Episode 19 - Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 19 - میں گمان نہیں یقین ہوں - نبیلہ ابر راجہ

ذیان بستر کی چادر جھاڑ کر ٹھیک کر رہی تھی جب بیڈ روم کے دروازے پہ نامانوس سی دستک ہوئی۔ وہ کچھ سوچتی ہوئی دروازے کی طرف آئی اور کھول دیا۔ باہر حیرت انگیز طور پہ زرینہ آنٹی کھڑی تھیں۔ اس کی حیرت سے محظوظ ہوتے ہوئے وہ اس پہ ایک نظر ڈال کر کمرے کے اندر آ کر اسکے بیڈ پہ بیٹھ گئیں۔ ”کیا ہو رہا تھا؟“ انہوں نے بہت اپنائیت سے پوچھتے ہوئے حیرت کا ایک اور بم اسکے حواسوں پہ گرایا جبکہ وہ ابھی پہلے سے بھی نہیں سنبھلی تھی۔
زرینہ شاذو نادر ہی اسکے کمرے میں آتی تھیں اتنی اپنائیت سے مخاطب کرنا سوچنا بھی محال تھا۔
”میں سونے کی تیاری کر رہی تھی“ حیرت کے پے درپے لگنے والے جھٹکے سے سنبھل کر ذیان بمشکل تمام جواب دینے کے قابل ہوئی۔ ”آج کل تم اپنے بیڈ روم سے باہر ہی نہیں نکلتی اس لئے میں خود ہی تمہارے پاس آگئی ہوں۔

(جاری ہے)

“ وہ اسے قریبی سہیلی کی طرح بات کر رہی تھیں۔

”بس ایسے ہی۔“ وہ اتنا ہی کہہ سکی۔ زرینہ اس کی حیرت کو خوب اچھی طرح سمجھ رہی تھیں پر لمبی تمہید میں وقت ضائع کرنے کے موڈ میں ہرگز نہیں تھی۔ اس لئے بہت جلد اصل بات کی طرف آگئیں۔ ”میں تمہارے پاس بہت ضروری بات کرنے آئی ہوں“ انہوں نے بات کا آغاز کیا۔ ذیان سانس روکے جیسے ان کی طرف متوجہ تھی۔ ”کہنے کو تو میں ہمیشہ سوتیلی ماں ہی رہوں گی مگر تمہاری بہتری کا فیصلہ سگی ماں کی طرح کروں گی۔
ذیان نے نگاہیں اٹھا کر ان کی طرف دیکھا۔ یقینا وہ ایک بہترین اداکارہ تھیں”تم اس وقت مجھے اپنی ماں، دوست ہمدرد کچھ بھی کہہ سکتی ہو… تمہارے ابو تمہاری شادی کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ انہوں نے مجھے تمہارا عندیہ معلوم کرنے بھیجا ہے۔ اگر تم کسی کو پسند کرتی ہو تو بتا دو۔ ہم مناسب طریقے سے تمہاری اس کے ساتھ شادی کردیں گے“ اف اس کی سماعتوں کے قریب جیسے کوئی بم پھٹا۔
اس کا چہرہ لال ہوگیا۔ ابو اسکے بارے میں کیسے سوچ سکتے ہیں کہ وہ کسی کو پسند کرتی ہے یا اسکے ساتھ شادی کرنا چاہتی ہے…“ تم پریشان مت ہو۔ اس کا نام بتاؤ۔ تمہارے ابو کو راضی کرنا میرا کام ہے“ زرینہ اسکے چہرے پہ تذبذب کے آثار دیکھ کر جھٹ بولی”میں کسی کو بھی پسند نہیں کرتی نہ کسی سے شادی کرنا چاہتی ہوں۔“
اس نے شرم و خجالت کے ملے جلے تاثرات سمیت کہا۔
زرینہ کے چہرے پہ اطمینان سا ابھر آیا گویا اس کا اندازہ غلط ثابت ہوا تھا۔ ”تمہارے ابو رشتہ ڈھونڈ رہے ہیں ملنے جلنے والوں کو کہہ رکھا ہے جیسے ہی اچھا گھرانہ نظر میں آیا تمہیں رخصت کردیں گے۔“ زرینہ مزے سے بول رہی تھیں۔ ”مجھے ابھی شادی نہیں کرنی۔“ وہ چیخ کر بولی۔ ”تو کیا کرو گی۔ اپنی ماں کی طرح خاندان کی عزت اچھالو گی۔“ زرینہ بیگم سے زیادہ دیر اداکاری نہیں ہو پا رہی تھی اس لئے بہت جلد مصنوعی چولے سے باہر آگئیں۔
ذیان کے دل میں جیسے ایک تیر ترازو ہوگیا۔ ”اپنی ماں کی طرح عاشقوں کی لائن لگاؤ گی تو مبارک ہو۔ وہاب کی صورت میں تمہیں جان لٹانے والا پاگل مل گیا ہے۔“ زرینہ کا لہجہ زہر میں ڈوبا ہوا تھا۔ ”میری طرف سے بھاڑ میں جائے وہاب۔ میں اس کی شکل تک نہیں دیکھنا چاہتی۔“ ذیان بھی زیادہ دیر اپنی نفرت چھپا نہ پائی۔ ”تم اس کی شکل نہیں دیکھنا چاہ رہی پر وہ تمہیں پانے کے لئے پاگل ہو رہا ہے۔
اس کی ماں آئی تھی میرے پاس۔ وہاب تمہیں پانے کے لئے ہر جائز ناجائز حربہ استعمال کرے گا۔“ ”اسے شادی کرنی ہے۔“ وہ جیسے پھٹ سی پڑی۔ مجھے پتہ ہے تم اسے پسند نہیں کرتی مگر وہ صرف تم سے ہی شادی کرنا چاہتا ہے۔ میرے یا تمہارے انکار کی اسکے سامنے کوئی اہمیت نہیں ہے۔ انکار کی صورت میں وہ تمہیں زبردستی اٹھوا کر نکاح پڑھا سکتا ہے۔ مجھ پہ یقین نہ آئے تو روبینہ آپا سے پوچھ لو ابھی کال ملا کے دیتی ہوں۔
وہ خود اس وجہ سے بے پناہ پریشان ہیں۔ میرے پاس مدد مانگنے آئی تھیں کہ کسی طرح وہاب کو اس کے اس ارادے سے باز رکھا جاسکے۔“
”میں مر کر بھی وہاب سے شادی نہیں کرنا چاہتی۔“ آنسو ذیان کی آنکھوں سے باہر مچلنا چاہ رہے تھے اس نے بمشکل انہیں پلکوں کی باڑھ سے پرے سمیٹ رکھا تھا۔ ”مجھے پتہ ہے تمہیں وہاب ناپسند ہے۔ اس لئے میں نے روبینہ آپا کو صاف انکار کہلوا دیا ہے تبھی وہاب جنونی ہو رہا ہے۔
زرینہ آنٹی ایک کے بعد ایک روح فرسا خبر سنا رہی تھیں۔
”مجھے وہاب سے نہ کسی اور سے شادی کرنی ہے۔“ اس کی آنکھیں غصے کی شدت سے لال ہو رہی تھیں۔ ”میری چندا وہاب کے ہاتھوں بے آبرو ہونے سے بچنے کے لئے تمہیں کسی نہ کسی سے شادی کرنی ہی ہوگی۔“ زرینہ آنٹی نے ایک بار پھر اسے حقیقت کا آئینہ دکھانے کی کوشش کی۔ ذیان بالکل خاموش تھی۔
اس کی نگاہیں کسی غیر مرئی نقطے پہ جمی تھیں۔ ”تم اچھی طرح سوچ لو۔ میں تمہارے لئے اچھے خاندان میں رشتہ ڈھونڈوں گی آخر کو تم میری سوتیلی بیٹی ہو۔“ اس بار زرینہ کا لہجہ مصنوعی نہیں تھا۔ شاید ذیان کی اس بے بسی و کسمپرسی پہ اسے ترس آگیا تھا۔
وہ اسے ترس آمیز نگاہوں سے دیکھتی چلی گئی تھی۔
بہت دیر بعد اٹھ کر ذیان نے دروازہ بند کیا۔
اس نے کمرے کی سب لائٹیں آف کردیں۔ کمرے میں رکھے ساؤنڈ سسٹم سے قدرے دھیمی آواز میں زرینہ بیگم کے آنے سے پہلے میوزک پلے تھا۔ انکے آنے اور جانے کے بعد بھی وہ یکساں رفتار سے چل رہا تھا۔ اسے انسانی احساسات و جذبات سے کوئی سروکار نہیں تھا۔
پر علی عظمت کا آنسو، ذیان کے دل کے کئی پرانے درد جگا گیا تھا۔ وہ کھڑکی کے پاس کھڑی سب پردے سرکائے باہر اندھیرے میں دیکھتی بے آواز آنسوؤں سے رو رہی تھی۔
ساری عمر اس نے اپنی ماں کے حوالے سے طعنے الزام تراشیاں برداشت کی تھیں۔ اس ماں کے حوالے سے جس کا نام لینا بھی امیر علی کے گھر میں جرم تھا۔ اپنی ماں کی شکل تک اسے یاد نہیں تھی۔
نہ ماں کی ممتا اور گود کے حوالے سے اسکے ذہن کے نہاں خانوں میں کچھ محفوظ تھا۔ ہوش سنبھالنے سے پہلے ہی وہ”ماں“ جیسے وجود سے ناآشنا تھی۔ یہاں اس کے حوالے سے دئیے جانے والے طعنے تو جیسے جنم جنم سے اس کے ساتھی تھے۔
بچپن میں اس کا بہت دل چاہتا کہ وہ ماں کے پاس رہے وہ اس کے لاڈ اسی طرح اٹھائے جیسے زرینہ آنٹی اپنے بچوں کے اٹھاتی ہیں۔ پر یہ صرف اس کا خواب ہی رہا۔
 امیر علی نے اسے شروع سے ہی اچھی طرح باور کرادیا تھا کہ اپنی ماں کا نام بھول کر بھی مت لینا نہ یاد کرنا۔ ہاں زرینہ آنٹی وقت بے وقت اس کی ماں کو گالیوں، طعنوں اور الزام تراشیوں سمیت یاد کرتیں تب امیر علی انہیں کچھ نہ کہتے بلکہ خود بھی حسب توفیق گالیوں میں حصہ ڈالتے۔
ذیان کے چھوٹے سے دل پہ قیامت گزر جاتی۔ اس نے شروع سے ہی ماں کے حوالے سے اتنا کچھ سنا تھا کہ اب اسے لفظ ماں ہی سے خوف آنے لگا تھا۔ امیر علی جب غصے میں ہوتے تو اسے وارننگ دیتے کہ اپنی ماں جیسی مت بننا۔ کیا اس کی ماں اتنی بری اور قابل نفرت تھی؟ کم سے کم زرینہ آنٹی اور ابو نے اسے یہی باور کرایا تھا۔ ہاں اس کی ماں سچ مچ بری تھی اچھی ہوتی تو اسے ساتھ لے جاتی ناں۔
اگر امیر علی نے زبردستی ذیان کو ماں سے الگ کردیا تھا تو وہ اسے عدالت کے ذریعے حاصل کرلیتی ناں۔ پر نہیں وہ اس کی ماں کب تھی۔ وہ تو ڈائن تھی جو اسے چھوڑ کر اپنی نئی دنیا بسانے چل پڑی تھی۔
اس کی دنیا میں ننھی ذیان کے لئے جگہ نہیں تھی۔ اور زرینہ کی دنیا میں بھی تو ذیان کے لئے جگہ نہیں تھی ناں۔ اس کا پورا چہرہ آنسوؤں سے بھیگ چکا تھا۔
تنہا تنہا جیون کے
کیسے دن گزاریں
سن لو سن سکو تو تم کو آنسو پکاریں
چلتے چلتے سوچے کیوں ہے دوری
جائیں گے کہاں
خواہش تو نہ ہوگی پوری جائیں گے کہاں
سن لو سن سکو تو تم کو آنسو پکاریں
ساتھ دل کے چلے دل کو نہیں روکا ہم نے
جو نہ اپنا تھا اسے ٹوٹ کے چاہا ہم نے
اک دھوکے میں کٹی عمر ساری ہماری
کیا بتائیں کسے پایا کسے کھویا ہم نے
دھیرے دھیرے دھیرے کوئی چاہت باقی نہ رہی
جینے کی کوئی بھی صورت باقی نہ رہی
ٹوٹے ٹوٹے جو ہیں میرے بہتے آنسو ہی تو ہیں
زندگی کا حاصل اپنی آنسو ہی تو ہیں…
                                           ###

Chapters / Baab of Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja