کے کئی روز بعد بھی نیزے کی نوک پہ بولنا یقینا اصحابِ کہف کے واقعے سے عجیب تر ہے۔
معرکہٴ کربلا کے بعد یزید کی خباثت
حضرت امامِ حسین کی ذات مبارکہ یزید کی آزادیوں کے لیے بہت بڑی رکاوٹ تھی۔
آپ کی شہادت کے بعد وہ بالکل ہی بے لگام ہو گیا۔پھر تو ہر قسم کی بُرائیوں کا بازار گرم ہو گیا۔زنا، حرام کاری، بھائی بہن کا نکاح، سود اور شراب وغیرہ اعلانیہ طور پر رائج ہو گئے۔اور نمازوں کی پابندی اٹھ گئی۔پھر اس کی شیطانیت یہاں تک پہنچی کہ 63 ہجری میں مسلم بن عقبہ کو بارہ یا بیس ہزار لشکر کے ساتھ مدینہ طیبہ اور مکہ معظمہ پر حملہ کرنے کے لیے بھیجا۔
اس بد بخت لشکر نے مدینہ منورہ میں وہ طوفان برپا کیا کہ الامان و الحفیظ۔قتل و غارت گری اور طرح طرح کے مظالم کا بازار گرم کیا ۔سات سو صحابہ کو بے گناہ شہید کیا۔ اور تابعین وغیرہ کو ملا کر دس ہزار سے زیادہ کو شہید کیا ۔لڑکوں کو قید کر لیا۔ سرکار ِ رحمت ِ دو عالم ﷺ کے روضئہ اقدس کی سخت بے حرمتی کی۔
مسجد ِ نبوی ﷺ میں گھوڑے باندھے ، ان کے لید اور پیشاب منبرِ اطہر پر پڑے۔
تین دن تک لوگ مسجد ِ نبوی ﷺ میں نماز سے مشرف نہ ہو سکے۔حضرت سعید بن مسیب  جو بڑے تابعین میں سے تھے ،پاگل بن کر وہاں حاضر رہے۔آخر میں ظالموں نے انہیں بھی گرفتار کر لیا۔مگر پھر دیوانہ سمجھ کر چھوڑ دیا۔خبیث لشکر نے ایک نوجوان کو پکڑ لیا۔ اس کی ماں نے آ کر مسلم بن عقبہ کو فریاد کی اور اس کی رہائی کے لیے بڑی عاجزی سے منت کی۔مسلم نے اس کے لڑکے کو بلا کر گردن مار دی۔
اور سر اس کی ماں کے ہاتھ میں دیتے ہوئے کہا کہ تو اپنے زندہ ہونے کی غنیمت نہیں سمجھتی جو اپنے بیٹے کو لینے آ گئی۔ایک شخص کو جب قتل کیا گیا تو اس کی ماں ام ِ یزید بن عبد اللہ بن ربیعہ نے قسم کھائی کہ اگر میں قدرت پاؤں گی تو اس ظالم مسلم کو زندہ یا مردہ جلاؤں گی۔
جب وہ ظالم مدینہ منورہ میں قتل و غارت کے بعد مکہ معظمہ کی طرف متوجہ ہوئے کہ وہاں جا کر حضرت عبد اللہ بن زبیر  اور دوسرے لوگوں کا بھی کام تمام کر دیں جو یزید کے خلاف ہیں تو اتفاقاً اس پہ رستے میں فالج گرا اور مر گیا۔
اس کی جگہ یزید کے حکم کے مطابق حصین بن نمیر سکونی قائد ِ لشکر بنا ۔مسلم کو انہوں نے وہیں دفن کر دیا ۔جب یہ خبیث لشکر آگے بڑھا تو اس عورت کو مسلم کے مرنے کا پتہ چلا ۔وہ کچھ آدمیوں کو ساتھ لے کر اس کی قبر پر آئی تاکہ اس کو قبر سے نکال کر اس کو جلائے ۔جب قبر کھولی تو کیا دیکھتی ہے کہ ایک بڑا سا سانپ اس کی گردن سے لپٹا ہوا ہے اور اس کی ناک کی ہڈی کو پکڑے چوس رہا ہے۔
یہ دیکھ کر سب کے سب ڈرے اور اس عورت سے کہنے لگے ۔خدا تعالیٰ خود ہی اس کے اعمال کی سزا اس کو دے رہا ہے اور اس نے عذاب کا فرشتہ اس پر مسلط کر دیا ہے۔اس عورت نے کہا نہیں خدا کی قسم میں اپنے عہد اور قسم کو ضرور پورا کروں گی۔اور اس کو جلا کر اپنے دل کو ٹھنڈا کروں گی۔مجبور ہو کر سب نے کہا کہ اچھا اس کے پیروں کی طرف سے اس کو نکالنا چاہیے جب پیروں کی طرف سے مٹی ہٹائی تو کیا دیکھتے ہیں کہ اس کے پیروں کی طرف بھی ایک سانپ لپٹا ہوا ہے۔
پھر اس عورت سے سب نے کہا کہ اس کو چھوڑ دیں اس کے لیے یہی عذاب کافی ہے۔مگر وہ عورت نہ مانی۔وضو کر کے دو رکعت نماز اداکی اور اللہ کے حضور ہاتھ اٹھا کر دعا مانگی الہٰی تُو خوب جانتا ہے کہ اس ظالم پر میرا غصہ محض تیری رضا کے لیے ہے۔مجھے یہ قدرت دے کہ میں اپنی یہ قسم پوری کروں اور اسے جلاؤں ۔یہ دعا کر کے اس نے ایک لکڑی سانپ کی دم پہ ماری تو وہ گردن سے اتر کر چلا گیا۔پھر دوسرے سانپ کو ماری وہ بھی اتر کر چلا گیا۔تب انہوں نے مسلم کی لاش کو قبر سے نکالا اور جلا دیا۔

Chapters / Baab of Markaa E Haq O Batil By Hammad Hassan Khan