Episode 22 - Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 22 - میں گمان نہیں یقین ہوں - نبیلہ ابر راجہ

ذیان ان کی اگلی کوئی بات سنے بغیر اٹھ کر آگئی۔ ویسے بھی وہ زرینہ بیگم کے سامنے آنے سے احتراز ہی کرتی تھی اس کی کوشش ہوتی وہ بات بھی کم سے کم کرے۔ پھر بھی زرینہ بیگم کو اس کے وجود سے تکلیف ہی ہوتی۔
زرینہ نے بڑا دروازہ مکمل طور پہ بندکیا اور پھر سے امیر علی کے پاس اپنی جگہ بیٹھ گئی۔ اس کا انداز انتہائی رازدارانہ اور چوکنا تھا۔ امیر علی بھی اسے غور سے دیکھنے لگے۔
”آپ نے لڑکا اور اس کی فیملی دیکھی کیسے لگے آپ کو؟“ وہ آہستہ آواز میں دلچسپی سے پوچھ رہی تھی۔ جیسے کسی کے سن لئے جانے کا ڈر ہو۔ ”پہلی ملاقات میں ہی کسی کی اچھائی یا برائی کا فیصلہ کیسے کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی بتایا جاسکتا ہے کہ کوئی کیسا ہے۔“ امیر علی نے خاصے محتاط الفاظ کا سہارا لیا تھا پر زرینہ کو پھر بھی ان کی بات یا رائے پسند نہیں آئی۔

(جاری ہے)

”میں نے تو صرف یہ پوچھا ہے کہ کمال کے گھر والے آپ کو کیسے لگے رہی بات اچھائی برائی کی تو بیگم اختر نے ان کی بہت تعریفیں کی ہیں۔ کمال اعلی تعلیم یافتہ کھاتے پیتے خوشحال گھرانے سے تعلق رکھتا ہے بہت شریف لڑکا ہے بظاہر کوئی عیب بھی نہیں ہے۔ بے غرض اور بے لوث عادات کا ملک ہے پہلے اپنی تین بہنوں کی شادیاں کیں اور صبر سے اپنی باری کا انتظار کیا۔
بہت سی لڑکیوں کے والدین نے خود اپنے منہ سے کمال کے رشتے کا کہا پر وہ ایسا سعادت مند ہے کہ کہا مجھے اپنے والدین کی پسند پہ اعتبار جسے وہ میرے لئے چنیں میں اسی سے شادی کروں گا۔
کمال کے گھر والوں کو ہماری ذیان بہت پسند آئی ہے۔ کیونکہ ان کی باتوں سے بار بار اظہار ہو رہا تھا۔ میں نہیں چاہتی کہ اتنا اچھا لڑکا ہاتھ سے نکل جائے۔“ زرینہ نے مجازی خدا کو متاثر کرنے اور کمال کے لئے ہموار کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگادیا۔
”ذیان پڑھ رہی ہے وہ ابھی بیس سال کی بھی پوری نہیں ہوئی ہے اور کمال لڑکا نہیں پورا مرد ہے۔“ مجھے اس کے گھر والے بھی پسند نہیں آئے عجیب شو آف سطحی محسوس ہوئے ہیں مجھے۔ ”کیسے ذیان کا رشتہ دے دوں انہیں۔“ امیر علی نے لگی لپٹی رکھے بغیر صاف انکار کردیا۔ زرینہ کی کنپٹیاں سلگ اٹھیں۔ ”ٹھیک ہے کمال کی عمر تھوڑی زیادہ ہے، پر اتنی بھی زیادہ نہیں ہے اٹھائیس سال کا ہے صرف۔
”انہوں نے مبالغے کی انتہا ہی تو کردی ۔ ”اس کی بڑی بہن بتا رہی تھی کہ محنت کر کر کے اور پڑھائی میں جان ماری کی وجہ سے کمال زیادہ عمر کا لگنے لگا ہے ورنہ اٹھائیس سال کوئی ایسی زیادہ عمر نہیں ہے آپ بھی تو مجھ سے چھ سال بڑے ہیں۔ میرے ماں باپ نے تو آپ کی عمر اور ساتھ پہلی بیوی کی بیٹی پہ اعتراض نہیں کیا تھا۔ آپ نے ذیان کو ساری عمر گھر بٹھا کر رکھنا ہے کیا؟ اس کی شادی ہوگی تو رابیل اور مناہل کی باری آئے گی ناں، شروع میں زرینہ بہت غصے میں تھی لیکن آخر میں مصلحت کے تحت نرم پڑ گئی۔
”رابیل اور مناہل ابھی بہت چھوٹی ہیں جس طرح ذیان میری بیٹی ہے اس طرح وہ بھی میری ہی اولاد ہیں۔ میں انکے بارے میں بھی سوچتا ہوں۔ وقت آنے پہ سب کام ہوجائیں گے۔ تم خواہ مخواہ ہلکان مت کیا کرو خود کو۔“ ”کیسے ہلکان نہ کروں میں خود کو۔ آپ بیمار رہتے ہیں گھڑی بھر کا پتہ نہیں ہے۔ میں نے ہر مشکل وقت میں آپ کا ساتھ دیا ہے دکھ سکھ کے سب موسم آپ کے ساتھ کاٹے۔
کبھی کوئی شکوہ، شکایت نہیں کی۔
 میں ذیان کی دشمن تھوڑی ہوں۔ اچھے رشتے بار بار نہیں ملتے۔ میں تو صرف اتنا چاہتی ہوں کہ وہ آپ کے جیتے جی اپنے گھر کی ہوجائے۔ آپ اسے بہت پیار کرتے ہیں۔ لاڈلی ہے وہ آپ کی۔ میں سب جانتی ہوں تب ہی تو بیگم اختر کو کہلوا کر کمال کو پہلی ملاقات میں ہی آپ سے ملوانے کے لئے گھر بلوایا۔ میں چاہتی ہوں ذیان قدردان سسرال میں جائے۔
پہلی بار ہی کمال کے گھر والے اس پہ واری صدقے ہو رہے تھے۔ اچھے لوگ ہیں ذیان عیش کرے گی۔ کمال عمر میں ذیان سے تھوڑا بڑا ہے پر یہ کوئی ایسا عیب نہیں ہے جس کو وجہ بنا کر رشتہ ٹھکرا دیا جائے۔ زیادہ عمر کے شوہر بیوی کو خوش رکھتے ہیں۔ آپ نہیں چاہتے تو میں انکار کہلوا دوں گی کمال کے گھر والوں کو۔“ امیر علی اس کی باتوں اور دلائل سے قائل ہوتے جارہے تھے تب ہی تو زرینہ نے انداز بدلا تھا۔
پھر اس کے بعد وہی ہوا جو زرینہ بیگم چاہ رہی تھی امیر علی یکدم نرم پڑگئے۔ ”ٹھیک ہے تم لڑکے کے گھر جاؤ اسے دیکھو رہن سہن کا جائزہ لو۔ چھان بین کراؤ۔ اس کے بعد دیکھا جائے گا۔“ امیر علی نے صاف رضا مندی تو نہیں دی تھی پر انکار بھی نہیں کیا تھا۔ زرینہ بہت مسرور تھی۔ اس کے لئے اتنا ہی بہت تھا۔ باقی کے مراحل آسان تھے۔
امیر علی کی حیثیت ویسے بھی کمزور ہوگئی تھی۔
انہوں نے بیماری کے دوران تمام جائیداد کا وارث زرینہ بیگم کو بنا دیا تھا۔ اس وقت حالات کا تقاضہ ہی یہی تھا۔ زرینہ آسانی سے مختار کل بن گئی تھی۔ وہ خوش تھے کہ ان کی شوہر پرست شریک سفر ذیان کا حق نہیں مارے گی وہ ماں کی طرح ہی سوچے گی پر زرینہ کی نیت بدل چکی تھی۔ اس کی پہلی کوشش یہی تھی ذیان کی جلد از جلد شادی ہوجائے۔ اس سے پہلے کہ کسی کمزور لمحے میں امیر علی کی محبت جاگ پڑے اور وہ پھر سے وکیل کو بلوا کے وصیت تبدیل کروا دیں، ذیان جب تک یہاں تھی اس کا امکان سو فی صد تھا۔
اس کی شادی کے بعد یہ خطرہ ٹل جاتا۔ اور بعد میں اگر امیر علی وصیت میں تبدیلی کا بولتے تو کون سا اس نے انہیں یہ کام کرنے دینا تھا ایک مفلوج معذور انسان کی کسی صحت مند ہاتھ پاؤں والے کے سامنے کہاں چلتی ہے۔ امیر علی کو رام کرنے کے بہت سے طریقے تھے۔ اور وہ اس کے دلائل سے قائل ہو بھی جاتے تھے۔
”ہاں ٹھیک ہے میں روبینہ آپا کو ساتھ لے کر بہت جلد خود کمال کے گھر جاؤ ں گی۔
ہر چیز کو دیکھ بھال کر پرکھ کر خود بتاؤں گی آپ کو۔ اگر مجھے کہیں ذرا سی بھی گڑ بڑ لگی تو آپ سے پہلے میں خود انکار کروں گی۔“ ”تم کتنی اچھی ہو زرینہ۔ میں سوچتا ہوں تم میری زندگی میں نہ ہوتی تو میری زندگی کتنی مشکل ہوتی۔“ وہ تہہ دل سے اسکے شکر گزار احسان مند تھے۔
”ارے آپ ایسی باتیں نہ کریں۔“ زرینہ دل میں بہت خوش تھی۔ ”تم ٹھیک کہتی ہو ذیان کی شادی ہوجانی چاہیے۔
“ اس بار وہ تلملا کر رہ گئی کیونکہ امیر علی کے لہجہ اور آنکھوں میں ذیان کے لئے فکر مندی تھی۔
پر یہ وقت جذبات کے اندرونی اظہار کے لئے مناسب نہیں تھا۔ انہیں کمال کے رشتے کے لئے راہ ہموار کرنی تھی۔ امیر علی سے زیادہ مشکل کام ذیان کو منانے کا تھا۔ وہ ننگی تلوار تھی کسی وقت کچھ بھی کرسکتی تھی۔ پھر وہاب اسکے حصول کے لئے ہر راستہ اختیار کرنے کے لئے تیار تھا۔ وہاب کے کوئی قدم اٹھانے سے پہلے انہیں ذیان کی شادی کرنی تھی۔
                                          ###

Chapters / Baab of Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja