Episode 53 - Markaa E Haq O Batil By Hammad Hassan Khan

قسط نمبر 53 - معرکہٴ حق و باطل - حماد حسن خان

# کلمہ پڑھنے سے جنت نہیں ملتی۔ جن کو اللہ نے تخت کا سردار بنا کر بٹھا دیا ہے ان کی مرضی کے بغیر جنت نہیں ملتی۔ جنت میں داخلے کا ٹکٹ بھی تو وہ جنت کے سردار دیں گے۔جنت جنت سب کرتے ہیں مگر جنت کے سرداروں سے سلام دعا اور شناسائی ہی نہیں ...محبت ہی نہیں....اسی لیئے جنت میں داخلے کے لیئے جنت کے مالکوں سے آشنائی اور سلام دعا اور محبت کا رشتہ بناؤ توجنت کے وارثوں اور سرداروں کے وسیلے سے جنت میں داخلہ آسان ہوجائے گا۔
اللہ سے آشنائی اور جنت میں داخلہ ان سے آشنائی کے بغیر نہیں مل سکتا۔ 
# دین بھی حسین  اور دین کی پناہ بھی حسین ہیں۔ وہ دین کو بچا کر اپنی پناہ میں لے کر آئے... وہ چھلنی ہو گئے...کٹ گئے ۔عام دنیاداروں کی نظر میں یہ بربادیاں ہیں لیکن در حقیقت وہ کلمہ حق کو بچانے کے لیے کھڑے ہو گئے۔

(جاری ہے)

یعنی اللہ کے اس حکم پر سرِ تسلیم خم کر دیا کہ وہ جو کرتا ہے بہترین کرتا ہے۔

اس کے حکم کو ماننا... اور سر تسلیم خم کرنا... اور ماننا... اور ماننا... اور چپ کر کے خشک آنکھوں سے سب کو رخصت کرنا ...یہی صبر ورضا ہے... اسلامیت یہی ہے... اللہ کے راستہ پر سر تسلیم خم کر دینا کہ وہ سر سجدے میں چلا جائے اور کہا جائے کہ جیسے تیری رضا !....
# دین کی کشتی کو بھنور سے نکال کے لانے والے امامِ عالی مقام حضرت امام حسین تھے۔
اس کا مطلب ہے کہ کہیں تو پھنسی پڑی تھی تو ہی مولا حسین نکال کر لائے اور پھنسی بھی ایسی جگہ تھی کہ نہ اللہ کا نام باقی رہنا تھا اور نہ ہی رسولﷺ کی بات رہنی تھی ۔مگر انہوں نے گھرانا لٹا کر دین کو پناہ دی اور کشتی کو بھنور سے نکال کر لائے۔ آپ دیتے رہے اور ....دیتے رہے ۔ اوریہ کتنی بڑی بات ہے کہ بچے سے لے کر بڑے تک دوست باپ ، بھتیجے ، بھانجے بیٹے ، کزن، خادم ایک ایک کر کے دیتے رہے اور آخر میں خود گئے ہیں۔
یہ نہیں کہ خود پہلے کٹے اور بعد میں سب گئے ۔ اگر ایسا ہوتا تو ان کے دل پر نہ گزرتی ناں.... اسی لیے تو کہتے ہیں کہ جس وقت حضرت علی اکبر  کی لاش کو اٹھا کر لائے تو جاتے ہوئے آپ کے بال کالے تھے لیکن جب آپ خیموں کے پاس اٹھا کر لائے تو آپ کے سر کے بال سفید ہو گئے تھے۔ 
# اس معرکہ کربلا میں ہر عمر کا.. ہر رشتہ کے درد کا احساس موجود ہے۔
وہاں خیموں کا ..بھوک پیاس کا ..کپڑوں کا رہائش کا.. ہر طرح کا معاملہ پیش آیا۔ بی بیوں کا اپنے بھائیوں کے لیے ،خاوندوں کے لیے تڑپنا اور پھر بھی پردے میں رہنا ....اور ان کی سسکیاں بھی بند ہونا.... تو اس لیئے کہ امام عالی مقام حضرت امام حسین نے فرمایا کہ خیموں سے باہر کسی بی بی کی آواز نہ آئے۔ 
تب ہی تو کہتے ہیں کہ قرآن حسین  کا ہے۔
شریعت حسین کی ہے۔ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ غلط ہے۔
کوئی کہہ کے دیکھے کہ...” دین است حسین  دین پناہ است حسین “...نہ کہو۔ چپ ہیں سب کے سب مہریں لگ گئی ہیں ہر ایک زبان پر۔ باقی ہر بات پر اختلاف ہے کہ وضو ایسے کرو اور ویسے نہ کرو اور ہاتھ چھوڑ کر اور ہاتھ باندھ کر نماز کے بارے میں اختلاف ہوں تو ہوں ۔مگر اس پرکوئی ایک حرف بھی نہیں کہہ سکتا۔
ہر ایک اس پر متفق ہے کیونکہ دین کو پناہ دینے والے ہی حسین ہیں۔ ان کے سوا کہیں پناہ نہیں۔ 
# کسی انسان کا قلب کتنا چل رہا ہے اس کا اندازہ اس سے لگا سکتے ہیں کہ اس کا اندر کتنا اس کو صحیح اور غلط کا بتا رہا ہے۔ جتنا اس کا اندر اس کو برائی سے روک رہا اور اچھائی کی طرف راغب کر رہا ہے اس کا ا ندر اتنا ہی چل رہا ہے۔
ایسے ہی لوگ زندہ دل ہوتے ہیں۔ ان کی قبریں بھی ہمیشہ کے لیے زندہ ہوتی ہیں۔ کیونکہ ان کے دل حق بات کے لیے چل پڑے۔ ہم مانیں یا نہ مانیں مگر ہمارا دل اندر سے گواہی دیتا ہے۔ جو حسینی ہے ان کے سامنے خود اپنا دل آکے کھڑا ہو جاتا ہے جب بھی وہ کچھ غلط کر نے لگیں۔ اور جن کے دل مردہ ہو جاتے ہیں وہ غلط کر بھی رہے ہوں تو ان کو اند رسے روک ٹوک نہیں ہوتی ۔
اگر ضمیر جاگا ہو تو وہ کہتا ہے کہ رک جا.... منع ہو جا ۔مگر جب اند ر کسی بات پر نہیں روکتا تو یہ یزید یت ہے۔ حق کے لیے .....حق بات کو نہ کہنا ....یا حق کے لیے کھڑے نہ ہونا .....اندر کی یزید یت ہے۔ اور ہمارا کام صرف اندر کے اس احساس کوہی جگانا ہے۔ اس لیے ہی تو ہمیں کسی کے مرد عورت ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہمیں صرف دلوں سے فرق پڑتا ہے۔ ہمیں محبت بھی دلوں سے ہے ۔
اور جگانا بھی دلوں کو ہے۔ کسی سے محبت بھی ہے تو اس کے حسینی دل کی خوبصورتی کی وجہ سے۔ حق کی پکار سننے والا حسینی ہو تو وہ ہمیں پیارا ہے۔ جس کے اندر یزیدیت ہومگر اندر صاف نہ ہو وہ کہتا رہے حسین حسین .... تو وہ تو ہمارا نہیں ہے۔ ہمارا وہ ہے جس کا دل حسینی ہے۔اور حسینی وہ ہے کہ حق بات پر جس کا دل سامنے کھڑا ہو جاتا ہے ۔ مگر ایسے دل بہت کم ہوتے ہیں۔
ہزاروں عالموں ، تعلیم یافتہ، پڑھے لکھوں میں آج بھی اُس وقت کی طرح آٹے میں نمک کے برابر صرف72 ہی حق پر کھڑے رہنے وا لے ہوتے ہیں۔ اپنی مرضیاں چھوڑ کر اپنی خواہش چھوڑ کر صرف حق پر کھڑے ہونے والے بہت کم ہوتے ہیں۔ اور حق کیا ہے؟ اللہ... کائنات میں حق صرف اللہ ہے۔ اس کا ہر حکم ہر بات حق ہے۔ سو حق پرکھڑے ہو جاؤ۔ اور حق پر ہم تب ہی کھڑے ہوسکتے ہیں جب اندر قوت ایمانی ہو۔
اللہ پر یقین ہو تو حق بات کر سکتے ہیں۔ آج ہم میں قوت ایمانی نہیں ہے۔ اللہ پر یقین نہیں ہے۔ اس لیے ہم گھبرا جاتے ہیں کہ اب کیا ہو گا کیونکہ ہمارا اندر مضبوط نہیں ہے۔ ہمارے اندر اللہ پر یقین مضبوط نہیں ہے۔ وہ جو چند قافلے والے تھے۔ وہ چلے تو جیسی بھی مشکلیں آئیں اللہ کے بھروسے پر سہہ گئے اور ہم ایک ذرا سی مصیبت آنے پر پریشان ہو جاتے ہیں۔
کیونکہ ہمیں سامنے کچھ نظر بھی نہیں آرہا ہوتا ہمیں اللہ پر یقین بھی نہیں ہوتا۔ مگر ان لوگوں کو تو اللہ نظر آرہا ہوتا ہے ان کو توبن دیکھے اللہ پر، بن دیکھی جنتوں پر اور اس اللہ کی بن دیکھی حکمتوں پر یقین ہوتا ہے۔ ہر معاملے میں وہ اللہ پر یقین کے سہارے ہی آگے بڑھنے والے تھے۔ہم ایسے یقین سے محروم ہیں اسی لیے گھبرا جاتے ہیں ۔ وہی تو اسلام کو دوبارہ زندہ کر کے کھڑا کر دینے والے ہیں۔

Chapters / Baab of Markaa E Haq O Batil By Hammad Hassan Khan