Episode 75 - Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 75 - میں گمان نہیں یقین ہوں - نبیلہ ابر راجہ

 ”بابا جی میری بہو پہ جن…“ ”بس خاموش سب پتہ ہے ہمیں آگے کچھ مت بولنا۔“ جلالی باوا نے ہاتھ اٹھا کر انہیں درمیان میں ہی ٹوک دیا۔ اب تو وہ دونوں ان کی کرامات کی بھی قائل ہوگئی تھیں۔ انہوں نے اپنا مسئلہ بتایا ہی نہیں تھا اور جلالی باوا جان گئے تھے وہ روشن ضمیر تھے۔“ ”ہم کیا کریں اب؟“ ڈرتے ڈرتے افشاں بیگم گویا ہوئیں۔
”دیکھو بی بی تمہارا مسئلہ بہت بڑا اور خطرناک ہے آسانی سے حل ہونے والا نہیں ہے۔
تمہاری بہو خطرناک جن کے زیر اثر آگئی ہے۔ ہمیں پوری حقیقت سمجھنے کے لیے تمہارے گھر آنا پڑے گا۔“ جلالی باوا اپنی مخصوص رعب دار آواز میں بول رہے تھے۔ افشاں بیگم سر ہلا رہی تھیں۔
تھوڑی دیر بعد جلالی باوا اپنے مخصوص حجرہ میں تشریف لے گئے۔ تب ان کا مرید اندر آیا۔

(جاری ہے)

”تم بہت خوش قسمت ہو بی بی ورنہ”جلالی باوا“ ہر کسی کے گھر نہیں جاتے۔

اب سمجھو کہ تمہاری کشتی پار لگ گئی ہے۔“ مرید نے انہیں خوشخبری سنائی۔ طاہرہ اور افشاں بیگم نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ افشاں بیگم کے چہرے پہ اب پریشانی کا نام و نشاں تک نہ تھا۔ جلالی باوا بہت جلد ملک محل میں رونق افروز ہونے والے تھے۔ یعنی ان کی پریشانی کے خاتمے کے دن قریب آگئے تھے۔ دونوں خوشی خوشی واپس آئیں۔
ابیک تاحال نیچے مقیم تھا۔
ذیان اوپر اسی کے بیڈ روم میں تھی۔ عتیرہ اسی کے پاس تھیں نوکرانیاں اکیلی اس کے پاس جاتے ہوئے ڈرتی تھیں اس لئے عتیرہ یاافشاں بیگم میں سے کوئی ایک لازمی اس کے پاس موجود رہتی۔ ابیک کا اوپر جانا تقریباً ممنوع ہی ہوچکا تھا۔ کیونکہ اسے دیکھتے ہی ذیان کی طبیعت خراب ہوجاتی تھی۔
عامل جلالی باوا کی سواری باد بہاری ان کے گھر تشریف لا رہی تھی وہ چپ چاپ ان کے استقبال کی تیاریاں دیکھ رہا تھا۔
ذیان اوپر ہی تھی۔ جلالی باوا نے وہیں قدم رنجہ فرمانا تھا۔ افشاں بیگم، عتیرہ اور ملک جہانگیر خاصے سرگرم تھے۔
عامل جلالی باوا اپنے ساز وسامان سمیت”ملک محل“ تشریف لاچکے تھے۔ ان کے دو چیلے اور مرید خاص بھی ان کے ہمراہ تھے۔ ملک جہانگیر نے خصوصی طور پہ پکوان تیار کروائے تھے۔ لذیذ مرغن کھانے کھانے کے بعد خوشبودار دودھ پتی ڈکار کے جلالی باوا نے اپنے کام کا آغاز کیا۔
وہ اوپری پورشن کی سیڑھیاں چڑھ رہے تھے باقی لوگ ان کے پیچھے پیچھے سر جھکائے آرہے تھے۔ وہ سیدھے ذیان کے کمرے میں داخل ہوئے جہاں وہ دلہن بن کر داخل ہوئی تھی۔ جلالی باوا نے ذیان سمیت پورے کمرے اور چیزوں کا جائزہ لیا۔ ان کی نگاہ جیسے ہر چیز کو چھید رہی تھی۔ ان کے حکم پہ ذیان کو ان کے سامنے بٹھایا گیا۔
ملک ابیک الگ تھلگ رکھے ون سیٹر صوفے پہ بیٹھا خاموشی سے سب کارروائی ملاحظہ کر رہا تھا۔
وہ ان سب سے آخر میں آیا تھا اس لیے کسی نے اتنی توجہ نہیں دی تھی۔
جلالی باوا نے اپنے آنے سے پہلے کچھ سامان لانے کی خصوصی تاکید کی تھی اس خاص الخاص سامان میں تین عدد صحت مند کالے بکرے اتنی ہی تعداد میں کالی مرغیاں، سوا میٹر کالا کپڑا، تین مٹی کے کورے دئیے، الو کی مردہ آنکھیں، نر چمگادڑ کے پر، شیر کی چربی کا تیل اور گیدڑ سنگھی شامل تھی۔
کچھ چیزیں تو مل گئی باقی رہ جانے والا سامان ہر ممکنہ جگہ پتہ کروانے کے باوجود بھی نہیں مل پایا تھا۔ ملک جہانگیر نے افشاں بیگم کے کہنے پہ ان چیزوں کے پیسے عامل جلالی باوا کے حوالے کردئیے تاکہ وہ خود ہی خرید لیں۔ یہ اچھی خاصی موٹی رقم تھی۔ کچھ چیزیں جلالی باوا اپنے ساتھ ابھی ابھی لے کر آئے تھے یہ انہیں ذیان کے علاج کے لیے استعمال کرنی تھیں۔
ذیان”جلالی باوا“ کے سامنے بیٹھی تھی درمیان میں کوئلوں سے بھری انگیٹھی دہک رہی تھی۔
جلالی باوا پاس پڑی دانے دار سی کوئی کالی چیز وقفے وقفے سے جلتے انگاروں پہ ڈال رہے تھے۔ جس سے فضا میں عجیب سی سرانڈ پھیل گئی تھی بو ناقابل برداشت تھی سب نے ناک منہ پہ ہاتھ رکھ لیے۔ اس کے بعد جلالی باوا نے ایک بوتل اٹھائی یہ وہ اپنے ساتھ لائے تھے۔
بوتل میں سرخی مائل سفوف تھا یہ سفوف انہوں نے کوئلوں پہ چھڑکا تو سامنے بیٹھی ذیان کی حالت بری ہوگئی۔ اس کی آنکھوں سے پانی بہنے لگا رگڑ رگڑ کر اس نے آنکھیں سرخ کرلیں۔ اس کے بعد جلالی باوا نے سرخ مرچوں سے ملتی جلتی کوئی شے کوئلوں پہ ڈالی تو ذیان بری طرح کھانسنے لگی حیرت انگیز طور پہ باقی افراد میں سے کسی پہ بھی کوئی اثر نہیں ہوا یعنی وہ چیز ذیان پہ ہی اثر کر رہی تھی۔
 عامل جلالی باوا کے چہرے پہ عجیب سی ہنسی نمودار ہوئی۔ اس نے اپنے ساتھ لائے سامان میں سے چھوٹی سلاخ برآمد کی اور کوئلے کے انگارے کریدنے لگے۔ذیان کی حالت اور بھی زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ جلالی باوا اب پوری طرح ذیان کی طرف متوجہ ہوئے۔ ”کیا لینے آیا ہے تو اس لڑکی سے۔ بدبخت تیرا نام کیا ہے؟“ اپنی گونجدار آواز میں وہ ذیان پہ عاشق ہونے والے جن سے مخاطب تھے۔
ذیان نے سرخ سرخ لال آنکھوں سے عامل جلالی باوا کو گھورا۔ ”آتم توش نام ہے میرا۔میں اس لڑکی سے محبت کرتا ہوں۔“ ذیان کے لبوں سے مردانہ آواز برآمد ہوئی۔
یہ سو فیصد مردانہ آواز تھی وہاں پہ موجود سب افراد کو گویا سانپ سونگھ چکا تھا۔ صرف عامل جلالی باوا جن سے سوال جواب کر رہے تھے۔ ”کیا لینا ہے تجھے اس لڑکی سے؟“ ”میں ذیان سے محبت کرنے لگا ہوں۔
جب یہ باغ میں اکیلی بیٹھی رو رہی تھی میں تب اس پہ عاشق ہوا۔ اب میں اس کے قریب کسی کی موجودگی برداشت نہیں کرسکتا خاص طور پہ اس کے شوہر کی۔ یہ صرف میری ہے۔“ ذیان کے لبوں سے غصے بھری آواز برآمد ہوئی۔ اس نے گردن موڑ کر ون سیٹر صوفے پہ بیٹھے ملک ابیک کو گھور کر دیکھا جیسے کچا چبا جائے گا۔ ابیک اپنے اعصاب پہ قابو پائے برداشت کر رہا تھا۔
جلالی باوا نے جلتے انگاروں پہ ایک بار پھر سفید سفوف چھڑکا جیسے انگارے آہستہ آہستہ بجھنے لگے ان کی تپش کم پڑتی جارہی تھی۔ اب ذیان کی آنکھوں کی سرخی اور چہرے پہ چھائی وحشت میں کمی آتی جارہی تھی۔
عامل جلال باوا ذیان کے کمرے سے اٹھ کر نیچے آگئے تھے۔
ان کے چہرے پہ فکرو تردد کی گہری لکیریں نمایاں تھیں۔ ملک جہانگیر، افشاں بیگم اور ملک ابیک ان کے پاس تھے۔
”جن بہت طاقتور اور شدی ہے آپ کو بہو کے علاج کے لیے بہت وقت اور صبر کی ضرورت ہے۔“ جلالی باوا نے اپنے سامنے بیٹھے تینوں افراد کو باری باری دیکھا تو افشاں بیگم بول پڑیں۔ ”میں اپنی بہو کی تندرستی کے لیے کچھ بھی کرسکتی ہوں۔“
”آپ کی بہو بالکل تندرست ہے بی بی اس کی روح بیمار ہے۔ اس کی روح پہ قبضہ ہوگیا ہے یہ قبضہ کسی انسان کا نہیں ہے بلکہ غیر مرئی مخلوق کا ہے۔
نظر آنے والے دشمن سے تو با آسانی مقابلہ کیا جاسکتا ہے پر جو دشمن ہی پوشیدہ ہو اس کے ساتھ کوئی کیسے نمٹے۔ نمٹنے کے لیے خاص عمل اور حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ یہ خاص عمل نوری عمل کہلاتا ہے۔ وقتی طور پہ میں نے کسی حد تک سب ٹھیک کردیا ہے لیکن یہ سب عارضی ہے۔ میں ہفتے بعد آؤں گا اور بتاؤں گا کہ علاج کیسے شروع کیا جائے۔ علاج کے دوران اور ابھی بھی لڑکی کے شوہر کو اس سے دور رہنا ہوگا ورنہ آتم توش غصے میں آ کر شدید قسم کا نقصان بھی پہنچا سکتا ہے جیسا کہ اس نے دھمکی بھی دی ہے۔
“ عامل جلالی باوا گونجدار آواز میں بول رہے تھے۔ ملک ابیک کے علاوہ سب ہی متاثر اور پریشان ہو گئے تھے۔ ابیک اندرونی اور بیرونی دونوں طرح پرسکون تھا۔
وہ ذیان کے اس علاج کے حق میں نہیں تھا۔ مخالفت کرتا تو افشاں بیگم کے ناراض ہونے کا سو فی صد امکان تھا لہٰذا اس نے خاموش رہنا ہی بہتر سمجھا۔ وہ جلالی باوا کی کرامات کا بھی جائزہ لینا چاہ رہا تھا۔
کہ آخر ان کا دعویٰ کتنا سچا ہے۔ افشاں بیگم تو ان کے عقیدت مندوں میں شامل ہوگئی تھیں ملک جہانگیر نے بھی ذیان کے روحانی علاج کے کلی اختیارات انہیں سونپ دئیے تھے۔
عامل جلالی باوا اپنے چیلوں مریدوں اور سامان سمیت رخصت ہوگئے تھے، انہوں نے اگلے ہفتے پھر قدم رنجہ فرمانا تھا۔
عتیرہ کے جانے کے بعد ذیان نے تیزی سے بیڈ روم کا دروازہ بند کیا۔
ان پانچ دنوں میں اسے ایک پل کے لیے بھی اکیلا نہیں چھوڑا گیا تھا۔ وہ ہر قسم کی فکر و پریشانی سے دور رہ کر بھرپور قسم کی نیند لینا چاہ رہی تھی۔ عامل باوا کے انگیٹھی والے عمل کے بعد اس کا سر ویسے بھی بہت بھاری بھاری ہو رہا تھا۔ عتیرہ کسی ضرورت سے باہر گئی تھیں انہیں واپس اس کے پاس آنا تھا جبکہ وہ ایسا نہیں چاہتی تھیں۔ ایک بار پھر اس نے بیڈ روم کا دروازہ کھول کر باہر جھانکا اور پاس سے گزرتی نوکرانی کو آواز دی۔
”شمو میری بات سنو۔“
شمو اس کی آواز سن کر رک تو گئی پر اس کے چہرے پہ بے پناہ خوف تھا۔ ”جی چھوٹی بی بی۔“ وہ مرے مرے لہجے میں بولی۔“ میں سونے لگی ہوں دروازہ بند کر کے۔ بڑی بی بی سے جا کر کہو وہ بھی سوجائیں جا کر۔“ ”ٹھیک ہے چھوٹی بی بی جی ابھی جا کر کہتی ہوں۔“ شمو کی پھرتی اور تیز رفتاری قابل دید تھی اس نے شکر ادا کیا اور دوڑ لگائی۔
ذیان بی بی سے تو سب ہی ڈرنے لگے تھے ان سے کسی نوکرانی کا سامنا ہوجاتا تو اس کی تو جیسے روح ہی فنا ہونے لگتی۔ صرف نیناں ہی دل گردے کی مالک تھی اس نے ایک بار بھی کسی ڈر یا خوف کا اظہار نہیں کیا تھا۔ اگر اسے کسی کام کے لیے ذیان کے پاس بھیجا جاتا تو وہ انکار نہ کرتی۔ اس کا رویہ بھی نارمل رہتا چہرے پہ خوف اور گھبراہٹ کا نام و نشان تک نہ ہوتا۔ ذیان نے پھر سے دروازہ بند کیا اور اطمینان سے بستر پہ دراز ہوگئی ابیک کے اِدھر آنے کا کوئی امکان نہیں تھا۔ کیونکہ عامل جلالی باوا نے سختی سے منع کردیا تھا کہ وہ اپنی بیوی سے فی الحال دور رہے۔ وہ ہاتھ پاؤں چھوڑ کر بے سدھ ہو کر سوئی۔

Chapters / Baab of Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja