Episode 36 - Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 36 - میں گمان نہیں یقین ہوں - نبیلہ ابر راجہ

عتیرہ سونے کے لئے لیٹ چکی تھیں۔ارسلان مطالعے میں مصروف تھے۔ عتیرہ بستر پہ نیم دراز ہوئیں تو انہوں نے بھی کتاب رکھ دی۔ ”کل کے لئے تیاری کرلی ہے ناں؟“وہ اسے سوالیہ نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔ ”جی ہاں سب تیاری مکمل ہے۔“وہ آنکھیں موندے موندے بولیں۔ ”اس کے چہرے پہ تھکن تھی۔ شاید دن بھر کی مصروفیت کا نتیجہ تھا۔ صبح انہیں اپنے کام کے سلسلے میں دوسرے شہر جانا تھا اور قیام ہوٹل میں تھا۔
ارسلان ادبی ذوق کے مالک تھے وقتاً فوقتاً وہ شہر میں ہونے والی ادبی سرگرمیوں میں شرکت کرتے رہتے تھے۔ تقاریب کے دعوت نامے آئے دن ملتے۔ان دونوں یعنی ملک ارسلان اور عتیرہ نے کچھ روز کے لئے گاؤں سے باہر جانے کا پروگرام بنایا تھا۔ عتیرہ ویسے بھی ادبی سرگرمیوں اور دلچسپیوں میں ان کیساتھ ہی ہوتی تھیں۔

(جاری ہے)

ملک ابیک کو ان دونوں کے ہوٹل میں قیام پہ اعتراض تھا کیونکہ شہر میں ان کا عالیشان گھر موجود تھا۔

پر ہوٹل میں قیام کرنا ان کی مجبوری تھی کیونکہ وہ جس ادبی تقریب میں شرکت کرنے جارہے تھے وہ اسی ہوٹل میں منعقد ہونی تھی اس لئے ملک ارسلان نے وہاں قیام کو اولیت دی تھی کیونکہ تقریب میں ان کے پسندیدہ شعرا بھی مدعو تھے۔ ابیک سے انہوں نے معذرت کرلی تھی۔
اولاد سے محرومی کے دکھ کو ان دونوں میاں بیوی نے اپنی اپنی مصروفیت میں بھلانے کی کوششیں کی تھیں اور اس میں کافی کامیاب بھی تھے۔
اس بار شہر آنے کا فیصلہ انہوں نے عتیرہ کی ذہنی صحت کے پیش نظر کیا تھا کیونکہ اسے بار بار ڈپریشن کے دورے پڑنے لگے تھے۔ وہ ماضی کی بھول بھلیوں میں گم ہو رہی تھی۔ ماضی جو ہمیشہ سے ان دونوں کے لئے اذیت ناک رہا تھا۔ ملک ابیک اسے ماضی کے عمیق غاروں سے نکالنا چاہ رہے تھے اور اس میں کافی کامیاب بھی رہے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ عتیرہ کل شہر جانے کے تصور سے خوش تھیں۔
                                      ####
احمد سیال پاگلوں کی طرح رنم کو تلاش کرتے پھر رہے تھے۔
رات گئے انہوں نے باری باری رنم کے سب دوستوں کو کال کر کے اس کے بارے میں پوچھا۔ فراز نے سچائی سے سب حالات ان کے گوش گزار کردئیے تھے۔ وہ خود چل کر فراز کے پاس آئے تھے۔ کومل کی زبانی رنم کی بابت سن کر وہ ڈھے سے گئے۔ فراز کو ساتھ لے کر انہوں نے رنم کی سب سہیلیوں، دوستوں سے اس کے بارے میں پوچھا۔
بدنامی کے ڈر سے وہ اس بات کو پھیلانے سے ڈر رہے تھے ان کے دوست احباب رنم کی گمشدگی سے واقف ہوجاتے تو کتنی باتیں بنتیں۔ انہیں اپنی عزت اور خودداری عزیز تھی۔ اس لئے خاموشی سے انہوں نے رنم کی تلاش کے لئے ممکنہ جگہیں دیکھ ڈالی۔ ہاسپٹل، مردہ خانے، ائیرپورٹ بس اسٹینڈ ہر جگہ سے اس کے بارے میں معلوم کروایا۔
وہ کہیں بھی نہیں تھی۔ اور کوئی ایسا ثبوت بھی نہیں تھا جس کی بناء پر وہ اسے اغوا شدہ گردانتے۔
وہ خود اپنی مرضی سے گھر چھوڑ کر گئی تھی۔ جو گم ہوجاتے ہیں انہیں تلاش کیا جاسکتا ہے پر وہ جو اپنی مرضی سے گئی تھی احمد سیال اسے کہاں تلاش کرتے اس نے کوئی سراغ نہیں چھوڑا تھا۔ فراز کے مشورے پہ انہوں نے احتیاطاً رنم کی گم شدگی کی رپورٹ پولیس میں درج کروا دی تھی۔
فراز نے ان کی بہت مدد کی تھی ہر جگہ رنم کو تلاش کرنے کی مہم میں وہ احمد سیال کے ساتھ ساتھ رہا تھا۔
رنم کی پراسرار گمشدگی احمد سیال کے ساتھ ساتھ باقی ان سب دوستوں کے لئے بھی معمہ بنی ہوئی تھی۔
طویل سیاہ رات گزر چکی تھی۔ سپیدہ سحر اندھیری رات کا سینہ چیرتے ہوئے نمودار ہونے کی فکر میں تھا۔ احمدسیال پوری رات میں ایک لمحے کے لئے بھی نہیں سو پائے تھے۔ انہیں ایسے لگ رہا تھا جیسے وہ شدید کرب کے حصار میں ہیں ان کی یہ جان کنی کی کیفیت ختم ہونے والی نہیں تھی۔
ان کی رنم گھر پہ نہیں تھی۔ وہ اپنے گھر تھے پر ان کی لاڈلی بیٹی نے کہاں اور کیسے رات گزاری تھی وہ اس سے لاعلم تھے۔ محض ایک رات میں ہی وہ برسوں کے بیمار نظرآرہے تھے۔ چوڑے کندھے جھک گئے تھے چہرے پہ زردی کھنڈی تھی۔ انہوں نے پولیس میں رپورٹ درج کروا دی تھی۔ ان کا دوست ایس پی گوندل خود رنم کی گمشدگی سے متعلق معاملات کو دیکھ رہا تھا پرابھی تک اس کی طرف سے بھی کوئی حوصلہ کن خبر نہیں ملی تھی۔
رنم کو اگر خبر ہوجاتی کہ احمد سیال کس کرب اور اذیت سے گزر رہے ہیں تو ایسے گھر چھوڑ کر جانے سے پہلے یقینا وہ بہت بار سوچتی۔ رات سے انہوں نے کھانے کے نام پہ پانی کے چند گھونٹ ہی پیئے تھے۔
ہوٹل میں رنم کا تیسرا دن تھا۔ اس دوران وہ ایک بار بھی اپنے کمرے سے باہر نہیں نکلی۔ تینوں وقت ناشتہ چائے پانی کھانا کمرے میں ہی منگواتی۔ ہوٹل کے کچھ ملازم اور بیرے اس کی طرف سے نامعلوم تجسس کا شکار ہو رہے تھے۔
نہ وہ کہیں گئی تھی نہ اسے کوئی ملنے آیا تھا۔ اس شاندار سہولیات سے مزین ہوٹل میں اس نے پورے ایک ماہ کے لیے کمرہ بک کروایا تھا۔ سامان کے نام پہ اس کے پاس صرف چھوٹا سا ایک سوٹ کیس اور ہینڈ بیگ تھا اور سب سے حیرت انگیز بات اس کے پاس سیل فون بھی نہیں تھا۔ صفائی کرنے والے لڑکے نے نظر بچا کر اس کے سامان اور کمرے کی سرسری سی تلاشی لی تھی۔ ہوٹلوں میں لوگ آتے جاتے رہتے ہیں کسی کا قیام مختصر اور کسی کا طویل ہوتا ہے۔
پر رنم کی طرف سے ہوٹل اسٹاف کے کچھ لوگ تجسس کا شکار ہو رہے تھے۔ لڑکی خوبصورت اور اونچے گھرانے کی لگ رہی تھی صاحب حیثیت بھی تھی تب ہی تو اس مہنگے ہوٹل میں آ کر ٹھہری تھی۔ ورنہ عام انسان تو یہاں کی ایک چائے کی پیالی بھی افورڈ نہ کر سکتا تھا۔
رنم کے پاس پیسے تیزی سے کم ہو رہے تھے۔ وہ ہینڈ بیگ میں موجود سب چیزیں باہر نکال نکال کر دیکھ رہی تھی۔
بظاہر سب چیزیں پوری تھیں پر پھر بھی کہیں نہ کہیں کسی کمی کا احساس ہو رہا تھا۔ رنم ہینڈ بیگ میں موجود چیزیں اندر ڈال کر نقد پیسے گن رہی تھی جب دروازے پہ ہلکی آواز میں دستک ہوئی۔ ”یس کم ان۔“ اس نے مصروف انداز میں کہا خود وہ اپنے کام میں لگی رہی۔ اسے کھانا پہنچانے والا بیرا دبے قدموں اندر داخل ہوا۔ وہ رنم کی پشت پہ کھڑا تھا۔ آہٹ پہ وہ چونک کر سیدھی ہوئی اور بیرے کو دیکھ کر ہڑبڑاتے ہوئے پیسے اور دیگر چیزیں سب تکیے کے نیچے کردیں۔
پر اس کے چھپانے سے پہلے ہی وہ سب کچھ دیکھ چکا تھا۔ 
بیرے کے ہاتھ میں کھانے کی ٹرے تھی۔ اس نے اپنے تاثرات سے ذرا بھی ظاہر نہ ہونے دیا کہ وہ سب دیکھ چکا ہے۔ اس نے کھانے کی ٹرے ٹیبل پہ رکھی اور ادب سے سلام کر کے باہر آگیا۔ بیرے نے اسے پیسے گنتے دیکھا تھا پر ساتھ ہی اس نے ہینڈ بیگ سے باہر رہ جانے والے سونے کی زیورات بھی رنم کی لاپروائی کی وجہ سے دیکھ لئے تھے۔
اسے پوری امید تھی کہ لڑکی کے پاس اور بھی بہت کچھ ہوگا کیونکہ وہ موٹی آسامی لگ رہی تھی۔ اس کی نیت میں فتور آچکا تھا۔ لڑکی جوان اور خوبصورت تھی سونے پہ سہاگا اکیلی تھی ابھی تک تو اس نے لڑکی کے ساتھ کسی کو بھی نہیں دیکھا تھا نہ اس نے کسی سے رابطہ کیا تھا۔ یعنی دوسرے الفاظ میں وہ اس کے لئے آسان ترین شکار ثابت ہوسکتی تھی۔ اس لئے رنم کو کھانا پہنچا کر واپس جاتے ہوئے اسے اپنے منصوبے کے بارے میں سوچتے ہوئے سرور آرہا تھا۔
کمرے میں بند رہ رہ کر رنم اکتا گئی تھی۔ ڈرتے ڈرتے اس نے پہلی بار کمرے سے باہر قدم رکھا۔ اس نے بیرے کو پہلے ہی کھانا لانے سے منع کردیا تھا۔ وہ آزاد فضا میں تھوڑی دیر بیٹھ کر اپنے مسائل کا حل سوچنا چاہ رہی تھی سب سے بڑا مسئلہ تو تیز ی سے ختم ہوتی ہوئی رقم کا تھا۔
اس نے گھر سے نکلنے سے پہلے گنے بغیر پیسے بیگ میں ڈالے تھے اچھی خاصی رقم تھی لیکن اسے گننے کے بعد کم لگ رہی تھی۔
اس کی فکر اپنی جگہ تھی لیکن ابھی اس کے پاس اچھی خاصی مالیت کے زیورات بھی تھے جو اس کی ذاتی ملکیت تھی کریڈٹ کارڈ اور اے ٹی ایم کارڈز اس کے علاوہ تھے۔ اس کے باوجود بھی وہ پریشان تھی۔ شاید اسے پیش آنے والی تلخ حقیقتوں کا کچھ کچھ اندازہ ہو رہا تھا۔ ایک ثانیے کے لئے اس کے جی میں آئی کہ گھر واپس چلی جائے لیکن فوراً ہی اس نے اپنے اس خیال کا گلا مضبوطی سے گھونٹ دیا۔
وہ احمد سیال سے بہت شدید ناراض تھی۔
کھانا ویٹر نے سرو کردیا تھا پر اس نے کھانے کو آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا۔
اسی ڈائیننگ ہال میں اور بہت سے لوگوں کے ساتھ عتیرہ بھی تھیں۔
عتیرہ کی نظر کھانے کے دوران اچانک رنم پہ پڑی۔ سب ہی کھانا کھا رہے تھے پر شکل سے اداس اور پریشان نظر آنے والی لڑکی کھانے کی طرف بالکل بھی متوجہ نہیں تھی۔ کھانے کو سامنے رکھے وہ غیر مرئی نکتے کو دیکھ رہی تھی۔ عتیرہ کو اپنے بائیں پہلو میں شدید چبھن کا احساس ہوا۔

Chapters / Baab of Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja