Episode 70 - Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 70 - میں گمان نہیں یقین ہوں - نبیلہ ابر راجہ

ذیان کو مہندی لگانے کے لیے شہر کے معروف بیوٹی پارلر سے بیوٹیشن خاص طور پہ بلوائی گئی تھی۔ بیوٹیشن کو بھاری معاوضے پہ ملک محل بلوایا گیا تھا۔
وہ بڑی مہارت سے مہندی کی کون پکڑے ذیان کے ہاتھوں پہ خوبصورت ڈیزائن والی مہندی لگا رہی تھی۔ ابھی دونوں پاؤں پہ بھی مہندی لگانا باقی تھا۔ ذیان ایک ہی پوزیشن میں بیٹھے بیٹھے تھک گئی تھی۔ خدا خدا کر کے مہندی لگانے کا مرحلہ تمام ہوا تو اس نے سکون کی سانس لی۔
بیوٹیشن نے بڑی محنت اور دل سے ذیان کو مہندی لگائی تھی اس کے جانے کے بعد ذیان نے ٹانگیں سامنے پڑے ٹیبل پہ رکھ دیں۔ ڈریسنگ ٹیبل کے آئینے میں اس کا پورا سراپا واضح نظر آرہا تھا۔اس کے چہرے پہ پژمردگی تو جیسے کھب کر رہ گئی تھی۔اس نے اپنے دونوں ہاتھ اور کلائیاں دیکھیں جو کہنی تک مہندی کے نقش و نگار سے آراستہ تھی پھر اس کی نگاہ اپنے پاؤں کی طرف گئی۔

(جاری ہے)

سفید اور گلابی مرمریں پاؤں میں مہندی الگ ہی چھب دکھلا رہی تھی۔اپنا رنگ روپ اپنا آپ اسے کچھ بھی تو اچھا نہیں لگ رہا تھا۔ وہ ہر چیز سے بیزار ہو رہی تھی۔ کل ابیک کے ساتھ اس کا نکاح اور رخصتی تھی پر وہ خوش نہیں تھی۔ آئینے میں اسے اپنا سراپا بڑا اجنبی اجنبی سا نظر آرہا تھا۔ اس نے ایک ہاتھ سے بالوں میں لگے موتیے کے گجرے نوچ دئیے۔ابیک کے رشتے کی خالہ دو دن سے اِدھر ہی تھی۔
شادی کے دن حسین ترین نظر آنے کے لیے انہوں نے گھر پہ ہی ذیان کے لیے خاص ابٹن تیار کیا تھا جونہی وہ اس کے کمرے میں آتی ابٹن کا پیالہ ان کے ساتھ ہوتا ان کے حکم پہ وہ ابٹن ذیان کو ہاتھ پاؤں اور چہرے پہ لگانا پڑتا۔ سورج ڈھل رہا تھا انہوں نے ایک دفعہ اور ابٹن اسے لازمی تھوپنا تھا فی الحال ذیان کمرے میں اکیلی تھی۔ اس کا جی چاہ رہا تھا باہر جا کر تازہ ہوا میں سانس لے۔
اتنے دن سے وہ مجبوراً اپنے کمرے تک محدود تھی۔
تازہ ہوا اور کھلا آسمان دیکھنے کی خواہش اتنی شدید تھی کہ ذیان نے دروازہ کھول کر باہر جھانکا کوئی ذی نفس نظر نہیں آرہا تھا اس نے جلدی سے جوتے پہنے اور باہر کی طرف قدم بڑھائے۔ باؤنڈری وال عبور کر کے اس نے باغ کا رخ کیا۔ سورج مغرب کی طرف جھک چکا تھا۔ گھر کو لوٹتے پرندوں کی آوازیں ماحول پہ چھائے عجیب سے اسرار کو اور بھی بڑھا رہی تھیں۔
باغ کی سمت جلنے والی لائٹس آن ہوچکی تھیں۔ وہ سنگی بنچ پہ بیٹھ گئی جس کے اوپر پیپل کے گھنے درخت کا سایہ تھا۔ اوپر درخت کے سرے پہ پتوں میں ہلچل اور شور مچا ہوا تھا چڑیاں اپنے اپنے ٹھکانے پہ بیٹھ رہی تھیں۔ یہ سب شور اسی سلسلے کی کڑی تھا۔ ذیان نے ایک بار پھر اپنے مہندی سے آراستہ ہاتھ پاؤں کو دیکھا مہندی خشک ہوچکی تھی۔سر پہ پیلا گوٹا لگا دوپٹہ ماتھے تک اس نے اوڑھا ہوا تھا۔
اپنا آپ دیکھ کر اسے عجیب سی وحشت نے آن گھیرا۔
اس کے اندر کیوں اتنا خالی پن تھا جب وہ اپنے سگے باپ کے گھر میں تھی تب بھی اس کے اندر سناٹے بولتے تھے اب سگی ماں کے پاس تھی سب سہولیات قدموں میں ڈھیر تھیں کوئی ڈر کوئی خوف نہ تھا پھر بھی کوئی کمی ستا رہی تھی کوئی خواہش آنکھیں موندے رو رہی تھی دل کا درد قطرہ قطرہ اس کی آنکھوں سے ٹپکنے لگا۔
ماں باپ کا گھر چھوڑتے وقت ہر لڑکی روتی ہے پر اس کا رونا عجیب بات پہ تھا کہ اس نے عین وقت پہ ملک ابیک کو انکار کیوں نہیں کیا۔ وہ ایسا کر گزرتی تو سینے میں لگی آگ ٹھنڈی پڑ جاتی۔
جس طرح زرینہ بیگم اسے ماں کا طعنہ دیتی تھیں پھر ایسا ہی طعنہ عتیرہ ملک کو بھی سننا پڑتا کہ ان کی بیٹی نے عین وقت پہ شادی سے انکار کردیا۔ سب ان کے خلاف ہوجاتے، وہ دکھی ہوتیں کرب سے گزرتیں تب انہیں اس کا دکھ اور کرب کا اندازہ ہوتا۔
اچانک ذیان کو اپنے پیچھے آہٹ کا احساس ہوا۔ اس نے گردن کارخ موڑ کر دیکھا، ابیک ملک کے رشتے کی خالہ، فریدہ اور زیبو سمیت اِدھر ہی آرہی تھیں۔ شاید وہ اسے ڈھونڈ رہی تھیں۔ ان تینوں کا رنگ ذیان کو دیکھتے ہی فق ہوگیا۔ رونے سے اس کی آنکھیں لال سرخ انگارہ بنی ہوئی تھیں۔ بکھرے بال چہرے پہ وحشت آنکھوں میں ویرانی اور گہری اُداسی۔
یہ پہلے والی ذیان ہرگز نہیں لگ رہی تھی۔
ملک ابیک کی رشتے کی خالہ پریشان نظر آرہی تھیں یہی حال زیبو اور فریدہ کا تھا۔ ”پتر ادھر سے اٹھو فوراً…!! تم مایوں کی دلہن ہو۔ تمہیں اس طرح کمرے سے باہر نہیں آنا چاہیے تھا۔ اور وہ بھی اس طرح یہاں مغرب کے وقت تم درخت کے نیچے بیٹھی ہو۔“ انہوں نے نرمی سے فہماشی انداز میں اسے سمجھانے کی کوشش کی اور اس کے شانے پہ دباؤ ڈالا تاکہ وہ ان کی بات پہ عمل کرے۔
”چھوٹی بی بی جس طرح آپ پیپل کے درخت کے نیچے بیٹھی ہیں ناں ایسے جن چمٹ جاتے ہیں۔ بھوت بلائیں پیچھے لگ جاتی ہیں۔ یہ درخت بہت پرانا ہے۔“ فریدہ کا لہجہ ذیان کو بتاتے ہوئے اندرونی خوف سے کانپ سا رہا تھا۔
”میں تو عصر کے بعد اِدھر سے گزرتی بھی نہیں ہوں اتنا ڈر لگتا ہے۔“ زیبو کا حال بھی فریدہ سے مختلف نہیں تھا۔
”اٹھو پتر یہ دونوں ٹھیک کہہ رہی ہیں مغرب کے وقت اس طرح کھلے آسمان تلے درختوں کے نیچے نہیں بیٹھنا چاہیے تم دلہن ہو۔
خیال کرنا چاہیے تمہیں۔“ ملک ابیک کی رشتے کی خالہ نے اس کا بازو پکڑ کر اٹھایا تو وہ میکانکی انداز میں ایسے اٹھی جیسے اس کے اندر کوئی طاقت حلول کر گئی ہو۔ اور پھر جیسے خواب کے عالم میں وہ سوئی سوئی کمرے تک آئی۔
ان تینوں کو ایسے لگ رہا تھا وہ جیسے ہوا میں تیر رہی ہو۔ فریدہ اور زیبو کی آنکھوں اور چہرے پہ بے پناہ خوف تھا۔ ذیان بالکل خاموش تھی۔
ابیک کی خالہ اور ان دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور آنکھوں آنکھوں میں کوئی بات کی۔ ابیک کی خالہ نے کچھ پڑھ کر ذیان پہ پھونک ماری۔ ذیان کا ماتھا اور جسم آہستہ آہستہ گرم ہو رہا تھا۔ اسے اپنا جسم حدت سے ٹوٹتا محسوس ہو رہا تھا۔ ابیک کی خالہ اس کے پاس ہی تھیں متفکر اور پریشان ذیان بھی بالکل خاموش تھی۔ اس کی آنکھوں کی سرخی اور سوجن کچھ اور بھی بڑھ گئی تھی۔
ابیک کی خالہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد سورتیں پڑھ کر اس پہ دم کر رہی تھیں۔ ذیان پہ رفتہ رفتہ غنودگی طاری ہو رہی تھی۔
ابیک کی رشتے کی خالہ عتیرہ کو سب کچھ بتا چکی تھیں۔ زیبو اور فریدہ بھی وہیں بیٹھی تھیں۔ دونوں نے ذیان کے باغ میں جانے کا احوال،اس کا وحشت زدہ انداز، آنکھوں کی سرخی اور جسم کے اچانک گرم ہوجانے کے متعلق تفصیل سے بتایا تھا۔
”کنواری لڑکی مایوں کی دلہن اس طرح مغرب کے وقت درختوں کے نیچے جا کر بیٹھے تو یہی کچھ ہوتا ہے۔ میری مانو تو صبح سویرے مولوی صاحب سے دم کروا کے کوئی تعویذ لے لو۔مجھے ذیان کی حالت اچھی نہیں لگ رہی ہے۔ کل رخصتی ہے اس کی۔خدانخواستہ کچھ بھی ہوسکتا ہے آگ کی طرح تپ رہا ہے اس کا پنڈا۔“ابیک کی رشتے کی خالہ نے اپنی عقل کے مطابق مشورہ دیا۔ وہ معمر اور سمجھدار خاتون تھیں پڑھی لکھی بھی تھیں مذہب سے خاصا لگاؤ تھا ان کو۔
”ہاں بی بی جی مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔“زیبو کا جسم بات کرتے ہوئے کانپ رہا تھا۔ ”چھوٹی بی بی باغ سے کمرے تک ایسے آئی ہیں جیسے ان کے قدم زمین پہ نہ ہوں۔“فریدہ نے بھی گفتگو میں حصہ لیا۔ عتیرہ پریشان ہو رہی تھیں۔واقعی ذیان کا پورا جسم اور ماتھا شدید گرم ہو رہا تھا۔ آنکھیں بند کیے وہ نڈھال انداز میں ان سب سے بے خبر پڑی ہوئی تھی۔ ”اسے کوئی دوائی وغیرہ دے دوں میں۔
بہت تیز بخار ہو رہا ہے ذیان کو۔“عتیرہ نے مشورہ طلب نگاہوں سے ابیک کے رشتے کی خالہ کی طرف دیکھا تو انہوں نے شدت سے نفی میں سر ہلایا۔ ”ذیان کو دوائی کی ضرورت نہیں ہے سمجھا کرو اسے فوراً دم کراؤ۔“ وہ آہستہ آواز میں بولیں۔
”میں مولوی صاحب کو صبح صبح ادھر ہی بلوا لوں گی۔“ عتیرہ نے فوراً ان سے اتفاق کیا۔
”کسی کو بھی یہ بات مت بتانا۔
“ انہوں نے آہستہ آواز میں پھر کہا تو عتیرہ نے اثبات میں سر ہلایا۔ ”ذیان ہے بھی تو رج کے سوہنی…“ ان کی نگاہ بیڈ پہ سوئی ذیان کی طرف تھی۔ وہ چاروں اسی کے کمرے میں تھیں۔
ذیان ان کی طرف سے کروٹ لیے سو رہی تھی۔وہ چاروں اگر سامنے سے ذیان کا چہرہ دیکھ لیتیں تو ڈر جاتیں۔ اس کی آنکھیں پوری کی پوری کھلی ہوئی تھیں اور ان میں عجیب سی وحشت ابھی بھی ناچ رہی تھی۔
ہونٹوں پہ ایک ایسی مسکراہٹ تھی جسے کوئی بھی نام نہیں دیا جاسکتا تھا۔زیبو اور فریدہ دیکھ لیتیں تو مارے ڈر کے کمرے سے ہی بھاگ جاتیں۔
ملک ابیک کی رشتے کی خالہ اور عتیرہ بیگم نے رات ذیان کے کمرے میں ہی گزارنے کا فیصلہ کیا تھا۔ زیبو اور فریدہ اجازت لے کر چلی گئی تھیں۔جانے سے پہلے دونوں نے پانی کا جگ گلاس اور دیگر چیزیں کمرے میں رکھ دی تھیں۔
دونوں بے حد خوفزدہ تھیں۔پیپل کے درخت سے متعلق انہوں نے بڑوں سے بہت سی باتیں سن رکھی تھیں۔ وہ درخت بہت پرانا تھا۔باغ کے عین درمیان میں ایستادہ تھا اور بیحد گھنا تھا اس کی شاخیں دور تک پھیلی ہوئی تھیں اور تنا بھی گولائی میں بہت زیادہ تھا۔
ذیان عین مغرب کے ٹائم وہاں عجیب وحشت زدہ حال میں بیٹھی پائی گئی تھی۔
الجھے بال سرخ آنکھیں اس کا عجیب طریقے سے تکنا جیسے وہ انہیں پہچان ہی نہ پا رہی ہو۔
اس کی لمبی خاموشی، پھر اس کا چلتے ہوئے کمرے تک آنا اور ایسے چل کے آنا جیسے اس کے قدم زمین پہ نہ پڑ رہے ہوں۔
بے چاری زیبو کو تو آج رات مشکل سے ہی نیند آنی تھی بار بار ذیان کی شکل اس کی آنکھوں کے آگے آرہی تھی۔ اسے سو فی صد یقین تھا کہ چھوٹی بی بی کو درخت سے جن چمٹ گیا ہے مہندی لگا کے پیلے کپڑے پہن کر درخت کے نیچے جو گئی تھی۔
ملک ابیک کی رشتے کی خالہ اور عتیرہ ملک نے زیبو اور فریدہ کو سختی سے منع کردیا تھا کہ ذیان کی بابت کسی سے کوئی بات بھی نہیں کہنی۔
یہ بہت نازک اور کڑا وقت تھا کل ذیان کی بارات آنی تھی اس موقعے پہ ایسی کوئی بھی بات مسائل پیدا کرسکتی تھی۔
ملک ابیک کی رشتے کی خالہ نے ایسے بہت سے قصے عتیرہ کو سنائے جب کنواری لڑکی ایسے مغرب کے وقت کھلے سر کھلے آسمان کے نیچے گئی تو آسیب کا اوپری اثرات کا شکار ہوگئی۔ عتیرہ ایسی پریشان ہوئیں کہ انہیں صبح و سویرے مولوی صاحب کو بلاتے ہی بنی۔
اس ہنگامی بلاوے سے مولوی صاحب خود پریشان اور تجسس کا شکار ہو رہے تھے۔ملک محل پہنچنے پہ ذیان کو دیکھ کر انہیں صورتحال کا اندازہ ہوا۔ملک ابیک کی رشتے کی خالہ کل کا واقعہ پورے سیاق و سباق کے ساتھ مولوی صاحب کو بتا رہی تھیں۔فریدہ اور زیبو بھی شوق اور تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر وہاں پہنچی ہوئی تھیں۔عتیرہ چادر میں لپٹی ذیان کو مولوی صاحب کے پاس لائیں۔
انہوں نے نظر اٹھا کر دیکھے بغیر منہ ہی منہ میں کچھ پڑھنا شروع کردیا۔زیبو، فریدہ اور ملک ابیک کے رشتے کی خالہ کی نظر ذیان کی طرف ہی مرکوز تھی۔
اس کا چہرہ چادر میں چھپا ہوا تھا،آہستہ آہستہ ذیان نے اپنے سر کو غیر محسوس انداز سے حرکت دی۔چادر اب اس کے چہرے سے سرک گئی تھی۔ وہ شعلہ بار نگاہوں سے سورتیں پڑھتے مولوی صاحب کو دیکھ رہی تھی۔
مولوی غلام ربانی آنکھیں بند کیے منہ ہی منہ میں پڑھ رہے تھے۔ ذیان کی نگاہوں کے ارتکاز نے انہیں آنکھیں کھولنے پہ مجبور کردیا۔ آہستہ آہستہ غصے کی کیفیت ذیان سے ختم ہوتی جارہی تھی اب وہاں صرف حیرانی تھی سوال تھے کہ مولوی صاحب صبح صبح اس کے کمرے میں کیوں آئے بیٹھے ہیں۔ اس نے اپنی زبان سے کوئی سوال نہیں کیا تھا۔
شام کو ذیان کی رخصتی تھی، عتیرہ سخت متفکر تھی۔
فریدہ، زیبو اور ابیک کے رشتے کی خالہ کی باتوں اور ذیان کی حالت نے انہیں بہت کچھ سوچنے پہ مجبور کردیا تھا۔ مولوی صاحب کے دم کرنے کے بعد ذیان اب کافی بہتر تھی اب اسے بخار نہیں تھا لیکن ابھی بھی اس کا سر بھاری اور جسم میں درد تھا۔ طبیعت کی خرابی اس کے چہرے سے عیاں تھی۔ رات اس نے غنودگی میں چیخیں بھی ماری تھیں۔ مولوی صاحب کے دم نے اسے کچھ پرسکون کردیا تھا۔
                                    ###

Chapters / Baab of Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja