Episode 34 - Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 34 - میں گمان نہیں یقین ہوں - نبیلہ ابر راجہ

ڈرائنگ روم میں کمال اور اس کی والدہ عفت خانم آئی ہوئی تھیں۔ بوا نے شاندار طریقے سے خاطر مدارات کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔
اتوار کا دن تھا۔ عفت خانم بغیر کسی اطلاع کے اچانک اپنے سپوت کے ساتھ آن وارد ہوئی تھیں۔ زرینہ بیگم کوپتہ ہوتا کہ آج انہوں نے آنا ہے تو وہ انہیں منع کردیتی۔ کیونکہ اتوار کے دن وہاب لازمی ان کے گھر آتا تھا اور اچھا خاصا ٹائم گزار کر جاتا۔
وہ ذیان کے دیدار کے لئے آتا تھا اورگھنٹوں بیٹھتا تھا۔ کیونکہ اسے چھٹی کا ایک ہی دن ملتا تھا ویسے بھی وہ درمیان میں گاہے بگاہے چکر لگاتا تھا پر اتوار کے دن اس کی آمد لازمی ہوتی۔
بوا نے جلدی جلدی میں اچھا خاصا کھانا تیار کر لیا تھا جسے مہمان ڈکار کے ہضم بھی کر چکے تھے۔ اب زرینہ بیگم ان کے ساتھ باتوں میں لگی ہوئی تھیں۔

(جاری ہے)

عفت خانم جواب لینے آئی تھی کیونکہ زرینہ بیگم نے امیر علی کی عدم دلچسپی کی وجہ سے ابھی تک انہیں کچھ نہیں کہا تھا۔

اسی لئے آج وہ خود آئی تھی کچھ کمال کا دباؤ تھا۔ ذیان کی خوبصورتی، کم عمری من موہنی صورت نے اسے بے صبرا کردیا تھا اسی کے نتیجے میں وہ اس وقت عفت خانم کے ساتھ امیر علی کے گھر میں بیٹھا ہوا تھا۔ جبکہ زرینہ دل ہی دل میں دعا کر رہی تھی کہ وہاب آج یہاں کا رخ کرنا بھول جائے۔ پر ہونی ہو کر رہتی ہے وہاب آج خاصا لیٹ آیا جب تک خاص الخاص مہمان پر تکلف لنچ کر کے گپیں ہانک رہے تھے۔
وہاب نے ڈرائنگ روم کے باہر سے ہی جھانکا اندر نہیں گیا اور سیدھا بوا رحمت کے پاس آگیا۔ ”بوا کوئی مہمان آئے ہیں کیا؟“ اس نے استفسار کیا۔ ”ہاں وہاب میاں مہمان آئے ہوئے ہیں۔“ بوا نے وہاب کا چہرہ غور سے دیکھا۔ ”کون سے مہمان ہیں؟“ وہ تیزی سے بولا۔ ”آپ خود اندر چل کر دیکھ لیں۔ چھوٹی دلہن کے کوئی جاننے والے ہیں۔“ بوا نے مصلحت سے کام لیا کیونکہ اڑتی اڑتی کچھ باتیں ان کے کانوں تک بھی پہنچی تھیں اس لئے انہوں نے وہاب کو زیادہ تفصیل نہیں بتائی۔
پر نہ جانے کیوں اس کا چہرہ اندرونی اضطراب کی شدت سے لال ہو رہا تھا۔ بوا مہمانوں کے لئے چائے کے ساتھ دیگر لوازمات رکھ رہی تھیں۔ ذیان کے کمرے کا دروازہ حسب معمول حسب توقع بند تھا۔ امیر علی اپنے کمرے میں تھے۔ بوا نے چائے کا کپ اس کے آگے رکھا اس نے چھوا بھی نہیں۔ اندر ڈرائنگ روم سے اونچی آواز میں باتیں کرنے کی آوازیں آرہی تھیں۔
 ہنسی مذاق اور قہقہے بتا رہے تھے جیسے کسی دلچسپ موضوع پہ بات ہو رہی ہو۔
وہاب ٹی وی لاؤنج میں بیٹھ کر زرینہ خالہ کا انتظار کرنے لگا۔ نہ جانے کیوں رہ رہ کر اسے احساس ہو رہا تھا ان مہمانوں کا آنا بے سبب نہیں ہے۔ اور جو سبب اس کی سوچ میں آیا تھا اس نے وہاب کے ذہن میں ہلچل مچا دی تھی۔کچھ دنوں سے وہ نوٹ کر رہا تھا کہ امی اور زرینہ خالہ میں فون پہ لمبی لمبی باتیں ہونے لگی ہیں حالانکہ پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا تھا بہت ہوا تو روبینہ نے فون کر کے زرینہ سے دعا سلام کرلی خیر خیریت پوچھ لی اور بس۔
لیکن اب جب وہ آفس سے کبھی امی کے سیل نمبر پہ فون کرتا تو نمبر ہمیشہ مصروف ملتا۔ گھر میں ہوتا تب بھی زرینہ خالہ کی کال وقفے وقفے سے آتی اور روبینہ اپنا فون لے کر اِدھر اُدھر ہوجاتی۔ وہاب نے ایک دوبار بے دھیانی میں ان کی یک طرفہ گفتگو سنی تو خدشوں کے ناگ سرسرانے لگے۔
آج وہ اپنے خدشات کی تصدیق کے لئے ہی یہاں آیا تھا اور اسے محسوس ہو رہا تھا اس کے بے نام خدشات بہت جلد حقیقت بن کر اس کے سامنے آنے والے ہیں۔
وہ صبر سے خالہ کا انتظار کر رہا تھا۔ مہمان چائے پینے کے ساتھ ساتھ خوش گپیوں میں بھی مصروف تھے اسے اونچی آوازوں سے کوفت سی ہونے لگی۔زرینہ خالہ خاصی دیر بعد مہمانوں سے فارغ ہوئیں تب انہوں نے وہاب کو دیکھا۔ ”تم کب آئے؟“وہ خاصی پریشان نظر آرہی تھیں حالانکہ وہاب کو دیکھنے سے پہلے ان کا موڈ بالکل نارمل تھا اب چہرے پہ تفکر نے ڈیرے ڈال لئے تھے۔
کوشش کے باوجود وہ اپنی پریشانی چھپانے میں کامیاب نہیں ہوئی۔و ہاب یک ٹک انہیں دیکھ رہا تھا جیسے ان کے تاثرات میں آنکھوں میں کوئی راز چھپا ہو۔ ”تم کب آئے وہاب مجھے کسی نے بتایا ہی نہیں۔“وہ گڑ بڑائی۔” مجھے تو آئے ہوئے تین گھنٹے سے اوپر ہوگئے ہیں۔“ وہاب کا لہجہ عجیب سا تھا۔ ”کوئی چائے وائے پی تم نے۔“ زرینہ بیگم اس کی طرف دیکھنے سے احتراز برت رہی تھی۔
”خالہ یہ کون سے مہمان تھے میں نے پہلے نہیں دیکھا کبھی۔“ ”میرے ملنے والے تھے۔“ ”آپ کے سب ملنے والوں کو میں جانتا ہوں۔“ وہ سخت لہجہ میں ایک ایک لفظ کو چبا کر بولا تو زرینہ کے تاثرات بھی یکسر بدل گئے۔ اسے کیا ضرورت تھی وہاب سے ڈرنے یا دبنے کی۔
”یہ مہمان ذیان کے رشتے کے لئے آئے تھے۔“ زرینہ کے انداز میں فطری اعتماد لوٹ آیا تھا۔
”تو گویا آپ اور امی اتنے دن سے مل کر یہی کھچڑی پکا رہی تھیں۔“ وہ زہر خند ہو کر بولا۔ ”خالہ آئندہ مجھے یہ مہمان یہاں نظر نہ آئیں۔“ وہ انگلی اُٹھا کر وارننگ دینے والے انداز میں بولا تو زرینہ کے تلوؤں میں آگ لگی اور سر پہ بھی گویا۔ اس کا چہرہ غصے سے لال انار ہوگیا۔ ”تم مجھے یہ حکم دینے والے کون ہوتے ہو۔ میرے گھر کس کو آنا ہے کس کو نہیں آنا اس کا فیصلہ میں کروں گی نہ کہ تم۔
“ میں تمہاری مرضی یا حکم کی پابند نہیں۔“ ”خالہ یہ لوگ ذیان کے رشتے کے لئے آئے ہیں اس لئے میں نے کہا ہے کہ آئندہ مجھے یہاں نظر نہ آئیں۔“ ”ذیان ہماری اولاد ہے۔ یہ ہمارا گھر ہے اور ذیان کی شادی کس کے ساتھ کرنی ہے یا ہونی ہے اس کا فیصلہ بھی ہم نے کرنا ہے تم نے نہیں۔“ زرینہ چیخ ہی تو پڑی۔ وہاب تھوڑا خائف سا ہوگیا۔کچھ بھی سہی وہ اس وقت خالہ کے گھر میں تھا اور کچھ کہنے کی پوزیشن میں بھی نہیں تھا۔
اس اچانک صورت حال نے اس کے حواس سلب کر لئے تھے اوپر سے خالہ شیرنی کی مانند اس پہ چڑھ دوڑی تھی۔ ”خالہ آپ کو شاید پتہ نہیں ہے میں ذیان کو پسند کرتا ہوں شادی کرنا چاہتا ہوں۔“ اس کا انداز اب دفاعی ہوگیا تھا۔ ”مجھے اس کا اندازہ نہیں تھا ورنہ کچھ نہ کچھ کرتی۔“زرینہ نے بھی ایکدم سے پینترا بدلا۔ ”کیا مطلب خالہ میں سمجھا نہیں۔“
”مطلب یہ ہے کہ امیر علی کبھی نہیں مانیں گے کہ تمہارے اور ذیان کے رشتے کے لئے۔
”کیوں خالہ آخر کیوں نہیں مانیں گے وہ؟“
”کیونکہ وہ میرے خاندان میں اپنی بیٹی کی شادی نہیں کرنا چاہتے۔“ زرینہ وہاب کی نرمی اور پسپائی محسوس کر کے شیر ہوگئی تھی۔ ”خالہ آپ امیر خالو سے بات تو کریں بلکہ میں امی کو بھیجوں گا رشتے کے لئے فوراً۔ پہلے میرا ارادہ کچھ اور تھا پر اب دیر نہیں کروں گا ایسا نہ ہو”ٹور شور“بنانے کے چکر میں سب کچھ ہی میرے ہاتھ سے نکل جائے۔
“ ”ٹور شور سے تمہارا کیا مطلب ہے؟“
وہ وہاب کی بات کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کر رہی تھیں۔ ”میں کچھ سیونگ کے چکر میں تھا اتنا ہوجائے کہ میں گولڈ کا ایک سیٹ منگنی کے لئے اور شاندار سا سوٹ لے سکوں۔ کسی اچھے ہوٹل میں اپنی منگنی کا فنکشن دھوم دھام سے کروں۔ ذیان کے شایانِ شان“ اس نے ٹور شور کی طویل وضاحت کی۔ ”میں امی کو جلدی بھیجوں گا آپ کے پاس“ ”آپا کو میرے پاس رشتے کی نیت سے بھیجنے کی ضرورت نہیں ہے ہم عفت خانم کو ہاں کر چکے ہیں۔
“ زرینہ نے جھوٹ فراٹے سے بولتے ہوئے اس کے اعتماد کی مضبوط دیوار میں پہلا سوراخ کیا۔ تب زرینہ کو وہاب کے چہرے پہ چٹانوں کا سا عزم نظر آیا۔ ”آپ نے صرف رشتے کے لئے ہاں کی ہے ناں۔ نکاح تو نہیں ہوا ناں۔“ وہ عجیب سے انداز میں بولا۔ ”شریف خاندانوں میں زبانی رضا مندی نکاح سے کم نہیں ہوتی۔“ جواباً وہ ٹھنڈے ٹھار لہجہ میں بولیں۔ ”خالہ میں اس وقت جارہاہوں بعد میں پوری تیاری کے ساتھ آؤں گا۔
“ وہاب دروازے کوپاؤں سے ٹھوکر مار کر کھولتے ہوئے عبور کر گیا۔ بوا حیرانی اور نا سمجھی کے عالم میں وہاب کو دیکھ رہی تھیں۔
زرینہ نے اسی وقت ذیان کے کمرے کا دروازہ دھڑ دھڑایا۔ اس نے لاک کیا ہوا تھا، اور سر منہ لپیٹ کے لیٹی تھی۔ وہ مہمانوں کی آمد پہ ایک بار بھی باہر نہیں نکلی تھی۔ حالانکہ عفت خانم نے کتنی بار اس کا پوچھا تھا زرینہ نے جھوٹ بول کر انہیں مطمئن کیا تھا۔
زرینہ کو پتہ تھا ذیان اس کے کہنے کے باوجود بھی کمرے سے نکل کر عفت خانم سے نہیں ملے گی اس لئے انہوں نے ایسی کوشش کی ہی نہیں تھی۔
ذیان نے بولٹ گرا کر لاک ہٹا دیا تھا۔زرینہ تیزقدموں سے آگے اس کی طرف آئی تھی۔
”تم مہمانوں کے آنے پہ کمرے سے باہر کیوں نہیں نکلی؟“اسے ذیان پہ شدید غصہ آرہا تھا کیونکہ وہی تو اس سارے فساد کی جڑ تھی۔
”وہ آپ کے مہمان ہیں اس لئے آپ خود ہی ڈیل کریں۔“ ”خیر میں تمہیں یہ بتانے آئی تھی کہ کمال کی والدہ رشتے کی رضا مندی کا جواب لینے آئی تھی۔ تمہارے ابو کو کمال بہت پسند آیا ہے اس لئے تم خود کو ذہنی طور پہ کمال سے شادی کے لئے تیار کرلو۔“ ”مجھے نہیں کرنی کسی بھی کمال یا جمال سے شادی۔“وہ سرد لہجہ میں بولی۔ ”تمہارے ابو کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔
ان کے حال پہ رحم کرو۔“ زرینہ کا لہجہ کاٹ دار تھا۔ ”آپ میرے حال پہ رحم کریں نہیں کرنی مجھے شادی۔“ اس بار ذیان نے باقاعدہ ہاتھ جوڑ دئیے۔ ”تمہاری ماں خود عیش کر رہی ہے تمہیں میرے سینے پہ مونگ دلنے کے لئے یہاں چھوڑ گئی ہے۔ زرینہ نے آواز دبا کر ایک ایک لفظ پہ زور دیا۔ یہ ذیان کی کمزوری اور دکھتی رگ تھی۔
اس کے چہرے کا رنگ یکدم متغیر ہوا۔
زرینہ دل ہی دل میں خوش ہوئی۔ ”کمال نہیں پسند تو نہ سہی وہاب بھی تمہارے امیدواروں میں شامل ہے۔“ اس نے تاک کر ایک اور وار کیا۔ ”میں لعنت بھیجتی ہوں وہاب پر اور آپ سے وابستہ ہر چیز پہ۔“ ذیان زہر میں بجھے ہوئے لہجے میں بولی۔پہلی بار زرینہ نے اس کے اندر سرکشی کو سر اٹھاتے دیکھا۔ ”ایسی صورت میں کمال بیسٹ چوائس ہے۔“ غصے میں بھی زرینہ نے عقل کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔
”آپ کو کمال اتنا ہی پسند ہے تو رابیل یا مناہل میں سے کسی ایک کی شادی اس کے ساتھ کردیں۔“ ذیان نے یہ مشورہ دے کر گویا بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈال دیا۔ ”رابیل یا مناہل کا نام لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں ان کی ماں ابھی زندہ ہوں میری بیٹیاں لاوارث نہیں ہیں۔ ذیان کاٹ ڈالوں گی جوآئندہ ان کا نام لیا۔ تمہاری ماں کی طرح نہیں ہوں اپنی بچیوں کی بھلائی عزیز ہے مجھے۔
“ ذیان کا چہرہ دھواں دھواں سا ہوگیا۔ زرینہ کا وار نشانے پہ لگا تھا۔ ذیان صوفے پہ گرنے والے انداز میں بیٹھ گئی۔ زرینہ کو اس کا شکست خوردہ چہرہ دیکھ کر دلی خوشی ہوئی۔ اپنی ماں کا نام لئے جانے پہ اس کی یہی حالت ہوتی تھی۔ ذیان کی آنکھوں میں آنسو ڈول رہے تھے۔ زرینہ اسے چھوڑ کر باہر آگئی۔ اب جو طوفان پیچھے آتا اس کی بلا سے، اسے سروکار نہیں تھا۔
ذیان نے وحشیانہ انداز میں تکیے پہ مکے برسائے۔ دیواروں پہ لاتیں ماریں اپنے بال نوچے لیکن گھٹن بڑھتی جارہی تھی۔ تھک ہار کر اب وہ گھٹنوں میں سر دئیے سسک سسک کر رو رہی تھی۔ اس کی چند ثانیے پہلے والی ساری اکڑ اور تیزی رخصت ہوگئی تھی۔ طوفان آنے کے بعد سناٹے اور خاموشی والی کیفیت تھی۔
                                           ###

Chapters / Baab of Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja