Episode 72 - Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 72 - میں گمان نہیں یقین ہوں - نبیلہ ابر راجہ

ملک ابیک کا بیڈ روم بہت شاندار تھا۔ پردے، فرنیچر، کارپٹ سے لے کر ڈیکوریشن پیسز اور جہازی سائز بیڈ تک ایک ایک چیز کمرے کے مکین کے ذوق کو سراہ رہی تھی، داد دے رہی تھی۔ خواب آگیں فضا میں مدھر گیت کا ارتعاش تھرتھرا رہا تھا۔
یہ پربتوں کے دائرے یہ شام کا دھواں
ایسے میں کیوں نہ چھیڑ دیں دلوں کی داستاں
یہ روپ یہ رنگ یہ پھبن چمکتے چاند سا بدن
برا نہ مانو تو تم اگر چوم لوں کرن کرن
کہ آج حوصلوں میں ہیں بلا کی گرمیاں
یہ پربتوں کے دائرے یہ شام کا دھواں
معاذ کچھ دیر پہلے ذیان کے پاس آیا تھا اس نے میوزک سسٹم آن کیا تھا یہ اسی کی شرارت تھی کہ وہی گیت بار بار ریوائنڈ ہو رہا تھا۔
ملک ابیک نے اندر قدم رکھا تو ہر شے بولتی کلام کرتی محسوس ہوئی یہاں تک کہ خاموشی بھی سرگوشیاں کر رہی تھی۔

(جاری ہے)

ذیان کا وجود قابل توجہ اور پرکشش تھا اپنے اندر عجیب سی مقناطیسیت سموئے وہ کسی پرانی عمارت کی مانند شاندار اور پراسرار نظر آرہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں سرخی چھلک رہی تھی۔ جب وہ ذیان کے قریب جا کر بیٹھا تو تب اس نے ذیان کی آنکھوں کی لالی واضح طور پہ دیکھی۔

اس کی آنکھوں کے کنارے سوجے سوجے نظر آرہے تھے۔ بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے بیٹھی ذیان کے دونوں ہاتھ گھٹنوں پہ دھرے تھے۔ ابیک نے ایک پل میں دل ہاتھوں سے نکلتا محسوس کیا۔ وہ اتنی حسین اور دل کش نظر آرہی تھی کہ ابیک کے حواس کی نبض سست پڑ گئی تھی۔ آج سے پہلے جب بھی ذیان سے ملاقات یا آمنا سامنا ہوا اور وہ”میں ہی میں ہوں“ کی عملی تفسیر بنی ملی تھی رسائی سے کوسوں دور جس کو چھونے کا سوچنا بھی محال تھا۔
آج وہ اپنی تھی ہمیشہ کے لیے اس کی ملکیت بن چکی تھی اور وہ احساس ملکیت کے نشے میں سرشار تھا۔
ملکیت کو عملی طور پہ ثابت کرنے کے لیے اس نے ذیان کے گھٹنوں پہ دھرا اس کا ایک ہاتھ اپنے مضبوط ہاتھوں میں تھاما شاید وہ یقین کرنا چاہ رہا تھا کہ ذیان اس کے پاس ہی ہے۔ خاموشی اور بھی کھل کر کلام کر رہی تھی۔ رنگ خوشبو اور روشنی کا ایک مجسم وجود ابیک کے سامنے اس کی دسترس میں تھا۔
ابیک نے ذیان کے پاس سے ایک تکیہ اٹھا کر اپنے کندھے کی طرف رکھا اور قدرے جھک کر نیم دراز ہوگیا۔ اب ذیان کا چہرہ اس کے بالکل سامنے اور قریب تھا۔ اس کے حنائی پاؤں ابیک کے دائیں بازو کو چھو رہے تھے۔ اس کے پاؤں میں سجی پائل تک کو وہ بڑی وضاحت سے دیکھ اور چھو سکتا تھا۔ آج ابیک کی نگاہوں کا رنگ بدلا ہوا تھا ذیان نے ابھی تک اس سے نظر نہیں ملائی تھی۔
پر وہ اس کے بہت قریب تھا۔ ذیان کے دل کی دھک دھک اسے اپنی سماعتوں کے قریب تر محسوس ہو رہی تھی۔ 
ذیان کے نچلے ہونٹ کے کنارے کالا تل، اس کے لبوں کی خفیف تھرتھراہٹ سے لرز رہا تھا۔ ابیک نے اچانک اپنی انگشت شہادت وہاں رکھی۔ انگلی کی پور تلے اس نے بھی لرزاہٹ محسوس کی۔ ”میں کہاں سے آغاز کروں کہ مجھے کب کہاں کس وقت تم سے محبت ہوئی؟“ ابیک کی نگاہ اس کے ایک ایک نقش کو چھو رہی تھی وہاں شوق کا گرمئی جذبات کا ایک جہاں آباد تھا۔
ذیان کی آنکھوں کی سرخی کچھ اور بھی بڑھ گئی تھی۔ تب اس نے پہلی بار نگاہیں اٹھا کر ابیک کی طرف دیکھا تو صبر و قرار جیسے سرپٹ دوڑا اور اس کی گرفت سے آزاد ہوگیا اس نے کمال جرأت سے پہلی بار ذیان کا دوسرا بھی ہاتھ پکڑا۔ وہ ہاتھوں پہ لگائی گئی مہندی کو دیکھ رہا تھا اس کی نازک انگلیوں میں سجی بیش قیمت انگوٹھیوں کو چھو رہا تھا۔ اگلے مرحلے میں ابیک نے اس کا ہاتھ اپنے سینے پہ رکھا تو وہ نیچے اس کے سینے اور سر کی طرف جھک سی آئی کیونکہ ابیک نے اس کا ہاتھ پکڑ رکھا تھا اور اسے اپنی طرف کھینچا تھا۔
ذیان کا ہاتھ اس کے سینے پہ دھرا تھا جہاں دل کی دھڑکن بہت پرجوش اور شوخ ہو رہی تھی۔ ابیک کی نگاہوں میں بڑی خوبصورت التجائیں اور گستاخ جذبے مچل رہے تھے۔ اس نے دوسرا ہاتھ بڑھا کر ذیان کی پلکوں کو چھوا تو اس کا ہاتھ پلکیں اور پورا وجود گویا بھونچال کی لپیٹ میں آگیا۔ ابیک نے کندھا اوپر کرتے ہوئے ذیان کا بھاری آنچل اس کے سر سے کھسکایا وہ قدرے پیچھے ہٹی لیکن آج وہ ہار ماننے کے موڈ میں نہیں تھا۔
ذیان کے لبوں سے پہلی چیخ نکلی اس کے بعد اس کے حلق سے نہ رکنے والی چیخوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ رات کے گہرے ہوتے سناٹے میں یہ آواز ایسی دلخراش تھی جیسے اسے ذبح کیا جارہا ہو۔ ملک محل کے مکین ایک ایک کر کے اس کا سبب معلوم کرنے کے لئے دوڑ پڑے۔
ملک ابیک ایک مضبوط اعصاب کا مالک اور بے مثال قوت برداشت رکھتا تھا لیکن اس وقت اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہ کیا ہوگیا ہے اور اسے کیا کرنا چاہیے۔
ذیان کے بالوں کے خوبصورت سٹائل کا حشر ہوچکا تھا بالوں میں سجے پھول پتی پتی بکھر گئے تھے۔ لپ اسٹک پھیل کر لبوں کے کنارے سے باہر نکل رہی تھی مسکارے اور آئی شیڈ اور دیگر میک اپ کا بھی یہی حال تھا جو بڑی مہارت اور نفاست سے کیا گیا تھا۔
دوپٹہ سر سے اتر کر بیڈ کے نیچے جاپڑا تھا۔ اس کی وحشت زدہ لال لال آنکھیں بے قراری سے گردش کر رہی تھیں۔
کچھ دیر پہلے تک وہ دلہن کے خوبصورت ترین روپ میں تھی مگر اب اس ہیت کذائی میں وہ خون آشام چڑیل لگ رہی تھی۔
دوڑتے قدموں اور شور کی آوازیں اس کے کمرے کے دروازے تک آ کر قدرے تھم گئی تھیں۔
دروازہ زور دار طریقے سے دھڑ دھڑایا جارہاتھا۔ اس اچانک لگنے والے شاک سے ابیک کے حواس ماؤف ہو رہے تھے اس نے اسی کیفیت میں دروازہ کھولا۔ اس کے کھلنے کی دیر تھی عورتوں کا ریلا اندر گھس آیا۔
عورتوں کے پیچھے ملک جہانگیر اور معاذ بھی تھے پر وہ مصلحت کے تحت دروازے سے باہر ہی رک گئے تھے۔ پر جب اندر کا منظر ملاحظہ کیا تو وہ بھی داخل ہوگئے۔ ذیان بے ہوش ہو کر بیڈ پہ عجیب سے انداز میں لڑھک گئی تھی۔ ہر کوئی ابیک سے پوچھ رہا تھا کیا ہوا کیا ہوا۔ وہ بولنے میں سخت دقت محسوس کر رہا تھا اس وقت لفظ اس کی گرفت سے بھاگ گئے تھے۔ ذیان کی حالت ہی بتانے کے لئے کافی تھی۔
نوکرانی جا کر عتیرہ کو بھی بلا لائی تھی۔ ”چھوٹی بی بی پہ جن کا اثر ہوگیا ہے کل مغرب کے ٹائم باغ میں پیپل کے درخت کے نیچے بیٹھی تھیں اور ایسی ہی حالت تھی جیسی ابھی ہے۔“
فریدہ نے آخر کار راز اگل دیا تھا جسے چھپانے کی اسے تنبیہہ کی گئی تھی۔ عتیرہ اس وقت اپنی پریشانی میں تھی اس لیے فریدہ کو کچھ بھی نہ کہا۔ فریدہ کو دیکھ کر زیبو کو بھی حوصلہ ہوا۔
اس نے بھی کل کی روداد بڑھا چڑھا کے بتائی اس دوران اس کی آنکھیں خوف سے پھیلی ہوئی تھیں۔ ”چھوٹی بی بی پہ جن عاشق ہوگیا ہے۔“ اس نے انکشاف کیا تو سب کے سر اُس کی طرف گھوم گئے واقعی زیبو کی بات قابل غور تھی۔ گاؤں دیہات میں حسین لڑکیوں پہ آسیب کا آجانا، جن کا عاشق ہوجانا کوئی نئی بات یا انوکھی بات نہیں تھی۔
ابیک ایک کونے میں بالکل خاموش بیٹھا ہوا تھا۔
افشاں بیگم انتہائی پریشانی کے عالم میں بے سدھ پڑی ذیان کو دیکھ رہی تھیں جس کے ہاتھ پاؤں مڑے ہوئے تھے اور باچھوں کے کنارے سے تھوک نکل رہا تھا۔ عتیرہ رو رہی تھی۔ انہیں تسلی دیتے ہوئے افشاں بیگم بھی رو پڑیں۔
”ہائے وے ربا میرے بیٹے کی خوشیوں کو کس کی نظر لگ گئی ہے۔“ انہوں نے دونوں ہاتھ افسوس زدہ انداز میں مسلے۔ ذیان کو ہوش میں لانے کی تدابیر ناکام ہو رہی تھیں۔
عتیرہ کی پریشانی اب تشویش میں ڈھلنے لگی تھی۔ کسی رشتہ دار عورت نے ذیان کو ڈاکٹر کے پاس لے جانے کا مشورہ دیا۔ ”ہماری بہو کو ڈاکٹر کی نہیں کسی اللہ والے کی ضرورت ہے۔“ ابیک کی رشتے کی خالہ نے جھٹ مشورہ رد کردیا۔ ”ہاں بھئی میری بیٹی کو دم درود کی ضرورت ہے۔“ افشاں بیگم نے بھی تائید کی اور آنسو پونچھے۔ مشورہ دینے والی عورت اپنا سا منہ لے کر رہ گئی۔

Chapters / Baab of Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja