Episode 47 - Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 47 - میں گمان نہیں یقین ہوں - نبیلہ ابر راجہ

عتیرہ دھڑکتے دل کے ساتھ فون کان سے لگائے ہوئے تھیں۔ وہ برسوں بعد بوا رحمت کی آواز سننے والی تھیں۔ بالا آخر ان کا انتظار تمام ہوا۔ اب بوا سے ان کی بات ہو رہی تھی۔
”بوا آپ نے بہت دیر کردی۔ میں تو سمجھتی تھی کہ آپ میرے دکھے دل کی پکار کو سن لیں گی۔ میں اپنی بچی کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے ترستی رہی۔ میں اس کے لئے کتنا روئی کتنا تڑپی آپ کبھی نہیں جان پائیں گی۔
وہ صرف خط تھا ایک ماں کی حسرتوں کا نوحہ تھا الفاظ کی صورت میں ،میں نے اپنا دل چیر کر رکھا تھا۔ پر آپ کو کیا اندازہ ممتا کا کیونکہ آپ کا دامن اس جذبے سے خالی جو رہا۔“ بوا کے دل پہ گھونسہ سا لگا کچھ بھی تھا انہوں نے ذیان کو ماں بن کر ہی پالا تھا۔ ”ایسا مت کہیں۔ میری اپنی مجبوریاں تھیں جن کے بوجھ تلے میں سسکتی رہی ورنہ آپ کے اس خط نے میرے ضمیر پہ بہت کوڑے برسائے ہیں لیکن میں تھی تو ایک ملازمہ۔

(جاری ہے)

میرے اختیارات محدود تھے۔“ بوا کی آواز میں نمی در آئی تو عتیرہ کو اپنے الفاظ کی کڑواہٹ کا اندازہ ہوا۔ انہوں نے فورا بات کا رخ بدل دیا۔
”میری بچی کیسی ہے؟ خوش ہے ناں؟“ ”ہاں بہت خوش ہے۔“ بوا کی آواز دھیمی پڑ گئی۔ انہوں نے عتیرہ کے ساتھ بات چیت ختم کی تو ذیان کو انتظار میں پایا۔ ابھی انہیں ذیان کے ضروری سامان کو چیک کرنا تھا۔
جب سے بوا اور زرینہ آنٹی نے اسے اس کی ماں کے پاس روانہ کرنے کی بات کی تھی وہ پہلے سے بھی زیادہ خاموش ہوگئی تھی۔
”ابھی بھی وہ رو رہی تھی۔“ بوا میرا کوئی نہیں ہے ناں ابو کے بعد۔ میرا کوئی گھر نہیں ہے ناں؟؟“ وہ بچوں کی طرح استفسار کر رہی تھی۔ ”ذیان بیٹا اب تم نہ اکیلی ہو نہ بے گھر ہو تمہاری ماں ہے۔ اور تمہارے حصے کی محبت، خوشیاں تمہارا انتظار کر رہی ہیں۔
وہ دونوں میاں بیوی، ملک ارسلان وعتیرہ، اکیلے ہیں اس میں بھی قدرت کی مصلحت ہے کہ رب کو ان کی ممتا کی پیاس تم سے ہی بجھانی منظور ہے۔“
”مجھے نفرت ہے ان سے۔ اتنے برس وہ کہاں تھیں پہلے۔ میں قطرہ قطرہ مری ہوں۔“
ذیان پہ ہذیانی کیفیت یکایک طاری ہوئی۔ یہاں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چلے جانے کا فیصلہ اتنا آسان نہیں تھا۔ یہاں سے جانا اسے کانٹوں پہ چلنے کے مترادف محسوس ہو رہا تھا۔
پر بوا نے زمانے کی اونچ نیچ سمجھاتے ہوئے جو تلخ حقیقتیں بیان کی تھیں وہ بھی اپنی جگہ کم سنگین نہیں تھیں۔ وہ یہاں رہتی تو اسے ہر حال میں وہاب سے شادی کرنی پڑتی جو کہ اسے منظور نہیں تھی۔ اب امیر علی بھی نہیں تھے جن کی وجہ سے طوہاً کرہاً وہ یہاں رہنے پہ مجبور تھی۔
زندگی گرداب میں گھری ہوئی تھی آگے کنواں پیچھے کھائی تھی۔ زرینہ بیگم نے اس کے یہاں سے جانے کے عمل کی حمایت کی تھی۔
کچھ بھی تھا اسے وہاب کی دست درازی پسند نہیں آئی تھی کم سے کم وہ اپنی ماں کے پاس ایسی صورت حال سے محفوظ رہتی۔ مگر کوئی ذیان سے پوچھتا وہ کس دل سے یہاں سے جارہی تھی۔ بوا کے لاکھ نرمی سے سمجھانے کے باوجود اس کی نفرت اور دل کا زہر جوں کاتوں تھا۔ بوا کو امید تھی کہ آنے والے وقت میں اپنی ماں کے ساتھ اس کے تعلقات معمول پہ آجائیں گے۔ ماں کے ساتھ رہنے سے اس کی ممتا کی نرمی محسوس کرنے سے جلد یا بدیر اس کی نفرت کا خاتمہ ہوجانا تھا۔
”بس اب تمہیں رونے دھونے کی فکر کی ضرورت نہیں ہے۔“ بوا نے اسے چمکارا۔
”بوا میں آپ کے بغیر کیسے رہوں گی؟“ بے بسی سی بے بسی تھی اس کے لہجہ میں۔ ”میں آؤں گی تم سے ملنے۔“ انہوں نے آنکھوں میں در آنے والے آنسو پلکوں کی باڑھ پہ ہی روک لئے۔ ”بوا سچ آپ آیا کریں گی وہاں؟“ اس کی آنکھیں خوشی سے چمک اٹھیں۔ ”ہاں زندگی نے مہلت دی تو ضرور آؤں گی۔
“ ”بوا آپ میرے ساتھ ہی چلیں ناں۔ یہاں کیا کریں گی؟“ وہ بچوں کی طرح ٹھنکی۔ ”میں نے ساری عمر یہاں گزار دی ہے۔ اب اس گھر کو چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤں گی۔ اب میری میت ہی یہاں سے جائے گی۔ یہاں چھوٹی دلہن ہے۔ آفاق، رابیل، مناہل ہیں۔ میں ان کو اکیلا چھوڑ کر کیسے جاؤں۔“
ان کا چہرہ محبت کی روشنی سے جگمگ جگمگ کر رہاتھا اس محبت سے جو انہوں نے اس گھر کے مکینوں سے بے غرض ہو کر بغیر کسی صلے کی تمنا کے کی تھی۔
ذیان فرط محبت سے بے تاب ہو کر ان کے سینے سے لگ گئی۔
تھوڑی دیر بعد بوا ذیان کے کپڑے اور دیگر چیزیں سوٹ کیس میں رکھ رہی تھیں۔ وہ ان کے پاس بیٹھی انہیں دیکھ رہی تھی۔ کل اسے یہاں سے چلے جانا تھا۔
وہاب کی طبیعت خراب تھی اس لئے شام کو روبینہ اپنے گھر چلی گئی تھیں۔ بوا اور زرینہ دعا کر رہی تھیں کہ ذیان آرام و سکون سے چلی جائے۔ بعد میں جو ہوتا دیکھا جاتا۔
فی الحال وہاب کا لاعلم رہنا ضروری تھا۔
مرے دل میں مسافر
ہوا حکم پھر سے صادر
کہ وطن بدر ہوں ہم تم
دیں گلی گلی صدائیں
کریں رخ نگر نگر کا
کہ سراغ کوئی پائیں
کسی یار نامہ بر کا
ہر ایک اجنبی سے پوچھیں
جو پتہ تھا اپنے گھر کا
سر کوئے ناآشنائیاں
ہمیں دن سے رات کرنا
کبھی ان سے بات کرنا
کبھی اس سے بات کرنا
تمہیں کیا کہوں کہ کیا ہے
شب غم بری بلا ہے
ہمیں یہ بھی تھا غنیمت
جو کوئی شمار ہوتا
ہمیں کیا برا تھا مرنا
اگر ایک بار ہوتا…
ذیان جانے کے لئے تیار تھی۔
آفاق، رابیل مناہل اسے حیرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔ زرینہ نے انہیں ابھی کچھ دیر پہلے ہی ذیان کی یہاں سے روانگی کا بتایا تھا۔ وہ تینوں ابھی اتنے سمجھدار نہیں تھے کہ انہیں کھل کر کچھ بتایا جائے۔ ذیان نے ان کے ساتھ اب تک کی تمام عمرگزاری تھی لیکن ان میں بہن بھائی والی مخصوص محبت یا چاہت پیدا نہیں ہوپائی تھی پر ابھی جب وہ ذیان کو روانگی کی تیاری کرتے دیکھ رہے تھے تواس کا دل کر رہا تھا کہ تینوں کو گلے لگا کر روئے۔
ملک ارسلان اپنے ڈرائیور اور ایک گارڈ کے ساتھ ذیان کو لینے پہنچ چکے تھے۔ بوا ان کو یہاں کے حالات اور وہاب کے بارے میں مختصراً بتا چکی تھیں اس لئے وہ احتیاطاً کسی بھی بدمزگی سے نمٹنے کے لئے گارڈ کو ساتھ لائے تھے جو مسلح تھا۔
وہ جس شاندار گاڑی میں ذیان کو لینے آئے تھے اس نے بوا سمیت زرینہ بیگم کو بھی مرعوب کیا تھا۔
ذیان نے انہیں پہلی بار دیکھا تھا۔
انتہائی باوقار اور شاندار شخصیت کا مالک درمیانی عمر کا یہ مرد اس کے لئے اجنبی تھا۔ اس نے کسی خاص جذبے کا اظہار نہیں کیا۔
ملک ارسلان نے تب خود ہی آگے بڑھ کر تعارف کروایا اور اس کے سر پہ پیار سے ہاتھ پھیرا۔ ذیان نے موہوم سی گرمجوشی سے ان کے سلام کا جواب دیا تو وہ مسکرائے وہ اس کے غیریت بھرے رد عمل کے پس منظر سے آگاہ تھے اس کا یہ رد عمل عین فطری تھا۔
اس کا مختصر سا سامان گاڑی میں منتقل ہوچکا تھا۔ وہ سب سے ملی، ایک نئی منزل اڑان بھرنے کے لئے اس کا انتظار کر رہی تھی۔
عتیرہ صبح سویرے جاگ گئی تھی۔ بے چینی اور خوشی حد سے سوا تھی۔ عتیرہ نے سب سے پہلے نیناں کو بتایا کہ میری بیٹی آرہی ہے پورے گھر کی صفائی کروانی ہے اور نئے پردے بھی لگانے ہیں۔ اس نے فوراً یہ کام اپنے ذمہ لیا۔ کوئی دیکھتا تو پہچان نہ پاتا کہ لان کے عام سے سوٹ میں ملبوس خوبصورت سٹائل میں تراشیدہ بالوں کو باندھے سر پہ دوپٹہ اوڑھے نوکرانیوں کے کام کو چیک کرنے والی یہ لڑکی رنم ہے۔
وہ پہلے سی اب رہی بھی کہاں تھی۔ وہ اب عام سی مڈل کلاس لڑکی لگتی تھی۔ نہ وہ سٹائلش ڈریسنگ نہ سب سے ممتاز کرتا رکھ کھاؤ، نزاکت اور نخرا۔ یہ تو نیناں تھی۔ حالات اور زمانے کی ستائی بے آسرا بے سہارا بے وسیلہ لڑکی جس کا دنیا میں آگے پیچھے کوئی نہ تھا۔ ملک ارسلان اور عتیرہ ترس کھا کر جسے اپنے ساتھ لے آئے تھے۔ عتیرہ نے یہاں اس پہ کمال مہربانی کرتے ہوئے اس کے سپرد چھوٹے موٹے کام کیے تھے۔
مثلاً نوکرانیوں کے کام کو چیک کرنا۔باغ کے پودوں کو دیکھنا کہ آیا ان کی درست دیکھ بھال ہو رہی ہے کہ نہیں۔ اسی نوعیت کے اور چھوٹے موٹے کام تھے جو ہر لحاظ سے حویلی میں کام کرنے والوں کے نزدیک باعزت تھے۔ اس کے باوجود بھی وہ اپنی حیثیت سے واقف تھی۔اس نے سب کے اچھے برتاؤ دیکھ کر دل میں کسی خوش فہمی کو جگہ نہیں دی تھی۔
فارغ ہو کر عتیرہ کے پاس بیٹھ جاتی۔
وہ سارا دن”ملک محل“میں آنے والی عورتوں کے دکھڑے اور مسائل سنتیں ان کا حل نکالتیں۔نیناں کو یہ کام بہت دلچسپ لگتا۔ہر عورت کے پاس الگ ہی موضوع ہوتا۔ جو دوسری عورت کے مسئلے سے بالکل ہی جدا ہوتا۔ اس نے شہر میں نازو نعم میں زندگی گزاری تھی۔ مسائل، مشکلات، غربت، بیماری، دکھ، تکلیف اور آفت کیا ہوتی ہے اسے ان باتوں کا ہرگز اندازہ نہ تھا۔
یہ سب اس کے لئے ایلس کی”ونڈرلینڈ“ جیسا تھا۔
عتیرہ آج بے پناہ خوش تھیں۔ صبح صبح ہی انہوں نے اسے اپنی بیٹی کی آمد کی نوید دی تھی۔ اسے یہاں آئے ایک ماہ سے اوپر ہو چلا تھا اس دوران اس نے ان کی بیٹی کی ایک جھلک تک نہ دیکھی تھی نہ ذکر سنا تھا۔ وہ چاہنے کے باوجود بھی ان سے پوچھ نہ پائی۔پوری حویلی لشکارے مار رہی تھی۔ عتیرہ نے گھوم پھر کر پورے گھر کا خود جائزہ لیا۔
حویلی کی اوپر والی منزل پہ انہوں نے اپنی بیٹی کے لئے بطور خاص کمرہ تیار کروایا تھا۔ جس کی سجاوٹ اور فرنیچر دیکھنے کے لائق تھا۔
جا بجا کمرے میں تازہ پھول بہار دکھا رہے تھے اور خود عتیرہ آج بہت اہتمام سے تیار ہوئی تھیں۔ دونوں کلائیوں میں موتیے کے گجرے سجائے ارسلان کی پسند کا ڈیزائنر سوٹ زیب تن کیے خود کو خوشبو میں بسائے عتیرہ کسی نو عمر دوشیزہ کی مانند پرجوش اور تروتازہ لگ رہی تھیں۔

Chapters / Baab of Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja