Episode 41 - Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 41 - میں گمان نہیں یقین ہوں - نبیلہ ابر راجہ

سفید حویلی جس میں نیناں یعنی رنم، ملک ارسلان اور عتیرہ کے ہمراہ آئی تھی بہت شاندارتھی۔ اپنی پریشانی کے باوجود وہ حویلی کی خوبصورتی، سجاوٹ اور وقار دیکھ کر دنگ رہ گئی تھی۔ حویلی کے ساتھ خوبصورت باغ بھی تھا۔ جس میں نایاب اقسام کے پودے اور درخت اپنی بہار دکھا رہے تھے۔ عتیرہ نے رنم کو نوکرانیوں والے حصے میں نہیں ٹھہرایا تھا بلکہ حویلی کے رہائشی حصے میں بنے کمروں میں سے ایک اس کے لئے مخصوص کردیا تھا۔
یہ فرق صاف ظاہر کر رہا تھا کہ رنم کو اس نے خاص اہمیت اور حیثیت دی ہے۔ رنم کی رہائش کا انتظام ہوگیا تھا اس کے بعد عتیرہ نے اسے حویلی کے تمام ملازمین سے متعارف کروایا اورسب سے آخر میں وہ اسے افشاں بیگم سے ملوانے لائیں۔
ملک جہانگیر شہر میں تھے وہاں ان کی آنکھوں کا آپریشن ہو رہا تھا۔

(جاری ہے)

آنکھوں میں اترے موتیے کے سبب ان کی بینائی دن بہ دن متاثر ہو رہی تھی اسی لئے انہوں نے آپریشن کروانے کا فیصلہ کیا تھا۔

وہ اس کے لئے آج ہی ملک ارسلان کے ساتھ شہر روانہ ہوئے تھے۔ جہاں ملک ابیک نے ان کے ہاسپٹل میں ایڈمٹ ہونے کے تمام تر انتظامات مکمل کرلئے تھے۔
افشاں بیگم کو نیناں یعنی رنم کی بے چارگی و درماندگی کا سن کر بہت دکھ ہوا۔ وہ اس کے لئے دل میں ہمدردی محسوس کر رہی تھی۔
عتیرہ نے اسے پوری حویلی دکھا کر سب کاتعارف کروا چکی تھی۔ شروع میں رنم بہت خوفزدہ اور سہمی ہوئی تھی اب اس کا خوف آہستہ آہستہ تحلیل ہو رہا تھا۔
حویلی میں ملک ارسلان اور عتیرہ بیگم ہی تھے اور باقی ڈھیر سارے ملازمین۔ ملک ارسلان صبح ناشتے کے بعد ڈیرے کی طرف نکل جاتے گھرمیں عتیرہ ہوتیں ملازموں کے ہمراہ۔ رنم کے ذمے کوئی خاص کام نہیں تھا اور فارغ بیٹھ بیٹھ کر وہ حقیقی معنوں میں اکتا گئی تھی اس کی اسی اکتاہٹ کے سبب عتیرہ نے حویلی کے ملازمین کی سپر ویژن کا کام اسے سونپ دیا۔ یعنی ایک لحاظ سے وہ سب کی انچارج تھی۔
رنم نے یہ کام یا اس نوعیت کی دیگر امور کبھی بھی سر انجام نہیں دئیے تھے اس لئے یہ مصروفیت اس کے لئے غنیمت تھی۔
عتیرہ نے فارغ اوقات میں حویلی کے دوسرے حصے میں مقیم ملک جہانگیر اور افشاں بیگم کی طرف چلی جاتیں اور رنم فارغ ہوتی تو وہ اسے بھی ساتھ لے لیتیں۔ لیکن اکثر اوقات وہ ان کے ساتھ جانے سے معذرت کرلیتی۔ عتیرہ اس سے بہت خوش تھیں۔
انہیں ایسے محسوس ہوتا تھا نیناں نے آ کر ان کی ایک عرصے کی تنہائی کا مداوا کردیا ہے۔ وہ نیناں سے چھوٹی چھوٹی باتیں کرتیں شام کی چائے اکثر اس کے ساتھ پیتیں۔ یعنی وہ ان کے لئے خاص تھی۔ حویلی کے دیگر ملازمین بھی عتیرہ کی اس کے لئے خصوصی توجہ محسوس کر رہے تھے اس لئے سب اس سے ادب سے پیش آتے۔ ملک ارسلان نیناں کو حویلی لانے کے فیصلے سے مطمئن تھے کیونکہ اس کی آمد کے بعد عتیرہ خوش رہنے لگی تھی۔
ایک مخصوص اداسی اور یاسیت جو عرصہ دراز سے ملک ارسلان کی تمام تر توجہ اور محبت کے باوجود عتیرہ کی شخصیت کا حصہ بنی ہوئی تھی وہ اب کم ہونے لگی تھی۔ وہ زندگی کے معاملات میں پھر سے سرگرم ہمسفر کا رول ادا کرنے میں مطمئن تھی۔ یہ تبدیلی خوش آئند تھی۔ نیناں بہت مختصر عرصے میں حویلی کا حصہ بن گئی تھی۔
                                             ###
اب تو خواہش ہے یہ درد ایسا ملے
سانس لینے کی حسرت میں مرجائیں ہم
اب تو خواہش ہے یہ،
ایسی آندھی چلے…
جس میں پتوں کی مانند بکھر جائیں ہم
ایسی ٹھوکر لگے کہ جی نہ سکیں ہم
ایسی الجھیں سینے میں سانسیں کہ پھر
ہم دوا پینا چاہیں تو پی نہ سکیں
ایک پل کا سہارا نہ چاہت ملے
اب تو خواہش ہے یہ
دشت ہی دشت ہو، ننگے پاؤں چلیں
ہم سر جرم شمع کی مانند جلیں
جس کو چاہیں اسے پھر نہ پائیں کبھی
چھوڑ جائیں یوں چپ چاپ دنیا کو ہم
دل یہ چاہے بھی تو پھر نہ آئیں کبھی
اب تو خواہش یہ ہے کہ سزا وہ ملے
کوئی صحرا ہو قلعہ ہو یا بیاباں ہو
اپنے خالق و مالک سے میں نے جو کی
بے وفائی”وہاں پہ وہ ناپید ہو…
اب تو خواہش ہے یہ کہ سزا وہ ملے
روئے جاؤں تو چپ نہ کرائے کوئی
دور جنگل میں یا پھر کسی دشت میں
ہاتھ پکڑے میرا چھوڑ آئے کوئی…!!
ذیان پہلے سے گم صم رہنے لگی تھی۔
اپنی تنہائی، بے چارگی اور کسمپرسی کا احساس کچھ اور بھی بڑھ گیا تھا۔ پہلے امیر علی کی زندگی میں کسی اپنے کے ہونے کا فرحت بخش اطمینان ہمراہ تھا۔ ان کے بعد یہ مان اور اطمینان بھی چھن چکا تھا۔
امیر علی کے انتقال کو ایک ماہ سے زائد ہوچکا تھا۔ روبینہ مستقل طور پہ زرینہ کے پاس ہی تھیں وہاب صبح و شام چکر لگاتا۔ امیر علی زندہ تھے تو اس کی آمدروفت کو زیادہ پسند نہیں کرتے تھے وہ بھی وقفے وقفے سے آتا پر اب کوئی آڑ کوئی دیوار نہیں رہی تھی۔
زرینہ عدت میں تھی۔ عفت خانم نے دبے دبے الفاظ میں کمال اور ذیان کی شادی کی بات چھیڑی۔ زرینہ نے انہیں اطمینان دلایا کہ عدت ختم ہوتے ہی وہ یہ معاملہ بھی نمٹا لیں گی۔ اُدھر روبینہ نے امیر علی کی ناگہانی موت اور اس کے بعد بہن کی بیوگی و عدت کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک بار بھی وہاب کے رشتے کی بات نہیں چھیڑی تھی۔ پر عفت خانم کی آمد اور شادی کے تقاضے نے ان کے کان کھڑے کردئیے۔
پھر وہاب کے صبح و شام کے چکر اس با ت کو کہاں تک چھپا سکتے تھے۔ وہ غصے سے آگ بگولہ ہو رہا تھا۔ امیر علی کی موت نے اسے نڈر کردیا تھا۔ پھر زرینہ خالہ کا دم خم ختم ہوچکا تھا وہ اب شوہر سے محروم عام سی عورت تھی۔ وہاب نے عفت خانم کو ذلیل کر کے وہاں سے چلتا کیا۔ اچھا خاصا تماشہ بن رہا تھا۔ اب وہاب جیسے منہ زور کو قابو کرنا مشکل تھا۔
زرینہ کو اب اور خوف ستانے لگے تھے۔
وہ اکیلی اور بے سہارا تھیں۔ میکے میں رشتے داروں کے نام پہ روبینہ اور وہاب کے سوا ان کا کوئی بھی نہیں تھا اُدھر امیر علی بھی اکیلے تھے ان کے چند دور پار کے ہی رشتے دار تھے۔ وہ مشکل میں آجاتیں تو کوئی بھی ایسا نہیں تھا وہ جس پہ بھروسہ کرتیں۔ خود تو وہ عدت میں تھیں۔ وہاب اور روبینہ آپا ہی گھر کے کرتا دھرتا بنے ہوئے تھے۔ ہر چیز پہ ان کا کنٹرول تھا۔
ان دونوں کی بدلی بدلی کیفیت زرینہ محسوس کر رہی تھی سب سے پہلے تو وہاب نے عفت خانم کو بدتمیزی کر کے گھر سے نکالا پھر روبینہ آپا نے انہیں طویل لیکچر دیا کہ عفت خانم کو اب یہاں کسی صورت بھی قدم نہ رکھنے دیا جائے۔ ویسے بھی وہاب نے جس طرح عفت خانم کو ذلیل اور رسوا کر کے گھر سے نکالا تھا اس کے بعد ان کا یہاں آنا محال ہی تھا۔ ذیان، زرینہ کے گلے کی ہڈی بن گئی تھی نہ نگل سکتی تھیں نہ اگل سکتی تھیں۔
ذیان، بوا کے ساتھ اپنے کمرے میں بیٹھی تھی۔ عفت خانم اور وہاب کا ہنگامہ شروع ہوتے ہی ذیان وہاں سے ہٹ گئی تھی۔ اس کے خوف اور بے چارگی کو محسوس کر کے بوا بھی اس کے پیچھے آگئیں۔
”بوا یہ سب کیا ہو رہا ہے کیوں ہو رہا ہے۔ ہم اپنے ہی گھر میں اجنبی بن گئے ہیں۔ میرے دن رات خوف میں بسر ہو رہے ہیں۔ میں کالج سے آتے ہی اپنے کمرے میں گھس جاتی ہوں۔
ایسے لگتا ہے اس گھر کے درو دیوار میرے لئے پرائے ہوگئے ہیں۔“ وہ بے حد شاکی اور ہراساں تھی۔ بوا اسے دیکھ کر رہ گئیں۔ وہ خود امیر علی کے بعد ذیان کو دیکھ دیکھ کر جی میں کڑھتیں۔ کچھ کر بھی نہیں سکتی تھیں۔ آنے والے حالات کا اندازہ انہیں کچھ کچھ ابھی سے ہو رہا تھا۔ ”اللہ پہ بھروسہ رکھو فکر مت کرو سب اچھا ہوجائے گا۔“ انہوں نے پھیکے انداز میں اسے تسلی دی۔ یہ الگ بات کہ یہ تسلی یقین سے خالی تھی۔
                                       ###

Chapters / Baab of Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja