Episode 39 - Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 39 - میں گمان نہیں یقین ہوں - نبیلہ ابر راجہ

قیامت در قیامت تھی۔ ملک جہانگیر، احمد سیال کے پاس آئے ہوئے تھے۔ کھانے کے بعد چائے کا دور چلا۔ جہانگیر اپنے دوست احمد سیال کو کچھ اپ سیٹ سا دیکھ رہے تھے۔ چائے پینے کے بعد وہ فارغ ہوئے تو ملک جہانگیر نے اپنی آمد کی غرض و غائیت بیان کی۔
”میں نے تم سے اپنے بڑے بیٹے کے رشتے کی بات کی تھی۔ اتنے دن گزر گئے ہیں تم نے کوئی جواب نہیں دیا۔
میں نے سوچا تم سے مل بھی لوں اور اس تاخیر کا سبب بھی دریافت کروں۔“ ملک جہانگیر ہلکے پھلکے انداز میں بولے۔ احمد سیال معذرت خواہانہ انداز میں مسکرائے۔ ”میں کچھ دن میں خود گاؤں تمہاری طرف آنے والا تھا۔“ اتنا بول کر وہ خاموش ہوگئے۔
ملک جہانگیر اس کے مزید بولنے کے منتظر تھے۔ ”میری بیٹی رنم اعلی تعلیم کے حصول کے لئے کینیڈا چلی گئی ہے۔

(جاری ہے)

وہ ابھی شادی نہیں کرنا چاہتی اس لئے میں تم سے معذرت خوا ہ ہوں۔“ وہ بہت دیر بعد آہستہ آہستہ گویا ہوئے۔ جہانگیر کے سینے سے ایک ٹھنڈی سانس خارج ہوئی۔
تو احمد سیال کی پریشانی کی وجہ یہ تھی اس لئے وہ شدید شرمندہ نظر آرہا تھا۔ ”اس میں معذرت والی کوئی بات ہی نہیں ہے۔ نہ تمہیں اس پہ کوئی شرمندگی ہونی چاہیے۔“ جہانگیر نے احمد سیال کے کندھے پہ دوستانہ انداز میں ہاتھ رکھتے ہوئے گویا انہیں تسلی دینے کی کوشش کی۔
لیکن خود اندر سے وہ بد دل ہوچکے تھے۔ وہ جلد از جلد ملک ایبک کی شادی کے چکر میں تھے اور احمد سیال سے دوستی کے رشتے کو رشتہ داری میں بدلنے کے خواہاں تھے۔ یہ امید تو ختم ہی تھی۔ احمد سیال کی لاڈلی اکلوتی بیٹی اعلیٰ تعلیم کے حصول کی خاطر کینیڈا جاچکی تھی۔ اور بے چارا احمد سیال شرمندہ نادم ان کے سامنے بیٹھا تھا۔
”ہم دوست ہیں اور ہمیشہ رہیں گے کیا ہوا جو ہماری دوستی رشتہ داری میں نہ بدل سکی۔
ملک جہانگیر سے احمد سیال کی مسلسل خاموشی برداشت نہیں ہو رہی تھی۔ ”ہاں ہاں تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔ لیکن یقین جانو میں بہت شرمندہ ہوں۔ اس لئے اتنے دن گزرنے کے باوجود میری ہمت نہیں ہوئی کہ تم سے بات کروں۔“ لیکن میں تمہارا شکر گزار ہوں جو تم نے میری مجبوری کو سمجھا۔“ ”یار اَب بس بھی کرو میں شرمندہ ہو رہا ہوں اب۔“ جہانگیر نے قصداً مزاحیہ انداز اختیار کیا۔
اور واقعی کچھ دیر بعد احمد سیال بظاہر نارمل ہو کر ان سے بات کر رہے تھے۔
ملک جہانگیر جاچکے تھے پر احمدسیال اور بھی پریشان تھے۔ رنم کی پراسرار گمشدگی نے ان کی ذہنی و نفسیاتی کیفیت کو بھی متاثر کیا تھا۔ وہ اپنے مالی معاملات دفتری امور کسی پہ بھی توجہ نہیں دے پا رہے تھے۔ ان کا ذہنی دباؤ بڑھتا جارہا تھا۔ انہیں لاڈلی بیٹی کی ناراضگی کا سبب معلوم تھا۔
وہ ان لڑکیوں میں سے نہیں تھی جو ایک شخص کی محبت کی خاطر والدین کی محبتوں سے منہ موڑ کر گھر کی دہلیز پار کرجاتی ہیں۔ بلکہ رنم نے ایک احمقانہ ضد کی خاطر غصے میں آ کر یہ انتہائی قدم اٹھایا تھا۔ اگر وہ کسی کو پسند کرتی محبت کرتی تو احمد سیال کو اس کی بات ماننے میں تامل نہ ہوتاوہ تو ان کی ہستی کی بنیادیں تک ہلا گئی تھی۔ اب وہ پچھتا رہے تھے کہ پہلی بار ہی اس کی بات تسلیم کرلی ہوتی تو بہلا دیا ہوتا بیٹی کو۔
وہ رنم کے سب دوستوں خاص طور پہ فراز اور کومل کو روز ہی فون کرتے کہ شاید اس نے ان سے رابطہ کیا ہو یا اس کی کوئی خیر خبر مل جائے۔ فراز نے اپنے طور پہ بہت کوشش کی تھی اس کا سراغ لگانے کی۔ پولیس نے الگ اپنی کارکردگی دکھانے کی کوشش کی تھی۔ یہ سب کام رازداری سے ہوئے تھے کیونکہ احمد سیال کی شرط ہی یہی تھی کہ رنم کی گمشدگی کا پتہ نہیں چلنا چاہیے۔
غالباً اسی رازداری والی شرط کے سبب رنم کی گم شدگی معمہ بنی ہوئی تھی۔
ملک ارسلان اور عتیرہ ہوٹل سے چیک آؤٹ کر رہے تھے۔ رنم سخت خوفزدہ تھی۔ ان حالات میں جب ان دونوں نے اسے اپنے ساتھ چلنے کی پیش کش کی تو اسے یوں محسوس ہوا جیسے یہ امداد غیبی ہو۔ اس نے ان کی یہ پیش کش فوراً قبول کرلی۔
عتیرہ اس کے پہنے گئے کپڑوں کو تنقیدی نگاہوں سے دیکھ رہی تھیں ان کی حویلی کے حساب سے یہ قطعی ناموزوں تھے اس لئے ہوٹل چھوڑنے سے پہلے انہوں نے اس کے لئے کچھ ضروری خریداری کی۔
ہوٹل کے پاس ہی شاپنگ مال تھا انہو ں نے رنم کو بھی ساتھ چلنے کی پیش کش کی پر اس نے انکار کردیا۔ عتیرہ اس کے لئے کپڑے جوتے اور استعمال کی کچھ اور چیزوں کی خریداری مکمل کر کے واپس آئیں تو ملک ارسلان گاؤں روانگی کے لئے تیار تھے۔ عتیرہ نے خریدے گئے کپڑوں میں سے ایک سوٹ رنم کی طرف بڑھایا۔ ”نیناں تم یہ پہن کر جلدی سے تیار ہوجاؤ اور بال بھی باندھ لو۔
“ عتیرہ نے تنقیدی نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا۔ رنم خاموشی سے کپڑے لے کر چلی گئی۔ یہ ایمبرائڈری والی قمیض ٹراؤزر اورساتھ ہمرنگ دوپٹہ تھا۔ اسیٹپس میں کٹے بالوں کو اس نے بمشکل تمام پنیں لگا کر سمیٹا اورپھر پونی باندھی۔ اب اس کی ظاہری شکل و صورت اور حلیہٴ کافی تبدیل ہو چکا تھا۔ عتیرہ نے دیکھا تو مطمئن ہوگئیں۔
رات کو انہوں نے رنم سے کافی باتیں کی تھیں۔
اپنے خاندان، گاؤں اور حویلی کے بارے میں معلومات دی تھیں۔
رنم کو انہوں نے اچھی طرح سمجھا دیا تھا کہ حویلی میں کیسے رہنا ہے اور کسی کے پوچھنے پہ کیا جواب دینا ہے۔ رنم نے ان کو اپنا فرضی نام نیناں بتایا تھا۔ اس لئے جب وہ دونوں اسے نیناں کہہ کر مخاطب کرتے تو وہ ایک ثانیے کے لئے چونک سی جاتی۔ شکر ہے انہوں نے اس پہ توجہ نہیں دی تھی۔
رنم نے دوپٹہ اچھی طرح اپنے سر پہ جمایا۔ وہ دوپٹہ سر پہ لینے کی عادی نہیں تھی کیونکہ جیسی ڈریسنگ وہ کرتی تھی اس میں دوپٹہ لینے کی گنجائش نہیں تھی۔ اس لئے دوپٹہ سر پہ لینے میں اسے ازحد مشکل پیش آرہی تھی۔ عتیرہ نے دوپٹہ اس کے سر پہ اوڑھا کر ایک سائیڈ پہ پن لگا دی تھی۔ ان کی اس حکمت عملی سے رنم بار بار دوپٹہ سنبھالنے کی زحمت سے بچ گئی تھی۔
وہ ملک ارسلان اور عتیرہ کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گئی تھی۔ ایک نئی منزل کی طرف اس کا سفر شروع ہوچکا تھا۔
گاڑی شہر سے نکل کر گاؤں والے راستے پہ رواں دواں تھی۔ رنم شیشے کی طرف چہرہ کیے باہر دیکھ رہی تھی۔ سڑک کے دونوں اطراف سرسبز کھیت اور بلند و بالا درخت ایستادہ تھے۔ کہیں کہیں کچے مکانات بھی نظر آرہے تھے۔ نیز دور سبز چراگاہوں میں مویشی چرتے نظر آرہے تھے۔ عورتیں کھیتوں میں کام کر رہی تھیں۔
یہ سب مناظر رنم کے لئے بالکل نئے اور انوکھے تھے۔ شیشے سے باہر کا نظارہ کرتے ہوئے وہ کچھ دیر کے لئے وقتی طور پہ اپنے سب دکھ بھول گئی تھی۔ یہاں کا ماحول اور فضا شہر سے بالکل ہی اچھوتی اور مختلف نظر آرہی تھا۔
                                     ###

Chapters / Baab of Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja