Episode 58 - Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 58 - میں گمان نہیں یقین ہوں - نبیلہ ابر راجہ

معاذ کا سمیسٹر ختم ہونے کے قریب تھا وہ پاکستان آنے اور اپنی ہونے والی بھابھی سے ملنے کے لیے سخت بے قرار تھا۔ ادھر ملک جہانگیر، ابیک کی شادی کا پروگرام بنا رہے تھے پر وہ شادی کو موٴخر کرنے کا بول رہا تھا۔ ابھی بھی اس مسئلے پہ ملک جہانگیر، افشاں بیگم اور ابیک تینوں میں بحث ہو رہی تھی۔ ”ابیک اب کس بات کی دیر ہے۔ ماشاء اللہ تم اپنا کما رہے ہو کسی کے محتاج نہیں ہو۔
“ افشاں بیگم نے ناراضگی سے لاڈلے بیٹے کو دیکھا۔ ”امی آپ کوپتہ تو ہے کہ میں انڈسٹریل ہوم کے ساتھ اب سکول کی تعمیر کو بھی مکمل کروانا چاہتا ہوں۔ میں اس کے بعد شادی کروں گا۔“ وہ بے حد سنجیدہ نظر آرہا تھا۔
”تم پہلے شادی کرو باقی بعد میں چلتا رہے گا۔“ ملک جہانگیر خاصے رسان سے گویا ہوئے۔ ”ٹھیک ہے بابا جان میں بات کروں گا اس پہ آرام سے۔

(جاری ہے)

“ اس نے بحث ختم کرنی چاہی۔ وہ جس وجہ سے شادی کو ٹال رہا تھا، افشاں بیگم اور ملک جہانگیر دونوں اس سے لاعلم تھے۔ ”جیسے تمہاری مرضی۔“ ملک جہانگیر نے جیسے ہار مان لی۔ ”ویسے تمہارا سکول کب تک مکمل ہوگا؟“ افشاں بیگم نے پوچھا۔ ”امی ابھی کچھ نہیں کہہ سکتا۔“ اس نے مبہم سا جواب دیا۔
عتیرہ کی پوری بات سننے کے بعد ذیان نے جھکا سر اوپر اٹھایا۔
اس کی آنکھیں عتیرہ کی طرف اٹھیں، ان آنکھوں میں عجیب سی بیگانگی اور سرد مہری تھی۔ ہونٹوں پہ مبہم سی مسکراہٹ رقصاں تھی جسے عتیرہ کوئی معنی پہنانے سے قاصر تھی۔ ذیان انہی کی طرف دیکھ رہی تھی۔ دل میں وہ بے پناہ خوش ہو رہی تھی کہ اس کا رویہٴ اب”ملک محل“ میں بسنے والوں پہ اثر انداز ہونے لگا ہے۔
 عتیرہ کی حالیہ گفتگو اور فکر مندی اس کے رویے کا منہ بولتا ثبوت تھی۔
”دیکھو میں بہت خوش ہوں، تم یہاں میرے پاس آگئی ہو اور ہمیشہ کے لیے میرے پاس رہو گی۔ لیکن تمہیں اپنے اور ابیک کے مابین رشتے کو نہیں بھولنا چاہیے۔ اگر وہ یہاں آتا ہے تو اس کے ساتھ اچھے طریقے سے بات کرو۔ میں یہ ہرگز نہیں چاہتی کہ تم اپنی مشرقیت اور نسوانیت کو فراموش کردو مگر ابیک کو منفی خیالات دل میں لانے کا موقعہ بھی مت دو۔ اس نے مجھ سے بات کی ہے کہ ذیان شاید اس رشتے سے خوش نہیں ہے میں نے اسے مطمئن کر دیا ہے اور یہ بھی سوچا ہے کہ تمہاری شادی جلدی ہونی چاہیے۔
“ ذیان نے ان کے آخری جملے پہ بے اختیار پہلو بدلا۔ ”جی ٹھیک ہے۔“ ہمیشہ روز اول کی طرح وہ مختصراً بولی تو عتیرہ اپنی جگہ سے اٹھ کراس کے قریب آ کر بیٹھ گئیں۔ ”تم خوش رہا کرو۔“ انہوں نے پیار سے اس کا سر اپنے کندھے سے لگا لیا تو ذیان کے اندر بگولے سے اٹھنے لگے۔ ”اور ہاں رات کو تمہارے لیے معاذ کی کال آئی تھی تم سو رہی تھیں میں نے نہیں اٹھایا۔
ہوسکتا ہے آج وہ پھر تمہیں کال کرے۔ اس سے بات کرلینا۔“
اس کے بالوں میں عتیرہ نے ہاتھوں سے کنگھی کرتے ہوئے بتایا۔ ”جی ٹھیک ہے کرلوں گی۔“ وہ پھر اسی انداز میں بولی۔ عتیرہ کی اتنی ساری باتوں کے جواب میں اس کے پاس ایک آدھ جملہ ہی تھا۔ وہ بحث یا تکرار بھی تو نہیں کرتی تھی جو کہا جاتا مان لیتی۔ عتیرہ نے تھک ہار کر نظریں چھت پہ جما دیں۔
ملک ابیک، آفس میں نیناں کے سامنے بیٹھا ہوا تھا۔
”آپ کا انڈسٹریل ہوم کیسا چل رہا ہے؟“ وہ دوستانہ انداز میں باتیں کر رہا تھا۔ ”شکر ہے اچھے طریقے سے کام ہو رہا ہے۔“ ابیک کے اس طرح اچانک آنے سے وہ خوش ہوگئی تھی۔ 
”کوئی مشکل تو نہیں ہے؟“ نہیں کوئی مشکل نہیں ہے۔“ ”پھر بھی کوئی مسئلہ ہو تو مجھے ضرور بتائیے گا۔“ ”جی ایسا ہی ہوگا۔
“ وہ سرہلاتے ہوئے بولی۔ لان کے خوبصورت پرنٹڈ شلوار قمیض میں ملبوس نیناں کو ابیک نے غور سے دیکھا۔ ”کام کرنے میں کوئی دشواری ہو تو کاری گر عورتوں میں سے آپ کسی کو ساتھ رکھ سکتی ہیں۔“ ”کام بہت اچھا چل رہا ہے۔ انڈسٹریل ہوم کی شہرت اردگرد کے دیہاتوں تک بھی پہنچ گئی ہے۔ چھ لڑکیاں آئی ہیں میرے پاس وہاں سے، اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو بہت جلد سب کمرے بھر جائیں گے۔
“ میں بہت پرامید ہوں۔ لڑکیاں بہت محنت سے کام کر رہی ہیں۔“ ”انشاء اللہ ان کو اپنی محنت کا معاوضہ بھی ملے گا۔“ ابیک مضبوط لہجے میں بولا۔
 ”میں بہت خوش ہوں آپ نے مجھے یہاں کام کرنے کا چانس دیا۔“ وہ ممنون لہجے میں بولی تو ابیک ایک بار پھر اسے دیکھنے پہ مجبور ہوگیا۔ اس نے نیناں کے الفاظ اور لہجے پہ غور کیا۔ ”آپ یہاں مطمئن ہیں میرا مطلب ہے اس کام سے؟“ ابیک نے اچانک سوال کیا۔
”میں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ یہاں مجھے اتنی عزت ملے گی۔ یہ زندگی کا ایک نیا رخ ہے میرے لیے پر میں خوش ہوں۔“ وہ بہت شائستہ انداز میں بولی تو ابیک ایک بار پھر الجھنے لگا۔ اسے یقین ہونے لگا کہ لان کے عام سے سوٹ میں ملبوس اس کے سامنے جو لڑکی بیٹھی ہے وہ عام سی ہرگز نہیں ہے اس کا لہجہ، انداز اور شائستگی سب کچھ اور ہی ظاہر کرتی تھی۔
”ویسے آپ کی تعلیم کتنی ہے کہاں سے پڑھا ہے آپ نے؟“ ”میں نے کام… میرا مطلب گورنمنٹ سکول سے صرف میٹرک کیا ہے۔
“ جتنا اچانک سوال تھا اتنا اچانک جواب دیتے دیتے وہ رک گئی اور فوراً گورنمنٹ سکول کا نام لے دیا۔ ملک ابیک چونکے بغیر نہ رہ سکا۔ نیناں نے جس طرح اچانک ہڑبڑا کر جواب دیا وہ اسے شک میں ڈالنے کے لیے کافی تھا۔ ”ویسے آپ میٹرک پاس لگتی نہیں ہیں۔“ ابیک اسے گہری نگاہ سے دیکھ رہا تھا۔ اس نے گھبرا کے پہلو بدلا اور گھبراہٹ زائل کرنے کے لیے مسکرانے لگی۔
اسے ابیک کی گہری نگاہوں سے ڈر لگ رہا تھا۔
نیناں یعنی رنم ابیک کے جانے کے بعد گہری سوچ میں گم تھی۔
عتیرہ اور ملک ارسلان اسے ملک محل میں ساتھ لائے تھے۔ اسے گھر میں جگہ دی اس کے ساتھ محبت سے پیش آئے کبھی اسے بے سہارا بے آسرا نہیں سمجھا نہ تحقیر اور ذلت والا سلوک کیا۔ ان کے اعلیٰ ظرف اور بامروت ہونے کے لیے ان کا نرم رویہ ہی کافی تھا۔
وہ گھر سے ایک معمولی سی بات پہ ناراض ہو کر نکلی تھی۔ اس کی یہ احمقانہ بہادری اور بے وقوفی اسے ہوٹل میں کسی بھی بڑے مسئلے میں پھنسا سکتی تھی اگر ملک ارسلان اور عتیرہ وہاں رحمت کے فرشتے بن کر نازل نہ ہوتے۔ پھر وہ اسے اپنے ساتھ گاؤں لے آئے۔ ملک محل کے مکینوں نے اسے پیش آنے والی بہت سے مشکلات سے بچایا تھا۔ ملک ابیک نے انڈسٹریل ہوم کی ذمہ داری ا س کے سپرد کر کے اس پہ مکمل اعتماد کا ثبوت دیا تھا۔
اب اسے گھر کی پپا کی یاد بھی کم کم آتی۔ اپنی ہٹ دھرمی اور بے وقوفی کو بھی وہ بھول گئی تھی۔ اب اسے ملک ابیک کی ذہانت سے خوف آرہا تھا اگر اس نے نیناں کی اصلیت پکڑ لی تو کیا ہوگا۔ اس نے اپنا بالوں کا سٹائل، لب و لہجہ، پہناوا سب کچھ ہی تو بدل لیا تھا۔ اس کے باوجود بھی جانے کیوں ملک ابیک کو اس پہ شک ہوگیا تھا۔ اپنے اس شک کا اظہار اس نے کسی پہ بھی عیاں نہیں کیا تھا۔
خاموشی سے نوٹ کر رہا تھا۔ نیناں کا لب و لہجہ ظاہر کرتا تھا کہ وہ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں پڑھتی رہی ہے۔ اس کا انداز بات چیت، رکھ رکھاؤ ایک ایک بات اس کی چغلی کھاتی تھی کہ وہ بے سہارا یا بے آسرا نہیں ہے۔ عتیرہ چچی نے بھی زیادہ کھل کر کچھ نہیں بتایا تھا۔
ملک ابیک ذیان کے روئیے کی وجہ سے الجھا ہوا تھا۔ عتیرہ چچی کی وضاحت اور یقین دہانی اسے قائل نہیں کر پائی تھی۔
اس کا خیال تھا کہ ذیان کی رضا مندی جانے بغیر اچانک رشتہ طے ہوا اور وہ ذہنی طور پہ ابھی تک تسلیم نہیں کرپائی ہے۔ اس لیے وہ شادی کو موٴخر کرنا چاہتا تھا تاکہ ذیان بھی تب تک تیار ہوجائے۔
وہ جب بھی ارسلان چچا کی طرف جاتا ذیان اسے دیکھتے ہی سرد سے تاثرات چہرے پہ سجالیتی جیسے باقی دنیا اس کے قدموں میں ہو اور کسی کی کوئی اہمیت نہ ہو۔
کبھی کبھی اس کے تاثرات میں گرمجوشی بھی جھلک آتی پر ایسا بہت کم ہوتا۔ اکثر اوقات وہ گم صم رہتی۔ ابیک کو دیکھ کر کبھی اس کے تاثرات سے ایسا نہیں لگا کہ وہ اس کی پرسینالٹی مردانہ وجاہت اور وقار سے متاثر ہوئی ہو۔ اس کے ایک ایک انداز سے”میں ہی میں ہوں“ کا اظہار ہوتا ابیک کو کبھی کبھی وہ ناراض بگڑی بچی لگتی۔ اس کی”میں“ پہ ابیک کو ہنسی ہی آتی۔
پر یہ بھی حقیقت تھی کہ وہ اس کے لیے اپنے دل میں لطیف سے جذبات محسوس کر رہا تھا۔ ان جذبات کو ابیک نے اظہار کی آنچ نہیں پہنچائی تھی ابھی تک، لیکن کیا سچ میں ذیان اتنی ہی انجان اور لاپرواہ تھی جتنا خود کو ظاہر کر رہی تھی۔ ایسا ممکن تھا کہ محبت کی جس میٹھی میٹھی آگ میں نازک جذبوں کی تپش سے ابیک پگھلا جارہا تھا وہ ان سے لاعلم تھی۔ کیا ایسا ممکن تھا کہ ذیان کو کچھ خبر ہی نہ ہو۔
وہ اتنی ہی لاعلم ہو جتنی نظر آرہی ہو۔
ابیک شادی کے بعد اسے اپنے جذبات سے آگاہ کرنا چاہتا تھا اس سے پہلے شاید وہ بدک جاتی اگر وہ کچھ ایسا کرتا تو۔ جب وہ قانونی اور شرعی طور اسے اپنا بنا لیتا تب اظہار کرنے میں کوئی نقصان نہیں تھا۔ وہ اپنی محبت اور جذبوں کی طاقت سے اسے پگھلا لیتا۔ ذیان شاید لڑکیوں کی اس قسم سے تعلق رکھتی تھی جو انجان بن کر فریق مخالف کی تڑپ سے لطف اندوز ہوتی ہیں۔ ورنہ ملک ابیک نظر انداز کیے جانے کے قابل تو نہ تھا۔ صنف نازک کی جو نگاہیں اس کی طرف اٹھیں ان میں تعریف ہوتی، ستائش ہوتی۔ اس کی بھرپور مردانہ وجاہت سے متاثر ہونے کا جذبہ ہوتا۔ بس ذیان ہی تھی جس پہ اثر نہیں ہواتھا۔
                                         ###

Chapters / Baab of Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja