Episode 77 - Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 77 - میں گمان نہیں یقین ہوں - نبیلہ ابر راجہ

وہ معاذ سے تین ساڑھے تین سال چھوٹی تھی پر وہ انتہائی احترام سے مخاطب کر رہا تھا۔ ذیان جواب میں دھیرے سے مسکرا دی ایسی مسکراہٹ جس میں بے بسی کی آمیزش تھی۔ افشاں بیگم نے معاذ کو فہماشی انداز میں دیکھا جیسے کہہ رہی ہوں ذیان کی طبیعت کے حوالے سے کوئی بات مت کرنا وہ ان کی آنکھوں کا اشارہ سمجھ گیا تھا۔
ذیان اس سے ہنس ہنس کر باتیں کر رہی تھی۔
افشاں بیگم دیکھ دیکھ کر نہال ہو رہی تھیں ذیان بالکل نارمل اور ٹھیک ٹھاک نظر آرہی تھی لگ ہی نہیں رہا تھا کہ یہ وہی پرانی ذیان ہے۔ابیک کو سامنے دیکھتے ہی جن بے قابو ہوجاتا ویسے وہ ٹھیک ہی رہتی۔
ملک ارسلان اور عتیرہ بیگم کے شاندار ڈرائنگ روم میں عامل جلالی باوا کا بھیجا ہوا خاص مرید موجود تھا۔ وہ جلالی باوا کا خاص الخاص پیغام صرف اور صرف ان کے لیے لے کر آیا تھا۔

(جاری ہے)

مرید کی نظریں ایک ایک چیز کو نگاہوں ہی نگاہوں میں تول رہی تھیں جیسے دل ہی دل میں قیمت کا تعین کر رہا ہو۔واضح طور پہ اس کی آنکھوں میں مرعوبیت موجود تھی۔
عتیرہ اس کے سامنے بیٹھی تھیں انہوں نے نوکرانیوں کی مہمان کی خاطر مدارات کا خاص اہتمام کرنے کی ہدایت کی تھی۔ اس درمیانی وقفے میں مرید کام کی باتیں عتیرہ بیگم کو بتاتا جارہا تھا۔
”بابا جی نے آپ کو فوراً بلایا ہے۔“ ”کیوں بلایا ہے مجھے؟“ عتیرہ نے بے قراری سے پوچھا۔ ”یہ تو وہ آپ کو خود ہی بتائیں گے کیونکہ کوئی ضروری بات ہے جو صرف آپ سے کرنے والی ہے۔“ مرید ایک عجیب شان بے نیازی سے گویا ہوا۔ باتوں کے دوران کھانے کی ٹیبل اشیائے خوردونوش سے سجائی جاچکی تھی اور عامل باوا کا خاص مرید کھانے پینے کی نعمتوں سے خوب خوب انصاف کررہا تھا۔
ڈرائنگ روم میں بیٹھے اس اجنبی آدمی یا مرید خاص کی جھلک نیناں بھی دیکھ چکی تھی۔ اس نے اندر آ کر بطور خاص سلام کیا۔ عتیرہ نے اس کا تعارف کروانے کی ضرورت محسوس نہیں کی نیناں سمجھ گئی کہ یہ شخص خاندان سے باہر کا ہے۔ ویسے بھی حلیے سے ملک خاندان کا نظر آبھی نہیں رہا تھا۔
مرید نے نیناں کو گہری نگاہ سے دیکھا۔ عتیرہ نے نیناں کو ڈرائنگ روم سے باہر جانے کا اشارہ کیا۔
باہر آ کر وہ ایک طرف کھڑی ہوگئی۔ مگر اندر موجود افراد کی آواز بہت آہستہ تھی کوشش کے باوجود ایک لفظ بھی اس کے پلے نہ پڑ سکا۔ وہ مڑنے ہی لگی تھی جب معاذ کو دیکھ کر ادھر ہی ساکت ہوگئی۔ شاید وہ اسے اس طرح مشکوک انداز میں اندر کی باتیں سننے کی کوشش کرتے ہوئے دیکھ چکا تھا مگر اس وقت اس کے چہرے پہ ایسا کوئی تاثر نہیں تھا۔ نیناں اسے سلام کر کے وہاں سے جانے لگی، تیزی سے اس کا پاؤں بری طرح پھسلا اور مڑا۔
ایک زور دار چیخ اس کے لبوں سے برآمد ہوئی۔ اس کے پاس سب سے پہلے معاذ ہی پہنچا، نیناں کے پاؤں میں موچ آگئی تھی۔
وسیع و عریض کمرے میں عتیرہ”عامل جلالی باوا“ کے سامنے ادب و احترام سے سر جھکائے بیٹھی تھی۔ اس بار انہوں نے عتیرہ کو فوراً ڈائریکٹ اپنے حجرے میں کمال شفقت سے کام لیتے ہوئے بلوا لیا تھا ورنہ نمبر پہ تو انہیں جانا پڑتا تو رات ادھر ہی تھی۔
جلالی باوا نے تولنے والی نگاہوں سے عتیرہ کا جائزہ لیا اور اپنی انگلیوں سے داڑھی کے بالوں میں ہاتھ پھیرا ایک ہاتھ سے وہ تسبیح کے دانے گرا رہے تھے اس میں ذرہ بھر بھی خلل نہیں پڑ رہا تھا وہ ایک مخصوص ردہم کے ساتھ مصروف عمل تھے۔ ان کی مقناطیسی نگاہوں سے عتیرہ اپنا سر جھکانے پہ مجبور ہوگئی تھی۔
”میں نے دو رات پہلے تمہاری بیٹی کے سلسلے میں استخارہ اور مراقبہ کیا ہے۔
مجھے بہت خطرناک اشا رے ملے ہیں اس لیے کل اپنے مرید شاکر کو میں نے تمہارے گھر بھیجا تھا۔“ عامل باوا کا لہجہ انکشافات سے لبریز تھا۔ ”کون سے اشارے بابا جی؟“ عتیرہ نے فوراً جھکا سر اوپر اٹھایا۔ ”میں تمہیں پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا بی بی بات ہی ایسی ہے۔“ ”بابا جی خدا کا واسطہ ہے جو بھی ہے مجھے بتا دیں۔“ عتیرہ رو دینے والے انداز میں بولی تو بابا جی نے تھوڑی دیر کے لیے آنکھیں بند کرلیں پوزیشن مراقبے والی تھی۔
 عتیرہ اضطراری انداز میں پہلو بدل رہی تھی۔ بابا جی نے تھوڑی دیر بعد آنکھیں کھول دیں تو عتیرہ کی جیسے جان میں جان آئی۔ ”لڑکی کا علاج کراؤ بی بی۔ ورنہ جن اسے مار ڈالے گا۔ اس نے ضد باندھ لی ہے کہ لڑکی کو سسکا سسکا کر مارے گا۔“ ”بابا جی بتائیں ناں میں کیا کروں۔ میری بچی ہنستے کھیلتے اس حال کو پہنچ گئی ہے میں کیا کروں۔“ عتیرہ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا۔
ہلکی ہلکی نمی اس کی آنکھوں کے ساتھ ساتھ لہجہ میں بھی در آئی تھی۔ جلالی باوا نے اسے بڑے جلال سے دیکھا تو ایک بار پھر انہوں نے اپنا سر جھکا لیا۔ ان کی نگاہوں کی تاب لانا آسان نہ تھا۔ بابا جی نے اسے قریب آنے کا اشارہ کیا تو وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی ان کے پاس جا کر بیٹھ گئیں۔ ان کی آنکھیں ایک بار پھر بند ہوگئی تھیں منہ ہی منہ میں وہ عجیب سے کلمات بڑبڑانے والے انداز میں پڑھ رہے تھے مجال ہے جو ایک لفظ بھی عتیرہ کے پلے پڑا ہو۔
”لڑکی کو فوراً سسرال سے اپنے گھر لے آؤ۔“عامل جلالی باوا بند آنکھوں کے ساتھ اس سے مخاطب ہوئے۔ ”بابا جی میری بیٹی کی نئی نئی شادی ہوئی ہے کیسے لا…“ ”بیٹی کی زندگی چاہیے تو اسے فوراً اپنے گھر لے کر آؤ چلہ کاٹنا ہے۔ چالیس دن کا چلہ ہوگا۔ بہت بھاری عمل ہے کسی کی بھی جان جاسکتی ہے اس لیے مجھے بالکل تنہائی چاہیے ہوگی۔ تمہاری بیٹی کی سسرال میں چلہ کاٹنا ممکن نہیں ہے۔
لڑکی کے شوہر کو یہاں سے باہر بھیج دو۔ چالیس دن کے لیے۔ پھر سب ٹھیک ہوجائے گا۔ ”جلالی باوا نے محبت سے اس کے سر پہ ہاتھ رکھا تو عتیرہ کی آنکھوں میں رکا سیلاب بہنے کے لیے بے تاب ہونے لگا۔
”بابا جی چالیس دن کے لیے میں اپنے داماد کو کہاں بھیجوں بہت مشکل ہے۔“ ”چالیس دن پورے نہیں ہوں گے اس سے پہلے ہی چلہ مکمل ہوجائے گا دس دس دن کا ہوگا تین بار۔
ویسے دو بار میں ہی کام ہوجاتا ہے لیکن میں نے پھر احتیاطاً چالیس دن بتائے ہیں ہوسکتا ہے مجھے دو دفعہ اورچلہ کاٹنا پڑے اور چالیس دن تمہاری بیٹی کی زندگی سے زیادہ قیمتی نہیں ہیں بی بی۔ یہ کام کرسکتی ہو تو کرو میں صرف تمہارے لیے یہاں رُکا ہوا ہوں ورنہ دوسرے شہروں میں میرے ہزاروں مرید ہیں جو مجھے وہاں آنے کے لیے بول رہے ہیں۔
 مجھے ضروری لاہور جانا تھا لیکن تمہاری پریشانی دیکھ کر رک گیا ہوں کہ مخلوق خدا کے کام آنا عین عبادت ہے۔
ورنہ اس گاؤں سے باہر بھی بہت سے لوگ تمہاری طرح مشکلات کا شکار ہیں۔ میں نے ان کی طرف توجہ نہ کی تو میرا رب ناراض ہوجائے گا۔ میں لاہور سے آ کر تم سے رابطہ کروں گا۔“ ”نہیں باوا جی آپ میرا کام کر کے جانا۔ میری بیٹی عذاب میں ہے۔“ عتیرہ نے بابا جی کے ہاتھ ایسے پکڑے جیسے انہیں جانے سے روکنا چاہتی ہو۔ اب آنسو باقاعدہ طور پہ اس کی آنکھوں سے بہنا شروع ہوگئے تھے۔
”بابا جی میں کیسے ملک ابیک کو کہوں بات کروں۔ وہ میری بیٹی کا شوہر ہے ہوسکتا ہے اسے میری بات بری لگے۔“ ”تمہیں ہر حال میں یہ کام کرنا ہے ورنہ بیٹی کی زندگی سے ہاتھ دھونے کے لیے تیار رہو۔“ جلالی باوا رکھائی سے بولے۔
”بابا جی آپ نورپور سے باہر مت جانا میں گھر جا کر بات کرتی ہوں۔ پوری کوشش کروں گی اپنی طرف سے۔“ ”تمہیں یہ کام کرنا ہے۔
“وہ زور دے کربولے۔ ”مجھے تمہارے گھر آ کر چلہ کاٹنا ہے اور زیادہ افراد کوبتانے کی ضرورت نہیں ہے اس عمل میں رازداری شرط ہے ورنہ یہ چلہ اکارت جائے گا اور پھر کوئی بھی تمہارے خاندان کو تباہی سے نہیں بچا پائے گا۔“ ”بابا جی میں صرف بیٹی کے ساس، سسر کو بتاؤں گی اور اپنے داماد کو۔“ وہ فوراً بولیں۔
”ہاں کوشش کرنا کہ کوئی سوال نہ کرے تم سے۔
“’ بابا جی اُسے آہستہ آہستہ سمجھانے لگے۔
عتیرہ سر ہلا رہی تھیں جیسے جلالی باوا کی بات پوری طرح ان کی سمجھ میں آئی ہو۔
”میں کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہونے دوں گی۔“ عتیرہ نے انہیں یقین دلایا۔ ”بس پھر خوش ہوجاؤ تمہاری بیٹی میرے چلے سے بالکل ٹھیک ہوجائے گی۔“ عامل جلالی باوا کے لہجے میں یقین نمایاں تھا۔
”یہ موذی جن تمہاری بیٹی کا پیچھا چھوڑ دے گا۔
“ ”ایسا ہوگیا تو میں آپ کی ہر ممکن خدمت کروں گی بابا جی۔“ عتیرہ کا لہجہ عقیدت سے شرابور ہو رہا تھا۔
عامل جلالی باوا کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ ہمیں کسی خدمت کی ضرورت نہیں ہے بی بی۔ تم اپنے ہاتھ سے کسی محتاج کو دے دلا دینا۔ ہاں عمل کے لیے کچھ چیزوں کی ضرورت ہوگی وہ لانا تمہاری ذمہ داری ہے۔“ جلالی باوا فقیرانہ انداز میں گویا ہوئے تو عتیرہ کچھ اور بھی ان کی کرامات اور بے نیازی کی قائل ہونے لگی۔
 ”بابا جی جس چیز کی بھی ضرورت ہوئی آپ کو مل جائے گی۔“ ”لڑکی کو جتنا جلدی ہوسکے اپنے گھر لے کر آؤ تاکہ میں عمل شروع کروں۔“ ”بابا جی میں گھر جا کر بات کرتی ہوں پھر آپ کو مطلع کردوں گی۔“ عتیرہ نے مضبوط انداز میں کہا۔بابا جی نے مطمئن انداز میں سر ہلایا۔ انہیں اب اپنی کامیابی کا پورا یقین ہو چلا تھا۔ ان کے آستانے کے باہر ویسے بھی ایک لوہے کی بورڈ پہ جلی حروف میں لکھا تھا ہر تمنا پوری ہوگی۔
“ پھر یہ کیسے ممکن تھا عتیرہ کا مسئلہ حل نہ ہوتا۔
ملک جہانگیر اور افشاں بیگم سے عتیرہ نے بات کرلی تھی۔ انہیں عامل جلالی باوا کے یہاں آنے اور ذیان کے علاج کے لیے خاص عمل کرنے میں کوئی اعتراض نہیں تھا۔ملک جہانگیر تھوڑی ہچکچاہٹ کا شکار تھے پر افشاں بیگم نے انہیں را م کرلیا تھا۔ وہ خود چاہتی تھی کہ ذیان جلدی ٹھیک ہوجائے اور ابیک کے ساتھ نارمل ازدواجی زندگی کا آغاز کرے۔ملک ابیک کو دیکھ کر ان کی یہ خواہش اور بھی شدت پکڑ جاتی۔ وہ تو اپنے کمرے تک میں جانے سے عاجز تھا بحیثیت ماں ان کی خواہش تھی کہ بہو بیٹا ہنسی خوشی زندگی گزاریں۔بہو بھی تو وہ چن کر چندے آفتاب ماہتاب لائی تھیں۔

Chapters / Baab of Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja