Episode 45 - Markaa E Haq O Batil By Hammad Hassan Khan

قسط نمبر 45 - معرکہٴ حق و باطل - حماد حسن خان

کردار کی عظمت
معرکہ ِ کربلا کی تفصیلات سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ مقامِ رضا پر نہ صرف حضرت امامِ حسین ثابت قدم رہے بلکہ آپ  کے گھرانے کے باقی افراد بھی آپ  ہی کی طرح کوہ ِ استقامت و وقار بن کر ثابت قدم رہے اور کسی کے قدموں میں ذرا بھی لرزش نہیں آئی۔بعد میں بھی کسی نے خانوادئہ نبوت ﷺکے کسی فرد سے میدان ِ کربلا کے مصائب کا ذکر نہیں سنا ۔
ان کی زبان پر کبھی شکوہ نہیں آیا ۔بلکہ حضرت امام ِ حسین  کے قاتلوں سے بھی حسن ِ سلوک کیا۔
حضرت امام زین العابدین  واقعہ کربلا کے بعد مدینہ منورہ سے کچھ دور مقام پر آباد ہو گئے تھے۔حضرت امامِ حسین  کے قاتلوں میں سے ایک شخص کو یزید نے کسی غلطی کی سزا دینا چاہی تو وہ جان بچا کر بھاگا۔

(جاری ہے)

پوری سلطنت میں اسے جان بچانے کی کوئی جگہ نہ ملی۔

تو بلا آخر اسی گھرانے کے پاس چلا گیا۔جس گھرانے کے خون سے وہ میدان ِ کربلا میں ہاتھ رنگ چکا تھا۔وہ شخص حضرت امام زین العابدین  کے پاس آیا اور پناہ چاہی۔آپ  نے اسے تین دن اپنے پاس ٹھہرایا۔اس کی خدمت و تواضع کی ۔جب وہ جانے لگا تو اسے رخت ِ سفر بھی دیا۔یہ حسنِ سلوک دیکھ کر اس شخص کے باہر جاتے قدم رک گئے اور اسے خیال آیا کہ شاید امام زین العابدین  نے اسے پہچانا نہیں ہے کیونکہ اگر پہچان لیتے تو انتقام لیتے۔
اس لیے وہ مڑ کے واپس آیا اور دبے لفظوں میں کہنے لگا کہ آپ  نے شاید مجھے پہچانا نہیں ہے۔آپ  نے پوچھا کہ تمہیں کیوں یہ گمان گزرا ہے کہ میں نے نہیں پہچانا ؟ اس نے کہا کہ جو سلوک آپ  نے میرے ساتھ کیا ،وہ کوئی اپنے دشمن یا قاتلوں کے ساتھ نہیں کرتا۔امام زین العابدین  مسکرائے اور فرمانے لگے کہ:
” اے ظالم!میں تجھے میدانِ کربلا کی اس گھڑی سے جانتا ہوں جب میرے باپ کی گردن پر تم لوگ تلوار چلا رہے تھے لیکن فرق یہ ہے کہ وہ تمہارا کردار تھا اور یہ ہمارا کردار ہے“
حضرت امیر معاویہ
انسان کو اپنی جان سے محبت ہوتی ہے۔
بیوی اور بچوں سے پیار ہوتا ہے۔ ماں باپ کو چاہتا ہے۔ بھائی اور عزیز و اقارب سے بھی محبت رکھتا ہے مگر صرف اسی قسم کی چیزوں سے محبت کرنے والا انسان ہوسکتا ہے مگر مسلمان نہیں ہوسکتا۔ مسلمان ہونے کے لئے ایک اور ذات آقائے دو عالم محمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنی پڑے گی۔اس لئے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت دین حق کی شرط اول ہے۔
پیارے آقا ئے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
” یعنی تم میں کوئی مومن نہیں ہوگا، یہاں تک کہ میں اس کے نزدیک اس کی اولاد اور سب لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں“۔
اور پیارے آقا ئے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے لئے سارے صحابہ کرام کی محبت لازم ہے اس لئے کہ تمام صحابہ حضور ﷺ کومحبوب ہیں اور محبوب کا محبوب، محبوب ہی ہوتا ہے۔
لہٰذا جو شخص حضور ﷺ سے محبت کا دعویٰ کرے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام سے محبت نہ کرے وہ جھوٹا ہے پیارے آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
” میرے اصحاب کے بارے میں اللہ سے ڈرو۔ اللہ تعالیٰ سے ڈرو میرے بعد انہیں نشانہ اعتراض نہ بنانا۔ جس نے ان سے محبت رکھی اس نے میری محبت کے سبب ان سے محبت رکھی۔
اور جس نے ان سے بغض رکھا اس نے میرے ساتھ بغض رکھا، اور جس نے انہیں اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی اور جس نے مجھے اذیت دی اس نے اللہ رب العزت کو اذیت دی اور جس نے اللہ تعالیٰ کو اذیت دی ،قریب ہے کہ اللہ پاک نے اسے اپنی گرفت میں لے لیا“۔
پیارے آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح لفظوں میں فرمادیا ہے کہ میری محبت کے سبب میرے صحابہ سے محبت ہو گی اور میرے بغض کے سبب میرے صحابہ سے بغض ہو گا۔
یعنی جو شخص پیارے آقا ئے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھتا ہے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام سے محبت ضرور کرتا ہوگا۔ اور جو شخص صحابہ سے بغض اور عداوت رکھتا ہے وہ حضورﷺ سے بھی بغض اور عداوت کے سبب ان سے بغض اور عداوت رکھتا ہے اور حدیث شریف نے فیصلہ کردیا کہ جو شخص پیارے آقا ئے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا دعویٰ کرتا ہے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ سے بغض و عداوت رکھتا ہے وہ جھوٹا ہے اس لئے کہ صحابہ سے بغض اور عناد حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بغض اور عناد کے سبب ہے۔
بعض لوگ جو پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے دعویدار ہیں وہ بہت سے صحابہ کرام خصوصاً حضرت امیر معاویہ سے نہ صرف بغض و عناد رکھتے ہیں بلکہ کھلم کھلا ان کے لئے گستاخانہ الفاظ استعمال کر کے بے ادبی کے مرتکب ہوتے ہیں۔
اور اپنی نادانی کی بنا پر ایسی بہت سی احادیث مبارکہ کو پس پشت ڈال دیتے ہیں جن میں واضح طور پر صحابہ کرام سے عقیدت و محبت کا درس دیا گیا ہے۔
اللہ ہم سب کو پیارے آقا ئے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم رضااور خوشی پانے کے لئے حق کی سمجھ عطا کرے (آمین)
# حضرت امیر معاویہ کا نام و نسب:
آپ  کا نام معاویہ اور کنیت ابو عبدالرحمٰن ہے۔ باپ کی طرف سے آپ کا سلسلہ نسب یہ ہے:
معاویہ بن ابو سفیان، سخر بن حرب۔
اور ماں کی طرف سے نسب یوں ہے:
معاویہ بن ہند بنت عتبہ بن ربیعہ بن عبد شمس بن عبد مناف۔
” عبد مناف“ پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے چوتھے دادا ہیں۔ اس لئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا سلسلہ نسب یہ ہے:
ابن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف۔
مختصر یہ ہوا کہ حضرت معاویہ والد کی طرف سے پانچویں پشت اور ماں کی طرف سے بھی پانچویں پشت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نسب سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چوتھے دادا عبد مناف سے مل جاتے ہیں۔
جس سے ظاہر ہوا کہ آپ  نسب کے لحاظ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی اہل قرابت میں سے ہیں اور رشتے میں نبی کریم ﷺ کے حقیقی سالے ہیں۔ایسے کہ ام المومنین حضرت ام حبیبہ بنت ابو سفیان  جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ ہیں۔ وہ حضرت امیر معاویہ کی حقیقی بہن ہیں اس لئے مولانا رومی نے اپنی مثنوی شریف میں آپ  کو تمام مومنوں کا ماموں تحریر فرمایا ہے۔

Chapters / Baab of Markaa E Haq O Batil By Hammad Hassan Khan