Episode 56 - Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 56 - میں گمان نہیں یقین ہوں - نبیلہ ابر راجہ

سر میں کچھ گھنٹے قبل شروع ہونے والا درد اب شدت اختیار کر چکا تھا۔ بے اختیار اس کے دل میں ایک خواہش ابھری، اِک دلنشیں اور خوبصورت سی خواہش کہ ذیان اس کے دکھتے سر اور کنپٹیوں کو ہاتھ سے دبائے۔ پھر یقینا اس کے سر درد میں افاقہ ہوگا۔ اپنی اس بچگانہ خواہش پہ اسے خود ہی ہنسی آگئی۔ ابھی ذیان صرف منگیتر تھی بیوی تو نہیں جو وہ اس سے ایسی توقع کر رہا تھا۔

ذیان اسے ٹیرس پہ بیٹھا دیکھ چکی تھی۔ پچھلے پندرہ منٹ سے وہ ایسی پوزیشن میں نیم دراز تھا۔ اس نے نگاہ موڑ لی اور ہونہہ کہہ کر رہ گئی۔کچھ دیر بعد کرسی سے اٹھا۔ اب ذیان کے سامنے اس کا چہرہ تھا۔اس نے پشت موڑ لی اور کمرے میں آ کر دروازہ بند کرلیا۔ پھر وہ بند دروازے کے پیچھے اس کو سوچ رہی تھی۔
معاذ سکائپ پہ سب گھر والوں سے بات کر رہا تھا۔

(جاری ہے)

افشاں بیگم نے ابیک اور ذیان کا رشتہ طے ہونے کی بریکنگ نیوز سنائی تھی۔ وہ ذیان کے ملک محل میں آنے کے شاک سے بھی ابھی نہیں سنبھلا تھا۔ کیونکہ اسے عتیرہ کے ماضی کے بارے میں زیادہ نہیں پتہ تھا۔ پھر اس کے سامنے کم کم ہی تذکرہ ہوتا۔ وہ تعلیم کے سلسلے میں پہلے گھر سے دور رہا پھر پاکستان سے اس لئے جب اسے بتایا گیا کہ”ملک محل“ کے مکینوں میں ایک اور کا اضافہ ہوگیا ہے اور اضافہ بھی عتیرہ چچی کی بیٹی کا تو وہ حیران ہوا۔
پاکستان والوں نے شاید اسے جی بھر کے حیران کرنے کا پروگرام بنا رکھا تھا۔
”مجھے فوراً میری بھابھی کی فوٹو دکھائیں۔“ اس نے افشاں بیگم سے مطالبہ کیا۔ ”چھری تلے دم تو لو ابھی میں ابیک سے کہتی ہوں تمہیں بھیج دے گا۔“ اس کے بے قراری پہ وہ مسکرائیں۔ ”نہیں میں بات بعد میں کروں گا پہلے فوٹو دکھائیں مجھے۔“ اس نے ضدی لہجہ میں کہا۔
ملک ارسلان نے کمرے میں ذیان کی اس خاص موقعے پہ بیشمار فوٹو بنائی تھیں۔
وہ کیمرہ افشاں بیگم کے پاس تھا۔ نوکرانی ان کی ہدایت پہ ان کے کمرے سے جھٹ پٹ لے آئی۔ ”ابیک، معاذ کو ذیان کی فوٹو ابھی بھیجو باؤلا ہو رہا ہے۔“ افشاں بیگم نے کیمرہ اس کے ہاتھ میں تھمایا۔
ابیک، معاذ کے ساتھ بات کرتے ہوئے ذیان کی تصویریں اسے سینڈ کرنے لگا۔ افشاں بیگم جا چکی تھیں لہٰذا ابیک نے بھی بڑی وضاحت سے ذیان کی سرخ دوپٹے والی تصویریں دیکھی۔
ہر فوٹو میں اس کے لب باہم پیوست تھے ہلکی سی مسکراہٹ تک کی رمق نہ تھی۔ جھکی آنکھیں اس کے تاثرات چھپانے میں کامیاب ثابت ہوئی تھیں۔ ابیک نے ذیان کی تمام تر فوٹو ایک الگ فولڈر میں سیو کرلیں۔
ذیان کے ساتھ رشتہ طے ہوجانے کے بعد ذیان کے لئے اس کے تاثرات خود بہ خود ہی بہت نرم اور خاص قسم کے ہوگئے تھے۔ اس کے ذہن میں کبھی یہ خیال تک نہ آیا تھا کہ اس طرح اچانک ایک اجنبی لڑکی اس کی زندگی میں خاص اہمیت اختیار کر جائے گی۔
اسے حویلی آئے ٹائم ہی کتنا ہوا تھا۔
آتے ساتھ ہی اس نے سب کے دل میں جگہ بنالی تھی اور اب تو ابیک کے خیالات پہ بھی اثر انداز ہونے لگی تھی۔
ذیان جب سے گاؤں آئی تھی سوائے ایک بار کے حویلی سے باہر نہیں نکلی تھی۔ صرف ایک بار وہ عتیرہ کے ساتھ شہر شاپنگ کرنے گئی تھی۔ اس کا دل چاہ رہا تھا باہر نکل کر گاؤں دیکھے لوگوں سے ملے۔ اس کی یہ بے ضرر سی خواہش عتیرہ اور ارسلان تک پہنچی تو انہوں نے فوراً اسے پورا کرنے کے لئے عملی اقدامات کیے۔
لینڈر وور میں وہ دو نوکرانیوں اور ڈرائیور کے ساتھ جارہی تھی۔ گاؤں آنے کے بعد آج پہلی بار وہ حقیقی معنوں میں خوش نظر آرہی تھی۔ گاڑی دو رویہ درختوں والی سڑک سے گزر رہی تھی۔ تاحد نظر سبزہ تھا۔ سڑک کے اختتام پر ملک محل کے ذاتی باغات کا سلسلہ شروع تھا جو کافی وسیع رقبے پہ پھیلا ہوا تھا۔
اس کے اشارے پہ ڈرائیور نے گاڑی روک دی۔
ذیان نیچے اُتر آئی۔ نیناں اور فریدہ نے بھی اس کی تقلید کی۔ ذیان گھوم پھر کے باغ دیکھ رہی تھی۔ یہاں آم کی فصل کاشت کی گئی تھی۔ فریدہ نیناں کے ساتھ مل کر آم جمع کرنے لگی جبکہ ذیان باغ کے بیچوں بیچ گزرنے والی پانی کی نہر میں پاؤں لٹکا کے بیٹھ گئی۔ گرمی کے موسم میں گھنے درختوں کے سائے میں ٹھنڈا پانی اسے ایک عجیب سے لطف سے ہمکنار کر رہا تھا۔
ہلکی ہلکی ہوا چل رہی تھی جس نے گرمی کی شدت کو کافی قابو میں کیا ہوا تھا۔
ابیک صبح سے باغ میں تھا۔ وہ آج کل روزانہ اس طرف آتا کیونکہ تھوڑے دنوں تک پھل کو درختوں سے اتارنے کا کام شروع کیا جانے والا تھا۔ وہ باغ کے آخری سرے سے واپس آرہا تھا جب اس کی نظر نیناں پہ پڑی۔ ذیان اور فریدہ کو اس نے بعد میں دیکھا۔ اس کے ساتھ باغ میں کام کرنے والا ملازم بھی تھا اسے واپس بھیج کر وہ کچے راستے سے اوپر ذیان کی سمت آیا۔
فریدہ اور نیناں اسے سامنے دیکھ کر الرٹ ہوگئیں۔ ابیک کا رخ ذیان کی سمت تھا۔
”ادھر آنے کا موڈ تھا تو مجھے بتایا ہوتا۔ میں خود لے آتا آپ کو۔“ ابیک ذیان کے پیچھے درخت سے ٹیک لگا کر کھڑا تھا۔ خوشگوار موسم اس وقت کچھ اور بھی خوشگوار معلوم ہو رہا تھا۔ ذیان کی سفید سفید پنڈلیاں پانی سے جھانک رہی تھیں۔ لمبے بالوں کا آبشار حسب معمول اس کی کمر کو بوسے دے رہا تھا۔
وہ ابیک کی ہونے والی بیوی تھی وہ اسے اس وقت خاص نگاہ سے دیکھ رہا تھا۔ دل کی دھڑکن اور تال دونوں پہ احساس ملکیت کا تازہ تازہ خمار چھایا ہوا تھا۔
نیناں درخت کی اوٹ میں تھی۔ ابیک اور ذیان دونوں اس کی نگاہوں کی گرفت میں تھے اور اس ٹائم ذیان کی سمت اٹھی نگاہوں میں بے پناہ نفرت کا جذبہ ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ ”اب تو ہم آگئے ہیں۔“ نیناں کو ذیان کے اس جملے سے غرور کی بو آئی تھی۔
اس نے ترچھی نگاہ ذیان پہ ڈالی۔
پھر ملک ابیک کی سمت دیکھا جو سفید کڑکڑاتے لٹھے کے کرتے شلوار میں ملبوس اپنی تمام تر مردانہ وجاہت ماحول پہ چھایا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ اس نے ذیان کے پیچھے درخت کے تنے سے ٹیک لگائی ہوئی تھی۔ اپنی پشت پہ وہ اس کی نگاہوں کی تپش محسوس کر چکی تھی پر نیناں کی نفرت سے بھرپور نگاہیں اس سے نہاں تھی۔
اس نے فوراً دونوں پاؤں پانی سے باہر نکالے۔
نازک سی سینڈل پاس ہی پڑی تھی۔ اس نے گیلے پاؤں جلدی جلدی سینڈلز میں ڈالے۔ ”میں واپس جارہی ہوں۔“ ذیان کی مخاطب نیناں اور فریدہ تھی۔ ابیک کو تو اس نے ذرہ بھر اہمیت نہ دی تھی۔
وہ ان دونوں کے ساتھ واپس گاڑی کی طرف جارہی تھی یہاں ڈرائیور اس کے انتظار میں تھا وہ اب لینڈروور میں بیٹھ رہی تھی۔ گیلے پاؤں کی وجہ سے اسے قدم اٹھانے میں تھوڑی مشکل ہوئی تھی پر اس وقت ابیک کی موجودگی میں وہ یہاں ایک پل بھی رکنے کے موڈ میں نہیں تھی۔
ملک ابیک کوپہلی بار شدید توہین کا احساس ہوا۔ مانا کہ حسن میں ادا، نخرہ اور بانکپن ہوتا ہے اپنے ہونے کا غرور ہوتا ہے۔ پر وہ تو سراسر اس کی مردانہ انا اور عزت نفس کو مجروح کر رہی تھی۔ حالانکہ اس کا ابیک کے ساتھ رشتہ طے ہوچکا تھا مستقبل قریب میں وہ ایک دوسرے کے جیون ساتھی بننے والے تھے۔ ایسے میں ذیان کی بے رخی بیگانگی کی حد سے بھی بڑھی ہوئی تھی۔
ماناکہ وہ عتیرہ چچی کی بیٹی تھی پر وہ ان کے ہاتھوں اور گود میں نہیں پلی بڑھی تھی نہ ان کے زیر سائے پروان چڑھی تھی۔ ملک محل میں ابھی اسے آئے بہت زیادہ وقت نہیں گزرا تھا اس لئے عادات، مزاج اورطبیعت کا بھی ابیک کو خاص اندازہ نہ تھا۔ کہیں ملک جہانگیر نے اس کا رشتہ طے کرنے میں جلد بازی سے تو کام نہیں لیا۔ ابیک اسی پہلو پہ سوچ رہا تھا۔
ذیان اسے دیکھتے ہی افراتفری میں یہاں سے گئی تھی ورنہ وہ اچھے خاصے موڈ میں تھی۔ ابیک کا ارادہ تھا کہ وہ واپس جا کر عتیرہ چچی سے اس سلسلے میں بات کرے گا ذیان کے آج کے اس عمل سے اسے اپنی عزت نفس اور خودداری مجروح ہوتی محسوس ہوئی تھی۔ ذیان کے ساتھ آئی فریدہ اور نیناں نے بھی ذیان کا یہ انتہائی رد عمل نوٹ کیا تھا۔
افشاں بیگم نے ایک نوکرانی کے ہاتھ پیغام بھیج کر ذیان کو بلوایا تھا۔
وہ انہی سوچوں میں غلطاں ان کے پاس پہنچی کہ جانے کیوں اس طرح پیغام بھیج کر بلوایا گیا ہے۔ افشاں بیگم ایک نقشین صندوق کھولے بیٹھی تھیں۔“ آؤ آؤ میں تمہارا ہی انتظار کر رہی تھی۔“ وہ اسے دیکھ کر مسکرائیں اور پاس بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ وہ صندوق میں ہاتھ مار کر کچھ نکال رہی تھیں۔ ذیان نے دیکھا وہ سونے کے جگ مگ کرتے زیورات تھے۔ انہوں نے ایک جڑاؤ کنگن نکالا اور اس کے کلائی میں پہنا دیا۔
”یہ میرے ابیک کی دلہن کے لیے ہے۔“ انہوں نے پیار سے اس کا ماتھا چوما۔”میں نے تمہارے لیے رکھا تھا کہ بات طے ہوجائے گی تو تمہیں پہناؤں گی۔ لیکن بھول بھال گئی۔ آج ادھر آئی تو یاد آیا۔“ انہوں نے وضاحت کی اور اسے دیگر زیورات دکھانے لگیں۔ ان میں سے کچھ ان کی مرحومہ ساس نے شادی کے موقعے پہ انہیں دئیے تھے اور کچھ ملک جہانگیر نے خریدے تھے باقی ان کے میکے والوں کی طرف سے تھے۔
افشاں بیگم اسے ساتھ ساتھ زیورات کی تفصیل بتا رہی تھیں جب ابیک سیل فون کان سے لگائے کمرے میں داخل ہوا۔ ذیان کو اچانک یہاں اپنے گھر پا کر وہ ٹھٹھک گیا مگر بہت جلد اس نے اپنے تاثرات چھپا لیے۔ ”امی معاذ کا فون ہے لیں بات کریں۔“ اس نے سیل فون افشاں بیگم کی طرف بڑھایا۔ ”کیسی ہیں آپ؟“ وہ ذیان کے مقابل بیٹھ گیا۔ ”فائن آپ سنائیں؟“ وہ رسمی انداز میں بولی۔
”کیا سناؤں؟“ وہ بے تکلف ہوا۔ اس سے پہلے کہ ذیان کوئی جواب دیتی افشاں بیگم نے سیل فون ذیان کے کان سے لگا دیا۔ معاذ اس سے بات کرنا چاہ رہا تھا، وہ پہلی بار اس کی آواز سن رہی تھی۔ معاذ شریر اور زندہ دل تھا فون پہ بات کرتے ہوئے اسے چھیڑنے لگا۔ ذیان کو تھوڑی دیر میں ہی گھبراہٹ ہونے لگی۔ معاذ کی ہر بات کے جواب میں اس کے منہ سے ہوں ہاں سے زیادہ کوئی آواز ہی نہیں نکل رہی تھی۔
بہت مشکل سے اس نے اللہ حافظ کہہ کر معاذ کی شرارتوں سے دامن بچایا۔ اب وہ ابیک سے بات کر رہا تھا۔ ”بھائی جان آپ نے چپکے چپکے سب کام کرلیے اور مجھے انوائیٹ کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا۔“ وہ پیار بھرے شکوے کر رہا تھا۔ ”چپکے چپکے تو کچھ بھی نہیں کیا۔ تمہیں بتایا تو تھا کہ سب بہت اچانک ہوا۔ امی نے عین وقت پہ مجھے بتایا۔“ وہ اپنی مخصوص گہری مردانہ آواز میں بولا، ذیان اس کے مقابل ہی تو بیٹھی تھی۔
معاذ کی آواز بخوبی اس کی سماعتوں تک رسائی حاصل کر رہی تھی۔ ”ویسے بھائی جان ہماری بھابھی بہت خوبصورت ہیں میں تو فوٹو گرافس دیکھ کر ہی فدا ہو گیا ہوں۔ لال دوپٹے میں مغلیہ شہزادی لگ رہی تھیں۔ دل کر رہا تھا اڑ کر پاکستان آجاؤں۔ مگر میرے پروگریس ٹیسٹ ہو رہے ہیں نہیں آسکتا۔“ معاذ کا لہجہ بات کرتے کرتے آخر میں اداس ہوگیا۔

Chapters / Baab of Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja