Episode 66 - Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 66 - میں گمان نہیں یقین ہوں - نبیلہ ابر راجہ

”بھلا وہ لوگ گھر چھوڑ کر کہاں جاسکتے ہیں۔ میرے آنے تک تو ایسا کچھ نہیں تھا۔ کیوں گئے ہیں وہ ایسے۔“ ذیان خود کلامی کے انداز میں بڑبڑائی۔ کوئی لفظ عتیرہ کی سماعتوں تک رسائی حاصل نہ کرسکا۔ ”آپ کو شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ مجھے آپ کی شرمندگی سے کوئی فائدہ نہیں اور نہ کوئی نقصان ہے۔ گزر جانے والے لمحوں کی تلافی آپ کر نہیں پائیں گی۔
زرینہ آنٹی نے گزرتے اٹھارہ برس میں اٹھارہ ارب بارمجھے بتایا ہے کہ تم ایک سال چند ماہ کی تھی جب تمہاری ماں تمہیں چھوڑ گئی تھی۔ ایک سال ڈیڑھ سال کیا عمر ہوتی ہے۔ بچے کو اپنا تک پتہ نہیں ہوتا ماں ہی ماں اس کے لیے سب کچھ ہوتی ہے۔ بچے کی زباں اُس کی ضرورتیں وہی سمجھ سکتی ہے۔
 زرینہ آنٹی میرے سامنے آفاق، رابیل، مناہل کو چومتی، گلے لگاتیں لاڈ کرتیں اپنے ہاتھ سے کھانا کھلاتیں۔

(جاری ہے)

“ بولتے بولتے ذیان لمحہ بھر کے لیے رکی اور دھواں دھواں چہرے والی عتیرہ کی سمت دیکھا جس کی آنکھوں میں حیرانی، دکھ، افسوس، بے چارگی، لاچاری، درماندگی سمیت جانے کون کون سا جذبہ رقم تھا۔ ذیان سیدھی ان کی آنکھوں میں دیکھ رہی تھی۔ عتیرہ کو لگ رہا تھا یہ نگاہیں اسے اندر تک چھید ڈالیں گی۔ ذیان نے پہلی بار اس سے اتنی زیادہ باتیں کی تھیں ورنہ پہلے تو عتیرہ اس کے لفظ گنتی تھی پر آج وہ پورے جملے بول رہی تھی مکمل معنوں کے ساتھ۔
”لیکن میری ماں میرے ساتھ نہیں تھی۔ انیس سال تک بوا نے میری پرورش کی، ماں بن کرباپ بن کر، دوست بن کر۔ ان کے روپ میں میرے سب رشتے تھے۔ وہ میری ماں بھی تھی، میری بہن بھی، میرا بھائی بھی، میرا باپ بھی اور میرا دوست بھی۔ وہی میری ہمدرد تھیں۔ مجھے ایک ایک پل ایک ایک لمحہ یاد ہے جب مجھے ماں کی ضرورت پڑی بوا نے میری انگلی تھام لی۔ زرینہ بیگم، امیر علی میری ماں کے خلاف زہر اگلتے رہے۔
ماں کا نام تک لینے پہ پابندی تھی گھر میں۔ پر بوا رات کی تنہائیوں میں چھپ چھپ کر مجھے ماں کی ماں جیسی پری کی کہانیاں سناتی رہی۔
وہ کوئی بری بات کر ہی نہیں سکتی تھیں انہوں نے میری ماں کو بھی چاند کی پری بنا کر پیش کیا۔
کبھی وہ ماں کو پھولوں کی تتلی کے روپ میں ڈھالتی تو کبھی بادلوں کی رانی کا خطاب دیتیں لیکن وہ سب جھوٹ تھا۔
میں پانچ سال کی تھی جب زرینہ آنٹی نے مجھے بتایا کہ تمہاری ماں اپنے عاشق کی خاطر تمہیں اور تمہارے باپ کو چھوڑ گئی تھی۔ میری وہ عمر ایسی نہیں تھی جو ایسے بوجھ سہار سکتی۔ میں پانچ سال کی عمر سے ہی بالغ ہونا شروع ہوگئی تھی لیکن بوا ہمیشہ کوشش کر کے مجھے میرے بچپن کی طرف گھسیٹ کر لے جاتی جہاں میری ماں چاند کی پری بن کر مجھے چاند سے دیکھتی اور رات کو چاند سے نکل کر مجھے لوری سناتی۔
بوا مجھے بتاتی تمہاری ماں مجبور تھی لیکن زرینہ آنٹی کہتی تمہاری ماں عشق کے ہاتھوں مجبور تھی۔ بوا پردے ڈالتیں زرینہ آنٹی پردے چاک چاک کر دیتی کوئی ماں ایسا نہیں کرتی اپنی سگی اولاد کو ایسے چھوڑ جائے بھول جائے۔ میری ماں میری ڈیڑھ سال کی عمر میں ہی مرگئی تھی۔
اور پانچ سال کی عمر میں پہلی بار زخمی ہوئی اس دن تصورات کے سب محل زمین بوس ہوگئے میری ماں بادلوں کی رانی، پھولوں کی تتلی نہیں تھی وہ چاند کی پری بھی نہیں تھی وہ صرف محبوبہ تھی جو مجھے اپنے شوہر کو لات مار کر محبوب کے ساتھ چلی گئی تھی۔
اس ماں کے حوالے سے میں نے بہت دکھ اور رسوائی سہی ہے۔ میری ماں تو صرف بوا تھی۔ میں اپنی ماں کی آمد کا انتظار کر رہی تھی۔ اکیلی ہوں ناں اس لیے اس موقعے پہ ان کی ضرورت محسوس کر رہی ہوں۔
آپ میری ماں نہیں ہیں اسلیے آپ کو شرمندہ ہونے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ آپ کو پتہ ہے میں نے اللہ سے اٹھارہ برسوں میں ایک ہی دعا مانگی ہے۔ “عتیرہ یک ٹک اسے دیکھے جارہی تھی انہیں ایسا لگ رہا تھا ان کی تمام طاقت، توانائی اور قوت برداشت ابھی تھوڑی ہی دیر میں ختم ہوجائے گی۔
” آپ جانتی ہیں وہ کیا دعا تھی؟“ اس کی آنکھوں اور ہونٹوں پہ سوال تھا۔ عتیرہ کا سر بے اختیار نفی میں ہلا۔ ”وہ یہ دعا تھی کہ اے اللہ مجھے اس عورت سے ملا دے ایک بار اس کی شکل دکھا دے جس نے مجھے پیدا کیا جو مجھے اس دنیا میں لائی۔ پتہ ہے میں یہ دعا کیوں مانگا کرتی تھی؟“ ایک بار پھر عتیرہ کا سر زور زور سے نفی میں ہلا۔ ”میں یہ دعا اس لیے مانگا کرتی تھی کہ میں اپنی نام نہاد ماں کو بتا سکوں کہ میں اس سے کتنی شدید نفرت کرتی ہوں۔
کل وہ بااختیار طاقتور تھی سب حق رکھتی تھی۔ آج میں بھی طاقتور ہوں اس پوزیشن میں ہوں اپنی نام نہاد ماں کو اپنی زندگی سے ایسے ہی کک آؤٹ کر دوں جیسے اٹھارہ سال پہلے اس نے مجھے ٹھوکر ماری تھی۔ “ذیان کا ہر ہر جملہ ایک ایک لفظ نپا تلا تھا۔ وہ پورے اعتماد کے ساتھ بول رہی تھی۔ عتیرہ جیسے اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبتی چلی جارہی تھی۔ کوئی ایسی نفرت بھی کسی سے کرسکتا ہے جیسی ذیان نے ان سے کی ہے۔
” آپ یہاں سے تشریف لے جاسکتی ہیں۔“ وہ لمحوں میں ہی اجنبی بن گئی تھی۔ ”دیکھو پلیز ایسے مت کہو۔“ عتیرہ کا انداز گڑگڑانے والا تھا۔
ذیان کا دروازہ پوری قوت سے باہر کی طرف کھلا اور تیز تیز قدموں سے آگے بڑھ گئی جیسے عتیرہ کی کوئی بات بھی نہ سننا چاہ رہی ہو۔
دروازے کے پیچھے چھپی نیناں کو اِدھر اُدھر ہونے کی مہلت بھی نہ مل سکی تھی کیونکہ ذیان نے اچانک ہی تو دروازہ کھولا تھا۔
اس دروازے نے اسے چھپا کر اس کا بھرم رکھ لیا تھا۔ اس سے پہلے کہ اندر سے عتیرہ بیگم باہر آتیں نیناں دروازے کے پیچھے سے نکل کر ایک طرف چل دی۔ آج اس پہ بڑے بڑے رازوں کا انکشاف ہواتھا۔ دل و دماغ میں ہلچل مچی ہوئی تھی۔ وہ اپنی کچھ چیزیں لینے آئی تھی جب دروازے کے پاس سے گزرتے ہوئے اس نے ذیان کی آواز سنی۔ تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر وہ جہاں کی تہاں رک گئی۔
خاموش خاموش ذیان کی آواز آج تو سماعتوں کو حیران کر رہی تھی۔ وہ خود کو یقین دلانے کی کوشش کر رہی تھی کہ اس نے ابھی جو کچھ سنا ہے وہ ذیان نے ہی کہا ہے۔
برآمدے میں ہی زیبو اور فریدہ سے مڈبھیڑ ہوگئی۔ ”تم تو بڑے ملک صاحب کے ہاں چھپ کر ہی بیٹھ گئی ہو، جبکہ آج مہندی کی رسم کی بھی تیاری کرنی ہے۔“ فریدہ نے اس پہ نظر پڑتے ہی شکوہ کرنے والے انداز میں کہا تو وہ غائب دماغی سے سر ہلاتی آگے کی طرف بڑھ گئی۔
”لو یہ تو خود کو کسی ریاست کی مہارانی سمجھ بیٹھی ہے اُدھر جا کر۔“
زیبو کا اشارہ نیناں کا ملک جہانگیر کی طرف جا کر رہنے کی طرف تھا۔ ”ہونہہ چھوٹے ملک صاحب نے اسے”میڈم“ جو بنا دیا ہے۔“ فریدہ نے حقارت سے ناک چڑھائی۔
”پتہ نہیں کہاں سے آئی ہے اور ہمارے سر پڑ گئی ہے۔“ زیبو نے جلے دل کے پھپھولے پھوڑے۔
”ایک بات بتاؤں یہ ذیان بی بی کو چھپ چھپ کر گھورتی ہے۔
“ فریدہ نے اس کے کانوں کے پاس اپنا منہ لے جا کر آہستہ آواز میں کہا۔ ”یہ تو چھوٹے ملک صاحب کو بھی عجیب نظروں سے دیکھتی ہے۔“ زیبو نے بھی انکشاف کیا۔ ”اللہ خیر کرے پتہ نہیں یہ لڑکی کس چکر میں ہے۔ چھوٹے ملک صاحب نے بھی تو لے جا کر میڈم بنا دیا ہے ناں۔ ہے بھی تو شکل کی اچھی، مردوں کا کیا بھروسہ، ایسا نہ ہو کچھ ہوجائے۔“ فریدہ نے پیشن گوئی کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
تھوڑی دیر بعد نیناں واپس ملک جہانگیر والے حصے میں جارہی تھی۔ فریدہ اور زیبو نے ایک دوسرے کی طرف معنی خیز نگاہوں سے دیکھا۔ ”ملک صاحب اور ذیان بی بی کی شادی ہوجائے ناں تو میں ذیان بی بی سے کہوں گی نیناں پہ نظر رکھیں۔“
یہ زیبو کا خلوص تھا۔ ”ہم بڑی بیگم صاحبہ سے کیوں نہ کہیں۔“ فریدہ نے مشورہ طلب نگاہوں سے اس کی سمت دیکھا تو اس نے فوراً توبہ کرنے والے انداز میں کانوں کو ہاتھ لگائے۔
”کسی کو کچھ مت کہنا۔ شدائن(سودائی) تو نہیں ہوگئی ہو۔ مت ماری گئی ہے تمہاری۔ یہاں حویلی میں نیناں چلتر کو بیگم صاحبہ ہی تو لے کر آئی ہیں۔ ایک لفظ تک نہیں سنیں گی وہ الٹا جوتے پڑیں گے۔“ زیبو نے حالات کا نقشہ کھینچا تو فریدہ ڈر گئی۔
”میرے باپ دادا کی توبہ جو کچھ بولوں۔“ اس نے جھرجھری لی۔ فریدہ نے زیبو کا ہاتھ تھاما اور آگے بڑھ گئی۔
رات، ذیان کی مہندی آنی تھی۔ اور ڈھیروں ڈھیر کام پڑے ہوئے تھے۔
ملک ابیک کے گھر والے اور دیگر دوست احباب دھوم دھڑکے سے مہندی کی رسم کرنے آئے تھے۔ اور معاذ تو محفل کی جان بنا ہوا تھا۔ وہ خالصتاً دیہاتی رنگ میں رنگا نظر آرہا تھا۔ سفید کڑکڑاتا کاٹن کا کڑکڑاتا کرتا شلوار پاؤں میں کھسے سر پہ رنگین پٹکا۔ وہ کڑیل گاؤں کا جوان نظر آرہا تھا۔
نیناں حیرانی سے اسے دیکھے جارہی تھی اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ معاذ نے اعلیٰ تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کی ہوگی۔ وہ ڈھولک بجا کر گانے کا مقابلہ کر رہا تھا۔ اس کا ساتھ باقی نوجوان ٹولی بڑھ چڑھ کر دے رہی تھی۔ اس نے ہار نہ ماننے کاتہیہ کیا ہوا تھا۔
مہندی کی یہ رات
مہندی کی یہ رات
لائی خوشیوں کی بارات
سجنیا ساجن کے ہے ساتھ
رہے ہاتھوں میں ایسے ہاتھ
وہ اونچے سروں میں گا رہا تھا۔
نیناں ششدر اسے ڈھولک بجاتے گاتے دیکھ رہی تھی۔ وہ لڑکے والوں کی سرگرم نمائندگی کر رہا تھا۔ وہ اکثر نوجوان لڑکیوں کی نگاہوں کا محور تھا۔ شور و غل اور ہنگامے کو وہ پوری طرح انجوائے کر رہا تھا۔
نیناں کے لیے عتیرہ اور افشاں بیگم دونوں نے ہی الگ الگ کپڑے بنائے تھے۔ آج وہ افشاں بیگم کے لائے ہوئے سوٹ میں ملبوس پوری توجہ سے تیار ہوئی تھی۔
اس میں پرانی رنم کی جھلک دکھائی دے رہی تھی۔ معاذ کئی بار اسے غور سے دیکھ چکا تھا۔ وہ بات بے بات اس کی طرف شرارتی جملے اچھال رہا تھا۔ ”مس نیناں آج تو آپ کسی اور ہی دنیا کی لگ رہی ہیں۔ سچ بتائیں کہاں سے آئی ہیں آپ؟ کیا کوئی آپ کی جڑواں بہن بھی ہے؟“ آخر میں اس کا شرارتی لہجہ سنجیدہ ہوا تو نیناں کے چہرے کا رنگ اڑ سا گیا۔ وہ بہانے سے وہاں سے ہٹنے لگی۔
لیکن معاذ نے اسے اپنی نگاہوں کے گھیرے سے آزاد نہیں ہونے دیا۔
آج وہ بہت اچھے سوٹ میں ملبوس تھی ہلکا ہلکا میک اپ بھی کر رکھا تھا۔ بال بھی کھلے ہوئے شانوں کے اطراف بکھرے تھے۔ معاذ نے جونہی اسے دیکھا اس کے ذہن میں احمد سیال کی بیٹی کی فوٹو گرافس تازہ ہوگئیں۔ آج تو نیناں کافی حد تک احمد سیال کی بیٹی سے مل رہی تھی۔ تب ہی تو وہ اسے بار بار دیکھ رہا تھا۔
لڑکی بڑی انجانی ہے
سپنا ہے سچ ہے کہانی ہے
دیکھو یہ پگلی
بالکل نہ بدلی
یہ تو وہی دیوانی ہے
ڈھولک پہ زور دار تھاپ پڑی۔
معاذ کی شوخ و شریر آواز نے دور تک نیناں یعنی رنم کا پیچھا کیا۔
سات سہاگنیں ذیان کو دوپٹے کے سائے میں رسم کے لیے لاچکی تھیں۔ معاذ اس کا پھیلا گھونگھٹ ہٹا ہٹا کے روکے جانے کے باوجود اس کی فوٹو بنا رہا تھا۔ عورتیں ذیان کو مہندی لگا رہی تھیں۔ وہ پیلے دوپٹے میں چہرہ چھپائے بیٹھی تھی۔ معاذ اس رسم کے یادگار پل کیمرے کے فریم میں مقید کر رہا تھا۔
                                   ###

Chapters / Baab of Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja