Episode 20 - Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 20 - میں گمان نہیں یقین ہوں - نبیلہ ابر راجہ

وہ بے دلی سے چھوٹے چھوٹے لقمے توڑ کے کھانا کھا رہی تھی۔ بوا دو دن سے اس کی غیر معمولی خاموشی نوٹ کر رہی تھیں۔ حالانکہ وہ پہلے بھی اتنا زیادہ بولتی نہیں تھی پر ایسی گم صم بھی تو نہیں تھی جیسی اب تھی ڈری سہمی اپنے ہی خیالوں میں گم۔ بوا کو ذیان اور زرینہ بیگم کے مابین ہونے والی گفتگو کا علم نہیں تھا ورنہ وہ ضروربات کی تہہ تک پہنچ جاتیں۔
”ذیان کیا بات ہے دو دن سے بہت چپ چپ ہو۔
کوئی پریشانی ہے تو بتاؤ۔“ 
بوا سے رہا نہیں گیا تو پوچھ ہی بیٹھیں۔ ”مجھے یہ بتائیں کہ میری ماں کو مجھ سے پیار تھا کہ نہیں۔“ ذیان کا لہجہ بہت سرد تھا پر بوا تو مارے خوف کے سن ہوگئی۔ انہوں نے فوراً اِدھر اُدھر دیکھا کہ کسی نے ذیان کا وہ سوال سنا کہ نہیں۔ ”ذیان بیٹی اس وقت یہ خیال کہاں سے تمہارے ذہن میں آگیا ہے۔

(جاری ہے)

“ وہ ابھی بھی خوف کے زیر اثر بہت آہستہ آواز میں بول رہی تھیں۔

جواباً ذیان عجیب سے انداز میں ہنس پڑی۔ عجیب دیوانوں والی مسکراہٹ تھی”مجھے پتہ ہے آپ بھی اس بارے میں بات کرتے ہوئے ڈرتی ہیں اس لئے کبھی بھی نہیں بولیں گی آپ۔“ وہ کتنی جلدی حقیقت کی تہہ تک پہنچ گئی تھی۔ بوا نے اس سے نظر چرالی۔ ذیان کے چہرے کی حسرت، کرب اور دکھ کا سامنا کرنا اتنا آسان کہاں تھا ان کے لئے۔ ”بوا جن بیٹیوں کی مائیں انہیں ایسے لاوارث چھوڑ کر چلی جاتی ہیں ناں وہ بیٹیاں پھر لوٹ کا مال بن جاتی ہیں۔
جس کا داؤ لگتا ہے جیب میں ڈال کر چلتا بنتا ہے۔“
”اللہ نہ کرے میری بچی… ہم سب ہیں ناں۔ تم کوئی لاوارث نہیں ہو۔“ بوا کے دل کو دکھ نے جکڑا۔ انہوں نے بے اختیار لپک کر ذیان کو سینے سے لگا لیا۔ ”میں لاوارث ہوں بوا۔ مجھے جھوٹی تسلیوں سے نہ بہلائیں۔ ابو تو خود فالج کے مریض ہیں میری کہاں حفاظت کرسکتے ہیں۔“ وہ ان کی آغوش سے نکل کر دور جا کھڑی ہوئی۔
بوا کے جھریوں بھرے چہرے پہ فکروتفکر کا جال بچھا ہوا تھا۔ نہ جانے ذیان آج ایسی تلخ تلخ باتیں کیوں کر رہی تھی۔ گہری گہری پراسرار باتیں۔ مبہم اور الجھی ہوئی۔ بوا کو الجھی ڈور کا سرا سلجھانے سے ڈر لگ رہا تھا۔
                                       ###
”میں نے رشتے کرانے والی ایک عورت بیگم اختر سے ذیان کے لئے کوئی اچھا سا رشتہ ڈھونڈنے کے لئے کہا تھا۔
کل وہ اسی سلسلے میں آئی تھی میرے پاس۔“ زرینہ کمبل اچھی طرح اوڑھانے کے بعد امیر علی کے پاس بیٹھ گئی تھیں وہ انہیں اپنی کار گزاری بتانے کے لئے بہت بے چین تھیں پر انہوں نے تو خاص توجہ ہی نہیں دی بس خاموش رہے۔ زرینہ کو بے طرح غصہ آیا۔ ”آپ کچھ بولیں تو سہی۔“ ”میں کیا بولوں بھلا؟“ امیر علی کے الفاظ میں بے چارگی نمایاں تھیں۔ ”جو رشتہ بیگم اختر نے بتایا ہے اب وہ ذیان کو دیکھنے کے لئے ہمارے گھر آنا چاہ رہے ہیں۔
“ ”ہاں تو آئیں بے شک میں نے کب منع کیا ہے۔“ وہ عام سے بے تاثر، لہجہ میں بولے۔ زرینہ نے توجہ نہیں دی اس کے لئے یہی بہت تھا کہ امیر علی کو لڑکے والوں کو اپنے گھر آنے پہ اعتراض نہیں تھا۔ ”آپ اسی ہفتے میں کوئی دن بتا دیں تاکہ میں بیگم اختر کو بتاؤں پھر وہ لڑکے والوں کو لے کر ہمارے گھر آجائیں گی۔“ وہ پھر سے پرجوش ہو رہی تھیں۔ ”تم خود ہی بتا دو ان کو جو دن اور ٹائم مناسب لگتا ہے۔
“ امیر علی نے ساری ذمہ داری اسکے سر ڈال دی۔ زرینہ کی آنکھیں مارے خوشی کے چمک اٹھیں۔ اب ذیان کو اس گھر سے دفعان ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا تھا۔ انہیں صرف بیگم اختر کو مطلع کرنا تھا۔ بیگم اختر نے تو لڑکے اور اس کے خاندان کی بہت تعریفیں کی تھیں۔
روبینہ بیگم کا سیل فون مسلسل بج رہا تھا۔ وہ باہر لان میں تھیں۔ وہاب ٹی وی لاؤنج میں ٹی وی دیکھ رہا تھا روبینہ کا سیل فون وہیں ٹی وی کے پاس رکھا تھا۔
مسلسل بجتے فون کو اس نے ناگواری سے دیکھا اور بادل نخواستہ ہاتھ بڑھا کر اٹھالیا وہ فون بند کرنا چاہ رہا تھا پر زرینہ خالہ کی کال دیکھ کر ارادہ ملتوی کردیا اور فون آن کر کے کان سے لگا لیا۔ ”آپا آپ کہاں ہیں فون کیوں نہیں اٹھا رہی ہیں؟آپ کو ایک بات بتانی تھی“ دوسری طرف زرینہ وہاب کے ہیلو کہنے سے بھی بیشتر شروع ہوگئی تھی اسکے لہجے میں ہیجان صاف محسوس کیا جاسکتا تھا۔
”خالہ امی باہر لان میں ہیں ایک منٹ ہولڈ کریں آپ کی بات کرواتا ہوں۔“ وہاب کی آواز کان میں پڑتے ہی زرینہ فوراً سنبھل گئی اور باقی بات زبان تلے روک لی۔ شکر تھا اس نے کچھ اور نہیں بول دیا تھا۔
وہاب نے فون روبینہ کے حوالے کیا اور خود دروازے کے پاس ٹھہر گیا۔ زرینہ خالہ کے لہجے میں اتنا جوش اور خوشی تھی کہ وہ سبب جاننے کے لئے وہیں رک سا گیا۔
پر روبینہ تو بہت آہستہ آواز میں بات کر رہی تھیں انہوں نے دروازے کے پاس موجود وہاب کی جھلک دیکھ لی تھی۔ اس لئے اِدھر اُدھر کی چند باتیں کرنے کے بعد فوراً ہی رابطہ منقطع کردیا تھا۔ وہاب کے جانے کے بعد انہوں نے بہن سے تفصیلی بات کرنی تھی۔ اس نے خبر ہی ایسی دی تھی کہ ذیان کو دیکھنے کے لئے ایک فیملی آرہی ہے وہاب آفس کے لئے نکلے تو آپ بھی آجائیں۔
وہاب رات دوستوں کے ساتھ باہر نکلا تو تب روبینہ نے بہن کو دوبارہ کال کی۔ انہیں کھد بھد سی لگی ہوئی تھی۔ اس وقت وہاب گھر تھا وہ کچھ بھی پوچھ نہ پائی تھیں۔ اب کرید کرید کر ایک ایک بات پوچھ رہی تھیں۔ ”آپا۔ بیگم اختر بتا رہی تھی کہ لڑکے والوں کو شادی کی جلدی ہے وہ ایک ماہ کے اندر اندر بیٹے کی شادی کرنا چاہ رہے ہیں پھر آپ کی میری سب کی جان ذیان نامی سو نامی سے چھوٹ جائے گی۔
“ زرینہ تنفر سے بتا رہی تھی۔ ”دعا کرو کہ وہاب شور نہ مچائے۔“ روبینہ متفکر تھی۔ ”آپا آپ وہاب کو کچھ دن کے لئے لاہور بجھوا دیں ناں۔“ زرینہ نے جھٹ مشورہ دیا جو انکے دل کو لگا۔ ”ہاں اگلے مہینے ارشاد بھائی کے بیٹے کی شادی بھی تو ہے۔“
انہوں نے اپنے دیور کا نام لیا۔ ”پھر تو آپ سب کو جانا ہوگا۔“ زرینہ بولی۔ ”ہاں اور وہ تمہیں بھی کارڈ بھجوائیں گے۔
“ روبینہ نے یاد دلایا۔ ”میں تو نہیں جاسکوں گی۔ امیر علی کی حالت آپ کے سامنے ہے۔“ زرینہ کا عذر سچا تھا۔ ”میری کوشش ہے کہ ذیان کی شادی جتنا جلدی ممکن ہو ہوجائے۔“ ”ہاں اللہ کرے ایسا ہوجائے۔“ روبینہ نے صدق دل سے کہا۔ ”آپ کوشش کرنا وہاب کو ذیان کے رشتے یا کسی اور بات کی ہوا تک نہ لگے“ زرینہ نے فون بند کرنے سے قبل ایک بار پھر یاد دہانی کرائی تو روبینہ”ہونہہ“ کہہ کر رہ گئی۔
                                   ###
زرینہ جوش و خروش سے پورے گھر کی تفصیلی صفائیاں کروا رہی تھیں۔ وقت کم تھا کل لڑکے والے ذیان کو دیکھنے آرہے تھے۔ ثمینہ نے سب کمروں کی کھڑکیوں اور دروازوں کے پردے دھو کر پھر سے لٹکا دئیے تھے۔ مالی نے سب پودوں کی از سر نو گوڈی کی اور گھاس پھونس صاف کی۔ گملے دھلنے کے بعد چمک رہے تھے پورے لان اور گھر کی حالت نکھر آئی تھی۔
مہمانوں کے استقبال کے لئے سب تیار تھے۔
زرینہ پورے گھر میں ذیان کو تلاش کر رہی تھی۔ نیچے وہ کہیں نظر نہیں آرہی تھی۔ وہ اوپر ٹیرس پہ تھی۔ زرینہ کے گھٹنوں میں تکلیف تھی سردی میں یہ تکلیف اور بھی بڑھ جاتی تھی اس لئے اس نے سیڑھیاں چڑھ کر اوپر جانے کا ارادہ ملتوی کردیا۔ بوا اندر کچن میں رات کے کھانے کے لئے مٹر چھیل رہی تھیں انہیں ذیان کے لئے مٹر پلاؤ بنانا تھا۔
زرینہ انکے پاس چلی آئی۔ بوا نے انہیں دیکھ کر مٹر چھیلنے بند کردئیے کیونکہ زرینہ بیگم کا چہرہ بتا رہا تھا وہ ان سے کوئی بات کرنے آئی ہیں۔ اور کچھ ہی دیر میں اس کی تصدیق بھی ہوگئی۔
”بوا ذیان کہاں ہے؟“ ”اوپر گئی تھی ابھی میرے سامنے۔“ ”آپ کو پتہ تو ہے کل ایک فیملی ذیان کو دیکھنے آرہی ہے۔“ زرینہ نے بات کی تمہید باندھی۔ ”جی چھوٹی دلہن آپ نے بتایا تھا کل مجھے۔
“ وہ تابعداری سے سر ہلاتے بولیں۔ ”آپ ذیان کو بھی بتا دینا۔ کل کالج سے چھٹی لے کر اور ذرا اچھے کپڑے پہن کر تیار ہو۔“
”چھوٹی دلہن میں اسے بول دوں گی پر کالج سے چھٹی نہیں کرے گی وہ۔“ بوا دبے دبے لہجے میں بولیں تو زرینہ بیگم کے ماتھے پہ بل پڑ گئے۔ ”کیوں چھٹی نہیں کرے گی۔ میں نے لڑکے والوں کو ٹائم دیا ہوا ہے بارہ بجے کا جبکہ مہارانی ذیان دو بجے کالج سے گھر آتی ہے۔
“ زرینہ کا پارہ ہائی ہونے لگ گیا تھا۔ ”وہ کہہ رہی تھی اسکے کالج میں کوئی ڈرامہ ہونے والا ہے۔ وہ ادھر ہی مصروف ہے۔ اگر لڑکے والے بارہ بجے بھی آئے تو چائے پانی ناشتے باتوں میں تین چار گھنٹے لگ ہی جائیں گے۔ ذیان بھی دو بجے تک گھر آجائے گی۔“ بوا رسان سے سمجھانے والے انداز میں بات کر رہی تھیں۔ زرینہ کا غصہ تھوڑا کم ہوگیا تھا پر بالکل ختم نہیں ہوا تھا۔ بوا سے بات کرنے کے بعد اس کی ذمہ داری قدرے کم ہوگئی تھی ویسے بھی ذیان کو بوا ہی سنبھال سکتی تھی۔
                                           ###

Chapters / Baab of Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja