Episode 52 - Markaa E Haq O Batil By Hammad Hassan Khan

قسط نمبر 52 - معرکہٴ حق و باطل - حماد حسن خان

# قرآن پاک میں ہے کہ حق کی خاطر ڈٹ جاؤ۔ اور حق بات کے لیے جو کہو یا کرو تو اس کی وجہ سے آنے والے مصائب و آلام پر صبر کرو اور برداشت کرو۔ کر بلا میں امام عالی مقام حضرت امام حسین نے ثابت کر دکھایا کہ حق کی خاطر باطل کے سامنے ڈٹ جانا اور مصائب و آلام پر صبر و برداشت کیسے ہوتا ہے۔
# اللہ کہتا ہے کہ جو اس دنیا میں ہر طرح کے حالات میں مجھ سے راضی رہے گا... میں قیامت کے روز اس سے کہوں گا... کہ دنیا میں تو میری رضا کا طالب رہا.........تو اب میں یہاں تیری رضا پوچھتا ہوں کہ بتا اب تو کس طرح راضی ہو گا۔
 
آل رسولﷺ نے اللہ کی رضا پر راضی رہنے کی وہ عالی شان مثال قائم کی کیونکہ ان کو بھی اپنے نانا کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے امت سے محبت اور پیار تھا۔

(جاری ہے)

وہ روزِ محشر اس رضا کے بدلے میں اللہ سے اپنے نانا ﷺکی امت کی بخشش کا سوال کریں گے .....جب اللہ یہ پوچھے گا کہ بتا تیری رضا کیا ہے۔
# بہت سے لوگ اس بات سے اختلاف رکھتے ہیں کہ سلام پیش نہ کیا جائے۔
جبکہ ایک زمیں کے ٹکڑے اور اس پر رہنے والوں کے نظریات کی حفاظت کرنیوالے اگر شہید ہو جائیں تو ان کو ہر سال سلامی پیش کی جا تی ہے۔ اور ہمارے دین کے لیے لڑنے اور شہید ہونے والوں کو سلام پیش کرنے سے سب کو پریشانی کیوں ہو تی ہے...؟
# وطن اور قوم کے لیے لڑنے والوں اور جان دینے والوں کو یاد رکھا جا تا ہے اور قوم کے لوگ اپنی آنے والی نسلوں کو وہ کارنامے سنا تے ہیں۔
اور انکی یاد میں ہر سال خاص دن منائے جاتے ہیں اور اگر کوئی اپنے پیارے آقائے دو جہاں علیہ صلوة السلام کے دین کی اور شریعت کی حفاظت کر نے اور اس کو بچانے والوں یعنی ان کی آل کے ایمان کی مضبوطی اور حق پر کھڑے رہنے کی یاد میں دن منائے اور کارنامے سنائے تو لوگ کسی خاص فرقہ کا لیبل لگا دیتے ہیں۔ آخر کیوں...؟ کیا ہم کسی لیبل لگنے کے ڈر سے ان سے محبت کرنا چھوڑ دیں۔
 
# ہم امام ابو حنیفہ اور امام شافعی ایسے ہی باقی تمام آئمین کا انتہائی عقیدت ، محبت اور تعظیم سے نام لیتے اور ذکر کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے...
لیکن حضرت امام حسین  جو کہ امام عالی مقام  ہیں ان کا ذکر کر تے ہوئے کیوں ڈرتے ہیں.....؟؟؟
# کر بلا میں حضرت امام حسین  نے سیکھا دیا کہ اللہ کی محبت اور اللہ کے حبیب کی پیروی میں کیسے ہر حال میں شکوہ کیے بنا صبر اور شکر کا دامن تھامے رکھنا ہو تا ہے۔
کیونکہ مومن کی مثال ہے صبر اور شکرکا پیکر اورامام عالی مقام نے ان دونوں کو اپنی انتہاؤں پر تھامے رکھا۔
# اللہ خود قرآن میں بیان کر رہا ہے کئی جگہ پر ماں اور باپ کا اپنی اولاد کے لیے دکھ محسوس کرنا تو کیاآل رسول کے جدا مجد اس دکھ کو محسوس نہیں کر رہے ہوں گے۔ اور اگر وہ کر رہے ہیں تو کیا ہمارے دل اتنے پتھر ہیں کہ اپنے پیارے اور مہربان آقاﷺ کے دکھ میں شریک نہ بنیں۔

حضرت ابراہیم خلیل اللہ کے صرف ایک بیٹے حضرت اسماعیل  کی قربانی کی یاد ہر سال تازہ کی جا تی ہے اور حضرت محمدﷺکے بیٹے حسین اور آل محمدﷺ کی قربانی کی یاد تازہ نہ کی جائے۔ آخر کیوں...؟
# جب ہم معرکہ کربلا کا ذکر سنتے ہیں تو کچھ وقت کے لیے آنکھوں میں آنسو بھی آجاتے ہیں مگر کیا ہم ان کے دکھ کو محسوس کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں...؟ 
کبھی ذکر سنتے ہوئے ان کے درد کو محسوس کرنے کی کوشش کرنا اور ذرا سوچنا… اس بات کو کہ ہماری انگلی پر جب چھری چلتی ہے تو کیا ہوتا ہے اور جب کربلا میں ان کے بازو کٹے ہوں گے تو کیا ہوا ہو گا۔
ذرا اس بات کا احساس کرنا... او ر ان کے درد کو محسوس کرنا... ان کی باتیں سننے کو ہم سن لیتے ہیں مگر جب سر تن سے جدا ہوتا ہے تو خبر ہوتی ہے... ہمارے کسی اپنے کے ساتھ ایسا ہو تو ہمیں خبر ہو... مگر ہمیں ”وہ“ اپنے لگیں تو ہی ہم ان کا درد بھی محسوس کر سکتے ہیں... اپنی ایک انگلی کی تکلیف کو ہم بہت اچھی طرح محسوس کر تے ہیں۔ اس کا درد ہمیں بے چین رکھتا ہے... کچھ دل کو نہیں بھاتا... سوچو...کہ ان کے گلے پہ خنجر چل گیا اور ہمیں ان کے درد کا ذرا سا بھی احساس نہیں ہوا... ہم نے تو ان کے درد کو اتنا بھی محسوس نہیں کیا جتنا ہم نے اپنی انگلی کے کٹنے کے درد کو محسوس کیا... کہنے کو تو ہم کہتے رہتے ہیں کہ ہم غلام ہیں ...رسول ﷺ کے غلام ہیں۔
مگر ان کی کوئی بھی بات... کوئی بھی درد ہمارے دل کو نہیں لگتا۔ شاید ہمارے دل پتھر کے ہو گئے ہیں۔ جو کلمہ ہمیں پڑھایا گیا وہ ہمارے دل تک تو اترتا نہیں۔ اس کلمے کو ہم نے دل میں اتارا ہوتا تو اس سے ہمارے دلوں کی زمین زرخیز ہوئی ہوتی... دل نرم ہوا ہوتا۔ لیکن ہمارا دل بھی نرم نہیں ہوتا اس لیے ہمیں احساس ہی نہیں ہوتا کہ کیسے چھوٹے چھوٹے بچے اپنے آقا پر قربان ہونے کو گئے ہوں گے۔
کیا ہم اپنے بچوں کے حوالے سے ایسے کبھی سوچتے ہیں۔ کیسے ان بی بیوں نے بیٹھ کر یہ سب منظر دیکھے اپنی اولاد کو اپنے سامنے بلکتا دیکھا ۔ اگر دو دن بیٹھ کر اس سارے منظر اور ان کے درد کے احساس کو ہم دل میں اتار لیں تو ہم بھی محسوس کرنے کے قابل ہو جائیں کہ کربلا میں سب پیاروں پر کیا گزری۔ ہم تو دو دن کے لیے آرام دہ سہل اور ہر سہولت سے مزین سفر بھی کر لیں تو ہماری مظلومیت کا احساس ختم نہیں ہوتا۔
وہ عورتیں ، بچے، مرد کیسے کیسے سفر کرتے رہے۔ ہم سب اپنی دل پر چھریاں، خنجر نہ چلائیں ...لیکن ایک بھائی، ماں ،باپ کے درد کودل سے آپ محسوس کر کے دیکھیں کہ... ہمارے دل پر بھی وہ خنجر چلیں ہم بھی محسوس کریں۔
اگر تھوڑا سا دل میں احساس اتاریں تو سمجھ آتا ہے کیا بیتی ہو گی!...
سوچیں.....!!!وہ کیا منظر ہو گا ....جس میں معرکہ ختم ہو نے کے بعد یزیدی فوجی... حسینی قافلے کے باقی افراد کو لے کر چلے ہوں گے... کس طرح سے سر مبارک کوساتھ لیا ہو گااور بی بیوں نے دیکھا ہو گا ... اوربہنوں نے دیکھا ہو گا .... اور تن مبارک کو چھوڑ دیا ہو گا ......!
ذرا غور کریں کہ.....!!! آخر ہمارے دل ان کے درد کو اس طرح سے محسوس کیوں نہیں کرتے......؟؟؟

Chapters / Baab of Markaa E Haq O Batil By Hammad Hassan Khan