Episode 76 - Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 76 - میں گمان نہیں یقین ہوں - نبیلہ ابر راجہ

ابیک اور ذیان کی شادی کے بعد نیناں نے سلائی کڑھائی کے مرکز میں پھر سے جانا شروع کردیا تھا۔ گھر میں ذیان کے حوالے سے جو پریشانی چل رہی تھی وہ اپنی جگہ تھی۔ ابیک نے اس طرف سے دھیان ہٹا کر سکول والے پراجیکٹ پہ توجہ دینا شروع کردی تھی۔ اس نے شادی کے بعد پہلی مرتبہ سکول کی ادھوری تیزی سے تعمیر کے مراحل طے کرتی عمارت کا جائزہ لیا۔ ٹھیکیدار اسے کام کی تفصیلات بتا رہا تھا۔
ابیک اس کی کارکردگی سے مطمئن تھا۔ آدھ گھنٹہ گھوم پھر کر اطمینان کرلینے کے بعد وہ انڈسٹریل ہوم کی طرف آگیا۔ بہت دن بعد اس طرف آنا ہوا تھا۔ نیناں اسے دیکھتے ہی الرٹ ہوگئی۔ دل کی دھڑکنوں نے خوشگوار الاپ الاپنا شروع کردیا تھا۔ بہت دن کے بعد نیناں اسے اپنے سامنے ایسے اکیلے دیکھ رہی تھی۔ ابیک کو سامنے پا کر وہ بے اختیار اپنی سیٹ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔

(جاری ہے)

”اسلام وعلیکم۔“ ابیک نے دھیمے سے سلام کیا۔ ”وعلیکم السلام آپ کیسے ہیں بیٹھیے پلیز۔“ نیناں نے آداب میزبانی نبھائیے۔ ”وہ دھیرے سے سر کو جنبش دیتا بیٹھ گیا۔ ”کام کیسا چل رہا ہے کوئی پریشانی تو نہیں ہے۔“ اور کسی چیز کی ضرورت ہو تو لسٹ بنا کر بھجوا دیجئے گا۔“ وہ اپنے مخصوص مہذب انداز میں گویا ہوا۔
”پریشانی تو نہیں ہے البتہ کچھ مشینیں خراب ہوگئی ہیں ساتھ کڑھائی کی ایک نئی مشین کی ضرورت ہے۔
“ ”آپ گھر جا کر مجھے ایک بار یاد کروا دیجئے گا۔ منشی شہر سے لے آئے گا۔“ ”ایک بات پوچھوں آپ برا تو نہیں مانیں گے۔“ نیناں نے پہلی بار بولنے کی ہمت کی تھی۔ ابیک کرسی پہ سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔ نیناں کے لہجے میں محسوس کی جانے والی جرأت تھی۔ ”جی مس نیناں پوچھیں۔“ ”آپ بہت پریشان اور تھکے تھکے نظر آرہے ہیں کیا وجہ ہے اس کی؟“ نیناں نے ایک قدم اور آگے بڑھایا۔
 
”لگتا ہے میری بات آپ کو بری لگی ہے معذرت چاہتی ہوں۔“ابیک کی طرف سے خاموشی طاری رہی تو اس نے دبے دبے انداز میں شرمندگی ظاہر کی۔ ”نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں ہے۔“وہ پھیکے پھیکے انداز میں مسکرایا۔ ”یعنی آپ کو میری بات بری نہیں لگی ہے؟“ نیناں نے ایک ثانیے کے لیے اس کی طرف نظر جمائی پر زیادہ دیر دیکھ نہ پائی۔ وہ روز اول کی طرح ماحول پہ چھایا ہوا لگ رہا تھا۔
”نہیں بری تو نہیں لگی ہے آپ کی بات۔“ ”تو پھر…؟“ وہ تیزی سے گویا ہوئی۔ ”میں حیران ہوا ہوں کیونکہ آج سے پہلے آپ نے کبھی ایسی بات نہیں کی ناں۔“ نیناں دھیمے سروں میں ہنسی۔ ابیک ٹھٹھک کر اُسے تکنے لگا۔
آج تو وہ حیران کردینے پہ تلی ہوئی تھی۔ ”آپ کو میری بات بری نہیں لگی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اچھی لگی ہے۔“ وہ بالکل عام سے انداز میں بولی۔
ابیک بے ساختہ ہنس پڑا۔ یہ سادہ اور بے ریا ہنسی تھی۔ نیناں سب کچھ بھلائے اس کی ہنسی کے سحر میں گم ہونے لگی تھی۔ یہ پہلا اتفاق تھا جو ابیک نے اس سے اتنی باتیں کی تھیں۔
”ہاں میں ڈسٹرب ہوں تھوڑا۔“ وہ ہنستے ہنستے اچانک خاموش ہوا تو سارا سحر اچانک ٹوٹ گیا۔ ”آپ ذیان بی بی کی وجہ سے پریشان ہیں ناں؟“ وہ ہمدردی سے اسے دیکھ رہی تھی وہ ہولے سے سر ہلا کر رہ گیا۔
”آپ انہیں کسی ڈاکٹر کو دکھائیں ناں۔“ نیناں نے خلوص سے مشورہ دیا۔ پر یہ خلوص ابیک کے لیے تھا ذیان کے لیے ہرگز نہیں تھا۔
”آپ کی اس ہمدردی اور خلوص کا بے حد شکریہ۔“ ابیک اس کی بات کے جواب میں گویا ہوا۔ اس نے ڈاکٹر کو دکھانے کے حوالے سے کچھ بھی نہیں کہا تھا۔ ”اچھا مس نیناں میں جارہا ہوں یہاں کسی قسم کی کوئی پرابلم ہو تو مجھے بتا دیا کریں۔
“ وہ کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا۔ ”پلیز آپ پریشان مت ہوں سب ٹھیک ہوجائے گا۔“ وہ دروازے کی طرف مڑ چکا تھا جب پیچھے سے نیناں کی آواز آئی۔ایک ثانیے کے لیے وہ رُکا اورپھر فوراً ہی نپے تلے باوقار قدموں سے چلتا اپنی گاڑی میں جا کر بیٹھ گیا۔
آج اس نے ڈرائیور کو ساتھ نہیں لیا تھا خود ڈرائیو کر کے آیا تھا۔ نیناں کھڑکی سے اسے دیکھ رہی تھی۔ وہ ڈرائیونگ سیٹ پہ بیٹھا گاڑی سٹارٹ کر رہا تھا۔
وہ وہاں سے روانہ ہوا تو نیناں کھڑکی سے ہٹی۔
معاذ کی واپسی میں صرف کل کا دن تھا۔ وہ بجھے بجھے دل کے ساتھ تیاری میں مصروف تھا۔ ابیک بھائی کی شادی کا سارا مزہ کرکرا ہوگیا تھا۔ اس نے بھائی اور بھابھی کی شادی کے بعد سیروتفریح گھومنے پھرنے کے بہت سے پروگرام بنائے تھے۔
جو ذیان بھابھی کے جن کی وجہ سے غارت ہو کر رہ گئے تھے۔ پورے ملک محل میں عجیب سا سناٹا تھا لگتا ہی نہیں تھا کہ یہاں کسی کی نئی نئی شادی ہوئی ہے نہ چوڑیوں کی کھنک نہ رنگین آنچل کی بہار نہ دبی دبی ہنسی کی آواز کچھ بھی تو نہیں تھا۔
ملک جہانگیر اور افشاں بیگم ذیان کی وجہ سے بہت پریشان تھے۔ گھر میں کام کرنے والی نوکرانیاں تک خوفزدہ تھیں۔ بات بھی سرگوشیوں میں کرتیں، معاذ الگ جھنجھلایا ہوا تھا۔ ذیان بھابھی کی شکل دیکھنے کو نہ ملتی چوبیس گھنٹے وہ کمرے تک محدود رہتیں۔ اس نے کتنی بار مشورہ دیا کہ بھابھی کو کسی سائیکاٹرسٹ کو دِکھائیں مگر اس کے مشورے پہ کسی نے بھی کان نہیں دھرا اس کا دل کرتا ذیان سے فرمائش کرے لاڈ اٹھوائے چھوٹے چھوٹے کام کروائے اسے لے کر گھومنے پھرنے جائے۔
 
معاذ کو بہن کا بہت شوق تھا وہ اکثر و بیشتر بڑے حسرت ناک انداز میں اللہ سے بہن نہ ہونے کا شکوہ کرتا تھا۔ ذیان کو دیکھتے ہی اس کے دل نے کہا کہ اس کی بہن کی کمی پوری ہوگئی ہے۔ وہ بالکل ویسی ہی تھی جیسا اس کے ذہن میں بہن کا تصور تھا۔ آنے والے دنوں میں بہت جلد وہ دونوں آپس میں بے تکلف ہوگئے۔ ذیان اس کی باتوں پہ ہنستی دلچسپی لیتی تو اسے بہت اچھا لگتا۔
ان دونوں یعنی ذیان اور ابیک بھائی کی شادی پہ اس نے کیسی رونق لگائی، خوشی منائی۔ذیان رخصت ہو کر آئی تو معاذ نے اس کے بیڈ روم میں جا کر سب سے پہلے اس کا چہرہ دیکھا اور منہ دکھائی دی۔
اس کے شرارتی جملوں کی مار سے وہ نروس ہو رہی تھی اپنی مسکراہٹ چھپا رہی تھی۔معاذ نے کتنی ڈھیر ساری اس کی فوٹو بنائیں۔ سب ٹھیک تھا وہ میوزک سسٹم آن کر کے وہاں سے باہر آیا تھا دیکھتے ہی دیکھتے تھوڑی دیر میں ہی خوشیوں بھرا ماحول پریشانی میں بدل گیا تھا۔
معاذ نے بھی دیکھا ذیان بھابھی پہلے والی تو لگ ہی نہیں رہی تھیں۔ نہ ہنستی نہ بولتی نہ اس کی شرارتوں پہ مسکراتی۔ اب تو اس کے جانے میں ایک دن باقی تھا۔ وہ بے حد اداس ہو رہا تھا۔ لگ رہا تھا ان کے گھر کو کسی کی نظر کھا گئی ہے۔
نئے نویلے شادی شدہ جوڑے کی خاندان بھر والے دوست احباب سب دعوتیں کرتے تھے مگر یہاں ایسا کوئی سلسلہ نہیں تھا بلکہ الٹا جس کسی کو ملک جہانگیر کی بہو کے بارے میں علم ہوتا وہ ہمدردی کرنے آجاتا۔
وہ حواس میں ہوتی تو کوئی دعوت میں مدعو بھی کرتا الٹا وہ تماشہ بن گئی تھی۔ ادھر ملک ارسلان اور عتیرہ کے ساتھ بھی وہی مسئلہ تھا۔خاندان بھر میں بات پھیل گئی تھی۔ کیونکہ شادی کے موقع پہ سب نے ہی ذیان کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ اس کی حالت سب کے لیے دلچسپ قصہ تھی۔ ہر کوئی ہمدردی جتاتا اپنے اپنے مشورے دیتا، عاملوں کا بتاتا وظیفے کرنے کا بولتا۔
عتیرہ سے بھی جو ہو رہا تھا وہ کر رہی تھی۔ ہر وقت ذیان کے ساتھ سائے کی طرح لگی رہتی۔ وہ مستقل طور پہ ابیک کی طرف ہی رہتی۔ اس چکر میں گھر اور ملک ارسلان بری طرح نظر انداز ہو رہے تھے۔ پر انہوں نے شریک حیات سے کوئی شکوہ نہیں کیا تھا۔
بلکہ وہ تو صبح و شام خود ذیان کو دیکھنے کے لیے آتے اس پہ سورتیں پڑھ پڑھ کر پھونکتے۔
مگر مسئلہ بڑھتا جارہا تھا، ذیان ویسے تو اکثر ٹھیک ہی رہتی لیکن جیسے ہی ابیک کو دیکھتی یا اس سے سامنا ہوتا تو اس پہ آنے والا جن جلال میں آجاتا پھر وہ ابیک کی طرف لپک لپک پڑتی اسے مارنے کی نوچنے کی کوشش کرتی۔
یکدم ہی وہ تو جیسے اپنا روپ ہی بدل لیتی بالکل اجنبی نظر آتی لال لال آنکھوں سے گھورتی تو رونگٹے کھڑے ہوجاتے کیونکہ اس کی آنکھوں کے ڈھیلے ایک جگہ ساکت ہوجاتے اور سفید سفید پتلیاں بہت ہیبت ناک نظر آتیں ایسے میں سب کی کوشش ہوتی کہ ذیان کے سامنے سے ہٹ جائیں کیونکہ وہ کسی کے قابو میں ہی نہیں آتی تھی ایسے محسوس ہوتا جیسے اس کے اندر کوئی انجانی غیرمرئی طاقت حلول کر گئی ہے۔
ملک ابیک کو افشاں بیگم نے منتیں کر کر کے نیچے ہی رکنے پہ آمادہ کرلیا تھا۔ اسے کسی چیز کی ضرورت ہوتی تو وہ نوکرانیوں سے کہتا۔ اس کے بیڈ روم سے اس کے استعمال کی سب چیزیں نیچے منتقل ہوگئی تھیں۔
اس کا بیڈ روم تو جیسے اس کے لیے ممنوعہ علاقہ قرار دے دیا گیا تھا۔ جہاں وہ قدم بھی نہیں رکھ سکتا تھا۔ اوپر اس کے بیڈ روم میں ذیان اور عتیرہ چچی تھی۔
کبھی کبھی افشاں بیگم بھی اوپر ٹھہر جاتیں۔ انہیں خدشہ تھا کہ جن ذیان کو کوئی نقصان نہ پہنچا دے اس لیے وہ زیادہ وقت اس کے ساتھ ہی رہتیں۔
معاذ ذیان کے بیڈ روم کے سامنے کھڑا تھا۔ اس کے ساتھ افشاں بیگم بھی تھیں وہ اس کے ساتھ آئی تھیں انہیں انجانا سا خوف تھا کہ شاید ذیان معاذ کو بھی کوئی نقصان نہ پہنچا دے۔ حالانکہ شادی کے بعد سے لے کر اب تک ایسا ہوا نہیں تھا”آتم توش“ نامی جن کا سب غصہ و غیض و غضب صرف اور صرف ابیک کے لیے ہی تھا۔
ذیان بیڈ پہ بیٹھی تھی چہرے پہ فکر کے سائے تھے پر مجموعی طور پہ وہ بالکل ٹھیک نظر آرہی تھی۔ ”آؤ معاذ کہاں غائب ہو اتنے دن سے؟“ اسے دیکھتے ہی وہ بیڈ سے اتر آئی۔ چہرے پہ گزشتہ دنوں والی طاری وحشت کا نام و نشان تک نہ تھا۔ ”بھابھی آپ کی طبیعت ہی ٹھیک نہیں تھی میں دو تین بار آیا تو تھا لیکن کھڑے کھڑے واپس ہوگیا۔“

Chapters / Baab of Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja