Episode 40 - Markaa E Haq O Batil By Hammad Hassan Khan

قسط نمبر 40 - معرکہٴ حق و باطل - حماد حسن خان

مسلم بن عبد اللہ کا بیان ہے کہ میں رات میں شمر کے ہمراہ تھا ۔میں نے اس سے کہا کہ بہتر ہے کہ ہم اس جگہ سے روانہ ہو جائیں ۔اس لیے کہ ہمیں یہاں ڈر معلوم ہوتا ہے۔اس نے کہا کہ میں تین دن سے پہلے یہاں سے نہیں جاؤں گا ۔اور تمہیں خوف غالباََ مختار کذاب کی وجہ سے ہے۔ تم اس سے مرعوب ہو گئے ہو۔ہم جہاں ٹھہرے تھے وہاں ریچھ بہت زیادہ تھے ابھی زیادہ رات نہیں گزری تھی کہ گھوڑوں کی ٹاپوں کی آواز آئی ۔
میں نے اپنے دل میں کہا کہ ریچھ ہوں گے۔مگر آواز تیز ہو گئی تو میں اٹھ کر بیٹھ گیا ۔اپنی آنکھوں کو ملنے لگا اور کہا یہ ریچھوں کی آواز ہرگز نہیں ہو سکتی۔اتنے میں انہوں نے پہنچ کر تکبیر کہی اور ہماری جھونپڑیوں کو گھیرے میں لے لیا ۔ہم اپنے گھوڑے چھوڑ کر پیدل ہی بھاگے۔اور وہ لوگ شمر پر ٹوٹ پڑے۔

(جاری ہے)

شمر جو پرانی چادر اوڑھے ہوئے تھا اور اس کے برص کی داغوں کی سفیدی چادر کے اوپر سے نظر آ رہی تھی ۔

وہ کپڑے اور زرہ وغیرہ بھی نہیں پہن سکا ۔اسی چادر کو اوڑھے ہوئے نیزے سے ان کا مقابلہ کرنے لگا۔ابھی ہم تھوڑی ہی دور گئے تھے کہ تکبیر کی آواز کے بعد ہم نے سنا کہ اللہ نے خبیث کو قتل کر دیا۔پھر ان لوگوں نے اس کے سر کو کاٹ کر لاش کو کتوں کے لیے پھینک دیا۔
ابن زیادکا قتل:
عبد اللہ بن زیاد وہ بد بخت انسان ہے جو یزید کی طرف سے کوفہ کا گورنر مقرر کیا گیا تھا۔
اس بد بخت کے حکم سے حضرت اما م  اور آپ کے اہل ِ بیت کو تمام تکلیفیں پہنچائی گئیں ۔یہ ابن زیاد موصل میں تیس ہزار فوجیوں کے ساتھ اُترا۔مختار نے ابراہیم بن مالک اشتر کو اس کے مقابلے کے لیے ایک فوج کولے کر بھیجا ۔موصل سے تقریباً پچیس کلو میڑ کے فاصلے پر دریائے ِ فرات کے کنارے دونوں لشکروں میں مقابلہ ہوا ۔اور صبح سے شام تک خوب جنگ ہوئی۔
جب دن ختم ہونے والا تھا اور سورج غروب ہونے والا تھا اس وقت ابراہیم کی فوج غالب آئی ۔ابن زیاد کو شکست ہوئی اور اس کے ہمراہی بھاگے۔ابراہیم نے حکم دیا کہ فوج مخالف میں سے جو بھی ہاتھ آئے اس کو زندہ نہ چھوڑا جائے۔چنانچہ بہت سے لوگ ہلاک کیے گئے۔اس ہنگامے میں ابن زیاد بھی فرات کے کنارے محرم کے مہینے میں ہی مارا گیا۔اور اس کا سر کاٹ کر ابراہیم کے پاس بھیجا گیا۔
ابراہیم نے مختار کے پاس کوفہ میں بھجوایا ۔مختار نے دار الامارت کوفہ کو آراستہ کیااور اہلِ کوفہ کو جمع کر کے ابن زیاد کا سر ناپاک اسی جگہ رکھوایا جس جگہ اس مغرور بند ئہ دنیا نے حضرت امامِ حسین کا سر مبارک رکھا تھا۔مختار نے اہلِ کوفہ کو خطاب کر کے کہا اے اہلِ کوفہ! دیکھ لو کہ حضرت امامِ حسین کے خون نا حقنے ابنِ زیاد کو نہ چھوڑا ۔
آج اس نامراد کا سر اسی جگہ ذلت و رسوائی کے ساتھ رکھا ہوا ہے۔یہ وہی جگہ ہے۔خدا وندِ عالم نے اس مغرور فرعون خصال کو ایسی ذلت و رسوائی کے ساتھ ہلاک کیا کہ اسی کوفہ اور اسی دار الامارت میں اس بے دین کے قتل و ہلاکت پر جشن منایا جا رہا ہے۔
ترمذی شریف کی حدیث میں ہے کہ جس وقت ابن ِ زیاد اور اس کے سرداروں کے سر مختار کے سامنے لا کر رکھے گئے تو ایک بڑا سانپ نمودار ہوا ۔
اس کی ہیبت سے سب لوگ ڈر گئے۔وہ تمام سروں میں پھرا ۔عبید اللہ بن زیاد کے سر پاس پہنچا تو اس کے نتھنے میں گھس گیا ۔اور تھوڑی دیر ٹھہر کے اس کے منہ سے نکلا ۔اس طرح تین بار سانپ اس کے سر کے اندر داخل ہوا اور غائب ہو گیا۔
جو لوگ بھی حضرت امامِ حسین کے مقابلے میں کربلا گئے تھے اور ان کے قتل میں شریک تھے۔ان میں سے تقریباً چھ ہزار کوفی تو مختار کے ہاتھوں ہلاک ہوئے۔
اور دوسرے لوگ طرح طرح کے عذاب میں مبتلا ہوئے۔علمائے کرام فرماتے ہیں کہ ان میں سے کوئی نہ بچا جس نے آخرت کے عذاب سے پہلے اس دنیا میں سزا نہ پائی ہو۔ان میں سے کچھ تو بُری طرح قتل کیے گئے۔کچھ اندھے اور کوڑھی ہوئے اور کچھ لوگ تو سخت قسم کی آفتوں میں مبتلا ہو کر ہلاک ہوئے۔
مختار کا دعویٴ نبوت: 
مختار نے حضرت امامِ حسین  کے قاتلین کے بارے میں بہت شاندار کارنامہ سر انجام دیا۔
لیکن آخر میں وہ دعو یٴ نبوت کر کے مرتد ہو گیا۔کہنے لگا کہ میرے پاس حضرت جبرائیل  آتے ہیں اور مجھ پر خدا تعالیٰ کی طرف سے وحی لاتے ہیں۔میں بطور نبی مبعوث ہوا ہوں۔ حضرت عبداللہ بن زبیر کو جب اس کے دعوی نبوت کی خبر ملی تو آپ  نے اسے ختم کرنے کے لیے لشکر روانہ فرمایا۔جو مختار پر غالب ہوا اور ماہ ِ رمضان ستاسٹھ ہجری میں بد بخت کو قتل کر دیا۔
شہادت امام حسین اور مقام رضا
صبر، توکل اور رضاکے تین مدارج:
اللہ کے نیک اور برگزیدہ بندوں کو اپنے مالک کے قرب و وصال اور خوشنودی کی منزلوں کو حاصل کرنے کے لیے جو جد و جہد اور کوشش کرنی پڑتی ہے۔ ا س کے کئی مراحل ہیں۔صوفیاء کرام نے اس کے تین مراحل ترتیب سے بیان کئے ہیں۔
1 ۔ مرحلہٴ صبر
2 ۔ مرحلہٴ توکل
3 ۔ مرحلہٴ رضا 
# مرحلہٴ صبر 
صبر دو طرح کا ہوتا ہے۔
# زاہدوں کا صبر
# عاشقوں کا صبر
# زاہدوں کا صبر
زاہدوں کے صبر کے تین مراتب اور درجات ہیں۔
# ایک الصبر للہ
# دوسرا الصبر علی اا للہ 
# تیسرا الصبر مع اللہ 
صبر کی یہ تقسیم اور درجات حضرت ابو بکر شبلی کی بیان فرمائی ہے۔جو سید نا حضرت غوثِ اعظم  کے مشائخ میں سے ہیں۔

Chapters / Baab of Markaa E Haq O Batil By Hammad Hassan Khan