Episode 55 - Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 55 - میں گمان نہیں یقین ہوں - نبیلہ ابر راجہ

ملک جہانگیر، افشاں بیگم کے ساتھ خود آئے تھے۔ حالانکہ ان کی طبیعت ابھی بھی پوری طرح سنبھلی نہیں تھی مگر یہ ان کے بیٹے کے رشتے کا معاملہ تھا، وہ از حد خوش تھے۔خود کو پہلے سے بڑھ کر توانا اور جوان محسوس کر رہے تھے۔ ان کے ساتھ آئی نوکرانیوں نے مٹھائی کے ٹوکرے، خشک میوہ جات، موسمی پھل اور اس نوع کے دیگر لوازمات اٹھا اٹھا کے اندر لانے شروع کیے تو فریدہ نے تیز رفتاری سے عتیرہ کو مطلع کیا۔
وہ فون پہ بات کر رہی تھیں۔ اسی وقت فون بند کر کے ڈرائنگ روم کا رخ کیا۔ ذیان ظہر کی نماز پڑھ کر آئی تو اس نے بھی انواع و اقسام کی سب اشیاء دیکھیں۔ آج تو جہانگیر انکل بھی اس کی یہاں موجودگی میں پہلی بار وہاں آئے تھے اس لئے اسے بہت خوشی ہو رہی تھی۔ ”انکل میں بہت خوش ہوں آپ یہاں آئے ہیں۔

(جاری ہے)

“ اس نے اپنی خوشی کا اظہار کرنے میں کنجوسی سے کام نہیں لیا۔

ساتھ آئی افشاں بیگم کے چہرے پہ مسکراہٹ آگئی انہوں نے اسے ساتھ لپٹا کے پیار کیا۔ جہانگیر نے اس کا ماتھا چوما۔
عتیرہ نے جہانگیر بھائی اور افشاں بیگم کی لائی گئی تمام چیزیں نیناں کے سپرد کیں۔
”انہیں رکھوا دو۔“ ان کا اشارہ ٹوکروں کی طرف تھا۔ فریدہ کے ساتھ مل کر اس نے سب کچھ اٹھوایا۔ دونوں اس بارے میں باتیں کر رہی تھیں۔
فریدہ اسی گاؤں کی پروردہ تھی اسے اچھی طرح پتہ تھا کہ یہاں مٹھائی اور دیگر چیزوں سمیت کسی کے گھر جانے کا کیا مطلب ہوتا ہے۔ مٹھائی خوشی کے اظہار، مبارک باد اور رشتہ مانگنے کے موقعہ پہ لازمی دی جاتی تھی یہ ان کی دیہاتی رسومات کا حصہ تھا۔ ”نیناں تمہیں پتہ ہے بڑے ملک صاحب یہ کس لئے لے کے آئے ہیں؟“ اس نے معنی خیز انداز میں پوچھا۔ وہ خاموشی سے کچھ بولے بغیر اسے تکنے لگی اتنا تو اسے بھی پتہ تھا کہ مٹھائی خوشی کے موقعوں کا لازمی جزوہوتی ہے۔
”میرا خیال ہے کہ بڑے ملک صاحب رشتہ مانگنے آئے ہیں۔“ اس نے انتہائی آہستہ کہا جیسے کسی کے سن لیے جانے کا ڈر ہو۔
”کس کا رشتہ؟“ ”ارے ذیان یعنی چھوٹی بی بی کا رشتہ۔“ فریدہ نے جیسے اس کی کم عقلی پہ ماتم کیا۔“ کس کے لئے؟“ بے ساختہ اس کے منہ سے نکلا۔ ”مجھے تو ایسا لگ رہا ہے کہ بڑے صاحب کے لیے، کیونکہ چھوٹے صاحب ولایت گئے ہوئے ہیں پڑھنے۔
“ فریدہ نے اس کی معلومات میں گرانقدر اضافہ کیا۔ نیناں یعنی رنم کے پھرتی سے چلتے ہاتھ یکدم سست پڑ گئے۔
ابیک کو وہ روز ہی دیکھتی تھی دل ہی دل میں اس نے کئی بار ابیک کی مردانہ وجاہت کو سراہا تھا اس میں وجاہت کے ساتھ وقار بھی تھا ذہن میں اسے دیکھتے ہی ایک لفظ گونجتا پیور، ریفائنڈ، اس کے باوقار وجاہت میں کسی شے کی بھی کمی نہیں تھی۔
ابھی مٹھائی اور دیگر اشیاء کے ٹوکرے اٹھاتے وقت اس نے ذیان کو بھی دیکھا تھا۔ اس نے آج بھی بہت مہنگا ڈیزائنر سوٹ زیب تن کر رکھا تھا۔ وہ ملک جہانگیر اور افشاں بیگم سے ہنس ہنس کے باتیں کر رہی تھی۔ کھلے بالوں کو بار بار کان کے پیچھے کرتی سمیٹتی، وہ سادہ سے روپ میں بھی نیناں کو جانے کیوں شدید قسم کی کوفت میں مبتلا کر رہی تھی۔ ابھی فریدہ نے اپنے قیاس کی بناء پہ جوپیشن گوئی کی تھی اس نے اس کی جھنجھلاہٹ اور بھی بڑھا دی تھی۔
ذیان کچھ دیر ہی وہاں بیٹھی۔ افشاں بیگم کے تاثرات بہت معنی خیز قسم کے تھے۔ وہ اٹھ کے باہر نکلی تو فریدہ جو زیبو کے ساتھ بات کر رہی تھی اسے دیکھ کر یکدم چپ ہوگئی جیسے کسی نے چابی سے چلنے والے کھلونے کے سیل نکال دئیے ہوں۔ جبکہ ذیان افشاں بیگم اور ملک جہانگیر کے لائے ہوئے مٹھائی کے ٹوکروں کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ وہ چلتے چلتے باغ کی طرف نکل گئی۔
فریدہ اسے تلاش کرتی بھاگنے والے انداز میں چلتی اس کے پیچھے آئی۔ ”چھوٹی بی بی آپ کو ادھربلا رہے ہیں سب۔“ فریدہ کا اشارہ ڈرائنگ روم میں بیٹھے ملک جہانگیر اور افشاں بیگم کی طرف تھا۔ اس کا سانس تیز چلنے اور بھاگنے کی وجہ سے بری طرح پھول گیا تھا۔ چہرے پہ بار بار اشتیاق تھا جیسے وہ کچھ کہنے کے لئے بے قرار ہو۔“ ٹھیک ہے جاؤ میں آرہی ہوں۔
“ فریدہ سر ہلاتی واپس چلی گئی۔ اس نے بھی اپنے قدم موڑ لیے۔
ذیان آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی واپس رہائشی حصے کی طرف آرہی تھی جب اس کے پاس سے نیناں بہت تیز رفتاری سے گزری۔ عتیرہ بیگم نے نیناں کے بارے میں اسے تفصیل سے بتایا تھا۔ ذیان کو ایک ثانیے کے لیے نیناں بہت اداس اور پریشان محسوس ہوئی تھی۔ وہ ذرا دیر کے لئے بھی اس کے پاس نہیں رکی تھی۔
ذیان اس سے کچھ پوچھنا چاہ رہی تھی اس لیے اس نے نیناں جس سمت میں گئی تھی اس طرف قدم بڑھائے۔ وہ چلتے ہوئے کافی آگے نکل آئی۔ نیناں کہیں نہیں تھی۔ البتہ آگے سے ملک ابیک اسی طرف آرہا تھا جہاں ذیان کھڑی متلاشی نگاہوں سے ادھر ادھر دیکھ رہی تھی۔ ابیک شاید ذیان کی یہاں اس وقت موجودگی کی توقع نہیں کر رہا تھا اس لیے رک گیا۔ ”کس کو ڈھونڈ رہی ہیں؟“ایسے لگا جیسے ابیک نے اپنی مسکراہٹ کا گلا گھونٹا ہو۔
”میں نیناں کو دیکھ رہی تھی وہ شایداسی طرف آئی ہے۔“ اس نے ہاتھ سے اشارہ کر کے بتایا ابیک دونوں ہاتھ سینے پہ باندھے اسے غورسے دیکھ رہا تھا۔ ذیان اس کی گہری نگاہوں کے ارتکاز سے گھبرا گئی۔ اس کی چھٹی حس بار بار کوئی احساس دلا رہی تھی۔ ”آپ کو غیر اہم لوگوں اور واقعات سے دلچسپی کیوں ہے؟“ ابیک نے کوئی تبصرہ کرنے یا جواب دینے کے بجائے عجیب سا سوال کردیا۔
وہ اس کا راستہ روکے کھڑا تھا، وہ انہی قدموں پیچھے ہٹنے لگی۔ ملک ابیک پہ اسے غصہ آرہا تھا۔
وہ جیسے ہی سیڑھیاں چڑھ کر رہائشی حصے میں داخل ہوئی سامنے سے آتی عتیرہ اسے دیکھ کر رک گئیں۔ ان کے ساتھ ملک ارسلان بھی تھے۔ ”افوہ کب سے تمہیں ڈھونڈ رہی ہوں۔ اندر آؤ رسم کرنی ہے۔ افشاں بھابھی انتظار میں ہیں۔“ اس کے کچھ سوچنے سمجھنے سے پہلے ہی عتیرہ نے اس کا ہاتھ تھاما اور ڈرائنگ روم میں لائیں۔
ملک ارسلان عتیرہ کے ساتھ تھے اس لیے وہ کچھ بول ہی نہیں پائی۔ افشاں بیگم نے اسے پکڑ کر اپنے برابر والی جگہ پہ بٹھایا۔ ملک جہانگیر اور ملک ارسلان دلچسپی سے ساری کارروائی دیکھ رہے تھے۔ افشاں بیگم نے سرخ رنگ کا بھاری کام سے مزین دوپٹہ اس کے سر پہ ڈال دیا۔ یہ دوپٹہ ان کی ساس نے ملک جہانگیر کے ساتھ نسبت طے ہونے کے موقعے پہ انہیں اوڑھایا تھا۔
اور اب انہوں نے نیک شگون کے طور پہ اور خاندانی روایت کو زندہ رکھتے ہوئے اسے اوڑھایا تھا۔ ملک جہانگیر نے مٹھائی کی پلیٹ میں سے ایک گلاب جامن اٹھا کر ذیان کا منہ میٹھا کروایا۔ ”مبارک ہو مبارک ہو۔“ سب ایک دوسرے کو آپس میں مبارک باد دے رہے تھے۔ ذیان کے اعصاب حیرت کی زیادتی سے جیسے فریز ہو رہے تھے۔ دماغ جو سمجھ رہا تھا دل اسے قبول کرنے سے انکاری تھا۔
”اب یہ میرے ابیک کی امانت ہے۔ میں بہت جلد اسے لے جاؤں گی دلہن بنا کے۔“
افشاں بیگم کا اشارہ یقینا ذیان کی سمت تھا۔ سرخ کامدار دوپٹے کے ہالے میں اس کا چہرہ چھپا ہوا تھا اور زبان گنگ تھی۔
اس کی زندگی کا اہم فیصلہ اس سے پوچھے بغیر کردیا گیا تھا۔ ابیک کے ساتھ اس کا رشتہ طے ہوچکا تھا۔ وہ اتنی گئی گزری ہے کہ اس سے پوچھنے کی بھی زحمت گوارا نہیں کی گئی۔
یہ عورت جو اس کی ماں ہونے کی دعویدار ہے وہ اسے اس کی اس حرکت کا مزہ چکھا کے رہے گی۔ جس اذیت سے وہ گزری ہے ایسی ہی اذیت سے وہ انہیں بھی گزارے گی۔ اس عورت سے وابستہ ہر رشتے، ہر شخص سے اسے نفرت ہے۔
لیکن وہ الجھ رہی تھی۔ ملک جہانگیر نے اپنا کمزور سا ہاتھ اس کے سر پہ رکھا تو ایک دم امیر علی اس کی نگاہوں کے سامنے آگئے۔ وہ ان سے بھلا کیسے نفرت کرے گی وہ انہیں کیسے اذیت دے پائے گی ان میں تو امیر علی کا عکس ہے۔
باقی سب عتیرہ کے حوالے سے اس کی زندگی میں آئے تھے وہ کسی کو بھی معاف نہیں کرے گی ہر وہ کام کرے گی جس سے انہیں تکلیف ہو دکھ پہنچے۔ ان کی اذیت میں اضافہ ہو۔ وہ انہیں کوئی رعایت نہیں دے گی رحم نہیں کرے گی۔“ ذیان کے چہرے پہ نفرت کی پرچھائیاں تھیں۔ وہ اپنے ہاتھ کو غور سے دیکھ رہی تھی۔ الٹے ہاتھ کی تیسری انگلی میں ہیرے کی نازک سی انگوٹھی کا اضافہ ہوچکا تھا جو ملک ابیک کے ساتھ اس کے طے پانے والے واضح رشتے کا اعلان تھا۔
انگوٹھی کو تکتے ہوئے اس کے ہونٹوں پہ زہریلی مسکراہٹ رقص کر رہی تھی۔ اسے بتائے بغیر اچانک اس کے مستقبل کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ اس کا غصہ اور نفرت حد سے سوا تھی۔
عتیرہ اس رشتے سے بے پناہ خوش تھیں۔ ملک جہانگیر نے جب پہلی بار گھر میں ابیک کی شادی کی بات کی تھی تو ان کا دھیان فوراً ذیان کی طرف گیا تھا۔
ان کے دل نے بے اختیار خواہش کی تھی کہ کاش ذیان ان کے پاس ہوتی اور ابیک اس کا نصیب بنتا۔
ابیک ہر لحاظ سے ایک آئیڈیل اور شاندار نوجوان تھا۔ انہیں خبر بھی نہیں ہوئی اور قدرت نے ان کی یہ خواہش من وعن پوری کردی۔ وہ بے پناہ خوش تھیں کیونکہ ذیان نے اب ہمیشہ ان کے پاس رہنا تھا۔ یہ احساس ہی ان کے لیے طمانیت انگیز تھا۔ ذیان نے رشتہ طے ہونے کے بعد کوئی ہنگامہ یا احتجاج نہیں کیا تھا نہ کوئی باز پرس کی۔ ورنہ ان کا خیال تھا کہ اپنا رشتہ اس طرح طے کیے جانے پہ وہ شکوہ کرے گی۔
عتیرہ توقع نہیں کر پا رہی تھیں کہ افشاں بھابھی اور جہانگیر بھائی اسطرح اچانک ذیان کے لئے سوالی بن کر آئیں گے۔ اس خوشی نے ان کے ہاتھ پاؤں پھُلا دئیے تھے۔ انہوں نے ذیان سے پوچھنے کی ضرورت ہی نہیں سمجھی اور اس سے پوچھنے کا موقعہ بھی نہیں تھا۔ ملک ارسلان بھی خوش تھے۔ ابیک کو وہ شروع سے پسند کرتے تھے۔ ان کے خیال میں ابیک اور ذیان کی جوڑی شاندار تھی۔
ذیان کے بیڈ روم کی لائیٹ بند تھی وہ خود ٹیرس پہ تھی۔
”ملک محل“ کے دوسرے حصے میں ابیک بھی ٹیرس پہ پڑی کرسی پہ نیم دراز تھا۔ سارے دن کی بھاگ دوڑ سے وہ تھک چکا تھا۔ انڈسٹریل ہوم کی تعمیر مکمل ہونے کے مراحل میں تھی۔ پھر اس کے بعد وہاں اصل کام کا آغاز ہوناتھا جس کے لیے اسے بنایاگیا تھا۔ گاؤں کی بہت سی عورتیں اور لڑکیاں ہنر مند اور محنتی تھیں وہ سب ہی اپنی محنت اور ہنر کے جوہر دکھانے کے لیے بے تاب تھی۔
ملک ابیک نے ان کے ہنر صلاحیتوں کے لیے انہیں انڈسٹریل ہوم کی صورت میں پلیٹ فارم دے دیا تھا۔ وہ اپنے گھر کی حالت بہتر بنا سکتی تھیں معیار زندگی اچھا بنا سکتی تھیں آمدنی میں اضافہ کرسکتی تھیں۔ ہاتھوں سے بنے کشیدہ کاری اور ہنرمندی کے دیگر نمونوں کی شہر میں بہت مانگ تھی۔ پچھلے دنوں وہ شہر اور گاؤں میں یکساں طورپہ مصروف رہا تھا۔ آم کی فصل پہ کیڑے مار اسپرے کروانا تھا زمینوں کے دیگر سو معاملات تھے کورٹ کے چکر، ملک محل کے اپنے معاملات، بابا جان کی آنکھوں کا آپریشن اور ان کی بیماری۔
اس کا ایک پاؤں شہر اور ایک گاؤں میں تھا۔ دن بھر مصروفیات کا وہی عالم رہا تھا۔ پورے دن میں یادگار لمحہ وہی تھا جب اچانک اتفاقی طور پہ ذیان سے سامنا ہوا تھا۔ بابا جان اور افشاں بیگم اس کی اطلاعات کے مطابق ارسلان چچا ہی کی طرف تھے۔ ابیک کے راستے میں آجانے سے اس کے چہرے اور آنکھوں میں غصہ اتر آیا تھا۔ وہ منظر یاد آتے ہی اسے ایک بار پھر ہنسی آئی۔
وہ کھانا کھا کے اوپر آیا تھا۔ دل چاہ رہا تھا تھوڑی دیر کھلے آسمان تلے بیٹھے۔ کبھی کبھی اچانک جڑ جانے والے تعلق کے بارے میں سوچنا کتنا حسین لگتا ہے ابھی ابیک بھی اسی کیفیت سے گزر رہا تھا۔ کرسی پہ بیٹھے بیٹھے اس کی نگاہ سامنے کی طرف اٹھی۔ وہاں آج مکمل اندھیرا تھا شاید آج روشنی سے کوئی پرانا ادھار چکایا جارہا تھا۔ اندھیرے کے باوجود بھی وہ نسوانی ہیولے کو پہچان چکا تھا، چاند کی ہلکی ہلکی سی روشنی چیزوں کی ہیت اور خدوخال کو واضح کر رہی تھی۔ ذیان ٹیرس پہ ٹہل رہی تھی۔ ابیک کے طرف کے حصے کی تمام لائیٹیں آن تھیں، وہ تھکے تھکے سے انداز میں پشت سے سر ٹکائے نیم دراز تھا۔
                                             ###

Chapters / Baab of Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja