Episode 67 - Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 67 - میں گمان نہیں یقین ہوں - نبیلہ ابر راجہ

آئینے کچھ تو بتا ان کا ہمراز ہے تو
تو نے وہ زلف وہ مکھڑا وہ دہن دیکھا ہے
ان کے ہر حال کا بے ساختہ پن دیکھا ہے
وہ نہ خود دیکھ سکیں جس کو نظر بھر کے کبھی
تو نے جی بھر کے وہ ہر خطِ بدن دیکھا ہے
ان کی تنہائی کا دلدار ہے تو دم ساز ہے تو
آئینے! کچھ تو بتا ان کا ہمراز ہے تو
شوخ، معصوم، جواں مست سجل بے پروا
کیا وہ خود اپنے یہ انداز دیکھتے ہیں
ان کے جذبات کی سہمی ہوئی آواز ہے تو
آئینے کچھ بتا ان کا ہمراز ہے تو
ملک ابیک محویت کے عالم میں ذیان کی تصویریں دیکھ رہا تھا۔
معاذ کچھ دیر پہلے ہی کیمرہ اسے دے کر گیا تھا۔ ابیک نے ایک ایک کر کے سب تصویریں دیکھ ڈالیں۔ پیلے کپڑوں پیلے دوپٹے کے ہالے میں موتیوں کے گجروں سمیت وہ پہلے سے بڑھ کر دلفریب اور حسین لگ رہی تھی۔

(جاری ہے)

اس کی آنکھیں دیکھ کر لگ رہا تھا جیسے ابھی پلکوں کو چھوا تو رو پڑے گی۔ اس کے پورے چہرے اور آنکھوں میں اداسی رچی ہوئی تھی۔

ابیک تکیہ بازوؤں میں دبائے لیٹا ہوا ذیان کے کمرے کی طرف دیکھ رہا تھا۔
سب لائیٹیں آن تھیں پر وہ خود نیچے تھی۔مایوں بیٹھنے کے بعد اس کا داخلہ اوپر ممنوع ہوگیا تھا۔اس لیے ایک ہفتے سے ابیک نے اس کی کوئی جھلک نہیں دیکھی تھی۔ آخری بار جب وہ اس کے کمرے میں گیا تھا تب اس سے ملا تھا اور دیکھا تھا۔اسے شادی پہ اعتراض نہیں تھا تبھی دونوں طرف سے جھٹ پٹ تیاری ہوئی۔پرسوں ذیان نے مسز ابیک بن کر اس کے پاس آجانا تھا۔
ابیک کے پاس اس موقعے پہ بہت سے سوالات تھے جن کے جوابات اسے ذیان سے حاصل کرنے تھے۔ فی الحال تو اسے معاذ کا شکریہ ادا کرنا تھا جس نے ذیان کی فوٹو بنا کر اسے دکھائی تھیں۔
سب ملک ارسلان کی طرف تھے۔ اس طرف شورو ہنگامہ عروج پہ تھا۔ معاذ اسے کیمرہ دے کر جاچکا تھا۔ ابیک اٹھ کر ٹیرس پہ آگیا۔ ایک بار پھر اس کی نگاہ ذیان کے کمرے کی طرف اٹھ گئی۔
اس کمرے میں ابیک نے پہلی بار اسے محو خواب دیکھا تھا۔ اور پھر ارسلان چچا کے گھر میں اس سے تعارف حاصل کیا تھا۔ پہلی ملاقات میں ہی اس نے ابیک کو لفٹ نہیں کروائی تھی۔ پھر ابیک نے اسے اپنے گھر میں بابا جان کے لیے پریشان دیکھا تو اس کا وہ روپ بالکل ہی جدا تھا۔ بابا جان سے بات کرتے ان کی طرف دیکھتے وقت اس کے چہرے اور لبوں پہ نرمی تھی چہرے پہ محبت تھی۔
پھر معاذ کے آنے پہ ابیک نے ذیان کو ہنستے مسکراتے دیکھا تو اس روپ میں وہ اور بھی اچھی لگی اپنی اپنی سی۔
افشاں بیگم کو وہ بھا گئی تھی اور ملک ابیک کو حیرت ہو رہی تھی کہ امی جان نے جب ذیان کے بارے میں اس کی رائے لی تو اس نے کوئی اعتراض نہیں کیا بخوشی رضا مندی دی۔ کیا اس میں ذیان کے بے تحاشہ حسن کا عمل دخل تھا یا اس کی بے رخی ابیک کو بھڑکا گئی تھی یا پھر اسے واقعی ذیان اچھی لگی تھی۔
اس سے پہلے بابا جان نے احمد سیال کی بیٹی کی لیے اپنی پسندیدگی ظاہر کی تھی تب ابیک دل سے آمادہ نہیں تھا۔پر ذیان کے معاملے پہ اس کی باری ایسا نہیں ہوا۔ افشاں بیگم کو آگاہ کرتے ہوئے وہ پوری طرح خوش اور مطمئن تھا۔ ملک ابیک نے اپنے سب جذبے سب محبتیں، چاہتیں اپنی شریک حیات کے لیے سنبھال کر رکھی ہوئی تھیں۔ذیان یقینا بہت خوش قسمت تھی جو ابیک اس کا ہمسفر بن رہا تھا۔
آج ذیان کی طرف سے ملک ابیک کی مہندی کی جانی تھی۔ سب تیار ہو رہے تھے، گھر میں ذیان کے ساتھ عمر رسیدہ نوکرانیاں تھیں اور ساتھ ملک ابیک کی ایک رشتے کی خالہ تھیں۔ سب ملک ابیک کی طرف جاچکے تھے۔ ابیک کی خالہ اس کے پاس سے اٹھ کر کسی کام سے باہر نکلی تھیں۔ ملک محل کے دوسرے رہائشی حصے میں ڈھول، باجوں شور شرابے، ہنسی مذاق کی آوازیں ہوا کے دوش پہ سفر کرتی بخوبی اس کے کانوں تک رسائی حاصل کر رہی تھیں۔
بلند آواز میں بجتے شادی بیاہ کے گانوں کی آواز اس کے علاوہ جو اس کی سماعتوں کو گویا چیر رہی تھی۔
وہ بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے بیٹھی تھی۔ سامنے ڈریسنگ ٹیبل کے آئینے میں اس کا ویران اداس سراپا بڑا واضح تھا۔ پیلے رنگ کے کپڑوں میں ملبوس اسے اپنا چہرہ کچھ اور بھی پیلا لگ رہا تھا۔ خود کو آئینے میں تکتے تکتے اسے ملک ابیک اور اس کی باتیں یاد آنے لگیں جب وہ شادی کے بارے میں رضا مندی معلوم کرنے آیا تھا۔
وہ پچھتا رہی تھی کیوں ہاں کی ہے اس کے پاس انکار کرنے کا سنہرا موقعہ تھا جو ملک ابیک کی معرفت اسے آسانی سے حاصل ہوا تھا۔ لیکن اس نے اپنی بیوقوفی سے گنوا دیا۔ وہ ایک بار انکار کر کے ملک ابیک کے تاثرات تو دیکھتی۔ بہت ناز ہوگا ملک ابیک کو خود پہ اپنی شخصیت پہ اپنے خاندان پہ جب وہ انکار کرتی تو بے چارے ابیک کا سارا غرور ناز مٹی میں مل جاتا۔
عتیرہ بیگم اس کی نام نہاد ماں اسے اذیت دینے کا اچھا بہانہ تھا اس انکار سے ان کی کتنی توہین ہوتی وہ ملک جہانگیر، افشاں بیگم اور تو اور ملک ارسلان جیسے محبوب شوہر کی نگاہوں سے بھی گرجاتی۔ عین وقت پہ جب بارات لانے کی تیاری ہو رہی ہے پورے گاؤں کے رشتہ داروں کو ملک ابیک اور ذیان کی شادی کی خبر ہے وہ ،خوشی منانے ملک محل میں جمع ہوئے ہیں وہ اس موقعے پہ شادی سے انکار کرتی ہے تو کیسی رسوائی ہوتی ملک خاندان کی بے چاروں کے اٹھے سر جھک جاتے۔
مگر اپنی بے وقوفی یا جلد بازی سے اس نے سب ضائع کردیا۔ ذیان کے پاس پچھتانے کے لئے بہت کچھ تھا۔
اپنے اور ابیک کے ملن کے بارے میں سوچنے کے بجائے وہ بدلے، انتقام اور اذیت دینے کے طریقوں پہ غور کر رہی تھی۔ سوچتے سوچتے اس کا دماغ جیسے گھٹن سے بھر گیا۔ اس نے بے اختیار میکانکی انداز میں سب کھڑکیاں وا کر دیں اور خود پہ ایک کھڑکی کے سامنے کھڑے ہو کر لمبے لمبے گہرے سانس لینے لگی۔
اتنے میں آہٹ ہوئی، ملک ابیک کی رشتے کی خالہ واپس لوٹ آئی تھیں اسے یوں کھڑکی کے پاس کھڑے ہو کر ان کی فکر و حیرانی بڑھی۔ ”پتر کھڑکی کھول کے کیوں کھڑی ہو۔ ہٹو اِدھر سے اور اپنا چہرہ چھپاؤ۔“ انہوں نے بڑے آرام سے کھڑکیاں بند کردیں۔ ذیان کو دل میں بے پناہ غصہ آیا۔ ”تمہاری شادی میں کل کا دن باقی ہے ابھی سے اپنا چہرہ کھول کر کمرے سے باہر مت جھانکو تم مایوں کی دلہن ہو سو چیزیں چمٹ جاتی ہیں۔
تمہیں کچھ ہوگیا تو سب میری جان کو آجائیں گے۔“ وہ سمجھانے والے انداز میں بول رہی تھیں۔ ذیان خاموشی سے کچھ کہے بغیر بیڈ پہ جا کر بیٹھ گئی۔ اسے ابیک کی رشتے کی خالہ سے اختلاف تھا پر وہ کچھ بولنا نہیں چاہ رہی تھی۔ ادھر وہ اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے دل ہی دل میں اس کی معصومیت اور بے خبری پہ ترس کھا رہی تھیں۔
مہندی کا ہنگامہ تھمے تھوڑی دیر ہی ہوئی تھی، عتیرہ واپس آچکی تھیں۔
ذہنی اور جسمانی تھکن نے انہیں نچوڑ کے رکھ دیا تھا۔ ان کی اذیت بھی تو حد سے سوا تھی۔ ذیان نے زندگی میں پہلی بار ان سے اتنی طویل اور مکمل بھرپور گفتگو کی تھی۔ ہر ہر جملہ ہر ہر لفظ برچھی بن کر ان کے دل میں اترا تھا۔ وہ تو اس کی ماں ہی نہیں تھیں بلکہ آشنا کے ساتھ جانے والی ہوس پرست عام سی عورت تھی۔ وہ عورت جو اپنی ڈیڑھ سال کی بیٹی کا خیال کیے بغیر رحم کھائے بغیر اسے چھوڑ کر چلی گئی تھی۔
وہ بیٹی جس نے اپنی ماں کے لمس، محبت اور ممتا کو محسوس ہی نہیں کیا وہ بیٹی جو ماں کے وجود کے بغیر اکیلی ہی پلتی رہی اس نے ماں کے سہارے کے بغیر ہی پہلا قدم اٹھایا بولنا سیکھا۔ وہ بیٹی جو ماں کے بغیر ہی پہلی بار بیگ تھامے سکول گئی اور واپسی پہ راہ تکنے والی کوئی ماں نہیں تھی۔ خوف کے ہاتھوں لڑ لڑ کر وہ اکیلی ہی سوتی رہی۔ وہ اپنی کلاس میں فرسٹ پوزیشن لیتی رہی پر اس کی ماں نہیں تھی جو اس کی کامیابی پہ خوش ہوتی۔
اب وہ بیٹی بڑی ہوگئی تھی اب وہ کمزور نہیں تھی اس پوزیشن میں تھی کہ ماں سے بدلہ لے سکتی وہ ماں جس نے ماں والی کوئی رسم نہیں نبھائی تھی۔ عتیرہ خالی اندہنی کے عالم میں کسی غیر مرئی چیز کو دیکھ رہی تھی، آنسو سلسلہ وار انکی آنکھوں سے رواں تھے۔ انہیں خبر ہی نہیں ہوئی کہ کب ملک ارسلان کمرے میں آئے، وہ اس وقت چونکیں جب انہوں نے عتیرہ کے کندھے پہ تسلی دینے والے انداز میں ہاتھ رکھا۔
وہ بری طرح رو رہی تھیں۔ ارسلان ان کے پاس بیٹھ گئے۔
”تم ذیان کی خاطر رو رہی ہو۔ ماں ہو ناں۔“ عتیرہ نے دہل کر جیسے ان کی طرف دیکھا کیا اس دن کی باتیں انہوں نے سن تو نہیں لی تھیں۔
ذیان نے ماں کے حوالے سے کیسی کیسی باتیں کی تھیں یقینا ارسلان کو غصہ آیا ہوگا کیونکہ وہ عتیرہ سے بے پناہ پیار کرتے تھے اور ذیان کی باتوں میں کوئی صداقت بھی نہیں تھی۔
وہ اس کے پاس بیٹھ چکے تھے عتیرہ کے بہتے آنسو انہوں نے اپنے ہاتھ سے صاف کیے۔ ”ہر ماں بیٹی کی رخصتی پہ روتی ہے اور تم خوش قسمت ہو کہ ہماری بیٹی رخصت ہو کر کہیں دور نہیں جارہی ہے۔ وہ اسی گھر میں ہماری آنکھوں کے سامنے رہے گی، اس لیے تم دل چھوٹا مت کرو۔ ابیک ہمارے بیٹے جیسا ہے ذیان کو بہت خوش رکھے گا۔“ وہ عتیرہ کے دل میں چبھے کانٹے ایک بار پھر نکالنا شروع کر چکے تھے وہ قدرے پرسکون ہوئیں صد شکر انہوں نے اس دن والی باتیں نہیں سنی تھیں۔
عتیرہ نہیں چاہتی تھیں ارسلان کے دل میں ذیان کی طرف سے کوئی میل آئے۔
”تم سوجاؤ، کل کا دن بہت مصروف ہوگا۔“ انہوں نے تکیے درست کرتے ہوئے عتیرہ کو کندھوں سے پکڑ کر بستر پہ لٹایا۔ خود تھوڑی دیر بعد وہ بھی چینج کر کے آگئے۔ عتیرہ نے آنکھوں پہ بازو رکھ لیا۔ ارسلان تھکے ہوئے تھے پندرہ منٹ بعد ان کے ہلکے ہلکے خراٹے گونجنا شروع ہوگئے جو اس بات کا ثبوت تھے کہ وہ گہری نیند سوچکے ہیں۔
عتیرہ نے آنکھوں سے بازو ہٹا کر ان کی طرف دیکھا اور پھر آہٹ پیدا کیے بغیر بستر سے اتر کر کھڑکی کے پاس پڑی ایزی چیئر پہ بیٹھ گئیں۔ آج کی رات نیند آنے والی نہیں تھی۔ یہ کرب و اذیت کی رات تھی تکلیف دہ ماضی کی طرف اذیت ناک سفر کی رات تھی۔ انہوں نے اپنے تئیں ماضی کی طرف کھلنے والا ہر دروازہ ہر کھڑکی ہر روزن بند کردیا تھا پر ماضی ذیان کی صورت زندہ تھا۔
                                   ###

Chapters / Baab of Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja