Episode 33 - Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 33 - میں گمان نہیں یقین ہوں - نبیلہ ابر راجہ

احمد سیال کا لہجہ بے لچک اور سخت تھا۔ اپنی بات پوری کر کے وہ جا چکے تھے۔ جھولتی راکنگ چیئر اب ساکت تھی۔ ”پپا آپ میرے ساتھ ایسا نہیں کرسکتے۔ میں کبھی بھی برداشت نہیں کروں گی۔ تمام عمر آپ نے میرے منہ سے نکلی ایک ایک بات پوری کی ہے۔ اور اب چھوٹی سی بات ماننے میں آپ کو اعتراض ہے۔ کیا شہریار بھائی جیسا ایک ہی مرد تھا دنیا میں۔ اگر ایسا ہے تو میں شادی ہی نہیں کروں گی۔
“ رنم غصے کی انتہائی حد پہ جا کر سوچ رہی تھی۔ احمد سیال نے اسے لاڈ پیار میں پالا تھا اس لئے یہ سب اس سے برداشت نہیں ہو رہا تھا۔
اس نے لمحوں میں فیصلہ کیا۔ ویسے بھی فیصلے کرنے میں وہ دیر نہیں لگاتی تھی۔ جذباتی تو شروع سے ہی تھی۔ اس وقت بھی شدید غصے اور جذبات کے زیر اثر اس نے انتہائی فیصلہ کیا تھا۔

(جاری ہے)

وہ اب الماری کے سامنے کھڑی تھی۔

نچلے خانے میں کچھ کیش پڑا تھا۔ ساتھ گولڈ کی جیولری تھی۔ اس نے دونوں چیزیں اپنے ہینڈ بیگ میں ڈالیں پھر کپڑوں کی باری آئی۔ تین چار جوڑے اس نے ایک الگ چھوٹے سے بیگ میں ڈالے جسے آسانی سے اٹھایا جاسکتا تھا۔ دوسرے دراز سے اس کا اے ٹی ایم اور کریڈٹ کارڈ بھی مل گیا۔ وہ بھی اس نے ہینڈ بیگ کے چھوٹی پاکٹ میں ڈال دئیے۔
اس دوران اس کی آنکھیں دھواں دھار برستی رہیں۔
غصے کے عالم میں اس نے اچانک گھر چھوڑنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اور اس پہ عمل کرنے کے لئے پوری طرح تیار تھی۔ جانے سے پہلے اس نے آخری مرتبہ اپنے کمرے پہ نظر دوڑائی۔ سائیڈ ٹیبل پہ فوٹو فریم میں اس کی اور پپا کی ایک یادگار فوٹو سجی ہوئی تھی۔ اس نے دھندلاتی نگاہوں سے فوٹو کو آخری بار دیکھا۔
سارا منظر ہی دھندلا رہا تھا۔ اس کے واپسی کے لئے باہر کی طرف پلٹتے قدم جیسے یکایک ہی لڑکھڑانے لگے۔
آوازیں اس کے کانوں میں چیخ رہی تھیں۔ وہ ان پہ غور نہیں کرنا چاہتی تھی پر وہ اسے اپنی طرف بلا رہی تھی پلٹنے پہ مجبور کر رہی تھی۔ اس نے نہ چاہتے ہوئے بھی غور سے سنا۔ یہ تو اس کے گھر کی تعمیر میں لگی ایک ایک اینٹ کی آواز تھی۔ اس نے بمشکل تمام آوازوں سے پیچھا چھڑاتے ہوئے آگے کی طرف قدم بڑھائے۔ پر یہاں بھی آوازیں اس کا دامن تھام کے فریاد کرنے لگیں۔
درخت گھاس، لان کی دیوار، براؤن آہنی گیٹ سب ہی اس سے التجا کر رہے تھے کہ خدارا اپنے بڑھتے قدم پیچھے ہٹا لو۔ چھوٹا سا سوٹ کیس ہاتھ میں تھامے وہ تیز تیز قدموں سے گیٹ کی طرف جارہی تھی۔ اس نے ہزار جتن کر کے آوازوں کی طرف سے دھیان ہٹایا۔ اب وہ گیٹ سے باہر تھی۔ سب آوازیں پیچھے رہ گئی تھیں۔ اس نے پیچھے مڑ کر براؤن گیٹ اور سبزے سے ڈھکی دیوار کو دیکھا دونوں خاموش تھے مایوس تھے انہیں یقینا پتہ چل گیا تھا کہ وہ اب واپس پلٹنے والی نہیں ہے۔
وہ ٹیکسی میں بیٹھ کر کومل کے پاس اس کے گھر پہنچی تھی۔ اتفاق سے گھر میں کومل اور ملازموں کے سوا اور کوئی نہیں تھا کیونکہ مما پپا ایک فیملی فنکشن میں گئے ہوئے تھے۔ کومل کا جانے کا موڈ نہیں تھا اس لئے وہ گھر رک گئی تھی۔ ایک لحاظ سے رنم کے حق میں یہ اچھا ہی ہوا کیونکہ کومل کے گھر پہ نہ ملنے سے اسے پریشانی لاحق ہوسکتی تھی۔
کومل اسے دیکھ کر فوراً ہی کھٹک گئی کہ کوئی نہ کوئی بات ضرور ہے۔
کیونکہ رنم کے پاس ہینڈ بیگ کے علاوہ ایک چھوٹا سا سوٹ کیس بھی تھا۔ اس کے چہرے پہ حد درجہٴ پریشانی چھائی ہوئی تھی۔ دروازہ جیسے ہی کھلا وہ کومل کو ہاتھ سے ہٹاتی جھپاک سے اندر داخل ہوئی جیسے کسی کے دیکھ لیے جانے کا خطرہ ہو۔ بیٹھتے ہی اس نے رونا شروع کردیا۔ کومل کے تو ہاتھ پیر پھول گئے۔ ”ارے کیا ہوا ہے کچھ بتاؤ تو۔ میرا دل ہول رہا ہے۔“ اس نے چھٹی بار بڑے صبر سے اپنا سوال دہرایا۔
پر رنم اسی رفتار سے روتی رہی۔ دسویں بار اس نے جھنجھلائے ہوئے انداز میں پوچھا تب رنم نے منہ کھولا۔ ”میں گھر چھوڑ آئی ہوں۔“ کہیں دھماکہ ہوتا تو شائد کومل کی ایسی حالت نہ ہوتی جو اَب ہو رہی تھی اسے تو جیسے سانپ سونگھ گیا تھا۔ شاید اسے سننے میں غلطی ہوئی تھی۔ بڑی مشکل سے اس کے منہ سے آواز نکلی۔ 
”کک کیا کہہ رہی ہو تم مذاق تو نہیں کر رہی ناں۔
“ کومل کے منہ سے بے یقین سا جملہ برآمد ہوا۔ ”نہیں نہیں ہاں میں ہمیشہ کے لئے اپنا گھر چھوڑ آئی ہوں۔“ کیوں چھوڑا تم نے گھر؟“ کومل نے اپنے حواس یکجا کرتے ہوئے خود کو سنبھالا۔ ”پپا میری بات جو نہیں مان رہے تھے۔“ اس نے پریشانی سے جواب دیا۔ ”تم اب کیا کرو گی؟“ میں گھر چھوڑ آئی ہوں واپس نہیں جاؤں گی۔ یہ لو میرا بیگ اس میں کپڑے ہیں اور یہ میرا ہینڈ بیگ بھی حفاظت سے رکھ دو اس میں جیولری اور کیش ہے۔
“ رنم نے آنکھیں مسلتے ہوئے دونوں چیزیں اس کی طرف بڑھائیں۔
کومل یوں پیچھے ہوئی جیسے بچھو نے ڈنک مار دیا ہو۔ ”نہیں رنم تم گھر واپس لوٹ جاؤ میرے مما پپا فنکشن میں گئے ہیں انہیں پتہ چل گیا تو میری شامت آجائے گی۔“ کومل سخت خوفزدہ لگ رہی تھی۔ اس نے رنم کے ہاتھوں کی طرف مطلق توجہ نہ دی جن میں سامان دبا تھا۔ ”نہیں میں واپس نہیں جاؤں گی مجھے تم اپنے پاس رکھ لو۔
“ رنم ایسے بولی جیسے کومل انکار نہیں کرے گی۔“ پلیز کومل تم میری دوست ہو۔“ وہ روہانسی ہو رہی تھی۔ ”تمہارے پپا کی اپروچ سے سب واقف ہیں اگر انہیں تمہاری یہاں موجودگی کی خبر ہوگئی تو میری فیملی کی شامت آجائے گی۔ ویسے تم رکنا چاہو تو موسٹ ویلکم مگر دوسری صورت میں یہ ممکن نہیں ہے۔ میری دوست بن کر تم سو بار آؤ۔ مگر گھر چھوڑ کر آنے کی صورت میں مَیں تم سے معذرت خواہ ہوں۔
“ اس کا لہجہ با اعتماد اور مضبوط تھا۔
کومل سمجھدار اورباشعور تھی۔ احمد سیال کے بارے میں ان کی طاقت اور اثرورسوخ کے بارے میں بھی سب کچھ جانتی تھی۔ اگر انہیں رنم کی یہاں موجودگی کا علم ہوجاتا تو اس کی ذات لازمی شک کی لپیٹ میں آتی۔ وہ مما، پپا کے گھر واپس آنے سے پہلے پہلے رنم کو یہاں سے چلتا کرنا چاہ رہی تھی۔ دوستی اپنی جگہ پر اسے پپا کی عزت اور سلامتی بھی عزیز تھی۔
رنم پہ پہلے اسے ہمیشہ رشک آتا تھا پر ابھی ترس آرہا تھا۔ ابھی خاصی سپر لائف انجوائے کرتے کرتے وہ جانے کیوں یہ حماقت کرنے پہ تل گئی تھی اور گھر چھوڑ کر یہاں پہنچ چکی تھی۔
اس نے تو دوستی کا بھی لحاظ نہیں کیا تھا جھٹ آنکھیں ماتھے پہ رکھ لی تھیں حالانکہ یونیورسٹی میں کیسے آگے پیچھے پھرا کرتی تھی اس کی دوستی کا دم بھرتی ہر شرارت پر ہر پروگرام میں اس کے ساتھ ہوتی۔
اب ایکدم کیسے بدل گئی تھی مدد کے نام پہ اسے گھر لوٹ جانے کا مشورہ دینے والی اس کی گہری دوست کتنی خود غرض تھی۔ رنم کو بہت شدید طریقے سے رونا آرہا تھا پر وہ ٹیکسی میں بیٹھ کر رونا نہیں چاہتی تھی۔ ڈرائیور شوقین مزاج لگتا تھا۔ رنم کے بیٹھتے ہی اس نے میوزک سسٹم آن کردیا تھا۔ رنم اپنی ٹینشن میں تھی ورنہ اسے ٹوکتی ضرور۔
میں ڈھونڈنے کو زمانے میں جب وفا نکلا
پتہ چلا کہ میں لے کے غلط پتہ نکلا…
گلوکار سریلے انداز میں دنیا کی ایک اہم حقیقت بیان کر رہا تھا۔
نہ چاہتے ہوئے بھی رنم نے سنا اور پھر اس کے ہونٹوں پہ تلخ مسکراہٹ آگئی۔ وہ بھی کومل کے پاس کتنی امیدیں لے کر پہنچی تھی۔
فراز اس کا بیسٹ فرینڈ تھا رنم کو اس پہ بے پناہ مان تھا اس لئے اس نے فراز کی طرف جانے کا فیصلہ کیا تھا کیونکہ فی الحال اس کی آخری امید فراز ہی تھا۔
فراز کے گھر کے سامنے ٹیکسی والے کو اس نے ہزار کا نوٹ دے کر فارغ کیا۔
وہ کبھی اسے دیکھ رہا تھا اور کبھی ہزار کے نوٹ کو۔
رنم پیسے دے کر آگے بڑھ گئی تھی اس نے نہ کرایہ پوچھا اور نہ باقی پیسے طلب کیے۔ ٹیکسی ڈرائیور اس کی عقل پہ ماتم کرتا اور دریا دلی پہ خوش ہوتا واپس جا چکا تھا۔ رنم کو فراز کا چوکیدار بہت اچھی طرح پہچانتا تھا سو اس نے رنم کو زوردار سلام جھاڑاا ور گیٹ کھول دیا۔
اندر ایک اورملازم نے ڈرائینگ روم تک اس کی رہنمائی کی۔
فراز یہاں اکیلا اپنے ملازمین کے ساتھ رہتا تھا۔ اندرون پنجاب اس کا آبائی گھر تھا اور سینکڑوں ایکڑ زمینیں تھیں یہاں وہ پڑھائی کے ارادے سے رہ رہا تھا۔ اس کے والد کھاتے پیتے خوشحال زمیندار تھے اس لئے وہ یہاں ٹھاٹھ سے رہ رہا تھا دیکھنے والے اس کی قسمت پہ رشک کرتے تھے۔ فراز کو جیسے ہی ملازم نے رنم کے آنے کی اطلاع دی وہ فوراً ڈرائنگ روم میں آگیا۔
نظر رنم کے پاس رکھے سوٹ کیس پہ پڑی۔ ہینڈ بیگ اس کی گود میں دھرا تھا۔ ذہین تھا فوراً تاڑ گیا کہ کہیں نہ کہیں کوئی گڑ بڑ ضرور ہے۔ ”کیا یہاں رہنے کے ارادہ ہے جو سوٹ کیس بھی ساتھ لائی ہو۔“ اس نے قصداً ہلکا پھلکا انداز اختیار کیا اُدھر فراز کے پوچھنے کی دیر تھی رنم کی آنکھیں برس پڑیں۔ اس نے نئے سرے سے سب کچھ دہرایا۔ کومل کی بے حسی خود غرضی، طوطا چشمی پہ وہ بے پناہ رنجیدہ تھی۔
فراز اس کی رگ رگ سے واقف تھا اس لئے اس نے کوئی اظہار خیال کرنے کی حماقت نہیں کی۔ ”تم کتنی دیر پہلے گھر سے نکلی تھی؟“ فراز کی نگاہیں دیوار گیر کلاک پہ مرکوز تھیں۔
”کافی گھنٹے ہوگئے ہیں۔“ رنم بڑ بڑائی تھی۔ ”ابھی تک تمہارے پپا کو تمہاری گمشدگی کا علم نہیں ہوا ہوگا وہ یہی سمجھ رہے ہوں گے کہ تم فرینڈز کے ساتھ ہو۔ اور تمہارا سیل فون کہاں ہے؟“ اسے اچانک خیال آیا۔
”میں آف کر کے گھر رکھ آئی ہوں۔ ”اس نے فراز سے نظر چراتے ہوئے کہا۔ ”اچھا تب ہی ایک گھنٹہ پہلے میں نے تمہیں کال کی تو آف مل رہا تھا۔ ”فراز نے جیسے خود کلامی کی۔ ”فراز میں اب اِدھر ہی رہوں گی جب تک پپا میری بات نہیں مان جاتے تمہیں کومل کی طرح کوئی اعتراض تو نہیں ہے؟؟“ رنم کی آنکھوں میں بے پناہ اندیشے نظر آرہے تھے۔ ”تم جب تک چاہو یہاں رہو۔
“ اس نے دوستانہ آفر کی تو رنم پہلی بار پرسکون ہو کر مسکرائی۔ ”تم سیرئیس ہو؟“ اسے جیسے یقین نہیں آرہا تھا۔ ”ہاں میں سچ کہہ رہا ہوں۔ تم اپنا سامان رکھو۔ ملازم کمرہ بتا دے گا۔ میں کہتا ہوں اسے اور جاؤ تھوڑا فریش ہوجاؤ پھر کھانے کا کچھ کرتے ہیں۔“ فراز اسے تسلی دے کر اٹھا۔ ”سنو مجھے بھوک لگی ہے۔“ رنم کو تھوڑا اطمینان ہوا تو بھوک ستانے لگی ویسے بھی اس نے صبح سے کچھ نہیں کھایا تھا۔
”تم ایزی ہوجاؤ میں کھانے کا بول کر آتا ہوں۔“ فراز باہر جا چکا تھا۔ رنم صوفے سے ٹیک لگائے ٹانگیں اوپر کیے نیم دراز تھی۔ اسے نیند آرہی تھی۔ صبح کی جاگی تھی دن بھر کی بے آرام تھی اب پریشانی کچھ کم ہوئی تو جسم آرام طلب کرنے لگا۔ ساتھ بھوک بھی لگ رہی تھی۔
فراز کو گئے کافی دیر ہوچکی تھی۔ رنم اسے دیکھنے کے لئے باہر آئی۔
ٹی وی لاؤنج سے کسی کے بولنے کی آواز آرہی تھی۔
اور یہ سو فی صد فراز ہی تھا وہ آہستہ آہستہ آگے بڑھی فراز بہت آہستہ آواز میں بات کر رہا تھا۔ ”انکل وہ یہاں میرے گھر میں ہے۔ میں نے کافی تسلی دی ہے اسے آپ جلدی آئیں۔ میں فون بند کر رہا ہوں ایسا نہ ہو اسے شک ہوجائے۔“ وہ اگرچہ آہستہ آواز میں بول رہا تھا پر بغور کان لگا کر سننے سے حرف حرف رنم کی سماعتوں میں اتر گیا تھا۔ فراز فون بند کر چکا تھا۔
رنم کچھ ثانیے کے لئے جیسے اُدھر ہی سن ہوگئی، قدموں نے آگے بڑھنے سے انکار کردیا۔ فراز نے بھی کومل کی طرح اُسے دھوکہ دیا تھا۔ کتنی بری طرح فراز نے اس کے اعتبار کو توڑا تھا۔ اس کا سب سے بیسٹ فرینڈ اس کی پیٹھ میں چھرا گھونپ چکا تھا۔ یہ وقت افسوس کرنے کا نہیں تھا۔ اسے یہاں سے نکلنا تھا۔فراز پپا کو کال کر کے انفارم کر چکا تھا۔ وہ جہاں کہیں بھی تھے انہوں نے فراز کے گھر پہنچ جانا تھا۔
وہ ایک اور نمبر ملا کر بات کر رہا تھا۔ رنم الٹے قدموں چلتی ڈرائنگ روم میں پہنچی۔ وہاں سے سوٹ کیس اور ہینڈ بیگ اٹھایا۔ اس کا کل اثاثہ یہی دو چیزیں تھیں۔ وہ آہستہ قدموں سے چلتی گیٹ تک آئی ورنہ باہر موجود چوکیدار کو شک ہوسکتا تھا۔
پر خیریت رہی۔ گیٹ کے ساتھ رکھی اس کی کرسی خالی تھی۔ وہ شاید کسی ضرورت سے کہیں گیا ہوا تھا۔ وہ تیز تیز چلتی ہوئی روڈ تک آئی، اب آہستہ چلنے کا مطلب ناکامی تھا۔
خوش قسمتی سے فوراً ٹیکسی بھی مل گئی۔
وہ پھرتی سے دروازہ کھول کربیٹھ گئی۔ ”کسی اچھے سے ہوٹل لے چلو مجھے۔“ اس نے سوچے سمجھے بغیر کہا۔ اس کے ذہن میں کچھ بھی نہیں تھا۔ کومل اور فراز کو اس نے آزما لیا تھا اب اشعر کو آزمانے کی کوشش فضول تھی وہ اگر راعنہ کے پاس جاتی تو اس نے بھی نصیحتوں کے انبار لگا دینے تھے اور فوراً سے بھی بیشتر اس کے پپا کو انفارم کرنا تھا۔
اس لئے رنم نے تھک ہار کر ہوٹل کا سوچا تھا۔ اس کے ذہن میں کوئی بھی لائحہ عمل نہیں تھا حماقت در حماقت کرتی جارہی تھی۔ ٹیکسی ڈرائیور نے بیک مرر سے اس کا جائزہ لیا۔ رنم کوشش کر رہی تھی اس کی کسی حرکت سے پریشانی یا اضطراب کا اظہار نہ ہو۔ ٹیکسی والے نے بہت غور سے اسے کئی بار دیکھا۔ لڑکی شکل و صورت، لب و لہجہ اور لباس سے امیر گھر کی لگ رہی تھی اور جس جگہ سے وہ ٹیکسی رکوا کر بیٹھی تھی وہ علاقہ بھی پوش تھا۔ سو ایسے لوگ کس قسم کے ہوٹلز میں قیام کرتے ہیں ٹیکسی ڈرائیور کو اچھی طرح علم تھا۔ اس نے اپنی ٹیکسی ایک عمدہ مہنگے قسم کے ہوٹل کے سامنے لاکھڑی کی۔
                                        ###

Chapters / Baab of Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja