Episode 39 - Markaa E Haq O Batil By Hammad Hassan Khan

قسط نمبر 39 - معرکہٴ حق و باطل - حماد حسن خان

قاتلین کا انجام 
مختار سقفی:
مختار سقفی نہ تو کوئی بادشاہ تھا نہ حکمران اور نہ ہی اس کے پاس طاقت یا بڑی فوج تھی۔وہ حضرت امامِ حسین کی حمایت میں اٹھا اور قدرت نے اس کا ساتھ دے کر اسے کوفہ کا حاکم بنا دیا۔ مختار نے کوفہ کا حاکم بننے کے بعد جو پہلا حکم جاری کیا وہ یہ تھا کہ جس گھر سے بھی قاتلینِ حسین کی نشان دہی ہوئی اور جس نے بھی ان ظالموں کو پناہ دی ۔
اس کے مکان کی بنیادیں اکھیڑ دی جائیں گی۔جو لوگ اس میں شامل تھے وہ چھپنے لگے۔مگر مختار کی فوج نے ہر طرف تلاشی شروع کر دی۔
ابن سعد کا قتل:
مختار نے ایک دن کہا کہ میں کل ایک ایسے شخص کو قتل کروں گا کہ اس سے تمام مومنین اور ملائکہ مقربین بھی خوش ہوں گے۔

(جاری ہے)

حیثم بن اسود نہعی اس وقت مختار کے پاس بیٹھا ہوا تھا وہ سمجھ گیا کہ عمر بن سعد کل مارا جائے گا ۔

مکان پر آ کر اس نے اپنے بیٹے کو سعد کے پاس بھیج کر اطلاع کر دی کہ تم اپنی حفاظت کا انتظام کرو مختار کل تمہیں قتل کرنا چاہتا ہے۔مگر مختار چونکہ اپنے خروج کے ابتدائی زمانے میں ابن ِ سعد سے نہایت ہی اخلاق کے ساتھ پیش آتا تھا ۔اس لیے اس نے کہا مختار ہمیں نہیں قتل کرے گا۔
دوسرے دن صبح کو مختار نے ابن سعد کو بلانے کے لیے آدمی بھیج دیا ۔
اس نے اپنے بیٹے حفص کو بھیج دیا۔مختار نے اس سے پوچھا تیرا باپ کہاں ہے؟ اس نے کہا وہ خلوت نشین ہو گیا ہے۔اب گھر سے باہر نہیں نکلتا ۔مختار نے کہا اب وہ ”رے “کی حکومت کہاں ہے جس کے لیے فرزند ِ رسول ﷺ کا خون بہایا تھا؟ اب کیوں اس سے دستبردارہو کر گھر میں بیٹھے ہو؟ حضرت امامِ حسین  کی شہادت کے دن وہ کیوں نہیں خانہ نشین ہوا تھا؟ 
پھر مختار نے اپنے کوتوال ابو عمرہ کو بھیجا کہ ابن سعد کا سر کاٹ کر لے آئے۔
وہ ابن سعد کے پاس گیا اور اس کا سر کاٹ کر اپنی قبا کے دامن میں چھپا کر مختار کے پاس لایا اور اس کے سامنے رکھ دیا۔مختار نے حفص سے پوچھا پہچانتے ہو یہ سر کس کا ہے؟ اس نے انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھ کر کہا یہ میرے باپ کا سر ہے اور اب ان کے بعد زندگی میں کوئی مزہ نہیں۔ مختار نے کہا تم ٹھیک کہتے ہو اور تم زندہ بھی نہیں رہو گے۔پھر اسے بھی قتل کر دیا اور کہاباپ کا سر حسین کا بدلہ ۔
اور بیٹے کا سر علی اکبر کا بدلہ ۔اگرچہ یہ دونوں ان کے برابر کبھی نہیں ہو سکتے۔خدا کی قسم! میں اگر قریش کے تین دستے بھی قتل کر ڈالوں تب بھی وہ حسین  کی انگلیوں کے برابر نہیں ہو سکتے۔پھر مختار نے ان دونوں کے سر حضرت محمد بن حنفیہ  کے پاس بھیج دیے۔
خولی بن یزید کا قتل:
خولی ان بد بختوں میں شامل ہے جنہوں نے امام ِ عالی مقام  کے سرِ انور کو جسم ِ اقدس سے جدا کرنے میں ساتھ دیا تھا۔
مختار نے اپنے کوتوال ابوعمرہ کو چند ساتھیوں کے ساتھ اس کی گرفتاری کے لیے بھیجا۔ ان لوگوں نے آ کر خولی کو گھر سے گھیر لیا ۔جب اس بد بخت کو معلوم ہوا تو وہ اپنی کوٹھری میں چھپ گیا اور بیوی سے کہہ دیا کہ تم لاعلمی ظاہر کر دینا ۔کوتوال نے اس کے گھر کی تلاشی کا حکم دیا ۔اس کی بیوی باہر نکل آئی۔ اس سے پوچھا گیا کہ تمہارا شوہر کہاں ہے؟ چونکہ جس وقت خولی امامِ حسین کا سر لایا تھا وہ اس کی دشمن ہو گئی تھی ۔
اس نے زبان سے تو کہا کہ مجھے معلوم نہیں کہ وہ کہاں ہے مگر ہاتھ کے اشار ے سے اس نے چھپنے کی جگہ بتا دی۔سپاہی اس مقام پر پہنچے اور دیکھا کہ سر پر ایک ٹوکرا رکھے زمین سے چپکا ہوا ہے۔ اس کو گرفتار کر کے لا رہے تھے کہ مختار کوفہ کی سیر کے لیے نکلا ہوا تھا راستے میں مل گیا۔اس نے حکم دیا کہ خولی کے گھر والوں کو بلا کر ان کے سامنے شاہراہ ِ عام پر اس کو قتل کیا جائے۔
پھر اس کو جلایا گیا اور جب تک اس کی لاش جل کر راکھ نہیں ہو گئی مختار کھڑا رہا۔
شمر کا قتل :
مسلم بن عبد اللہ ضیابی کا بیان ہے کہ جب حضرت حسین  کے مقابلے میں کربلا جانے والوں کو پکڑ پکڑ کر مختار قتل کرنے لگا تو ہم اور شمربن ذی الجوشن تیز رفتا ر گھوڑوں پر بیٹھ کر کوفہ سے بھاگ نکلے۔
مختار کے غلام زربی نے ہمارا پیچھا کیا ۔ہم نے اپنے گھوڑوں کو بہت تیز دوڑایا مگر زربی ہمارے قریب آگیا۔شمر نے ہم سے کہا کہ تم گھوڑے کو ایڑ دے کے مجھ سے دور ہو جاؤ ۔شاید یہ غلام میری تاک میں آ رہا ہے۔ہم اپنے گھوڑے کو خود تیزی سے بھگا کر شمر سے الگ ہو گئے۔غلام نے پہنچتے ہی اس پر حملہ کر دیا۔ پہلے تو شمر ا سکے وار سے بچنے کے لیے گھوڑے کداتا رہا مگر جب زربی اپنے ساتھیوں سے دور ہو گیا تو شمر نے ایک ہی وار میں اس کی کمر توڑ دی۔
جب مختار کے سامنے زربی لایا گیا اور اس کو واقعہ معلوم ہوا تو اس نے کہا کہ اگر یہ مجھ سے مشورہ کرتا تو میں کبھی اس کو شمر پر حملہ کرنے کا حکم نہ دیتا۔
زربی کو قتل کرنے کے بعد شمرکلطانیہ گاؤں پہنچا جو دریا کے کنارے واقع تھا ۔اس نے گاؤں کے کسان کو بلا کر مارا پیٹا اور اسے مجبور کیا کہ میرا یہ خط مصعب بن زبیر کے پاس پہنچاؤ۔
اس خط پر یہ پتا لکھا ہوا تھا ۔شمرزالجوشن کی طرف سے امیر مصعب بن زبیر کے نام۔ کسان اس خط کو لے کر روانہ ہوا۔ راستے میں ایک بڑا گاؤں آباد تھا ۔جہاں کوتوال ابو عمرو چند سپاہیوں کے ہمراہ جنگی چوکی قائم کرنے کے لیے آیا ہوا تھا ۔ یہ کسان اس گاؤں کے ایک کسان سے مل کر، شمر نے جو اس کے ساتھ زیادتی کی تھی، اس کو بیان کر رہا تھا کہ ایک سپاہی ان کے پاس سے گزرا اس نے شمر کے خط اور اس کے پتہ کو دیکھا توپوچھا کہ شمر کہاں ہے؟ اس نے بتا دیا ۔معلوم ہوا کہ پندرہ کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ابو عمرہ فوراً اپنے سپاہیوں کو لیے ہوئے شمر کی طرف چل پڑا ۔

Chapters / Baab of Markaa E Haq O Batil By Hammad Hassan Khan