Episode 57 - Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 57 - میں گمان نہیں یقین ہوں - نبیلہ ابر راجہ

”ڈونٹ وری تم شادی پہ آجانا میں کوشش کروں گا شادی تمہاری چھٹیوں کے دوران ہو۔“
ابیک نے معاذ سے بات کرتے ہوئے ساتھ بیٹھی ذیان پہ ایک نظر ڈالی تو اس نے بے اختیار پہلو بدلا۔ ”بھائی جان میں کیا سن رہا ہوں۔“ معاذ حیرت سے بولا۔ ”کیا مطلب؟؟“
”آپ اور شادی کا ذکر!! آپ تو شادی کے نام پہ دامن بچاتے تھے… گریٹ اس کا مطلب ہے کہ میری بھابھی نے آپ کو تبدیل کردیا ہے۔
“ معاذ کے لہجے میں شرارت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ ابیک مسکرائے بغیر نہ رہ سکا۔
افشاں بیگم اپنے زیورات کے ساتھ لگی ہوئی تھیں۔
نوکرانی نے چائے کے ساتھ انواع واقسام کے خوردونوش سے بھری ٹرے ذیان کے سامنے رکھی تو ابیک نے اسے کھانے کا اشارہ کیا۔ ”میں ابھی کچھ دیر پہلے لنچ کر کے آئی ہوں اب کچھ بھی نہیں کھا سکوں گی۔

(جاری ہے)

“اس نے انکار کیا۔

”لیکن یہ سب خاص الخاص اہتمام آپ کے لئے کیا گیا ہے۔“ ابیک نے کھانے پینے کی چیزوں کی سمت اشارہ کیا۔ ”میں چائے نہیں پیتی۔“اس نے منہ بنایا۔
”لیکن ابھی آپ کو چائے پینی پڑے گی۔“ ابیک بولتے ہوئے اس کے چہرے کے تاثرات بھی نوٹ کر رہا تھا۔ افشاں بیگم زیورات سے نمٹ کر ان کے پاس آ کر بیٹھیں تو ذیان نے قدرے سکون کا سانس لیا۔
چائے پینے کے بعد وہ عصر کی نماز پڑھنے میں مصروف ہوگئیں۔
اب وہاں صرف ذیان اور ابیک تھے وہ جانے کے لئے اٹھی تو ابیک نے اچانک اپنا پاؤں آگے کردیا وہ گرتے گرتے سنبھلی۔ ”بیٹھے ناں تھوڑی دیر اور۔“ وہ بالکل انجان بنا ہوا تھا۔ ”نہیں اب میں گھر جاؤں گی۔“ اس نے مصلحت کے تحت نرمی اپنائی تب ابیک نے اپنا پاؤں راستے سے ہٹایا۔
نیناں یعنی رنم لیٹی ہوئی تھی۔ باہر سناٹا تھا، کسی بھی قسم کی کوئی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔
اس نے تکیہ دونوں بازوؤں اور ہاتھوں کے مابین سختی سے دبایا ہوا تھا۔ اس کے دانت بھی سختی سے ایک دوسرے پہ جمے تھے جیسے وہ سخت خلفشار اور اذیت کا شکار ہو۔ بات اذیت والی ہی تھی۔ وہ اپنی فضول ضد کے پیچھے گھر بار سب سہولیات کو ٹھوکر مار کر نکل آئی تھی۔ قسمت کی ستم ظریفی تھی وہ خود مالکن ہوتے ہوئے یہاں اس”ملک محل“ میں معمولی نوکرانی کی حیثیت سے رہ رہی تھی۔
وہ ہرگز مطمئن نہیں تھی۔ جب سے ذیان یہاں آئی تھی۔ اس کا سکون جیسے ختم ہو کے رہ گیا تھا۔ رنم کی نگاہوں میں اپنے سوا کوئی کچھ بھی نہیں تھا۔ 
احمد سیال کی بیٹی ہونے کی حیثیت سے اس نے بہت رعایتیں حاصل کی تھیں۔ پھر رہی سہی کسر بے پناہ دولت اور اختیار نے پوری کردی تھی۔ گھر، خاندان، یونیورسٹی دوستوں میں ہر جگہ اسے ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا۔
وہ جیسے کسی ریاست کی بے تاج ملکہ ہو۔ ”ملک محل“ میں اس کی وہ حیثیت نہیں تھی یہاں کی شہزادی ذیان تھی۔ مغرور اور کسی کو خاطر میں نہ لانے والی بیٹھے بٹھائے مالک بن گئی تھی۔ فریدہ اور دیگر نوکرانیوں نے ذیان کے بارے میں حیرت انگیز انکشافات کیے تھے۔ ملک ارسلان کی بیٹی نہیں ہے۔ پھر بھی کیا قسمت پائی تھی اس نے، حویلی آتے ہی سب پہ دھاک بٹھا دی تھی۔
 
افشاں بیگم اس کے حسن سے متاثر اور ملک جہانگیر اسے بیٹی کے روپ میں دیکھتے۔ملک جہانگیر کو وہ یہاں دیکھ کر دنگ رہ گئی تھی۔ وہ جس دن ذیان کا رشتہ مانگنے آئے تب رنم نے انہیں پہلی بار دیکھا اور دیکھتے ہی پہچان لیا کہ یہ پپا کے وہی دوست ہیں جن کا ذکر انہوں نے خاص طور پہ کر کے کہا تھا کہ یہ اپنے بیٹے کے لیے تمہارا رشتہ مانگ رہے ہیں۔
وہ پہلے سے کچھ کمزور لگ رہے تھے لیکن سو فی صد پپا کے وہی دوست تھے جن کی وجہ سے وہ گھر چھوڑ کر یہاں پڑی تھی۔ انہوں نے رنم پہ کوئی توجہ نہیں دی تھی۔ ساتھ وہ ایک بار کے علاوہ پھر ڈرائنگ روم میں آئی بھی نہیں۔ وہ اسے دیکھ لیتے تو بھی پہچان نہ پاتے کہ یہ احمد سیال کی بیٹی ہے۔ اسے دیکھ کرتو کوئی بھی نہ پہچان پاتا، سر تا پاؤں وہ بدل گئی تھی۔
رنم کو سو فی صد یقین تھا کہ ملک جہانگیر نے ابیک کے لئے ہی اس کا رشتہ مانگا ہوگا۔ اس ابیک کے لیے جو غریبوں اور انسانیت کا درد اپنے دل میں رکھتا تھا۔ وہ اپنے طبقے کے عام نوجوانوں سے بالکل مختلف تھا۔
اس کی پوری شخصیت سے متاثر کن وقار جھلکتا۔ یہی ابیک ذیان کو بغیر کسی کوشش اور محنت کے مل رہا تھا اسے رنم کی طرح گھر چھوڑ کر دربدر نہیں ہونا پڑا تھا۔
پپا صرف اس کی وجہ سے دنیا سے چلے گئے۔ کاش وہ فضول سی ضد کے پیچھے اپنا گھر نہ چھوڑتی پپا کا دل نہ دکھاتی۔ اب وہ لوٹ کر کیسے جائے گی، ہمت کر کے چلی بھی جاتی ہے تو کون سا پپا اس دنیا میں ہیں۔ ہر چیز پہ قبضہ ہوچکا ہوگا وہ بالکل محروم اور خالی دامن ہے۔ اپنے پپا کی شہزادی نوکرانی بن گئی ہے۔ اسی ملک محل میں نوکرانی بنی ہے جبکہ قدرت اسے مالکن بنانا چاہ رہی تھی۔
بھلا کیا ملا اسے؟؟؟ رنم روئے جارہی تھی۔
انڈسٹریل ہوم مکمل ہوچکا تھا۔ ابیک ارسلان چچا کی طرف آیا تھا۔ عتیرہ چچی کی بات اسے یاد تھی انہوں نے نیناں کے بارے میں خاص طور پہ مدد کی تلقین کی تھی کہ بے سہارا اور بے آسرا لڑکی ہے پڑھی لکھی بھی ہے بہت کام آئے گی یہاں چھوٹے چھوٹے کاموں میں لگی رہتی ہے تم اسے انڈسٹریل ہوم میں کہیں نہ کہیں لگا دینا۔
وہ عتیرہ چچی کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ ذیان موٹی سی کتاب کے مطالعے میں مصروف تھی۔ ابیک کو ایک نظر دیکھنے کے بعد اس نے اپنی توجہ کتاب کی طرف پھیر لی تھی۔ فریدہ، عتیرہ کی ہدایت پہ نیناں کو بلا کے لے آئی تھی۔ اب وہ ملک ابیک کے سامنے بیٹھی تھی اور وہ اسے انڈسٹریل ہوم کے بارے میں بات کر رہا تھا۔
”میں دو دن بعد آپ کو لینے آؤں گا آپ چل کر دیکھ لیجئے گا سب کام۔
اگر سمجھ میں آئے تو ٹھیک ہے۔“ ”نہیں نہیں میں سب کام سمجھ لوں گی۔“ نیناں فوراً بولی جیسے اس نے ہاں نہ کی تو وہ اپنا ارادہ بدل د ے گا۔ ”ابیک، نیناں پڑھی لکھی ہے بہت جلدی سمجھ لے گی۔“ عتیرہ نے بھی اس کی حمایت کی تو ذیان نے نظر اٹھا کر نیناں کی سمت دیکھا۔ وہ بے پناہ خوش نظر آرہی تھی۔ تھوڑی دیر بعد وہ اٹھ کر چلی گئی۔ اس کی واپسی چائے اور دیگر لوازمات سمیت ہوئی۔
اس نے ٹیبل پہ سب کچھ طریقے سے رکھا اور خود بھی ایک کونے میں بیٹھ گئی۔ ابیک عتیرہ کے ساتھ باتوں میں مصروف تھا۔ ذیان جو سر جھکائے کتاب میں محو تھی اچانک اس کی نگاہ نیناں کی طرف اٹھی۔ وہ پوری دلچسپی سمیت ملک ابیک کی طرف دیکھ رہی تھی،وہ نظر بچا کر یہ سب کر رہی تھی پر ذیان سے اس کی یہ چوری مخفی نہیں رہ پائی تھی۔ ذیان نے دوسری نگاہ ابیک پہ ڈالی جو چائے پیتے ہوئے عتیرہ کے ساتھ باتیں کر رہا تھا وہ قطعاً نیناں کی طرف متوجہ نہیں تھا۔
ذیان نے دوبارہ نیناں کی طرف دیکھا تو وہ گھبرا سی گئی اور فوراً چلی گئی۔ ذیان کو یہ سب عجیب سا لگا۔اس جذبے کو اس احساس کو وہ کوئی نام نہیں دے پائی۔
نیناں، ملک ابیک کے ساتھ جانے کے لئے بالکل تیار تھی۔ آج اس نے اپنا سب سے اچھا سوٹ پہنا تھا جو عتیرہ نے ہی اسے دلوایا تھا۔ شکل و صورت ویسے بھی اچھی تھی تھوڑی توجہ سے اور بھی جاذب نظر لگنے لگی تھی۔
ملک ابیک کی شاندار گاڑی میں بیٹھ کر جاتے ہوئے اسے لگ رہا تھا جیسے وہ ایک بار پھر سے رنم سیال بن گئی ہے۔ کام سٹ یونیورسٹی کا سرسبز گراؤنڈ، اپنی گاڑی تیز رفتار ڈرائیونگ سب سے پہلے پہنچنے کی دھن۔ پھر سے یہ سب اسے یاد آرہا تھا۔ ایک حسرت نے انگڑائی لی کہ کاش سب کچھ پہلے جیسا ہوجائے۔ اس نے چور نگاہوں سے آگے بیٹھے ملک ابیک کی پشت کی طرف دیکھا۔
وہ ڈرائیور کے ساتھ باتیں کر رہا تھا۔ اس کے پسندیدہ پرفیوم کی خوشبو پوری گاڑی میں چکرا رہی تھی۔ ہر معاملے میں اس کا ذوق اعلیٰ تھا۔
اسے پتہ ہی نہیں چلا گاڑی ایکدم رکی تو وہ اپنے خیالوں سے باہر آئی۔ سامنے خوبصورت سے احاطے میں تازہ پودے لگائے گئے تھے۔ ابیک نے اسے گاڑی سے اتر نے کا اشارہ کیا۔ اس کے پیچھے پیچھے چلتی وہ اس تازہ تازہ تعمیر کی گئی عمارت میں داخل ہوئی۔
مشرقی دیوار کے ساتھ ایک کمرہ آفس کے طور پہ سیٹ کیا گیا تھا۔ ملک ابیک اسے ساتھ لیے سیدھا ادھر آیا اور کرسی پہ بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ ”اب آپ یہاں کی انچارج ہیں میں یہ سب معاملات آپ کے سپرد کرنے لگا ہوں۔ امید ہے آپ بخوبی سنبھال لیں گی۔ ایک دو دن میں باقی سب سامان بھی آجائے گا۔ ابھی تھوڑی دیر میں انڈسٹریل ہوم میں داخلے کی خواہش مند خواتین اور لڑکیاں آنا شروع ہوجائیں گی۔
آپ نے سب کے نام درج کرنے ہیں پھر طریقہ کار اور اصول کے بارے میں بتانا ہے۔“ ۔
وہ اسے انتظامی امور کے بارے میں گائیڈ کرنے لگا۔ نیناں پوری توجہ سے سن رہی تھی۔ یہ کام اسے بالکل نیا اور دلچسپ لگ رہا تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد سچ میں ابیک کے کہنے کے مطابق عورتیں اور لڑکیاں آنا شروع ہوگئیں۔ یہ تعداد خاصی حوصلہ افزا تھی۔ ابیک کچھ دیر وہاں رکا پھر سب کچھ اس کے سپرد کر کے خود شہر جانے کی تیاری کرنے لگا۔
اسے سلائی کڑھائی کے اس مرکز کے لیے مشینوں اور دیگر اشیاء کی خریداری کرنی تھی ساتھ ایک دو کام بھی نمٹانے تھے۔ نیناں کو چھوڑ کر آنے کے بعد وہ خاصا پر امید تھا کیونکہ وہ اسے کافی سمجھدار اور جلد سیکھنے والی لڑکی لگی تھی۔ اب وہ شہر میں بغیر کسی پریشانی کے اپنے کام سرانجام دے سکتا تھا۔
انڈسٹریل ہوم کا آغاز ہوئے ایک ہفتہ ہوچکا تھا۔
مشینیں اور دیگر سامان آچکا تھا۔ عورتوں کی تعداد چالیس ہوگئی تھی۔ ان میں سے دو عورتوں کو نیناں نے سلائی کڑھائی کے شعبے کا انچارج بنا دیا تھا کیونکہ وہ اپنے کام میں ماہر تھیں۔ یہاں کل چھ کمرے تھے، ایک کمرہ بطور آفس استعمال ہو رہا تھا جبکہ باقی پانچ کمروں کو شعبوں کے لحاظ سے تقسیم کردیا گیا تھا۔
نیناں، داخلے کی خواہش مند خواتین کا اندراج کرتی اور انتظامی معاملات دیکھتی۔
لڑکیوں عورتوں میں وہ ”میڈم“ کے نام سے مشہور ہو رہی تھی۔ اس کام میں اسے بے پناہ مزہ آرہا تھا۔ شروع میں وہ ابیک کے ساتھ آتی رہی، وہ خود مصروف رہتا تھا اس لیے نرمی سے اسے منع کردیا کہ وہ روز اسے ساتھ نہیں لا سکتا چنانچہ وہ خود اب آتی جاتی تھی۔
عتیرہ بیگم نے بہت کہا کہ ڈرائیور کے ساتھ چلی جاؤ مگر اس نے طریقے سے منع کردیا اور پیدل آنے جانے لگی۔
مناظر فطرت سے لطف اندوز ہوتے ہوئے وہ آتی اور جاتی۔ وقت گزرنے اور راستہ طے ہوجانے کا پتہ ہی نہ چلتا۔
صبح دس بجے تک وہ انڈسٹریل ہوم میں موجود ہوتی۔ شام چار بجے چھٹی ہوتی، یہ وقت اس کا بہت اچھا گزرتا۔ اپنا آپ معتبر لگتا، ملک ابیک نے تو اس کی کھوئی ہوئی خودداری اور عزت نفس بحال کردی تھی۔ اب وہ ملک محل میں کام کرنے والی عام سی نوکرانی نہیں رہی تھی بلکہ انڈسٹریل ہوم کی انچارج تھی۔ ملک ابیک نے اس کی معقول تنخواہ بھی مقرر کردی تھی۔ ہفتے میں ایک دن کی چھٹی تھی، طبیعت کی خرابی یا کسی ایمرجنسی کی صورت میں وہ چھٹی کرنے کی حقدار تھی۔
                                       ###

Chapters / Baab of Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja