Episode 48 - Markaa E Haq O Batil By Hammad Hassan Khan

قسط نمبر 48 - معرکہٴ حق و باطل - حماد حسن خان

# حضرت امیر معاویہ حاکم کیسے بنے؟‘
حضرت امیر معاویہ دمشق کے حاکم یوں بنے کہ جب حضرت ابو بکر صدیق کے زمانہ مبارک میں ملک شام فتح ہوا تو آپ  نے دمشق کا حاکم حضرت امیر معاویہ کے بھائی حضرت یزید بن ابو سفیان  کو مقرر فرمایا۔
اتفاق سے اپنے بھائی کے ساتھ حضرت امیر معاویہ بھی شام گئے تھے جو انہی کے پاس رہ گئے تھے ۔
جب حضرت یزید بن ابو سفیان کے انتقال کا وقت قریب آیا تو انہوں نے اپنی جگہ حضرت امیر معاویہ کو حاکم مقرر کردیا۔ یہ تقرر حضرت عمر فاروق کے زمانہ خلافت میں ہوا آپ نے ان کے تقرر کو برقرار رکھا اور پورے عہد فاروقی میں وہ دمشق کے حاکم رہے۔

(جاری ہے)

یہاں تک کہ حضرت عثمان نے اپنے عہد خلافت میں حضرت امیر معاویہ کو پورے ملک شام کا حاکم بنا دیا اس طرح آپ نے عہد فاروقی و عثمانی میں بحیثیت حاکم ۲۰ سال حکومت کی اور پھر بعد میں بحیثیت خلیفہ ۲۰ سال حکمران رہے۔
# حضرت امیر معاویہ پر کئے گئے اعتراضات اور ان کے جوابات
پہلا اعتراض:
امیر معاویہ نے ہزاروں مسلمانوں کو قتل کیا اور کرایا مگر یہ حضرت علی سے جنگ نہ کرتے تو مسلمانوں کا اتنا قتل نہ ہوتا، اور مومن کو قتل کرنے والا ہمیشہ جہنم میں رہے گا اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
” جو شخص کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اللہ تعالیٰ اس پر غضب اور لعنت فرمائے گا، اور اس کے لئے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے“۔ (پارہ نمبر:۵)
اور امیر معاویہ  اس آیت کے ا حکام میں داخل ہیں۔
اس اعتراض کے دو جواب ہیں:
اول یہ کہ پھر تو حضرت عائشہ صدیقہ، حضرت طلحہ اور حضرت زبیر پر بھی یہ الزام عائد ہوسکتا ہے اس لئے کہ ان لوگوں نے بھی حضرت علی سے جنگ کی جس میں ہزاروں مسلمان شہید ہوئے جبکہ حضرت عائشہ کا جنتی ہونا ایسا ہی یقینی ہے جیسا کہ جنت کا ہونا۔
اس لئے کہ ان کے جنتی ہونے پر قرآن کی آیت شاہد ہے اور حضرت طلحہ اور حضرت زبیر بھی قطعاً جنتی ہیں اس لئے کہ یہ دو حضرات ” عشرہ و مبشرہ“ میں سے ہیں۔
اس اعتراض کا دوسرا جواب تحقیقی ہے اور وہ یہ ہے کہ مومن کے قتل کی تین صورتیں ہیں ایک تو یہ کہ اس کے قتل کو حلال سمجھے اور یہ کفر ہے اس لئے کہ مومن کا قتل حرام قطعی ہے۔
اور حرام قطعی کو حلال سمجھنا کفر ہے اور آیت کریمہ میں قتل کی یہی صورت مراد ہے۔ اس لئے کہ کفر والا ہی جہنم میں ہمیشہ رہے گا نہ کہ ایمان والا۔
دوسرا یہ کہ مومن کے قتل کو حلال نہ سمجھتے ہوئے شراب پینا اور نماز کا قصداً ترک کرنا اور تیسری صورت خطائے اجتہادی سے ایک مومن کا دوسرے مومن کو قتل کرنا۔یہ نہ کفر ہے نہ فسق اور حضرت امیر معاویہ کی جنگ اسی تیسری قسم میں داخل ہے۔
آپ مجتہد تھے جیسا کہ حضرت ابن عباس کے فرمان سے پہلے معلوم ہوچکا ہے۔ اور مجتہداگر اپنے اجتہاد میں خطا کرے تو اس پر کوئی مواخذہ نہیں۔
اگر ہمارا یہ جواب اعتراض کرنے والے تسلیم نہیں کرتے تو پھر یہی اعتراض حضرت علی پر بھی ہوگا کہ انہوں نے بھی حضرت عائشہ اور حضرت امیر معاویہ کی جنگ میں بے شمار مومنین کو قتل کیا اور کرایا۔
اللہ پاک ہم سب کو سمجھنے کی توفیق عطا کرے (آمین)
دوسرا اعتراض:
یہ کہا جاتا ہے کہ امیر معاویہ کے دل میں اہل بیت سے دشمنی تھی، اس لئے انہوں نے اہل بیت کو ستایا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جس نے علی کو ستایا اس نے مجھ کو ستایا۔ اور امیر معاویہ نے اہل بیت سے جنگ کی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے ان سے جنگ کی اس نے مجھ سے جنگ کی اور پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کرنے والا مومن کب ہوسکتا ہے؟
جواب:
اس اعتراض کے بھی دو جواب ہیں اول الزام اوروہ یہ ہے کہ حضرت عائشہ، حضرت طلحہ اور حضرت زبیر پر بھی یہی اعتراض وارد ہوگا کہ ان حضرات نے بھی حضرت علی سے جنگ کی ہے بلکہ کوئی مخالف حضرت علی کے بارے میں بھی یہ کہہ سکتا ہے کہ ان کے دل میں حضرت عائشہ، حضرت طلحہ اور حضرت زبیر سے بغض اور عداوت تھی اور پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام صحابہ کرام کے بارے میں فرمایا ہے کہ جس نے صحابہ سے بغض رکھا اس نے میرے بغض کے سبب ان سے بغض رکھا َغرضیکہ حضرت امیر معاویہ پر اس قسم کے اعتراض کرنے سے بہت سے صحابہ اور اہل بیت پر اعتراض وارد ہوگا ۔
اللہ ہم سب کو ایسی سوچ سے بچا کر ہدایت نصیب فرمائے۔ (آمین)

Chapters / Baab of Markaa E Haq O Batil By Hammad Hassan Khan