Episode 9 - Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 9 - میں گمان نہیں یقین ہوں - نبیلہ ابر راجہ

دونوں ہاتھوں پہ گہری مہندی رچائے بھڑکیلا سوٹ پہنے خوشبوؤں میں بسی زرینہ ذیان کے استقبال کے لئے تیار تھی۔ ایک رات کی دلہن کو امیر علی نے بیٹی کے بارے میں ڈھیروں کے حساب سے نصیحتیں اور ہدایات دی تھیں۔ بالآخر ذیان بوا رحمت کے ساتھ آن وارد ہوئی۔ ہلکے گلابی رنگ کے ریڈی میڈ فراک اور نیکر میں ملبوس گلابی گلابی گالوں والی ذیان پہلی نظر میں ہی دل موہ لینے والی بچی ثابت ہوئی۔
مگر زرینہ کو دل ہی دل میں اس کی من موہنی شکل و صورت سے حسد محسوس ہوا۔ جب بیٹی اتنی حسین تھی تو اسکی ماں کی شکل و صورت کا اندازہ لگانا بالکل مشکل نہیں تھا۔
اس نے ذیان کو گود میں لے کر پیار کرنے کی کوشش کی۔ مگر وہ اسکے بازو ہٹا کر بھاگ گئی۔ لگتا تھا اس نے زرینہ کی اپنے گھر میں آمد کو پسند نہیں کیا تھا۔

(جاری ہے)

کیونکہ پہلے دن ہی اس نے امیر علی سے کہا کہ نئی مما اچھی نہیں ہیں مجھے اپنی مما چاہئے۔

اس نے ضد شروع کردی امیر علی نے نہ چاہتے ہوئے بھی اسکے پھول ایسے گال پہ ایک تھپڑ رسید کردیا۔بے یقینی کی حالت میں گرفتار ذیان کے بہتے آنسوؤں نے زرینہ کے جلتے بلتے دل کو عجیب سا سکون دیا۔ اسے ایک ثانیے کے لئے محسوس ہوا امیر علی کے گھر میں اسکی حیثیت اتنی بھی کمزور نہیں ہے وہ چاہے تو آنے والے دنوں میں اپنا مقام خود متعین کرسکتی ہے اس نے اپنے داؤ آزمانے شروع کردئیے۔
                                ###
چار سالہ ذیان حال میں ہی مونٹیو سری سکول جانا شروع ہوئی تھی۔ سکول جاتے ہوئے وہ بوا رحمت کو ذرا تنگ نہ کرتی وہ اسکے گھنے بالوں کی پونیاں بناتی تو وہ شرافت سے انکے سامنے بیٹھی رہتی آرام سے شوز پہن لیتی ایسے محسوس ہو رہا تھا کہ اپنے سکول اور ٹیچرز سے اسے دلچسپی پیدا ہونا شروع ہوگئی ہے۔ کیونکہ سکول سے واپسی پہ وہ بیگ کھول کر اپنی سب کتابیں پھیلا کر بیٹھ جاتی اور کلرز پنسل سے طبع آزمائی شروع کردیتی۔
ایسے میں وہ بہت مصروف اور خوش نظر آتی۔ آج بھی وہ ٹی وی لاؤنج میں اپنا سکول بیگ کھول کر بیٹھی ہوئی تھی۔
زرینہ سامنے صوفے پہ بیٹھی چائے پی رہی تھی۔ ٹی وی چل رہا تھا مگر زرینہ کی ساری توجہ ذیان کی طرف تھی۔ اس کی نگاہ ذیان کے ہاتھوں پہ ٹکی تھی جو برق رفتاری سے ایک خاکے میں رنگ بھرنے میں مصروف تھے۔
”ذیان“ اس نے آہستہ آواز میں اسے اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی۔
اس نے سوالیہ نگاہیں زرینہ کی طرف کی مگر منہ سے نہیں بولی سنو تمہاری مما کیسی تھی؟اسکے لہجے میں موجود تجسس بچی سمجھ نہیں پائی۔
”میری مما بہت اچھی ہیں۔“ ”کتنی اچھی ہیں؟“ جانے اسے کس چیز کی جستجو تھی۔ ”آپ سے اچھی ہیں آپ مجھے پسند نہیں ہیں“وہ ایکدم سے سن ہوئی چھوٹی سی بچی میں کوئی مصنوعی پن نہ تھا اس نے سیدھے سادے الفاظ میں سچ بولا تھا۔
چند ثانیے بعد اسکے سن پڑتے وجود میں غیض و غضب کا طوفان اٹھا اس نے لپک کر ذیان کے بال مٹھی میں جکڑے۔ بوا رحمت اپنے کوارٹر میں آرام کر رہی تھی جبکہ امیر علی آفس میں تھے۔ ”کسی حرافہ کی اولاد تُو بھی مجھے پسند نہیں ہے“ذیان کی آواز مارے خوف کے بند ہوگئی وہ پھٹی پھٹی سہمی نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔ ”اور خبردار کسی کو یہ بات بتائی ورنہ چھری سے گلا کاٹ دوں گی“اس نے سچ مچ فروٹ نائف جانے کہاں سے اٹھا کر اسکی نگاہوں کے سامنے لہرائی تو ذیان کے رہے سہے اوسان بھی خطا ہوگئے۔
اسکے لب خاموش اور آنکھیں لبا لب پانیوں سے بھری تھیں۔
زرینہ کے دل کو حیوانی تسکین کا احساس ہوا۔ابھی شطرنج کے سب مہرے اسکے پاس تھے۔ اسے دل ہارنے کی ضرورت نہیں تھی۔
                                      ###
رات کا اندھیرا اور سناٹا ہر شے کو اپنی گرفت میں لے چکا تھا۔ زرینہ سب کاموں سے فارغ ہو کر امیر علی کے برابر لیٹ چکی تھی۔
اسکا ایک ہاتھ انکے سینے پہ دھرا تھا اور رخ بھی ان کی طرف تھا۔ ”مجھے آپ کی اور اس گھر کی بہت فکر رہتی ہے“وہ سینے سے ہاتھ اٹھا کر اب انکے سر میں ہلکے ہلکے کنگھی کرنے والے انداز میں پھیر رہی تھی۔ ”میں اس گھر اور مکینوں کے بارے میں تمہارے جذبات سے آگاہ ہوں“امیر علی کا لہجہ سکون سے بھرا تھا کچھ زرینہ کی اُنگلیوں کا جادو تھا انکے روم روم میں سکون کی پھوار برسنے لگی۔
”لیکن یہ بات مجھے اندر ہی اندر کاٹ رہی ہے“انکے سر کے بالوں میں رینگتی انگلیاں ایک جگہ رک سی گئیں۔ امیر علی نے آنکھیں کھول کر اس کی طرف دیکھا جہاں کالی آنکھوں میں نمی چمک رہی تھی۔ ”کون سی بات بتاؤ تو وہ یکدم اپنی جگہ سے اٹھ گئے دل کسی انہونی کے خدشے سے لرز رہا تھا۔ وہ متوحش سے ہوگئے۔
”میں اس گھر سے اس کی ایک ایک اینٹ سے محبت کرنے لگی ہوں …“ وہ اب باقاعدہ سسکیوں سے رو رہی تھی”پلیز بتاؤ زری کیا بات ہے میرا دل ہول رہا ہے“ انہوں نے روتی زرینہ کو ساتھ لگا لیا۔
ذیان سے میں بہت پیار کرتی ہوں مگر جانے کیا بات ہے وہ میری شکل تک نہیں دیکھنا چاہتی… کہتی ہے اس کی مما بہت اچھی ہے میں اسے پسند نہیں ہوں“ اب وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے کے شغل میں مصروف تھے۔ اس کی بات سنتے ہی امیر علی کے سب اعصاب تن سے گئے۔ ”وہ بچی ہے تم اس کی باتوں کو دل پہ مت لو“ وہ رسان سے بولے مگر دل میں ہلچل مچی ہوئی تھی کہ ذیان نئی ماں کا موازنہ اس قابل نفرت عورت سے کرنے لگی ہے۔
”وہ کہتی ہے میری مما پری جیسی ہے آپ ذرا بھی اچھی نہیں“ زرینہ نے امیر علی کے چہرے پہ پھیلتی طیش کی سرخی دیکھ لی جذباتی ہتھیار اسکے پاس تھا کوئی وار بھی خالی نہیں جا رہا تھا۔ ”وہ اپنی ماں کو ابھی تک نہیں بھولی ہے“ میری محبت نے ذیان پہ کوئی اثر نہیں کیا ہے جانے اس چلتر عورت کے پاس کیا جادو تھا۔“
”ذیان کے دماغ کو اس عورت کے نام اور تصور تک سے پاک کردو۔
یہ تمہاری ذمہ داری ہے اس کے لئے سختی سے بھی کام لینا پڑے تو لو میں تم سے پوچھوں گا نہیں۔اپنی اس کامیابی پہ زرینہ خوشی سے پھولے نہیں سما پا رہی تھی۔
                                      ###
رابیل کی پیدائش پہ ذیان چھ سال کی تھی اس کا شعور آہستہ آہستہ پختگی کی نامعلوم منازل طے کر رہا تھا۔ زرینہ کے ساتھ اسکے تعلقات کسی بھی قسم کی گرمجوشی سے عاری تھے۔
لیکن اسکے چھوٹے سے ذہن میں یہ حقیقت پورے طور پر راسخ ہوچکی تھی کہ زرینہ آنٹی بہت طاقتور ہیں انکے سامنے ناپسندیدگی کا احتجاج اسے بہت مہنگا پڑا تھا۔ مگر یہاں بابا بھی تو اسکے ساتھ نہیں تھے اپنی دوسری بیگم کے کسی بھی ناروا سلوک پہ کبھی انہیں کچھ نہیں کہا۔ وہ دن بھر بابا کی غیر موجودگی میں اسکی مما کے بارے میں گندی باتیں کرتیں وہ باتیں اسے بالکل پسند نہیں تھیں مگر اسے سننا پڑتیں زرینہ آنٹی نے بہت کوشش کی کہ وہ انہیں مما کہہ کر مخاطب کیا کرے پر یہاں اس نے ان کی نہیں چلنے دی تھی۔
وہ زرینہ آنٹی ہی بلاتی۔
بابا بھی ہمیشہ ان کی حمایت کرتے جبکہ اسے اپنی مما کے حوالے سے زرینہ آنٹی کے منہ سے ایسی کوئی بھی بات سننا پسند نہیں تھا۔ اس نے تھری کلاس میں جب بابا کے سامنے زرینہ آنٹی کی شکایت کی تو جواباً انہوں نے اسے زندگی میں دوسری بار تھپڑ مارا۔ اسے تھپڑ پڑتے دیکھ کر وہ خوش تھیں انکے چہرے پہ فاتحانہ مسکراہٹ تھی۔
پہلے ہر بات پہ ذیان احتجاج کرتی روتی مگر اس ذلت آمیز تھپڑ کے بعد اسکے آنسو ختم ہوگئے۔ اب زرینہ آنٹی سارا دن اس کی مما کا نام لے کر گندی اور عجیب باتیں کرتیں مگر اسکے چہرے اور دل میں بے حسی طاری رہنے لگی۔اب اسے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔
گزرنے والے ہر دن کے ساتھ ان کی زبان کی دھار تیز ہوتی گئی۔اب تو رابیل بھی اسکی مما کے کرتوتوں سے آگاہ ہوچکی تھی۔
ایک دن اس نے زرینہ آنٹی کی طرح ذیان کو اس کی مما کا نام لے کر طعنہ دیا مگر اس بار اسے غصہ نہیں آیا وہ پہلے کی طرح صرف خاموش ہو کر رہ گئی۔
وہ بابا کے چہرے پہ کچھ تلاشتی پر وہاں بھی خاموشی ہوتی۔
زرینہ ماں بننے کے بعد اور بھی طاقتور اور منہ زور ہوگئی تھی۔امیر علی کمزور پڑ گئے تھے بہت کچھ سن کر بھی ان سنی کردیتے مگر ذیان کا معاملہ کچھ اور ہی صورت میں چل پڑا تھا۔
وہ منہ سے اب بھی نہیں بولتی تھی مگر خاموش سرد نگاہوں سے زرینہ آنٹی کو دیکھتی ضرور تھی۔
اپنی زندگی میں مگن امیر علی کو پلوں کے نیچے بہت سا پانی گزر جانے کا احساس تک نہ ہوا۔ ذیان ان سے بہت دور جاچکی تھی اب وہ چاہنے کے باوجود بھی اسے واپس نہیں لا سکتے تھے۔ درمیان میں وقت کے ظالم فاصلے حائل تھے۔ وہ اب تین چار سالہ ذیان نہیں رہی تھی کالج کی طالبہ کے نوجوان لڑکی کے روپ میں ڈھل چکی تھی۔
رگوں میں رچی بسی تلخی نے اسے زہریلا بنا دیا تھا۔ کچھ بھی پہلے جیسا نہیں رہا تھا۔ بچپن میں انہوں نے ذیان پہ توجہ نہیں دی۔ زرینہ سے شادی کر کے وہ اس کی طرف سے بے فکر تھے وہ قطعی طور پہ لاعلم تھے کہ زرینہ نے ذیان کے معصوم بچپن کو زہر آلود کردیا ہے۔
انہوں نے خود ہی تو زرینہ بیگم کو سب کچھ بتایا تھا اپنی نفرت، کھولن کڑواہٹ سب کے سب راز خود اپنے ہاتھوں زرینہ کو پیش کئے۔
اس نے وہ سب ہتھیار بے دریغ ذیان پہ استعمال کئے۔ شروع میں ہی زرینہ نے ان کی انا کے غبارے میں جو ہوا بھری وہ بہت بعد میں جا کر نکلی۔ انہوں نے جیتے جی صحت مندی، خوشحالی کے زمانے میں ہر چیز کا مالک زرینہ کو بنا دیا۔ گھر، کاروبار، جائیداد، سب کچھ انہی کے تو نام تھا۔ وہ اب کس برتے پہ اکڑتے۔ خاموش ہو کر رہ گئے تھے۔
ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے بھی ذیان اور وہ سب ایک دوسرے کے لئے اجنبی تھے۔
اپنی سوکن کی اولاد کو اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے ہی گھر میں چلتے پھرتے دیکھنا زرینہ کے لئے اذیت ناک تجربہ تھا۔
اتنے برس اس نے برداشت کیا تھا اب ہمت جواب دے گئی تھی امیر علی کی پہلی بیوی اور بیوی بھی ایسی جس سے وہ خود بھی شدید نفرت کرتے تھے اور زرینہ، امیر علی سے بھی زیادہ ذیان سے نفرت کرتی تھی۔
رابیل، آفاق اور مناہل کو اس نے ذیان کے قریب ہونے ہی نہیں دیا تھا۔
اپنی نفرت اس نے تربیت کے ذریعے اولاد میں بھی کافی حد تک منتقل کردی تھی۔
اس گھر میں بوا رحمت واحد ایسی ہستی تھیں جن سے ذیان کا قلبی و جذباتی تعلق تھا۔ وہ ایک طرح سے انکے ہاتھوں میں ہی پلی بڑھی تھی یہ بوا کا سہارا ہی تھا کہ وہ زرینہ آنٹی کی نفرت سہہ گئی تھی۔ وگرنہ پاگل ہو کر غلط راستوں کی مسافر بن جاتی۔ بوا آڑے وقتوں کا سہارا اور اس کی ڈھال تھیں۔
بہت زمانے سے یہاں اس گھر میں تھیں اس لئے امیر علی ان کا بہت احترام کرتے اور ان کی بات کو اہمیت بھی دیتے۔ بوا نے بہت ہی خاموشی سے خود کو پوشیدہ رکھتے ہوئے اپنے غیر جانبدار کردار کو عرصے تک نبھایا اور اب تک نبھاتی چلی آرہی تھی۔
گھر کا ہر فرد ان کی عزت کرتا۔ذیان کے لئے بوا کا دم غنیمت تھا۔ وہ اس کی ماں باپ دوست، استاد سب کچھ ہی تو تھیں۔
یہ بوا ہی تھیں جن کی بدولت وہ زمین پہ چل پھر رہی تھی نہ صرف چل پھر رہی تھی بلکہ اپنے پسندیدہ کالج میں پڑھ بھی رہی تھی۔ اس نے آہستہ آہستہ شکوے کرنا چھوڑ دئیے تھے۔ شاید وہ تقدیر پہ راضی و برضا تھی پر اس خاموشی میں کتنے طوفان چھپے تھے اس کا اندازہ کسی کو بھی نہیں تھا۔ اب زرینہ بیگم جلد از جلد اس کی شادی کرنا چاہ رہی تھی۔ پر امیر علی کمزور حیثیت میں ہی سہی پر انکے آڑے آرہے تھے کہ پہلے ذیان کو تعلیم مکمل کرنے دوپھر سوچا جائے گا۔
 وہاب کچھ عرصے سے بلا ناغہ انکے گھر کے چکر کاٹ رہا تھا ایسے میں ذیان جتنی جلدی اپنے گھر کی ہوتی تب اسکے دل کی پھانس بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دور ہوجاتی۔
                                     ###

Chapters / Baab of Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja