Episode 31 - Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 31 - میں گمان نہیں یقین ہوں - نبیلہ ابر راجہ

ذیان دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد بوا کے ساتھ گپ شپ کر رہی تھی۔ جب وہاب کی اچانک آمد ہوئی بوا اور ذیان صحن میں بیٹھی تھیں۔ وہاب سیدھا اُدھرہی آیا۔ بہت دن بعد اپنے گوہر مقصد کو دیکھا تھا ، اس کے روم روم میں سکون و راحت طاقت بن کر دوڑنے لگی۔ السلام علیکم کیسے ہیں آپ لوگ؟ اس کی چہکتی آواز سے ہی اس کی خوشی صاف محسوس کی جاسکتی تھی۔ ذیان نے ہلکی آواز میں سلام کا جواب دیا جبکہ بوا گرمجوشی سے اس سے حال احوال پوچھ رہی تھیں۔
تھوڑی دیر بعد بوا اس کی خاطر مدارات کے لئے اٹھ گئیں۔ تب وہاب نے بڑی فرصت سے ذیان کو دیکھنا شروع کردیا اس کی یہ حرکت ذیان سے کیسے پوشیدہ رہ سکتی تھی۔ زرینہ بیگم نے اسے قبل از وقت ہی وہاب کے ارادوں سے آگاہ کردیا تھا۔ اس لئے وہاب کی نظروں نے اسے بے پناہ غصے سے دو چار کردیا تھا۔

(جاری ہے)

وہ اچانک اپنی جگہ سے اٹھی، وہاب کو پتہ تھا ذیان یہاں سے اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی جائے گی اور پھر اس کے جانے کے بعد ہی باہر نکلے گی اس لئے اس نے کمال جرأت سے کام لیتے ہوئے اچانک اپنا ایک بازو آگے کردیا جیسے اُسے جانے سے روکنا چاہتا ہو۔

”یہ کیا ہے؟“ وہ کڑوے لہجے میں بولی۔ ”تمہیں گھر آئے مہمان سے ذرا بھی خوش اخلاقی برتنا نہیں آتی۔“ وہاب اس کا تپا تپا چہرا دیکھتے ہوئے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ سامنے میٹنگ روم میں بیٹھی زرینہ نے گلاس ونڈو سے یہ منظر پوری وضاحت کے ساتھ دیکھا۔ نفرت میں ڈوبی مسکراہٹ اس کے لبوں پہ آئی۔ ”ذیان کو جلدی یہاں سے بھگانا پڑے گا ورنہ وہاب جھگڑے کھڑے کرسکتا ہے۔
“ وہاب کے چہرے کے والہانہ تاثرات نوٹ کرتے ہوئے زرینہ کے دل میں اس خیال نے جڑ مضبوط کرلی۔
###
بہت زور دار طوفان تھا ہوا کے بہت تیز جھکڑ چل رہے تھے۔ بند دروازوں اور کھڑکیوں کے باوجود ہوا کی زوردار سائیں سائیں کی آواز اندر کمروں تک آرہی تھی۔ عتیرہ ایک کونے میں سکڑی سمٹی خوفزدہ بیٹھی ہوئی تھی۔ حویلی میں کام کرنے والی ایک نوکرانی ان کے پاس تھی۔
ارسلان باہر زمینوں پہ ڈیرے کی طرف تھے وہیں سے وہ اپنے ایک دوست کی دعوت پہ اس کے گھر چلے گئے تھے۔ سرشام سے ہی موسم کے تیور بدلے تھے پہلے آہستہ آہستہ ہوا چلنا شروع ہوئی پھر اس نے زور دار طوفان کی شکل اختیار کرلی، عتیرہ نے فوراً حویلی کے تمام دروازے اور کھڑکیاں بند کروائیں۔
باہر سے زوردار آواز آئی تھی شائد کوئی درخت ٹوٹ کر گرا تھا۔
عتیرہ نے سہم کر بند دروازے کی طرف دیکھا جیسے طوفان دروازے سے اندر کا رخ کرلے گا۔ نوکرانی اپنی مالکن کے خوف کو بہت اچھی طرح محسوس کر رہی تھی اور اسے ہمدردی بھی تھی کیونکہ جب بھی آندھی یا طوفان آتا عتیرہ کمرے میں بند ہوجاتی۔
اچانک ہی لائیٹ چلی گئی اور گھپ اندھیرا چھا گیا۔ کھڑکیوں پہ پہلے ہی بھاری پردے پڑے تھے رہی سہی کسر لائیٹ نے پوری کردی۔
نوکرانی نے اٹھ کر ایمرجنسی ٹارچ آن کی۔ تب تک باہر موجود ملازم جنریٹر آن کرنے کی تیاری میں جت گئے۔ چند منٹ بعد ہی جنریٹر کے چلنے سے حویلی پھر جگ مگ کرنے لگی۔ عتیرہ اپنے ماضی میں پہنچ گئی۔ یہاں سے بہت دور بہت سال پہلے کا منظر ذہن کے بند دروازوں پہ رہ رہ کے دستک دے رہا تھا۔
اس کھلے کھلے برآمدے والے گھر میں ایسی ہی ہوا کے جھکڑ چل رہے تھے۔
بہت تیز طوفان تھا۔ وہ اپنے سامنے پڑے ننھے منے سے وجود کو پریشان نگاہوں سے دیکھ رہی تھی جسے طوفان یا تیز ہواؤں سے کوئی سروکار نہیں تھا۔
دروازے کو زور زور سے دھڑدھڑایا جارہا تھا۔ عتیرہ کے ذہن میں سب کچھ گڈمڈ ہو رہا تھا۔ دو مضبوط تنو مند، چھینا جھپٹی چیخ و پکار، آنسو، آہیں پھر لمبی خاموشی۔ دروازے پہ پھر سے دستک ہو رہی تھی مگر یہ ماضی نہیں تھا۔
عتیرہ چونک کر حال میں آئی، نوکرانی دروازہ کھول چکی تھی۔ آنے والے ملک ارسلان تھے۔ عتیرہ نے سکون کی سانس لی۔ کم سے کم ملک ارسلان اس کی زندگی میں طوفان لانے والے نہیں تھے۔
                                    ####
بند کھڑکی کے شیشے سے چہرا لگائے وہ باہر دیکھ رہی تھی جہاں تیز ہوا کی شدت سے ہر چیز پھڑ پھڑا رہی تھی۔ درخت زور دار طریقے سے ہل رہے تھے بند دروازوں کی دھمک سے عجیب سی آواز پیدا ہو رہی تھی۔
زرینہ بیگم اور سب اپنے اپنے کمروں میں دبک گئے تھے۔ وہ طوفان اور آندھی سے بہت ڈرتی تھی، یہی حال بوا کا تھا۔ موسم کے باغی تیور دیکھتے ہوئے انہوں نے تسبیح اٹھا کر استغفار کا ورد شروع کردیا تھا۔ وہ اس طوفان کو دیکھتے ہوئے اس کی شدت سے ڈرگئی تھیں۔ ذیان کو تیز ہوا اس کی شدت اور طوفان سے ذرہ بھر بھی ڈر محسوس نہیں ہو رہا تھا۔ وہ پوری دلچسپی سے ہوا کو مختلف چیزوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتے دیکھ رہی تھی۔
پر بوا کو چین نہیں آرہا تھا۔ تسبیح اٹھائے ہانپتے کانپتے اس کے پاس پہنچ گئیں۔ سب سے پہلے کچھ پڑھ کر اس پہ پھونک ماری۔ ”تم یہاں کھڑکی کے پاس کیوں کھڑی ہو، جاؤ وہاں جا کر بیٹھو۔“ انہوں نے صوفے کی طرف اشارہ کیا۔ ”کیوں بوا یہاں کیا ہے طوفان سے مجھے کوئی خطرہ نہیں ہے۔“ اس نے ہنس کر بے نیازی دکھائی۔ ”تمہیں نہیں پتہ میں نے اپنے بزرگوں سے سنا ہے کہ طوفان میں بہت سی بلائیں بھی آتی ہیں ہوا کے ساتھ۔
“ ”بوا ایسا کچھ بھی نہیں ہے یہ سب فرسودہ باتیں ہیں ایمان کی کمزوری کی علامت ہے یہ۔“ اس نے ہنس کر بات ٹالی۔ بوا اسے پریشانی سے دیکھ کر رہ گئیں۔ ”بہت سال بعد آج پھر وہی ویسا طوفان دیکھ رہی ہوں۔ اللہ خیر کرے۔“ بوا کا ہاتھ اپنے سینے پہ تھا۔ ”کیا بہت پہلے بھی ایسا طوفان آیا تھا؟“ وہ دلچسپی سے بولی۔ ”ہاں ایسا ہی ہولناک وحشت ناک طوفان تھا وہ۔
”میں تب کہاں تھی مجھے کیوں نہیں پتہ اس طوفان کا؟“ اس کے لبوں پہ ڈھیروں سوال مچل رہے تھے۔
”تب تم چھوٹی سی تھی اتنی سی۔ تمہیں طوفان کا کیسے پتہ چلتا۔“ بوا نے بمشکل جتن کر کے آنکھوں میں پھیلنے والی نمی کر روکا۔ ذیان پھر سے کھڑکی کے پاس جا کھڑی ہوئی۔ بوا نے شکر ادا کیا ورنہ اسکے مزید سوالوں کا جواب دینا نہایت کٹھن ہوتا۔
                                         ###
احمد سیال نے رنم سے ملک جہانگیر اور ان کی فیملی کی متوقع آمد کا ذکر کیاتھا پر اس نے کسی خاص رد عمل کا اظہار نہیں کیا۔ ان کی اس بات پہ اچھی خاصی بد مزگی ہوئی جس کا اختتام زور دار نتیجہ بحث پہ ہوا۔ رنم ہنوز اپنی بات پہ قائم تھی۔ احمد سیال نے ایک بار پھر نرمی سے لاڈلی بیٹی کو سمجھاتے ہوئے اس بات کا اعادہ کیا تھا کہ وہ اسے دھوم دھام سے رخصت کریں گے۔
                                         ###
روبینہ، زرینہ سے فون پہ بات کر رہی تھیں۔ زرینہ ہمیشہ کی طرح اپنے دکھڑے رو رہی تھی۔ آدھے گھنٹے سے وہ مسلسل ذیان کے موضوع سے چمٹی ہوئی تھی۔ کافی دیر بعد وہ زرینہ سے بات کر کے فارغ ہوئی تو وہاب کو غور سے اپنی طرف دیکھتے پایا۔ ”امی آج کل خالہ آپ سے کچھ زیادہ ہی قریب نہیں ہوگئی ہیں۔“ وہ استفسار کر رہا تھا۔
”کیوں کیا ہوا ہے؟“ روبینہ نے پوچھا۔ ”آج کل جب دیکھو آپ انہی کے ساتھ فون پہ بات کر رہی ہوتی ہیں۔ ویسے ایک لحاظ سے اچھا ہی ہے بہت جلد آپ دونوں بہنیں ایک اور رشتے میں منسلک ہوجائیں گی۔“ وہ معنی خیز انداز میں بولا۔ روبینہ فوراً اس کی بات کی تہہ میں پہنچ گئیں۔ ”یہ خواب دیکھنا چھوڑ دو وہاب۔“ بیٹے کی بات پہ ان کے دل کو کچھ ہوا مگر اسے سمجھانا بھی ضروری تھا۔
”اماں یہ خواب نہیں ہیں مجھے خوابوں کو حقیقت میں کیسے بدلنا ہے مجھے اچھی طرح اس کا علم ہے۔ آپ زرینہ خالہ کے گھر جانے کی تیاری کرلیں بہت جلدی آپ کو میرا رشتہ مانگنے جانا ہے۔“ اس کے لبوں پہ پراسرار مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔ روبینہ سر پکڑ کر بیٹھ گئیں۔ وہاب تو کسی صورت بھی پیچھے ہٹنے یا ان کی ماننے والا نہیں لگ رہا تھا۔
                                       ###

Chapters / Baab of Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja