Episode 44 - Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 44 - میں گمان نہیں یقین ہوں - نبیلہ ابر راجہ

”بوا بوا وہ وہاب…!!!“ غصے اور شرم کی وجہ سے ذیان اپنی بات مکمل نہ کرسکی۔ اس کی ادھوری بات میں جو معنی پنہاں تھے اس کو سمجھنے کے لئے کسی خاص عقل یا دلیل کی ضرورت نہیں تھی۔
زرینہ بیگم کو وہاب کی طرف سے پہلے ہی کسی گڑ بڑ کی توقع تھی۔ اس کے تیور جارحانہ تھے وہ بپھرے ہوئے دریا کی مانند تھا جس پہ صبر اور جبر کا مزید کوئی بند باندھنا تقریباً نا ممکن ہوگیا تھا۔
ذیان جس کی ایک جھلک کی خاطر وہ چار سال سے خالہ کے گھر کے چکر کاٹ رہا تھا آج اسے اکیلا پا کر وہ چھوڑنے کے موڈ میں ہرگز نہیں تھا۔ اسے پتہ تھا ذیان کو اس سے سخت نفرت ہے۔ ذیان کے نسوانی پندار کو روند کر وہ ہمیشہ کے لئے اسے سرنگوں کرنا چاہتا تھا۔ تاکہ وہ پھر اس سے شادی سے انکار کی جرأت ہی نہ کرسکے۔ قسمت نے یہ موقعہ فراہم کیا تھا پر وہ اس موقعے سے ذیان کے شور مچانے کی وجہ سے استفادہ نہ کر پایا۔

(جاری ہے)

اور تیزی سے منظر سے غائب ہوگیا۔
”کیا ضرورت تھی اس وقت چھت پہ آنے کی۔ میں کہاں تک رکھوالی کروں تمہاری۔“ زرینہ ذیان پہ غصے ہو رہی تھی۔ ”امیر علی خود تو مرگئے اپنی مصیبت میرے سر ڈال گئے۔ اچھا خاصہ رشتہ طے کیا تھا تمہارا لیکن تم نے مان کے نہیں دیا۔ اب بھگتو۔ بچاؤ اپنی عزت۔ بناؤ میرا تماشہ میرے پاس ایک عزت ہی تو ہے لگ رہا ہے اس کی بھی نیلامی ہونے والی ہے۔
“ بوا اور زرینہ کی مدد سے ذیان چھت سے نیچے آگئی تھی اب وہ تینوں بوا کے کمرے میں تھے۔ حیرت انگیز طور پہ روبینہ باہر نہیں نکلی تھی شاید اس تک ذیان کے شور مچانے کی آواز پہنچی ہی نہیں تھی اس لئے وہ مزے سے سو رہی تھیں۔
ذیان رو رہی تھی۔ زرینہ گرج برس کے خاموش ہوگئی تھی۔ کچھ بھی سہی بات پریشانی والی تھی۔ وہاب کی یہ گھٹیا حرکت نظر انداز کرنے والی نہیں تھی۔
اس نے ان کے گھر میں بیٹھ کر ذیان کی عزت کی دھجیاں اڑانے کی ناکام کوشش کی تھی اس نے زرینہ کی تازہ تازہ بیوگی کا بھی خیال نہیں کیا تھا۔“ بوا مجھے بتاؤ کیا کروں میں؟“ زرینہ سخت پریشان تھیں لے دے کے بوا ہی تھیں جن سے وہ حال دل کہہ سکتی تھیں۔“ چھوٹی دلہن میں کیا بتاؤں میرا تو اپنا دماغ ماؤف ہو گیا ہے۔ گھر میں عجیب عجیب باتیں ہو رہی ہیں۔
چھوٹا منہ بڑی بات، وہاب میاں نے کوئی اچھا کام نہیں کیا ہے۔ انہیں لگام ڈالنے کی ضرورت ہے۔“ بوا نے ڈرتے ڈرتے مشورہ دیا۔
”بوا مجھ اکیلی عورت کو وہاب تو وہاب روبینہ آپا بھی آنکھیں دکھانے لگی ہیں۔ ان کی نظر امیر علی کی جائیداد پہ ہے اور ظاہر ہے ذیان بھی ان کی بیٹی ہے۔ دونوں ماں بیٹا لالچ میں آگئے ہیں۔“زرینہ بیگم نے آج پہلی بار ان دونوں کے بارے میں ان کے تازہ عزائم کے بارے میں زبان کھولی تھی۔
“ ہاں چھوٹی دلہن وہاب میاں نے مجھ سے بھی کرید کرید کر باتیں معلوم کرنے کی کوشش کی تھی میں نے آپ کے خاندان کا نمک کھایا ہے نمک حرامی نہیں کرسکتی۔“ ”بوا، عفت خانم کو وہاب نے ذلیل کر کے نکال دیا ہے اور میں پہلے شاید ذیان کی شادی وہاب سے کردیتی بشرطیکہ اس کا جذبہ سچا ہوتا مگر اب میں خود نہیں چاہتی کہ وہاب اپنے ارادوں میں کامیاب ہو۔ میں امیر علی کو کیا منہ دکھاؤں گی مرنے کے بعد۔
“ زرینہ کی آنکھیں چھلک پڑیں۔ بوا حیرت سے انہیں دیکھ رہی تھیں۔ ساری عمر زرینہ نے ذیان سے نفرت کی تھی مگر شوہر کے گزرنے کے بعد اس کی شوہر پرستی ہنوز زندہ تھی۔ انہیں معلوم تھا کہ امیر علی زندگی کے آخری ایام میں وہاب سے برگشتہ ہوئے تھے انہوں نے زرینہ سے کہا تھا کہ وہ یہاں ان کے گھر میں وہاب کو مت آنے دے۔ شاید وہ اپنی بیٹی کی خاموشی اور بے بسی سے بہت سی ان کہی باتیں از خود جان گئے تھے۔
اس لئے زرینہ نہیں چاہتی تھیں کہ امیر علی کی روح کو کوئی تکلیف ہو۔
ذیان نے جھٹکے سے سر اُٹھایا۔ آج زندگی میں پہلی بار زرینہ آنٹی نے اس کی سائیڈ لی تھی اس کے حق میں بات کی تھی۔ روتے روتے اس کے ہونٹوں پہ تلخ مسکراہٹ آگئی۔
بہت دیر بعد جب زرینہ کچھ سنبھلی تو وہاں سے آنے سے پہلے انہوں نے بوا کو ذیان کے بارے میں بہت سی ہدایات دیں۔
”بوا فی الحال آپ ذیان کو اپنے ساتھ ہی سلائیں۔ میں وہاب کو صبح دیکھوں گی اس وقت رات ہے سب سو رہے ہیں میں خواہ مخواہ ہنگامہ نہیں چاہتی۔“ بوا نے سر ہلایا۔ ذیان بیٹھی رو رہی تھی۔ بوا نے اس کے سر کو تسلی دینے والے انداز میں تھپکا۔ ”چلو بیٹا اب سو جاؤ تھوڑا۔“ ”بوا میں آپ کے پاس سوؤں گی مجھے ڈر لگ رہا۔“ وہ ڈری ہوئی تھی۔ ”ہاں ذیان بیٹا میں تمہارے ساتھ ہی سوؤں گی لیکن کب تک میں تمہیں بچا پاؤں گی۔
وہاب میاں کی نیت ٹھیک نہیں ہے اب ان کی نظر تمہارے ساتھ ساتھ امیر میاں کی دولت پہ بھی ہے۔ لیکن تم انہیں پسند نہیں کرتی۔ ناکامی کی صورت میں وہاب میاں کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ یا تو ان سے شادی کرلو یا پھر یہاں سے چلی جاؤ۔“
 ذیان رحمت بوا کے گرد بازو لپٹائے رو رہی تھی ان کے مشورے پہ ایک دم اس کے آنسو بہنا رک گئے۔ ”میں وہاب مردود سے کسی صورت بھی شادی نہیں کرسکتی۔
“ اس نے شدت سے نفی میں سر ہلایا۔ ”پھر تم یہاں کیسے رہو گی چھوٹی دلہن خود مشکل میں ہیں انہیں نے مجھے خود اپنے منہ سے کوئی بات نہیں بتائی ہے لیکن میں سب جان گئی ہوں۔ وہاب میاں مرد ذات ہیں موقعہ پا کر پھر سے اپنا مطلب حاصل کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔“ بوا متفکر تھیں۔ ”میں کہاں جاؤں بوا میرا کون ہے اس دنیا میں۔“ وہ اب سسک رہی تھی۔ ”ایسا مت کہو میرا رب تمہارے ساتھ ہے۔
تم کوئی لاوارث یا بے سہارا نہیں ہو۔ خود کو اتنا کمزور مت سمجھو۔ ”بوا کا دل اس کے دلگیر لہجے پہ کٹ سا گیا۔ ”بوا اس اتنی بڑی دنیا میں کون ہے میرا۔ نہ ماں نہ باپ نہ کوئی بہن بھائی۔ زرینہ آنٹی میری شکل تک دیکھنے کی روادار نہیں ہیں۔ رابیل، مناہل آفاق سے میں نے کبھی قریب ہونے کی کوشش کی بھی تو انہیں مجھ سے زبردستی دور کیا گیا انہوں نے آج تک مجھے بہن نہیں سمجھا۔
“ اس کے آنسو زور و شور سے بہہ رہے تھے۔ بوا ساتھ لگائے اسے تھپک رہی تھی۔
ذیان کے شور مچانے پہ وہاب فوراً نیچے اتر کر اپنے کمرے میں آگیا تھا۔ اسے ڈر تھا ابھی پورا گھر بیدار ہوجائے گا اسی لئے سب سے پہلے اس نے اپنے کمرے کا دروازہ لاک کیا پھر عجلت میں شب خوابی کا لباس پہنا اور چادر تان کر لپیٹ گیا۔ لیٹنے سے پہلے وہ اپنے زخمی ہاتھ پہ کس کے رومال باندھنا نہیں بھولا تھا جہاں ذیان نے اپنے دانت پوری قوت سے گاڑے تھے۔
اس کا ہاتھ اچھا خاصا زخمی تھا ابھی تک ہلکا ہلکا خون نکل رہا تھا۔ اور تکلیف محسوس ہو رہی تھی۔
اسے نیچے آئے آدھا گھنٹہ ہو چلا تھا ابھی تک کسی نے ادھر کا رخ نہیں کیا تھا۔ شاید خطرہ ٹل گیا تھا۔ ویسے اس نے سب کچھ پہلے سے سوچ لیا تھا اگر کسی نے ذیان کے چیخنے کا سبب معلوم کیا اور اسے ذمہ دار ٹھہرانے کی کوشش کی تو وہ صاف مکر جائے گا اس کے پاس اپنے جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے بہت سے دلائل تھے۔
سناٹے میں اسے کسی کے قدموں کی آہٹ سنائی دی تو وہ چوکنا ہوگیا کہ ابھی کوئی دروازے پہ دستک دے گا پر وہ جو کوئی بھی تھا آگے نکل گیا تھا۔ یعنی اب وہ آرام کے ساتھ آئندہ کا لائحہ عمل تیار کرسکتا تھا۔ اب اسے چھت پہ ہونے والی بدمزگی اور چھوٹی سے چھوٹی بات کے ساتھ اپنی ذلت بھی یاد آرہی تھی۔ ذیان نے اس کے منہ پہ پوری نفرت کے ساتھ تھوکا تھا۔ پھر سے یاد آنے پہ اس کی آنکھوں میں خون اتر آیا تھا۔
 ”ذیان میں تمہارا وہ حشر کروں گا کہ تم کسی کو منہ دکھانے کے بھی قابل نہیں رہو گی۔ تم نے جرأت دکھا کر اچھا نہیں کیا۔“ خود کلامی کرتے ہوئے اس کی مٹھیاں سختی سے بھینچی ہوئی تھیں۔ مٹھی بند کرنے سے ہاتھ میں تکلیف ہونا شروع ہوگئی تھی۔ وہاب نے زیر لب ذیان کو موٹی موٹی گالیاں دیں۔

Chapters / Baab of Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja