Episode 11 - Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 11 - میں گمان نہیں یقین ہوں - نبیلہ ابر راجہ

شاندار سے سجے سجائے ڈائینگ ایریا میں ملک جہانگیر، ملک ارسلان، عتیرہ، افشاں بیگم چاروں موجود تھے۔اِدھر اُدھر کی عام باتیں ہو رہی تھیں جبکہ ملک جہانگیر نے احمد سیال کا ذکر چھیڑ کر ان سب کو وہاں جانے کا بتایا۔ ملک جہانگیر کا انداز بہت خاص تھا جیسے وہ کوئی بہت ضروری بات بتانا چاہ رہے ہوں۔
”میں چیک اپ کروانے کے بعد ڈرائیور کے ساتھ احمد سیال کے گھر چلا گیا۔
وہاں میں نے کھانا کھایاا ور اس کی بیٹی سے بھی ملاقات کی“افشاں بیگم اور عتیرہ نے معنی خیز نگاہوں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ ملک جہانگیر اتنا بولنے کے بعد خاموش ہوگئے جیسے ذہن میں کچھ خاص جملے سوچ رہے ہوں۔
”میں معاذ اور ابیک کی شادی کرنے کی سوچ رہا ہوں۔ معاذ کے لئے مجھے احمد سیال کی بیٹی بہت پسند آئی ہے۔

(جاری ہے)

“ ”تو ابیک کے لئے کیا سوچا آپ نے وہ معاذ سے بڑا ہے،افشاں بیگم ان کی بات کاٹ کر تیزی سے بولیں تو ملک جہانگیر ہنس دئیے۔

”معاذ کے لئے تو میں نے لڑکی پسند کرلی ہے اب مسئلہ ابیک کا ہے تو اسکے لئے کوئی لڑکیوں کی کمی ہے ہم اپنی حیثیت کے مطابق اچھے خاندان سے اپنے بیٹے کے لئے لڑکی لائیں گے۔“ ”یہ تو بہت اچھی بات ہے“ ملک ارسلان نے بھی گفتگو میں حصہ لیا۔ ”معاذ کے لئے آپ نے لڑکی پسند کرلی ہے کیا اس کی بھی رائے لی ہے؟“ ملک ارسلان نے سوال کیا تو ایک ثانیے کے لئے وہ چپ سے ہوگئے۔
”تم عتیرہ، میں ہم سب احمد سیال کے گھر چلیں گے تم وہاں اس کی بیٹی دیکھ لینا اگر کسی فیصلے پہ پہنچے تو میں تب معاذ کو بتاؤں گا۔“ ”اس کی سر پھری طبیعت کا آپ کو پتہ ہے ناں۔ خود اسے لڑکی پسند کرنے دیں ورنہ وہ شور مچائے گا۔“ افشاں بیگم نے یہ پہلو بھی انکے سامنے رکھا۔ ”بھائی جان آپ ایسا کریں کہ چھٹیوں میں معاذ کو پاکستان بلوائیں پھر اسے بھی لڑکی کے گھر لے جا کر ایک نظر دکھا دیں اسے پسند آگئی تو رشتہ مانگ لیں گے ہم“ عتیرہ نے اپنے تئیں اچھا مشورہ دیا۔
”ہاں میں بھی یہی سوچ رہا تھا کہ معاذ چھٹیوں پہ گھر آئے تو اسے احمد سیال کے گھر لے جاؤں۔ اس کی بیٹی بھی پڑھی لکھی ہے معاذ ناپسند نہیں کرے گا“ ملک جہانگیر نے عتیرہ کی تائید کی تو ایک پرسکون مسکراہٹ اسکے لبوں پہ پھیل گئی۔
”میرے ابیک کے لئے بھی رشتہ دیکھیں”ملک صاحب“ افشاں بیگم کے لہجے میں ممتا کی گرمی اور شفقت صاف محسوس کی جاسکتی تھی۔
”ہاں وہ میرا بیٹا ہے۔ دونوں کی شادی ایک ساتھ کروں گا“ ملک جہانگیر مسکرائے۔ ”ابھی معاذ کی تعلیم مکمل ہونے میں پورا ایک سال باقی ہے تب تک ابیک کنوارا رہے گا؟“ افشاں بیگم نے بڑے ناراض انداز میں سوال کیا تھا۔ انہیں یہ بات ہضم نہیں ہو رہی تھی کہ معاذ کے لئے تو لڑکی پسند کرلی گئی تھی اور ابیک کے لئے وہ ابھی تک کسی کے گھر رشتہ مانگنے تک نہیں گئے تھے۔
انہیں اپنے شریک حیات سے شکوہ سا تھا۔ لیکن وہ بیٹے کے باپ ہونے کی حیثیت سے اس کی طرف سے ہرگز لاپرواہ نہیں تھے۔ ابیک، معاذ کے مقابلے میں سنجیدہ، باشعور، خیال کرنے والا اور اپنی ذمہ داری نبھانے والا حساس بیٹا تھا۔
وہ اسکے لئے گوناگوں خوبیوں والی ہمہ صفت بہو ڈھونڈ رہے تھے پر ابھی تک گوہر مقصود ان کی نظر میں آیا نہیں تھا ورنہ یہ کیسے ممکن تھا وہ اسے چھوڑ کر معاذ کے لئے پہلے احمد سیال کے گھر رشتہ مانگنے جاتے۔
”ابیک کے لئے بھی میں اچھا ہی سوچ رہا ہوں۔ تم اور عتیرہ اس کے لئے رشتے دیکھو۔ عورتیں تو ایسے کاموں میں بہت ہوشیار ہوتی ہیں“ ملک جہانگیر نے قصداً ہلکا پھلکا انداز اختیار کیا تو افشاں بیگم کے لبوں پہ پہلی بار پرسکون مسکراہٹ آئی۔ عتیرہ نے انکے ہاتھوں پہ اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے اپنی حمایت کا یقین دلایا۔
”بھائی جان ابیک گاؤں آئے تو اس سے بھی ڈسکس کرلیجئے گا“ ملک ارسلان بولے۔
”ہاں میں اس کے مشورے کے بغیر کچھ نہیں کروں گا“ ملک جہانگیر دل ہی دل میں کچھ سوچ رہے تھے۔
                                     ###
ابیک گاؤں واپسی کی تیاری کر رہا تھا۔ بابا جان نے اسے بلوایا تھا۔ وہ اسے اس طرح کبھی واپس نہیں بلواتے تھے۔ وہ دل ہی دل میں اپنی سوچوں سے الجھتا گاؤں واپس جارہا تھا۔
اس کی سلور مرسڈیز سیلون جب حویلی کے گیٹ سے اندر داخل ہوئی تو شام کے سائے ڈھل رہے تھے۔
سب اسے گرمجوشی اور نارمل انداز میں ملے۔
کسی کے چہرے سے بھی کوئی خاص بات ظاہر نہیں ہو پا رہی تھی۔ اس نے خود سے پوچھنا مناسب سمجھا بھی نہیں۔ ہاں رات کو جب وہ بابا جان کے پاس بیٹھا فرصت سے باتیں کر رہا تھا تب یہ عقدہ حل ہوا کہ بابا نے اسے کیوں بلوایا ہے۔
وہ ان کی بات سن کر ایک ثانیے کے لئے خاموش سا ہوگیا۔ ملک جہانگیر اس کی خاموشی سے بے نیاز اپنی باتیں کر رہے تھے۔
میں چاہتا ہوں تمہاری اور معاذ کی شادی ایک ساتھ کروں یا پھر دونوں میں سے پہلے تمہاری۔ میں اس سے بھی بات کروں گا تعلیم تو اسکی ویسے بھی مکمل ہونے والی ہے۔ مگر تم بڑے بیٹے ہو شادی کا پہلا حق تمہارا ہے۔ معاذ کے لئے میں نے اپنے دوست احمد سیال کی بیٹی دیکھ رکھی ہے۔ تمہاری اگر کوئی خاص پسند ہے تو بتاؤ۔ تمہاری مرضی اور پسند کا پورا خیال رکھا جائے گا۔
ملک جہانگیر بہت نرمی اور شفقت سے بول رہے تھے۔ ساتھ وہ اسکے چہرے کے تاثرات کا بھی بغور جائزہ لے رہے تھے۔
”بابا جان فی الحال میری شادی اور رشتے کے فیصلے کو موٴخر کردیں“ ملک ابیک کا لہجہ مضبوط اور واضح تھا۔ ”میں کون سا تمہاری چٹ منگنی پٹ بیاہ کی بات کر رہا ہوں۔ سال دوسال بعد شادی کی جاسکتی ہے۔ تم بڑے ہو قدرتی طور پہ میرا اور تمہاری ماں کا دھیان اس طرف جاتا ہے۔
“ بابا جان میں ابھی بہت بزی ہوں۔ میرے کچھ پراجیکٹس ہیں۔ مجھے پہلے انہیں مکمل کرنا ہے۔
”تم اپنے پراجیکٹس شادی کے بعد مکمل کرتے رہنا۔“بابا جان میں گاؤں میں ایک انڈسٹریل ہوم بنانا چاہتا ہوں شہری طرز کا جدید سہولتوں سے آراستہ۔ میرے ذہن میں عورتوں کی فلاح وبہبود کے حوالے سے کچھ آئیڈیاز ہیں کم از کم مجھے ان کی تکمیل کے لئے تو ٹائم دے دیں۔
“ اسکے انداز میں فرمانبرداری تھی۔ ملک جہانگیر کو وقتی طور پہ تھوڑا سکون ہوا۔ دل ہی دل میں وہ کچھ سوچ رہے تھے۔ اتنے میں ان کا سیل فون مدھر انداز میں دھن بکھیرنے لگا”معاذ کالنگ“ کے الفاظ سے موبائل فون کی اسکرین جگمگا رہی تھی۔ انہوں نے فون آن کر کے کان سے لگایا۔ کچھ دیر پہلے اسکے بارے میں بھی بات ہو رہی تھی اب اس کی کال آئی تو ملک جہانگیر باغ باغ ہوگئے۔
”کیسے ہو معاذ پتر“ وہ اپنے مخصوص شفقت بھرے انداز میں بولے۔ ”بابا جان میں بالکل ٹھیک ہوں آپ کی خیریت معلوم کرنی تھی“ اسکی پرجوش آواز سیل فون سے باہر تک آرہی تھی۔ ملک ابیک بخوبی سن رہا تھا۔ ”بابا کی جان میں بالکل ٹھیک ہوں یہ بتاؤ تم کب آرہے ہو پاکستان؟“ ”کیوں بابا جان؟“ا س نے سوال کے جواب میں الٹا سوال کردیا۔ ”تمہاری چھٹیاں تو ہونے والی ہیں ناں… تم آؤ تو تمہارے رشتے کی بات چلاؤں…“ملک جہانگیر اس کی سنے بغیر بول رہے تھے۔
”واٹ میرا رشتہ… اوہ نو“ وہ تقریباً چیخنے والے انداز میں بولا۔
”میں خود اپنی مرضی اور پسند سے شادی کروں گا“ کچھ دیر ٹھہر کر وہ اپنے مخصوص ضدی انداز میں بولا۔ ”میں نے تمہارے لئے جو لڑکی پسند کی ہے اسے خود پاکستان آ کر دیکھ لو… میں پوری گارنٹی سے کہتا ہوں تم انکار نہیں کرو گے۔ احمد سیال کی بیٹی ہے وہ“ ملک جہانگیر نے بمشکل تمام اپنے غصے پہ قابو پایا۔
انہیں معاذ کی طرف سے پہلے ہی اس بات کا خدشہ تھا کہ شائد ہی وہ ان کی مانے اور اس نے سب شرم لحاظ بالائے طاق رکھتے ہوئے انکے خدشے کو حقیقت کے روپ میں ڈھال دیا۔ ”بابا جان میں ابھی شادی نہیں کرسکتا۔“ ان کے لہجے میں غصہ محسوس کر کے وہ تھوڑا نر م پڑ گیا۔
”ابیک بھی میرے پاس بیٹھا ہے۔ کچھ دیر پہلے میں اس سے شادی کی بات ہی کر رہا تھا۔ احمد سیال میرا بہت اچھا دوست ہے اس کی بیٹی لاکھوں میں ایک ہے اچھے خاندان سے ہے۔
احمد سیال کا اپنا ایک نام ہے شخصیت ہے اسکی بیٹی کے لئے کوئی رشتوں کی کمی نہیں ہے جو وہ انتظار کریں گے۔“
”بابا جان ابھی پورا ایک سال باقی ہے میری تعلیم مکمل ہونے میں۔ اور احمد سیال انکل کی بیٹی یقینا بہت اچھی ہوگی۔ ایک سال میں بہت کچھ بدل جاتا ہے۔ میرے ذہن میں ایک آئیڈیا ہے…“
فون کے دوسری طرف موجود ہزاروں میل دور بیٹھے معاذ کی آنکھیں اپنی چالاکی پہ چمک رہی تھیں۔
”ہاں بولو…“
”بابا جان اچھی لڑکیوں کو زیادہ دیر اچھے رشتے کے لئے انتظار میں بیٹھنا نہیں پڑتا۔ مجھے آنے میں پورا ایک سال باقی ہے۔ اس عرصے میں احمد سیال انکل یقینا میرا انتظار نہیں کریں گے کہیں نہ کہیں رشتہ طے کردیں گے۔ مگر آپ ان کی بیٹی کی اتنی تعریف کررہے ہیں تو میرا مشورہ یہی ہے کہ آپ ابیک بھائی کی شادی اس کے ساتھ کردیں۔
اسی بہانے میں بھی آجاؤں گا…“
فون پہ ملک جہانگیر کی گرفت اچانک ہی سخت ہوئی تھی۔ وہ اس کی بات کے جواب میں خاموش تھے بس ان کی سانسوں کی آواز ہی معاذ کے کانوں تک پہنچ رہی تھی۔
اپنی چالاکی سے اس نے پوری صورت حال اپنے حق میں کرلی تھی۔ یہ جانے بغیر کہ بابا جان کے دل پہ اس وقت کیا گزر رہی ہے۔
                                   ###

Chapters / Baab of Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja