Episode 82 - Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 82 - میں گمان نہیں یقین ہوں - نبیلہ ابر راجہ

وہاب ڈرائنگ روم میں سجے قیمتی فرنیچر کا جائزہ لینے میں مصروف تھا جب عتیرہ اندر داخل ہوئیں۔ وہاب انہیں دیکھتے ہی بے اختیار اپنی جگہ سے کھڑا ہوگیا۔ موسم کے لحاظ سے سکن کلر کے سوتی کپڑوں میں ملبوس چادر لیے وہ بے انتہا بارعب اور خوبصورت نظر آرہی تھیں ان کے نقوش میں نمایاں طور پہ ذیان کی جھلک موجود تھی۔ انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
نیناں صوفے کے پیچھے کھڑی باری باری ان دونوں کو دیکھ رہی تھی۔ ”کون ہو تم اور کس لیے یہاں آئے ہو؟“ ان کی شخصیت کی طرح آواز میں بھی عجیب سا وقار اور نرمی تھی۔ ”میرا نام وہاب ہے ذیان سے ملنے آیا ہوں۔“ وہاب نے اعتماد کی کمزور پڑتی ڈور کو مضبوطی سے تھامنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔ عتیرہ کے ماتھے پہ ناگواری کی شکنیں ظاہر ہوئیں جیسے انہیں اس کے منہ سے ذیان کا نام سننا اچھا نہ لگا ہو۔

(جاری ہے)


”تم ہو کون کیا رشتہ ہے تمہارا ذیان سے۔“ ”ذیان میری خالہ زرینہ امیر علی کی بیٹی ہے میری منگیتر ہے پچھلے چند ماہ میں، میں ذیان کو پاگلوں کی طرح تلاش کر رہا ہوں۔ خالہ مجھ سے ناراض ہوگئی ہیں اور ذیان بھی۔ اس لیے مجھے بتائے بغیر یہاں آپ کے پاس چلی آئی ہے۔ آپ مجھے اس سے ملوا دیں میں بہت پریشان ہوں۔“ وہاب کے لہجہ میں پریشانی اور اعتماد تھا۔
عتیرہ الجھی نگاہوں سے اسے تکنے لگی۔ بوا رحمت نے ہی صغریٰ اور نواز کی معرفت ان سے رابطہ کیا تھا۔ پھر عتیرہ کی خود بوا رحمت سے بات ہوئی انہوں نے امیر علی کے انتقال اور ذیان کی مشکلات کے حوالے سے کھل کر بات کی تھی ذیان کو فوراً یہاں سے لے جانے کی درخواست کی تھی اور اب یہ وہاب جانے کیوں اس کی پرسکون زندگی میں ہلچل مچانے آیا تھا۔ عتیرہ کی سوچ تیزی سے کام کر رہی تھی۔
اس دوران انہیں نیناں کی یہاں موجودگی کا دھیان ہی نہیں رہا تھا۔ وہ تجسس آمیز دلچسپی سے وہاب کی سب باتیں سن رہی تھی۔
”ذیان کی شادی ہوگئی ہے اور بوا مجھے سب حالات سے آگاہ کرچکی ہیں۔ میں بہت نرمی سے بات کر رہی ہوں۔ عزت سے واپس چلے جاؤ اور آئندہ تمہاری زبان پہ میری بیٹی کا نام نہیں آنا چاہیے۔“ یہ کہتے ہی عتیرہ جھٹکے سے اپنی جگہ سے کھڑی ہوگئیں۔
صد شکر اس وقت حویلی میں ملک جہانگیر، ملک ارسلان یا ملک ابیک میں سے کوئی بھی موجود نہیں تھا۔
عتیرہ دروازے کی طرف مڑیں۔ نیناں کو وہاں دیکھ کر انہیں پہلی بار اس پہ غصہ آیا مگر وہ مصلحتاً پی گئیں۔ ”انہیں باہر کا راستہ دکھاؤ۔“ وہ تحکم آمیز لہجے میں بولتیں ڈرائنگ روم سے باہر نکل گئیں۔
نیناں نے دروازے کی طرف اشارہ کیا۔ گیٹ تک پہنچتے پہنچتے اس میں اور وہاب میں بہت سی معلومات کا تبادلہ ہوچکا تھا۔
خاص طور پہ یہ معلومات نیناں کے لیے بہت مفید تھیں۔
گھر لوٹتے ہی ملک ارسلان کو کسی غیر معمولی تبدیلی کا احساس ہوا۔ کیونکہ عتیرہ کے چہرے پہ بے پناہ پریشانی چھائی ہوئی تھی۔ ”کیا بات ہوئی ہے میرے پیچھے۔ میں تمہیں اچھا خاصا چھوڑ کر گیا تھا صبح؟“ ”واقعی میں بے حد پریشان ہوں آج وہاب آیا تھا ذیان سے ملنے۔“ وہ دونوں ہاتھ مسل رہی تھیں۔
”کون وہاب؟“ فوری طور پہ ملک ارسلان کو یادداشت کا خانہ کھنگالنے کے باوجود بھی وہاب نامی شخص یاد نہ آسکا۔ ”آپ کو سب بتایا تو تھا میں نے جب ذیان کو آپ خود جا کر لائے تھے۔ بوا رحمت نے مجھے وہاں کے سب حالات بتائے تھے صغریٰ اور نواز بھی آ کر ہم سے ملے تھے آپ کو یاد نہیں ہے؟“ وہ اچھنبے سے انہیں دیکھ رہی تھیں۔ ارسلان کو فوری طور پہ سب یاد آگیا۔
وہاب وہی نوجوان تھا جو اپنے سگے باپ کے گھر میں کرب برداشت کرتی ذیان کا امیدوار تھا اس کی نیت میں کھوٹ تھا اس نے ذیان کو دست درازی کے ذریعے نشانہ بنانے کی ناکام کوشش کی تھی۔
عتیرہ نے ایک ایک بات ملک ارسلان کو بتائی تھی۔ وہ اس کے دکھ میں برابر کے شریک تھے اور ذیان کے لیے ایک باپ جیسے جذبات ہی اپنے دل میں رکھتے تھے۔ قدرتی طور پہ انہیں اس واقعے پہ افسوس تھا جس کے بعد ذیان ملک محل میں آئی تھی۔
یہ واقعہ ہی ذیان کی ملک محل میں آمد کا سبب بنا تھا ورنہ وہ تو سگی ماں کا نام سننا بھی گوارا نہیں کرتی تھی۔
”وہ کیوں آیا تھا یہاں۔ کس نے بتایا اسے یہاں کا؟“ملک ارسلان اضطراری انداز میں گویا ہوئے۔
”مجھے نہیں پتہ۔ ذیان کی شادی کا دعوت نامہ دینے جب میں شہر گئی تھی تو وہاں سے بوا رحمت کہیں اور جاچکی تھیں۔“ عتیرہ نے دانستہ زرینہ بیگم کی فیملی کا نام لینے سے احتراز کیا تھا۔
”ذیان نے سب کے نمبر پہ بہت بار رابطہ کرنے کی کوشش کی پر ناکامی ہوئی اسے۔اب وہاب کہہ رہا ہے کہ میں پاگلوں کی طرح تلاش کر رہا ہوں خالہ بھی مجھ سے ناراض ہوگئی ہیں وہ ذیان سے ملنے اسے ڈھونڈتا ہوا یہاں تک پہنچا ہے۔میری بیٹی پہلے ہی ان کے ہاتھوں دکھی ہے اب وہ یہاں بھی پہنچ گیا ہے۔جہانگیر بھائی اور ابیک کو ذیان کے گزشتہ معاملات پتہ نہیں ہیں اس لیے مجھے عجیب سا ڈر لگ رہا ہے۔
میں نے وہاب کو فوراً یہاں سے چلتا کیا ہے اگر اس کی ملاقات میری جگہ جہانگیر بھائی، افشاں بھابھی یا ابیک سے ہوجاتی تو کیا ہوتا۔ وہ کیا سوچتے ذیان کے بارے میں۔ کیونکہ وہ اس کے ماضی سے آگاہ نہیں ہیں اس کی مشکلات کا انہیں اندازہ نہیں ہے جو اپنے سگے باپ کے پاس رہتے ہوئے اس نے برداشت کی ہیں۔ میں پہلے ہی کرائسس میں ہوں ملک صاحب!! ذیان کا علاج کر رہے ہیں جلالی باوا۔
اس مرحلے پہ وہاب والی بات کھلتی تو سوچیں کیا ہوگا۔“
عتیرہ رو دینے کو تھیں۔ ”سب سے پہلے تم یہ غلط فہمی دور کرلو کہ ذیان صرف تمہاری بیٹی ہے۔ وہ اب ہماری بیٹی ہے۔ تمہیں کتنی بار کہا ہے خود کو مجھ سے الگ مت کیا کرو نہ سمجھا کرو۔ ہمارے دکھ سکھ ایک ہی ہیں خوشیاں سانجھی ہیں۔رہی بات ذیان کی تو میں اس کا بال بھی بیکا نہیں ہونے دوں گا۔
مجھے اپنی بیٹی پہ تم پہ پورا یقین ہے۔“ انہوں نے عتیرہ کا ہاتھ تھپکا۔
 ”کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے آپ فرشتہ ہیں بھول کر ہماری دنیا میں آگئے ہیں۔ آپ کو اللہ نے میرے دُکھوں کی دوا بنا کر اتارا ہے زمین پر۔ آپ نہ ہوتے جانے ہمارا کیا ہوتا۔“ ”میں محبت نہیں عشق کرتا ہوں تم سے۔ اب ہماری بیٹی بھی اس محبت کا اس عشق کا مرکز ہے اس لیے خود کو اکیلا مت سمجھا کرو۔
ابھی میں زندہ ہوں۔ دیکھ لوں گا سب۔“ ملک ارسلان کا تسلی آمیز لہجہ عتیرہ کو پرسکون کر رہا تھا۔
 ”جب وہ لڑکا آیا تھا تم مجھے انفارم کر دیتی میں گھر آتا خود ملتا اس سے۔“ ”مجھے اس کی تیوروں سے لگتا ہے وہ ہماری ذیان کی زندگی کو ڈسٹرب کرنے کی کوشش کرے گا۔ بوا رحمت نے ایک ایک بات بتائی تھی مجھے۔ جانے کیوں پہلے یہ سب میرے دھیان میں کیوں نہیں آئیں۔
اب تو جانے بوا کہاں ہیں کیوں وہ گھر چھوڑ کر گئی ہیں۔“ عتیرہ کا لہجہ خدشات سے بھرپور تھا۔ ”تم زیادہ مت سوچو وقت آنے پہ دیکھا جائے گا۔“ آپ بوا رحمت کا پتہ چلانے کی کوشش کریں۔ ایسا تو نہیں ہے کہ اس لڑکے نے انہیں خود ہی کہیں غائب کر دیا ہو؟“ عتیرہ کی ذہنی رو اس طرف چل پڑی تھی۔ ”میں کرتا ہوں کچھ۔“ ”ذیان بوا رحمت سے بہت اٹیچ ہے اور دل ہی دل میں کافی پریشان بھی ہے وہ شادی میں بھی تو شریک نہیں ہوئیں ہیں۔
آپ بوا رحمت کو تلاش کرنے کی کوشش کریں یہ آپ کا میری ذات پہ ایک اور احسان ہوگا۔ کیونکہ بوا کے مجھ پہ بہت احسانات ہیں۔ میں ان احسانات کا بدلہ چکانا چاہتی ہوں۔“ وہ لجاجت سے گویا ہوئیں۔ ”بیگم صاحبہ آپ کا حکم۔ بندا انکار کی جرأت نہیں کرسکتا۔“ وہ انہیں ٹینشن سے نکالنے کے لیے قصداً ہلکے پھلکے انداز میں بولے۔ وہ اس میں کامیاب رہے۔ کیونکہ عتیرہ مسکرا رہی تھیں۔
وہاب نیناں کے سامنے بیٹھا ہوا تھا۔
نیناں انڈسٹریل ہوم میں تھی۔ ملک محل میں تو وہاب سے ملاقات کرنا مشکل تھا اس لیے اس نے وہاب کو یہاں بلوایا تھا۔ وہ جس طرح مایوس و ناکام ہو کر ملک محل سے نکلا تھا اس کے بعد نیناں سے ملاقات اس کے لیے امیدوں کا مرکز ثابت ہوئی تھی۔ نیناں اسے کرید کرید کر ذیان، امیر علی، زرینہ بیگم اور اس کے بارے میں سوال کر رہی تھی۔
وہاب نے بڑی تفصیل سے ذیان کی گزشتہ زندگی کے ابواب ایک ایک کر کے اس کے سامنے کھولے تھے۔ نیناں کو ذیان کے بارے میں کارآمد معلومات حاصل ہوئی تھی۔ وہاب سے ملاقات خاصی سود مند ثابت ہوئی تھی۔
”ذیان اور میں ایک دوسرے سے شدید محبت کرتے ہیں۔ میری خالہ نے ہمارے بیچ غلط فہمیوں کی دیوار کھڑی کی ہے ایک سازش کے تحت خالہ نے ذیان کو یہاں بھیجا ہے اس کے بعد بوا رحمت کے ساتھ خود بھی روپوش ہوگئی ہیں۔
میں ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک گیا ہوں۔ ذیان کو جب یہاں بھیجا گیا تو تب ہماری شادی کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔ لیکن خالہ نے جانے کون سی دشمنی نکالی ہے۔ ذیان کو چپ چپاتے یہاں بھیجا ہے۔
اور جانے کون کون سی جھوٹی سچی کہانیاں سنائی ہیں کہ سب نے یقین کرلیا ہے۔ یہ انصاف نہیں ہے میری منگیتر کی شادی زبردستی میرے علم میں لائے بغیر کی گئی۔ میں آرام سے نہیں بیٹھوں گا۔
امیر خالو کی مرضی سے سب کچھ ہوا تھا۔ دھوم دھوم سے منگنی ہوئی تھی ہم دونوں کی۔“ وہاب نے پوری طرح نیناں کا اعتماد حاصل کرلیا تھا۔
”میں تمہاری پوری پوری مدد کروں گی۔ پر اس کے لیے تمہیں میری ہدایات پہ عمل کرنا ہوگا۔“
”ٹھیک ہے مجھے منظور ہے۔ ذیان کو حاصل کرنے کے لیے میں کچھ بھی کرسکتا ہوں۔ “ وہ جوش سے بولا۔ ”اب تم جاؤ کل اسی وقت ہم یہاں سے شہر کے لیے روانہ ہوں گے۔
ہم دونوں بہتر طور پہ ایک دوسرے کے کام آسکتے ہیں۔ تمہاری ذیان اور میرا ابیک مجھے مل جائے گا۔“ آخری جملہ نیناں نے دل میں کہا۔
وہاب نے تو اس کی ساری پرابلمز ہی حل کردی تھیں۔ ورنہ ابیک کا حصول اسے دنیا کا ناممکن ترین کام لگ رہا تھا۔ اندرونی ہیجان اور اضطراب سے اس کی رنگت سرخ ہو رہی تھی۔ جانے سے پہلے اسے ابیک کو کال کرنی تھی۔ آخر کو اسے وہاب کی آمد کی اطلاع دینی تھی۔
اس کے بعد ملک محل میں رکنا تھا۔ اسے اب ایک نئے نام اور نئے چہرے کے ساتھ ملک ابیک سے ملنا تھا۔ نیناں نامی شخصیت کے ساتھ وہ ابیک کو حاصل نہیں کرسکتی تھی۔ اس کا حصول دشوار تھا۔ ہاں رنم کو کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا تھا۔ رنم جو خوبصورت، دلکش، حسین تھی دولت مند تھی۔ اسے کوئی کافر ہی انکار کرسکتا تھا۔اسے اب واپس احمد سیال کے پا س جانا تھا۔
اسے دوبارہ اپنے سامنے دیکھ کر انہوں نے اسے یقینا معاف کردینا تھا۔ کیونکہ وہ اس سے ناراض رہ ہی نہیں سکتے تھے۔ نیناں کے لبادے اور چہرے سے وہ ویسے بھی تنگ آچکی تھی۔ اسے اب نئی شخصیت کے ساتھ ملک محل میں دھوم دھام سے واپس آنا تھا۔ مس رنم کے چہرے کے ساتھ پھر سے ابیک کی زندگی سے زور دار انٹری دینی تھی۔ وہاب ملک محل سے نکل کر اس کے ساتھ ہی یہاں تک آیا تھا۔ اب کل اسے یہاں سے وہاب کے ساتھ ہی روانہ ہونا تھا۔ وہ بہت خوش تھی۔
                                     ###

Chapters / Baab of Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja