Episode 21 - Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 21 - میں گمان نہیں یقین ہوں - نبیلہ ابر راجہ

گھر میں غیر معمولی چہل پہل تھی مہمان اپنے ٹائم پہ تشریف لاچکے تھے۔ ڈرائنگ روم میں سب موجود تھے سوائے امیر علی کے۔ اونچی آوازوں میں گفتگو کا سلسلہ جاری تھا۔ ذیان کالج سے لوٹی تو اونچی آوازوں نے اس کا استقبال کیا اس کی حسین سماعت خاصی تیز تھی پر جو مہمان آئے تھے وہ غالباً دوسروں کو بہرا تصور کر رہے تھے۔ اونچے قہقہے اور اسی حساب سے آواز کا والیوم بھی گونجیلا تھا۔
ذیان نے بیگ جا کر ٹیبل پہ رکھا اور حسب معمول بوا کی طرف چلی آئی جو ثمینہ کے ساتھ مل کر کھانے کے انتظامات میں مصروف تھیں۔
کھانا پکنے کے آخری مراحل میں تھا بس سرو کرنا تھا۔ رابیل، آفاق اور مناہل تینوں میں سے ایک بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ ”بوا سب کہاں ہیں؟“ ذیان نے بے دھیانی میں پوچھا ایک ثانیے کے لئے وہ جیسے مہمان اور ان کی آمد کا مقصد ہی فراموش کرگئی تھی۔

(جاری ہے)

”بیٹا سب ڈرائنگ روم میں ہیں۔ تم جاؤ کپڑے تبدیل کرلو۔ ثمینہ نے تمہارا گلابی سوٹ پریس کر کے بیڈپہ رکھا ہے ساتھ سینڈلز بھی ہیں۔“ بوا نے لجاجت سے کہا۔
”کیوں کپڑے تبدیل کروں۔“ وہ غصے میں پاؤں پٹخ کے بولی۔ ”ابو کہاں ہیں؟“ اس نے اگلا سوال کیا حالانکہ اس سوال کا جواب اسے معلوم تھا۔ ”امیر میاں اپنے کمرے میں ہیں اور کہاں جانا ہے انہوں نے۔
اللہ کسی کو محتاجی اور معذوری نہ دے۔ امیر میاں کو دیکھ کر دل کٹتا ہے۔ کیسے ہر کام جلدی جلدی کرتے تھے۔ ساری ذمہ داری اپنے سر تھی اور اب خود اوروں کے محتاج ہو کر بستر پہ پڑ گئے ہیں۔“ بوا کے لہجے میں دکھ پنہاں تھا۔ ذیان کچھ ثانیے چپ چاپ ان کا چہرہ تکنے لگی۔
”بیٹا کپڑے بدل کر مہمانوں سے مل لو۔“ بوا نے ایک بار پھر منت ریز انداز میں کہا تو وہ انکی طرف دیکھے بغیر کچن سے نکل گئی۔
ثمینہ اس دوران بالکل خاموشی سے اپنا کام کرتی رہی۔ بوا دل ہی دل میں آنے والے متوقع حالات کے بارے میں سوچ رہی تھیں۔ ذیان شاید آنے والے مہمانوں کے بارے میں سنجیدہ نہیں تھی ورنہ شور مچاتی احتجاج کرتی۔ کیونکہ بوا اس کے مزاج کی تلخی، کڑواہٹ اور درشتی سے اچھی طرح واقف تھیں۔ اس کی ناپسند سے آگاہ بھی تھیں تب ہی تو ڈر رہی تھیں۔ پر اس کا اندازہ شاید زرینہ بیگم کو نہیں تھا تب ہی تو خوشی خوشی مہمانوں سے باتیں کر رہی تھیں۔
ذیان نے جب تک کپڑے تبدیل کیے تب تک مہمانوں کے لئے کھانا لگا دیا گیا تھا۔ اس نے سوچا پہلے اپنی پیٹ پوجا کرلی جائے بعد میں مہمانوں سے بھی دو دو ہاتھ کرلیے جائیں گے۔ بھوک کی وہ ویسے بھی کچی تھی۔ وہ کپڑے تبدیل کر کے دوبارہ بوا کی طرف آئی تو وہ اسے دیکھتی رہ گئیں۔ گلابی جوڑے میں وہ بے پناہ خوبصورت لگ رہی تھی بال برش کر کے اس نے دوبارہ سنوارے تھے آنکھوں میں کاجل بھی اہتمام سے موجود تھا۔
اس نے وہیں کچن میں بیٹھ کر کھانا کھایا۔ ذیان کو مہمانوں سے ملاقات کا کچھ ایسا خاص شوق تو نہیں تھا پر ان کی تیز تیز آوازوں نے تجسس بڑھا دیا تھا۔
ثمینہ کھانے کے برتن واپس لا رہی تھی جب اس نے سب برتن اٹھا کر ٹیبل تک صاف کرلی تب ذیان مہمانوں کے دیدار کے لئے ڈرائنگ روم میں داخل ہوئی۔
”السلام علیکم“ اس نے بڑی تمیز سے اندر قدم رکھتے ساتھ ہی سلام کیا تو آنے والے سب کے سب اس کی طرف متوجہ ہوگئے۔
تین عورتوں اور دو مردوں کے ساتھ ایک اور لڑکا نما مرد بھی تھا۔ لڑکا نما مرد اس لئے کہ اسکی ڈریسنگ اور بالوں کا سٹائل رکھ رکھاؤ نوجوان لڑکے والا تھا جبکہ عمر کسی طرح بھی چونتیس سال سے کم نہیں تھی۔
”یہ میری سوتیلی بیٹی ذیان ہے۔ امیر علی کی پہلی بیوی کی بیٹی۔ پر میں نے اسے اپنی بیٹی کی طرح ہی پالا ہے۔“ زرینہ بیگم نے بظاہر بڑی محبت سے تعارف کراتے ہوئے ایک ایک لفظ پہ زور دے کر کہا لہجہ عام سا تھا پر لفظوں کی کاٹ سے ذیان اچھی طرح واقف تھی۔
”ماشاء اللہ بہت خوبصورت ہے۔“ دائیں طرف رکھے صوفے پہ بیٹھی موٹی سی خاتون نے اس کی تعریف کی۔ باقیوں کی نگاہیں بھی اس پہ مرکوز تھیں۔ ”ہمیں تو بہت پسند آئی ہے آپ کی بیٹی۔“ باقی دو عورتوں نے تعریف میں اپنا حصہ ڈالا۔ دونوں مردوں کے ساتھ ساتھ لڑکا نما مرد بھی اسے غور سے دیکھ رہا تھا۔
”جاؤ ذیان بوا سے بولو اچھی سی چائے بنائیں۔ تم چائے خود لے کر آنا۔
“ زرینہ نے بڑے آرام سے اسے وہاں سے اٹھایا۔ خود ذیان سب کی نگاہوں سے الجھن محسوس کر رہی تھی۔ وہ سیدھی بوا کے پاس آئی اور زرینہ بیگم کا آرڈر ان تک پہنچایا۔ ”کیا بات ہے کچھ پریشان نظر آرہی ہو؟“ بوا سے اسکے تاثرات پوشیدہ نہ رہ سکے۔ ”بوا بہت عجیب لوگ ہیں۔ عورتیں مرد سب مجھے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہے تھے۔“ اس کی الجھن زبان پہ آہی گئی۔
”چھوٹی دلہن کے جاننے والوں میں سے ہیں۔ سنا ہے اچھے لوگ ہیں۔“ لڑکا بھی دیکھنے کے لئے ساتھ آیا ہے کیونکہ امیر میاں خود تو لڑکے والوں کے گھر جا نہیں سکتے۔“
بوا بتا رہی تھیں۔ ذیان کے کانوں سے جیسے دھواں نکلنے لگا۔
لڑکا نما مرد یا مرد نما لڑکا ہی اس کا امیدوار نظر آرہا تھا۔ تبھی ہی اتنا گھور گھور کر دیکھ رہا تھا۔ بوا، ذیان کے تیوروں سے خائف سی نظر آرہی تھیں۔
”امیر میاں بیمار ہیں اللہ رہتی دنیا تک ان کا سایہ تمہارے سر پہ سلامت رکھے پر زندگی بڑی بے وفا ہے اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ تم ان کی زندگی میں اپنے گھر کی ہوجاؤ گی تو بہت ساری مشکلات سے بچ جاؤ گی۔ تسلی رکھو امیر میاں کو لڑکا اور اسکے گھر والے پسند آئے تو ہی وہ رضامندی دیں گے اپنی۔“ بوا نے اسکے چہرے کے بدلتے رنگوں کو دیکھ کر تسلی دی۔
پر ذیان کو کہاں چین آنا تھا وہ انہی قدموں بوا کے پاس سے اٹھ کر امیر علی کی طرف آگئی۔ وہ ہمیشہ کی طرح بستر پہ دراز تھے۔ اسے دیکھ کر خوش ہوگئے۔ ”آگئی تم کالج سے۔“ ”جی“ وہ اپنی انگلیوں کو اضطراب کے عالم میں مسل رہی تھی۔ اس کی اندرونی کش مکش کا امیر علی کو بھی اندازہ تھا پر وہ کچھ بول نہیں پا رہے تھے۔ ”ڈرائینگ روم میں کچھ مہمان آئے بیٹھے ہیں تم ملی ہو ان سے؟“ انہوں نے ایسے سوال کیا جیسے ان دونوں باپ بیٹی میں اس نوعیت کی بات چیت چلتی رہی ہو۔
”جی ملی ہوں۔“ ”کیسے لگے تمہیں؟“ اس سوال کا اس کے پاس جواب نہیں تھا اسکے گلابی چہرے پہ اداسی اور اضطراب تھا جیسے بہت کچھ کہنا چاہ رہی ہو۔ پر بول نہ پا رہی ہو۔ امیر علی کا دل اسکے لئے دکھ اور محبت سے بھر سا گیا۔
”ادھر میرے پاس آ کربیٹھو ناں“ انکے لہجے میں تڑپ تھی۔ ذیان نے کرلاتی نگاہوں سے انہیں دیکھا۔ ”اب نہیں۔ جب مجھے آپ کی محبت اور اعتبار کی ضرورت تھی تب آپ نے مجھے مضبوطی نہیں دی۔
اب جب آپ خود کمزور عمارت کی طرح ڈھے گئے ہیں تو محبت اور اعتبار مجھے دینا چاہ رہے ہیں۔ جب وقت گزر چکا ہے جب جذبے اور ان کی صداقتیں میرے لئے بے معنی ہوچکی ہیں۔ آپ امیدوں کے دئیے جلائے میری راہوں میں کھڑے ہوگئے ہیں… میری ضرورت ختم ہوگئی ہے؟“ ذیان یہ سب دل میں ہی خود سے کہہ سکی۔ اتنے میں کمرے کا دروازہ چڑ چڑاہٹ سے کھلا۔ زرینہ بیگم مہمانوں کے ساتھ داخل ہوئیں۔
ذیان کو وہاں پا کر ایک بار پھر ان سب کی آنکھوں میں اشتیاق امنڈ آیا۔ ”بھائی صاحب ہم جارہے ہیں۔ سوچا جاتے جاتے آپ کو خدا حافظ کہہ دیں اور اپنے گھر آنے کی دعوت بھی دے دیں۔ کمال کو تو آپ نے دیکھ ہی لیا ہے اب آ کر ہمارا گھر بھی دیکھ لیں۔“ وہی موٹی عورت تیز تیز آواز میں بول رہی تھی جبکہ کمال یعنی مرد نما لڑکے کی نگاہیں ذیان کے گرد طواف کر رہی تھیں۔
باری باری سب امیر علی سے ملے۔ جاتے جاتے وہی موٹی عورت ذیان کے پاس رکی اور اسکے ماتھے پہ زور دار بوسہ دیا۔ باقی مردوں نے ذیان کے سر پہ ہاتھ پھیرا۔ جبکہ ان میں سے ایک نے جو قدرے زیادہ عمر کا تھا اس نے کچھ نوٹ زبردستی ذیان کو تھمائے۔ ”زرینہ بہن جلدی آنا ہمارے گھر۔ ہم سے زیادہ انتظار نہیں ہوگا۔“ وہی موٹی عورت جاتے جاتے ذیان کو پیار بھری نگاہوں سے تکتے ہوئے پھر سے یاد دہانی کروا رہی تھی۔
جواباً زرینہ بیگم نے بھی آنے کی یقین دہانی کروائی۔ کمال نامی موصوف نے ایک آخری بھرپور نگاہ پھر ذیان پہ ڈالی۔ وہ یہاں ہوتے ہوئے بھی یہاں نہیں تھی ورنہ کمال کی اس بیباکانہ حرکت کا ضرور جواب دیتی زرینہ بیگم مہمانوں کو رخصت کر کے آئیں تو بہت خوش تھیں۔ ذیان ہنوز انکے شوہر نامدار کے پاس بیٹھی تھی۔ پر اس وقت زرینہ کو خاص تکلیف یا حسد کا احساس نہیں ہوا جس سے وہ پہلے دو چار ہوتی آئی تھی۔
کیونکہ ذیان کے اس گھر سے جانے میں کچھ ہی دن باقی تھے اچھا تھا امیر علی کی بچی کھچی محبت سمیٹ لیتی۔ کمال اور اس کی فیملی نے بہت ہی مثبت رد عمل کا اظہار کیا تھا۔ ویسے زرینہ کو اندازہ ہوگیا تھا کہ کمال اور اسکے گھر والے ان سے مرعوب ہیں۔ اتنا خوبصورت گھر، دو دو گاڑیاں، نوکر چاکر مہنگا فرنیچر، زرینہ بیگم کے پہنے گئے زیورات قیمتی سوٹ کچھ بھی تو زمانے کے مروجہ معیار کے مطابق نظر انداز کرنے والا نہیں تھا۔
اور پھر ذیان کا جلوہ ہوش اڑانے والا تھا۔ اتنی خوبصورت حسین کم عمر لڑکی کا تصور تو کمال نے خواب میں بھی نہ کیا تھا۔ ابھی تک اس کی شادی نہ ہو پائی تھی۔ حالانکہ پڑھائی مکمل کر کے سب ذمہ داریاں سنبھالے اسے کتنے سال ہوگئے تھے۔ اس سے بڑی تین بہنیں تھیں۔ تینوں کی تینوں زبان دراز اور واجبی شکل و صورت کی مالک تھیں۔
اللہ اللہ کر کے ان کی شادیاں ہوئیں۔
ان کی شادیاں ہونے گھر بسنے میں والدہ کی دوڑ دھوپ کے ساتھ وظیفوں کا بھی عمل دخل تھا وہ وقتاً فوقتاً کرتی تھیں۔ اب کہیں جا کر کمال کی باری آئی تھی۔ کمال کی والدہ عفت خانم بیٹے کی عمر سب کو چھبیس سال بتاتی حالانکہ وہ پینتیس سال سے کم کا نہ تھا۔ ملٹی نیشنل فرم میں اچھے عہدے اور تنخواہ پہ کام کر رہا تھا۔
فی الحال اتنی ہی معلومات زرینہ بیگم کو حاصل ہوئی تھی۔
یہ رشتہ بیگم اختر کے توسط سے آیا تھا انہوں نے تو بہت تعریفیں کی تھیں اور کہا تھا کہ کمال کو کوئی لڑکی ناپسند کر ہی نہیں سکتی۔ تب ہی تو زرینہ بیگم نے بالا بالا ہی بیگم اختر کو کہلوایا تھا کہ لڑکا بھی اپنے گھر والوں کے ساتھ لازمی ان کے گھر آئے تاکہ امیر علی بھی اسے دیکھ لیں۔ وہ کسی بھی تاخیر کے حق میں نہیں تھیں تب ہی تو کمال اپنی فیملی کے ساتھ انکے ہاں آیا تھا۔
امیر علی سے اس کی خاصی دیر بات چیت ہوتی رہی وہ اس کے کام گھر، خاندان اور دیگر حوالو ں سے چھوٹے چھوٹے سوالات اس سے پوچھتے رہے۔ پر زرینہ کو امیر علی کے تاثرات سے کمال کے بارے میں پسند و ناپسند کا اندازہ نہیں ہو پا رہا تھا۔
ان کا بس چلتا تو ذیان کو ہاتھ پکڑ کر کمال کے گھر چھوڑ آتی۔ پر امیر علی کی وجہ سے ایسا سوچنا بھی کار محال تھا۔
آخر کو ذیان ان کی”لاڈلی بیٹی“ تھی۔ وہ دفعان ہوجاتی تو زرینہ بیگم سکھ کا سانس لیتی۔
اس کا کانٹا ہی نکل جاتا جو اتنے سالوں سے دل میں پیوست چبھ رہا تھا۔
زرینہ بیگم کرسی اٹھا کرامیر علی کے بیڈ کے پاس رکھ کر خود بھی بیٹھ گئیں۔
انہوں نے ایک نظر امیر علی کے دائیں طرف بیٹھی ذیان کو دیکھا اور دوسری نظر اپنے مجازی خدا پہ ڈالی جو ہاتھ سے اپنی کنپٹی سہلا رہے تھے۔
”ذیان اپنے کمرے میں جاؤ۔ مجھے تمہارے ابو سے بات کرنی ہے۔“ زرینہ نے رخ ہلکا سا موڑ کر ذیان کو دیکھتے ہوئے تحکم آمیز لہجہ میں کہا۔
                                          ###

Chapters / Baab of Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja