Episode 43 - Markaa E Haq O Batil By Hammad Hassan Khan

قسط نمبر 43 - معرکہٴ حق و باطل - حماد حسن خان

# مرحلہٴ صبر کے بعد مرحلہٴ توکل :
جب انسان صبر کے مرحلے سے آگے بڑھتا ہے تو ” مقام ِ توکل “ میں داخل ہو جاتا ہے۔
شیخ ابو علی الرود باری  نے توکل کے تین مدارج بیان کیے ہیں۔
 ۱۔ پہلا درجہ عطا پر شکر اور منع پر صبر
۲۔
دوسرا درجہ منع اور عطا کا ایک ہو جانا 
۳۔ تیسرا درجہ منع پر شکر کا محبوب ہو جانا 
 ۱۔ پہلادرجہ : عطا پر شکر اور منع پر صبر 
صبر کی منزل طے کرنے کے بعد توکل کا جو درجہ شروع ہوتا ہے وہ ” عطا کیے جانے پر شکر اور رد کیے جانے پر صبر “ 
یعنی جب بندے کو نعمت ملے تو بندہ شکر بجا لائے اور نعمت چھن جانے پر صبر کرے۔

(جاری ہے)

۲۔ دوسرا درجہ : منع اور عطا ایک ہو جانا 
توکل کا دوسرا درجہ ہے کہ بندہ اس طرح ہو جائے یعنی کہ منع اور عطا اس کے نزدیک ایک ہو جائیں ۔توکل کے اس درجے میں منع اور عطا دونوں باتیں اس بندے کے لیے برابر ہو جاتی ہیں۔
نوٹ: پہلے درجے میں ملنے اور چھن جانے میں فرق تھا کہ بندہ ملنے پر تو اللہ کا شکر ادا کرتا تھا مگر نعمت کے چھن جانے پر صبر کرتا تھا۔
مگر توکل کے اس درجے میں بندہ دونوں صورتوں میں شکر ادا کرتا ہے۔کوئی نعمت ملے بھی تو شکر ادا کرتا ہے اور اگر کوئی نعمت چھن جائے تو بھی شکر ہی ادا کرتا ہے۔
 ۳۔ تیسرا درجہ: منع پر شکر کا محبوب ہو جانا 
توکل کا تیسرا درجہ ہے کہ بندے کے لیے کسی نعمت کے چھن جانے پر شکر کرنا محبوب ہو جانا ۔
جب کوئی نعمت چھن جاتی ہے اور بندہ سوچتا ہے کہ محبوب اس چیز کے چھن جانے پر راضی ہے۔ تو یہ تصور کر کے وہ جھوم جھوم اٹھتا ہے۔اور اس نعمت کے چھن جانے پر اسے وہ لذت اور لطف آتا ہے کہ جو کسی نعمت کے عطا ہونے پر نہیں آتا ۔اللہ اپنے بندوں کی آزمائش کرتا ہے۔ایک تو کبھی عطا کر کے اور دوسرا کبھی چھین کے۔
دوسرے طریقے کے ذریعے اللہ اپنے خاص بندوں کی آزمائش کرتا ہے بندہ جب سوچتا ہے کہ اللہ نے مجھے ایک بڑی آزمائش کے لیے منتخب کیا ہے تو یہ سوچ کر اسے جو مزہ اور کیف و سرور حاصل ہوتا ہے وہ اس خوشی اور مسرت سے کہیں بڑھ کے ہوتا ہے۔
جو کسی نعمت کے عطا کیے جانے پر ہوتا ہے۔اس لیے بندے کو نعمت چھن جانے پر اللہ کا شکر اد اکرنا زیادہ محبوب ہو جاتا ہے۔
# ایک حکایت:
توکل کی یہ کیفیت کہ جہاں چھن جانے پر زیادہ لطف اور سرور آتا ہے۔اس سے متعلق یہ حکایت بیان کی جاتی ہے کہ ایک دفعہ مجنوں کو خبر ملی کہ لیلیٰ بیمار ہے اور طبیبوں نے اس کی صحت یابی کے لیے تازہ خون کی فراہمی کی شرط کو لازمی قرار دیا ہے۔
تو مجنوں وہاں پہنچا اور مکمل صحت یابی تک ہر روز وہ اپنا تازہ خون لیلیٰ کو دیتا رہا ۔لیلیٰ نے صحت یابی کے بعد بطور شکرانہ خیرات کرنے کا فیصلہ کیا۔کھانا تیار کر کے اعلان کیا کہ شہر کے فقراء مساکین اور درویش آ کر کھانا کھا لیں ۔مجنوں بھی آگیا۔جس نے جان پر کھیل کر لیلیٰ کی صحت یابی میں حصہ لیا ۔مجنوں بھی اپنا کاسہ لے کر لائن میں آگیا۔
لیلیٰ سب کو باری باری دیتی جا رہی مگر جب مجنوں کی باری آئی تو اس نے خیرات کے لیے جب اپنا کاسہ آگے کیا تو لیلیٰ نے ہاتھ مار کر اس کا کاسہ گرا کر توڑ دیا اور دوسروں کو خیرات دینے لگی۔مجنوں اپنا کاسہ اٹھائے دیوانہ وار ناچنے لگا۔لوگوں نے کہا کہ یہ تو واقعی پاگل ہے۔لیلیٰ نے سب کے سامنے تیری بے عزتی کی اور تو ناچ رہا ہے۔مجنوں نے کہا ارے نادانو! پاگل میں نہیں تم ہو ۔
لیلیٰ کو میری ذات سے کچھ خاص تعلق ہے تبھی تو اس نے میرا کاسہ توڑ دیا ہے۔اور کسی کا کاسہ کیوں نہ توڑا ۔یہ بات لیلیٰ کی میری ذات سے کسی الگ نوعیت کے تعلق کا اظہار ہے۔
یہ تو عشقِ مجازی والوں کا حال ہے ۔ان سے بھی محبوب جب کچھ چھین لیتا ہے تو انہیں زیادہ سرور آتا ہے۔تو ان لوگوں کی خوشی ، کیف و مستی کا کیا عالم ہوتا ہوگا جو عشقِ حقیقی کے مسافر ہیں۔
ان سے ان کا محبوبِ حقیقی کوئی نعمت چھین لے تو وہ تو محبوبِ حقیقی کی خصوصی توجہ کے تصور سے ہی جھوم جھوم جاتے ہیں۔ان کی نظر چھینی ہوئی نعمت پر نہیں ہوتی بلکہ محبوب کی خوشی اور رضا پر ہوتی ہے۔
# متوکلین کی جزا:
انسان صبر کی منازل اور مدارج طے کرتا ہوا مرحلہٴ توکل میں داخل ہوتا ہے۔
صبر کے سبب سے بندے کو اللہ کی معیت حاصل ہو چکی ہوتی ہے۔خدائے بزرگ وبرتر کی رحمتوں اور برکتوں کا نزول بھی اس پر پہلے ہی ہو چکا ہوتا ہے۔لیکن توکل کے سبب سے اسے اللہ کی محبت کی خوشخبری سنائی جاتی ہے ۔قرآن میں ارشاد ہوتا ہے کہ 
” بیشک اللہ توکل کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔“ ( العمران۳:۱۵۹ )
یہ متوکلین کے لیے بشارت ہے کہ اے توکل کرنے والو صبر کی نعمتیں تو تم پہلے ہی اللہ کی بارگاہ سے پا چکے ہو اب توکل کے سبب سے ہم تمہیں اپنی بارگاہ میں محبوب کر لیتے ہیں۔
یعنی کہ متوکلین اللہ کی محبت سے سرفراز کیے جاتے ہیں۔
# مرحلہٴ رضا:
صبر کی منازل اور مدارج طے کرنے کے بعد انسان توکل کی منازل کو بھی عبور کر لیتا ہے۔تو پھرمرحلہٴ رضا کا آغاز ہوتا ہے۔بہت سے اولیا ء ایسے ہو گزرے ہیں جو مرحلہٴ صبر کی مشکل منزلوں میں ہی رک گئے۔
کچھ خوش نصیب ایسے بھی ہوئے جنہوں نے صبرکی منزل تو عبور کر لی مگر وہ مرحلہٴ توکل میں جا کر رک گئے اور بہت کم ایسے ہوئے ہیں جو صبر کے بعد توکل کی منزل بھی عبور کر گئے۔اور مرحلہ ِ رضا میں داخل ہو گئے۔
توکل کی طرح مرحلہٴ رضا کے بھی تین درجے ہیں۔
یہ درجات حضرت شیخ عبد القادر جیلانی  نے اپنی تصنیف ” غنیة الطالبین“ حضرت شیخ زالنو ن مصری  کے حوالے سے بیان فرمائے ہیں۔
ترک الاختیار قبل القضاء
2 ۔ سرور القلب بمرالقضاء
فقدان المرارة بعد القضاء
ترک الاختیار قبل القضاء:
مرحلہٴ رضا کا پہلا درجہ یعنی جب قضا ء کی چھری چلنے لگے اور بچنے کا اختیار بھی ہو تو اختیار رکھتے ہوئے بھی خود کو قضا ء سے نہ بچایا جائے۔
 
ایک صورت یہ ہے کہ انسان کچھ نہ کر سکے اور ذبح ہو جائے۔ اس مقام کو رضا نہیں کہتے۔رضا تو یہ ہے کہ انسان خود کو بچانے کا اختیار تو رکھتا ہو ، خود کو بچانے پر قادر ہو ، لیکن پھر بھی قضاء کی چھری گوارہ کرے۔
2 ۔ سرورالقلب بمرا لقضاء:
  مرحلہٴ رضا کا پہلا درجہ تو یہ تھا کہ چھری چلنے سے پہلے کے اختیار کے باوجود بندہ خود کو نہ بچائے۔
مگر جب قضاء کی چھری چل رہی ہو ، تقدیر اپنا فیصلہ سنا رہی ہو ، بندے کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کیے جا رہے ہوں۔تقدیر اسے تکلیف، مصائب و الم کے پہاڑوں تلے دبارہی ہو، اور ہر قسم کی پریشانیاں اور اذییتیں امڈی چلی آ رہی ہوں ۔مصیبتوں ، تکلیفوں کی انتہا کے باوجود بندہ دل میں سرور و لذت پا رہا ہو۔تو یہ مرحلہٴ رضا کا دوسرا درجہ ہے۔
فقدان المرارة بعد القضاء:
مرحلہٴ رضا کا تیسرا درجہ یہ ہے کہ جب قضا ء کی چھری چل جائے اور سب کچھ لٹ جائے ۔
انسان اپنے انجام کو پہنچ جائے اور کچھ بھی پاس نہ بچے تو یہ کبھی بھول کر بھی زبان پر شکوہ نہ لائے۔کبھی دل میں یہ خیال نہ آئے کہ میرا انجام بظاہر کیسا ناگوار ہوا۔میرے ساتھ کیسے ظلم ہوا اور کتنی تکلیف، مصائب اور الام مجھے برداشت کرنے پڑے تھے۔

Chapters / Baab of Markaa E Haq O Batil By Hammad Hassan Khan