Episode 17 - Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 17 - میں گمان نہیں یقین ہوں - نبیلہ ابر راجہ

رنم نے اپنے گھر سے کچھ ضروری چیزیں لینی تھیں وہ ایسے وقت آئی جب احمد سیال گھر پہ ہی تھے۔ وہ آدھ گھنٹہ پہلے ہی پہنچے تھے۔ وہ پپا کے گلے لگ گئی”پپا میں ٹائم پہ پہنچی ہوں ناں“ وہ شوخی سے انکی آنکھوں پہ لگے گلاسز اتار کر خود پہنتے ہوئے بولی۔ ”ہاں تم اور میں دونوں ٹائم پہ آئے ہیں کھانا اکٹھے کھائیں گے“ ”او کے پپا میں Change کر کے آتی ہوں ساتھ مجھے اپنے کپڑے لینے ہیں۔
واپس بھی تو جانا ہے ناں۔“ ”ہاں تم نے جو کرنا ہے کرو جب تک کھانا بھی لگ جائے گا۔“ ”اوکے پپا“ وہ بال جھلاتی منظر سے ہٹی۔ کپڑے ملازمہ نے نکال کر رکھ دئیے تھے اور کھانا تیا رتھا۔ احمد سیال اسکے انتظار میں تھے۔ ”اگزام کی تیاری کیسی چل رہی ہے؟“ وہ واپس ڈائننگ ٹیبل پہ آکر بیٹھی ہی تھی کہ پپا نے پوچھا۔

(جاری ہے)


”پپا تیاری تو اے ون ہے… آپ سنائیں مجھے مس تو نہیں کیا۔
“ وہ مسکراتے ہوئے دریافت کرنا چاہ رہی تھی۔ ”ارے روز میں کرتا ہوں پھر یہ سوچ کر خاموش ہو جاتا ہوں دل کو تسلی دے لیتا ہوں کہ ایک دن تمہیں اس گھر سے جانا ہی تو ہے۔“ اداسی انکی آنکھوں سے عیاں تھی۔ ”اوہو پپا آپ تو”ٹپیکل فادر“ لگ رہے ہیں۔ ”رنم نے ہنستے ہوئے بریانی کی ڈش سے چاول نکالے۔ ”ہاں تم ٹھیک کہہ رہی ہو شائد بیٹی کے معاملے میں ہر باپ کی سوچ اور فکر مندی ایک جیسی ہوتی ہے۔
اینی وے تمہارے لئے ایک خبر ہے میرے پاس۔“ احمد سیال نے بغور اس کی طرف تکتے جیسے اس کا رد عمل جاننا چاہا۔ ”کیسی خبر؟“ اس نے بھنوئیں اچکائیں۔ ”میرے ایک دوست ملک جہانگیر تم نے نام تو سنا ہوگا۔ ابھی کچھ دن پہلے ہمارے گھر آئے بھی تھے۔ تم سے خیر خیریت بھی پوچھی تھی۔“ ”ہاں ہاں وہی انکل چوہدری ٹائپ سے۔“ رنم کی بے اختیار کہی گئی بات پہ احمد سیال کو ہنسی آگئی۔
”ارے وہ چوہدری ٹائپ نہیں ہے اپنے علاقے کا بہت بڑا جاگیردار ہے۔ خیر وہ اپنے بیٹے کا پروپوزل لائے ہیں تمہارے لئے۔“ میں چاہتا تھا تمہارے اگزام ہوجائیں تو تم سے شیئر کروں پر تم آئی تو دیکھ کر رہا نہیں گیا۔ انہوں نے وضاحت دی۔ ”پپا ابھی تو میں بہت بزی ہوں۔ بعد میں اس ٹاپک پہ بات ہوگی۔ ”وہ جلدی جلدی کھانا کھا رہی تھی۔ ”ایز یو وش بیٹا۔
“ ہمیشہ کی طرح اس با ربھی احمد سیال نے بال اسکے کورٹ میں ڈال دی۔ کم سے کم انہوں نے رنم کو اس پروپوزل کی بابت بتا تو دیا تھا۔ باقی کا بعد میں سوچنا تھا۔
رنم کھانے کے بعد زیادہ دیر رکی نہیں جلدی جلدی چلی گئی۔
                                            ###
اگزام شروع ہونے والے تھے۔ درمیان میں صرف دو دن باقی تھے اور راعنہ کا دل پڑھائی میں کم اور خیالوں میں زیادہ ڈوبا ہوا تھا۔
اس کی اس کیفیت کو سب ہی نوٹ کر رہے تھے۔ فراز کئی بار ڈانٹ چکا تھا۔ اشعر آیا ہی نہیں تھا۔ رنم الگ بیٹھ کر پڑھ رہی تھی۔ راعنہ کی طرح وہ بھی الجھی ہوئی تھی۔ پپا نے پروپوزل کی بات بتا کر اس کی توجہ منقسم کردی تھی۔ اگر وہ اس کے اگزامز ہونے تک انتظار کرلیتے تو اچھا تھا۔ یہ رنم کی اپنی سوچ تھی۔ وہ جوانی کی حد میں قدم رکھ چکی تھی۔ لڑکوں کے ساتھ اس کی فرینڈ شپ تھی اکٹھے گھومنا پھرنا شاپنگ، پکنک، مکس گید رنگ سب کچھ ہی تو تھا پر اس نے بھولے سے بھی نہ سوچا تھا کہ شادی بھی ہوگی۔
”پپا نے تو ڈسٹرب ہی کردیا ہے۔“ اس نے جھنجھلا کر خود سے کہا۔ کومل نوٹ کر رہی تھی کہ اس کا پڑھائی میں دھیان نہیں ہے۔ ”کیا ہوا رنم۔ تم کچھ اپ سیٹ نظر آرہی ہو؟“ کومل نے اپنائیت سے پوچھا تو راعنہ اور فراز بھی متوجہ ہوگئے۔ ”یار میں گھر گئی تھی…“ وہ بولتے بولتے رک گئی۔ جیسے الفاظ جمع کر رہی ہو۔ ”ہاں پھر کیا ہوا گھر گئی تھی تو…؟“ فراز نے بے تابی سے پوچھا۔
کومل اور راعنہ نے معنی خیز نگاہوں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔
کچھ تو تھا فراز کے انداز میں جو خاص تھا۔ ”میرے لئے ایک پروپوزل آیا ہے۔ پپا بتا رہے تھے۔“ اس نے عجیب سے اندازمیں کہا تو کومل چیخ ہی پڑی۔ ”کیسا پروپوزل؟“ فراز نے خاصی ناگواری سے کومل کی طرف دیکھا اس میں چیخنے کی تُک نہیں تھی۔ راعنہ نے بھی ناراضگی سے کومل کو آنکھیں دکھائیں۔
”ہاں یار پروپوزل۔ پپا کے کوئی فرینڈ ہیں ان کابیٹا ہے۔“ اس نے رسان سے بتایا تو کومل نے فراز کے چہرے پہ کچھ تلاش کرنا چاہا پر ہمیشہ کی طرح ناکامی ہوئی۔ ”پھر تم نے دیکھا کیسا ہے کون ہے کیا کرتا ہے؟“ کومل کو عجیب سی کھوج لگی تھی”مجھے کل ہی تو پپا نے بتایا ہے کیسے دیکھتی نہ مجھے اس کے بارے میں زیادہ علم ہے۔“ وہ چڑ سی گئی۔ ”اوہ اچھا اچھا ایزی رہو“ راعنہ نے کومل کو گھورا”تم دیکھ نہیں رہی رنم ڈسٹرب ہے“ ”اوکے میں اب کسی سے کچھ بھی نہیں کہتی“ کومل نے منہ پھلا لیا۔
”مجھے اتنا ہی پتہ ہے جو پپا نے بتایا ہے۔ میں نے کوئی سوال اپنی طرف سے نہیں کیا۔ ”رنم کومل کی خفگی محسوس کر کے رسان سے گویا ہوئی۔ ”کتنا مزا آئے گا ناں رنم تمہاری شادی پہ۔“ کومل کا یہ جملہ بیساختہ تھا۔ راعنہ اور فراز مسکرانے لگے۔ یہ طے تھا وہ بدلنے والی نہیں تھی۔ ”پھر تم ہاں کردو گی لڑکے والے جب تمہارے گھر آئیں گے؟“ کومل کی طرف سے ایک اور احمقانہ سوال آیا۔
جس کا جواب رنم نے عقل مندی حاضر دماغی سے دیا۔
”یہاں ساری بات میری مرضی کی ہے۔ زبردستی والا حساب نہیں ہے۔ نہ پپا مجھے پریشرائز کرسکتے ہیں۔ انہوں نے ساری بات مجھ پہ چھوڑ دی ہے۔اگر لڑکا اسکے گھر والے مجھے پسند آئے تو بات آگے بڑھے گی ورنہ نہیں…“اسکے لہجے کا اعتماد قابل دید تھا۔ راعنہ نے رشک سے اس کی سمت دیکھا۔ ”کتنی لکی ہو تم رنم۔
“فراز اس دوران خاموشی سے ان کی باتیں سن رہا تھا۔
کومل اور راعنہ کسی کام سے باہر گئیں تو رنم نے کھل کر پروپوزل کے بارے میں اس سے بات کی۔ آخر وہ اس کا”کلوز فرینڈ“ تھا۔ اس نے پورے سکون سے رنم کی بات سنی مناسب مشورے سے نوازا تو وہ بالکل ہلکی پھلکی ہوگئی۔ فراز ایسا ہی حساس اور مخلص دوست تھا۔ اس سے شیئر کرلینے کے بعد رنم خود کو ہر بوجھ سے آزاد محسوس کرتی۔
                                         ###
روبینہ، وہاب کا مطالبہ سن کر دونوں ہاتھوں سے سر پکڑ کر بیٹھی تھی۔ وہاب اطمینان سے کرسی پہ بیٹھا پاؤں ہلا رہا تھا۔ روبینہ کو ایسے محسوس ہو رہا تھا جیسے سب اس کی سماعت کا دھوکہ ہو جو کچھ دیر قبل اس نے سنا۔
”امی آپ میرا رشتہ لے کر زرینہ خالہ کے گھر جائیں فوراً۔“ وہ بالکل عام سے لہجے میں بات کر رہا تھا۔
”تمہیں میں نے اس دن بتایا تو تھا کہ امیر علی خاندان سے باہر رشتہ نہیں دیں گے ساتھ ذیان ابھی پڑھ رہی ہے۔“ زرینہ سے کی گئی تازہ ترین گفتگو انکے ذہن میں تازہ تھی وہ بھلا کس برتے پہ اس رشتے کی حمایت کرتی۔ ”انہیں ذیان کا رشتہ ہر حال میں مجھے دینا ہوگا۔“ وہاب کے انداز میں جارحیت تھی۔
”ان کی بیٹی ہے ذیان مرضی ہے ان کی رشتہ دیں نہ دیں۔
ساتھ وہ تو تمہیں پسند نہیں کرتی۔ آج تک سیدھے منہ اس نے تم سے بات تک تو کی نہیں اور تم شادی کے لئے مرے جارہے ہو۔ حد ہوتی ہے اپنی بے عزتی کروانے کی۔“ روبینہ نے اس کی سوئی غیرت کو للکارنا چاہا پر اس کا الٹا ہی اثر ہوا۔ ”شادی سے پہلے سب لڑکیاں ایسی ہی ادائیں اور نخرے دکھاتی ہیں بعد میں سیٹ ہوجاتی ہیں۔ذیان کو بھی آپ اس حال میں دیکھیں گی کہ میرا گھر سنبھال رہی ہوگی۔
میرے بچے پال رہی ہوگی۔“ جوش جذبات میں وہ ضرورت سے زیادہ ہی بول گیا تھا۔
”چھوڑ دے یہ خواب دیکھنا وہاب۔ میری بات مان جاؤ۔“ ”امی آپ سے بول دیا ہے ناں۔ آپ ذیان کے لئے جائیں گی کہ نہیں ورنہ میں اسے اغوا کر کے زبردستی نکاح پڑھا لوں گا اگر وہ مجھے نہ ملی تو اسے گولی ما ر کر خود بھی مرجاؤں گا۔“وہاب کے لہجے میں مذاق کا شائبہ تک نہ تھا۔
روبینہ ماں تھی اندر تک دہل کر رہ گئی۔ کچھ بھی تھا وہ اپنے کڑیل جوان بیٹے کو خود کشی کرتے دیکھ نہیں سکتی تھی۔
ذیان اس کے لاڈلے بیٹے وہاب کی محبت تھی۔ وہ بیٹے کی خاطر زرینہ کے آگے جھولی پھیلانے جائے گی۔ کیا ہوا جو ذیان وہاب کو یا ان سب گھر والوں کو منہ نہیں لگاتی۔ وہ وہاب کی خوشی کے لئے یہ بھی برداشت کرلے گی۔ اس طرح وہاب تو خوش رہے گا ناں۔
وہ زرینہ کو بھی سمجھائے گی پرانی رنجشوں کو بھول جائے آخر کو اتنے سال گزر گئے ہیں۔ کچھ بھی ہو وہ وہاب کو کسی بھی قسم کا نقصان پہنچتے نہیں دیکھ سکتی تھی۔
                                             ###

Chapters / Baab of Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja