Episode 63 - Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 63 - میں گمان نہیں یقین ہوں - نبیلہ ابر راجہ

نیناں سوچ رہی تھی کہ ذیان کے بارے میں کیسے اور کس سے کس طرح معلومات حاصل کی جاسکتی ہے۔ فی الحال تو ملک ابیک اور ذیان کی شادی اس کے لیے شاک کا باعث بنی ہوئی تھی۔ ملک ابیک بالکل ویسا ہی تھا جیسا وہ ڈھونڈ رہی تھی۔ واہ ری قسمت تیرے کھیل۔ اس کا مطلوبہ شخص ایک اور حیثیت میں اسے ملا تھا۔ اور وہ اپنی ضد میں گھر بار عیش و آرام نازونعم سب چھوڑ آئی تھی اسے ایسا شخص مل کے نہیں دے رہا تھا لیکن یہی شخص کسی اور کو بغیر کسی ضد کے بن مانگے مل رہا تھا۔
ذیان کو تو کچھ چھوڑنا بھی نہیں پڑا تھا۔ ذیان جیسی مغرور بددماغ لڑکی جو کسی کو خاطر میں نہیں لاتی تھی کیا ملک ابیک جیسا شاندار مرد اسکے لائق تھا یا وہ اس قابل تھی کہ ملک ابیک کے خواب بھی دیکھ سکے۔ ”نہیں نہیں۔“ ان تمام سوالوں کے جواب میں کوئی بڑے زورو شور سے نیناں کے اندر چیخا تھا۔

(جاری ہے)


ملک ارسلان نے ذیان اور ابیک کی شادی کے لیے بہترین انتظامات کیے تھے۔
وہ ذیان کو بیٹی کی طرح رخصت کرنا چاہ رہے تھے نہیں چاہتے تھے کہ کسی بھی جگہ اسے کسی کا احساس ہو۔ اسلیے اپنی طرف سے انہوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ شادی سے ایک ہفتہ پہلے ہی ذیان کو مایوں بٹھا دیا گیا۔ ادھر ملک جہانگیر نے ابیک کے لیے مختص رہائشی حصے کو نئے سرے سے آراستہ کردیا تھا۔ ابیک اور ذیان کا بیڈ روم نئے اور قیمتی فرنیچر سے سجایا گیا تھا۔
انسپکیشن کے لیے معاذ خاص طور پہ نیناں کو لے کر آیا وہ بھی ذیان کو بھی کمرہ دکھا کر داد وصول کرنا چاہ رہا تھا پر عتیرہ چچی کے سمجھانے پہ باز آگیا۔ ورنہ اسے کچھ بعید بھی نہ تھا کہ ذیان کو زبردستی لے آتا۔
نیناں آراستہ و پیراستہ بیڈ روم کو غور سے دیکھ رہی تھی آنکھوں میں رشک و حسد کے ملے جلے جذبات تھے۔ معاذ حسب معمول بول رہا تھا۔
”ذیان بی بی پہلے شہر میں رہتی رہی ہیں کیا؟“ نیناں نے عام سے انداز میں سوال کیا۔ ”ہاں وہ حویلی پہلی بار آئی ہیں۔“ معاذ نے بھی عام سے ہی انداز میں جواب دیا۔ ”وہاں رہ کر انہوں نے تعلیم حاصل کی ہوگی۔“ ”آف کورس بھابھی پہلی بار حویلی آئی ہیں۔“معاذ اپنی دھن میں بول رہا تھا۔ ایکچولی ارسلان چچا، ذیان بھابھی کے سوتیلے ابو ہیں۔“معاذ نے بولتے بولتے اہم انکشاف کیا تو حیرت کی زیادتی سے جیسے نیناں جہاں کی تہاں رہ گئی۔
اس نے بڑی مشکل سے خود کو نارمل کیا ورنہ معاذ شک میں پڑ سکتا تھا۔
معاذ کی باتوں کی طرف اب اس کا دھیان نہیں تھا وہ فقط میکانکی انداز میں سر ہلا رہی تھی۔
معاذ بہت خوش تھا۔ وہ روز دن ڈھلتے ہی ذیان کی طرف آجاتا۔ گاؤں کی تمام عورتیں رات کو”ملک محل“ میں جمع ہو کر روایتی شادی بیاہ کے گانے گاتیں۔ انکے گانے ٹپوں اور ماہیوں میں دیہاتی زندگی کی سادگی اور سچائی جھلکتی تھی۔
نیناں کے لیے یہ سب بہت انوکھا تھا اور تکلیف دہ تھا۔ شہر میں ایسی رسمیں نہیں تھیں یہاں گاؤں کی رسموں میں سادگی اور خاص حسن تھا۔ جبکہ یہ رسمیں اس کے لیے تکلیف دہ ان معنوں میں تھیں کہ ذیان ان رسموں کا خاص کردار تھی۔ جب سے وہ مایوں بیٹھی تھی اسکے گھر سے باہر جانے پہ پابندی لگ گئی تھی نہ سنگھار کرنے کی اجازت تھی۔ اس نے اب شادی کے بعد ہی سجنا سنورنا تھا۔
معاذ ذیان کی طرف آتا تو اسے بھی گھسیٹ لیتا اسے ڈھولک بجانے کا اچانک ہی شوق اٹھا تھا۔ میراثنوں کو دیکھ دیکھ کر وہ اناڑی پن سے ڈھولک بجانے کی پریکٹس کرتا تو دیکھنے والوں کے پیٹ میں ہنس ہنس کر بل پڑ جاتے۔ وہ نیناں یعنی رنم کے بھی پیچھے پڑ جاتا۔ اسے معاذ سے ڈر لگنے لگا تھا تب ہی تو وہ بہت کم اس کے سامنے آتی۔
افشاں بیگم نے عتیرہ سے درخواست کی تھی کہ نیناں کو کچھ دن کے لیے ان کے پاس رہنے کے لیے بھیج دیا جائے۔
وہاں بہت کام بکھرے ہوئے تھے۔ جبکہ افشاں بیگم سے اب”ملک محل“ کی دیکھ بھال کے امور درست طریقے سے سنبھالے نہیں جارہے تھے۔ ابیک کی شادی کا ہنگامہ سرپہ تھا۔ کوئی بیٹی نہیں تھی جو بے شمار چھوٹے چھوٹے کاموں میں ان کی مدد کرتی مشورہ دیتی کیونکہ ملک ابیک کی شادی کوئی عام شادی ہرگز نہیں تھی۔ ان کے دیور ملک ارسلان کے شادی کے برسوں بعد اب”ملک محل“ میں یہ پہلی پہلی شادی اور ان کی پہلی پہلی شادی تھی وہ ایک چھوٹے سے چھوٹے کام کو بھی بھرپور طریقے سے پایہٴ تکمیل تک پہنچانے کی خواہاں تھیں۔
اگرچہ ہر کام کی انجام دہی کے لیے بہت سی ملازمائیں تھیں ان میں انتظامی صلاحیت کا بھی فقدان تھا اس لیے تو وہ عتیرہ کے آگے درخواست کرنے پہ مجبور ہوئی تھیں۔ ”بھابھی جان آپ کے گھر میں تو نوکرانیوں کی فوج ہے پوری پھر بھی…“ عتیرہ، افشاں بھابھی کی بات پہ جی بھر کے حیران ہوئی۔
 ”نیناں پڑھی لکھی ہے سر پہ کھڑے ہو کر نگرانی کرے گی تو سب اچھا ہوگا۔
اس میں نوکروں سے کام لینے کی صلاحیت ہے۔ جب کہ میں اب سست ہوگئی ہوں، اور ٹائم بھی کم ہے۔ ملک صاحب کے ساتھ بہت سی جگہوں پہ دعوت نامہ دینے خود جانا ہے۔ ان کے کچھ قریبی دوست ہیں ملک صاحب کہتے ہیں وہاں میں خود جاؤں گا اور ظاہر ہے مجھے بھی ان کے ساتھ جانا ہوگا۔ کل شہر بھی جانا ہے۔“ افشاں بیگم نے تفصیلی جواب دیا تو عتیرہ نے سر ہلایا۔ ”میں نیناں سے کہتی ہوں بلکہ اسے ساتھ ہی لے جائیں۔
“ عتیرہ نے فوراً ہی رضا مندی دے دی تو افشاں بیگم مطمئن ہوگئیں۔
نیناں کا دل بلیوں اچھل رہا تھا۔ عتیرہ بیگم نے اسے کچھ دنوں کے لیے ملک ابیک کی طرف شفٹ ہونے کا کہا تھا۔
اس نے بڑی فرمانبرداری سے سر ہلایا تھا۔ افشاں بیگم اسے اپنے ساتھ ہی لائی تھیں اور فوراً ہی کاموں کی ایک لمبی چوڑی فہرست بنائی تھی۔
کارڈز چھپ کے آگئے تھے۔
نیناں افشاں بیگم کی ہدایت پہ سب کارڈز ان کے پاس لائی تھی۔وہ ملک ابیک کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھیں۔نیناں کارڈز کا بنڈل ان کے سامنے رکھ کر وہیں سائیڈ پہ کھڑی ہوگئی۔ ملک ابیک کارڈ کھول کر ان پہ لکھے نام پڑھ رہا تھا۔ ”چوہدری طارق صغیر گیلانی، رانا رب نواز، احمد سیال…“ احمد سیال کے نام پہ نیناں فوراً اضطراب کا شکار ہوئی۔ بے چینی سے پورے جسم میں سرائیت کر چکی تھی۔
وہ کسی معجزے کی توقع تو نہیں کر رہی تھی پر احمد سیال کے نام پہ اسے شدید جھٹکا لگا تھا۔دماغ جو کچھ سمجھا رہا تھا دل اسے قبول کرنے پہ آمادہ نہیں تھا۔ اس نے آخری بار ہوٹل سے جب اپنے گھر کال کی تھی تو وہاں سے رونے پیٹنے کی آوازیں سنی تھیں۔ اس نے اسے اپنی غلطی سمجھا تھا اور پھر کال کی تھی لیکن اس بار بھی تو غلطی نہیں ہوسکتی تھی ہوٹل سٹاف کے ایک آدمی نے نمبر ڈائل کیا تھا اور تصدیق کی تھی۔
جس نمبر پہ اس نے کال کی تھی اس گھر کے مالک کا انتقال ہوچکا تھا۔ رونے پیٹنے کی آوازیں ان کے دکھ کا اظہار تھیں۔ وہ ادھر ہی ڈھے گئی تھی۔ اس کی تو دنیا ہی ختم ہوگئی تھی۔ جب پپا ہی نہیں رہے تھے تو وہ واپس کس کے پاس جاتی۔ اور واپس جا کے کرتی بھی کیا۔ ساری عمر ضمیر کی مجرم بنی رہتی۔ اس نے واپس جانے کے بجائے عتیرہ اور ملک ارسلان کے ساتھ جانے کا فیصلہ کیا۔
یہ اس کی خوشی یا چوائس نہیں تھی بلکہ بطور سزا یہ راستہ اس نے چنا تھا۔ وہ اپنے پپا کی قاتل تھی اس کے گھر چھوڑنے کے صدمے نے ان کی جان لی تھی۔ ضمیر کی چبھن اس کے لیے ناقابل برداشت تھی۔
ہر کارڈ پہ لکھا پپا کا نام جو ملک ابیک نے ابھی ابھی پڑھ کر اس کی سوچوں کو جھنجھوڑا تھا وہ تو کوئی اور ہی حقیقت بیان کر رہا تھا۔ وہ مرچکے ہوتے تو کارڈ پہ ان کا نام کیوں لکھا جاتا۔
کارڈ پہ لکھا نام ظاہر کر رہا تھا کہ وہ زندہ تھے اور انہیں شادی میں بلایا جارہا تھا۔ اس کا ذہن تیزی سے سارے واقعات پہ غور کررہا تھا۔ یقینا پریشانی میں اسے نمبر ڈائل کرنے میں غلطی ہوگئی تھی جس کی وجہ سے اس نے پپا کو مردہ تصور کرلیا تھا۔ اس وقت اس کی عقل کام کر رہی ہوتی تو وہ نام ضرور پوچھتی۔ اسی وقت سب کلیئر ہوجاتا تو اس وقت احمد سیال کے ساتھ ان کے گھر میں بیٹھی ہوتی اور اسے رخصت کرنے کی وداع کرنے کی تیاری ہو رہی ہوتی۔
پر وائے ری قسمت، اس میں اس کی حماقت اور بے جا ضد کا بہت بڑا ہاتھ تھا جو وہ ملک محل میں ایک معمولی، بے آسرا، بے سہارا ملازمہ کی صورت میں رہنے پہ مجبور تھی۔
کارڈ پہ لکھا احمد سیال کا نام اس کے لیے مژدہ جانفزاء ثابت ہوا تھا۔ ”احمد سیال تمہارے بابا کے وہی دوست ہیں جن کی بیٹی انہوں نے پہلے معاذ کے لیے پسند کی تھی۔“
افشاں بیگم نے ملک ابیک کو یاد کروایا۔
”ہاں امی مجھے اچھی طرح ان کا علم ہے۔“ ابیک نے احمد سیال کا کارڈ ایک طرف رکھتے ہوئے جواب دیا۔ نیناں ایک بار پھر نئے سرے سے حیران ہوئی یعنی اس کا رشتہ پہلے ملک معاذ کے لیے طلب کیا گیا تھا۔ اس نے احمد سیال سے کبھی معلوم کرنے کی کوشش بھی تو نہیں کی تھی نہ دلچسپی لی تھی۔ انہوں نے بس اتنا ہی بتایا تھا کہ ان کے دوست نے اسے اپنے بیٹے کے لیے پسند کیا ہے اور اپنی فیملی کے ساتھ آنا چاہتے ہیں۔
کاش اس وقت وہ کچھ دیر کے لیے سوچ لیتی غور کرلیتی۔ افشاں بیگم کا کہا گیا جملہ ظاہر کر رہا تھا کہ اسے پہلے معاذ کے لیے پسند کیا گیا تھا پھر ارادہ بدل گیا ہوگا اور ملک ابیک کے لیے رشتہ طلب کیا گیا۔
 درست صورتحال سے اسے پپا ہی آگاہ کرسکتے ۔ ”احمدسیال کے گھر تمہارے بابا اور میں خود جائیں گے۔ ملک صاحب بتا رہے تھے کہ ان کا یہ دوست تھوڑا بیمار ہے۔
بیٹی بھی پڑھنے کے لیے باہر چلی گئی ہے۔ اور کوئی بیٹا بھی نہیں ہے۔“ افشاں بیگم نیناں کی دلی حالت سے بے خبر ابیک کے ساتھ بات کر رہی تھیں۔ کچھ دیر بعد انہوں نے نیناں کو اشارہ کیا کہ سب کارڈز اٹھا کر وہاں رکھ دے جہاں سے لائی ہے۔ نیناں نے اپنی آنکھیں جھکاتے ہوئے ٹیبل سے سب کارڈز اٹھائے وہ دروازے سے باہر آتے ہی تیز تیز قدموں سے سیدھی اس کمرے کی طرف آئی جو عارضی طور پہ اسے دیا گیا تھا۔
اس نے ڈھونڈ کر مطلوبہ کارڈ نکالا اور باقی سب الگ کر کے رکھے۔
کارڈ پہ احمد سیال کا نام گولڈن روشنائی کے ساتھ چمک رہا تھا۔ اس نے بے اختیار پپا کے نام یہ ہاتھ پھیرا تو آنکھوں سے آنسو بہنا شروع ہوگئے۔ یہ خوشی کے آنسو تھے خواہ مخواہ وہ اتنے ماہ اپنے پپا کو مردہ تصور کرتی رہی۔ اس نے آنسو صاف کر کے کارڈ باقی کارڈز کے ساتھ رکھا اور اپنا سیل فون اٹھایا۔
یہ اسے عتیرہ بیگم نے لے کر دیا تھا۔ پاپا کا نمبر اسے ازبر تھا۔ اس نے دھڑکتے دل کے ساتھ پپا کا نمبر ڈائل کر کے فون کان سے لگایا۔ کال فوراً ریسیو کی گئی۔ اس کا پورا وجود سماعت بنا ہوا تھا۔ دوسری طرف سے احمد سیال اپنی مخصوص مہذب آواز میں ہیلو ہیلو کر رہے تھے۔ اس نے فوراً رابطہ منقطع کردیا۔ اس بار اس کی آنکھوں میں آنسو خوشی کی وجہ سے آئے تھے۔ پپا زندہ تھے، اس کی امید زندہ تھی۔ یعنی اب وہ کوئی عام سی لڑکی نہیں تھی رنم سیال تھی اپنے پپا کی لاڈلی بیٹی دنیا جس کے جوتے کی نوک پہ تھی۔
                                            ###

Chapters / Baab of Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja