Episode 83 - Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 83 - میں گمان نہیں یقین ہوں - نبیلہ ابر راجہ

جلالی باوا ذیان کے علاج کے لیے کامیابی سے چلہ کاٹ رہے تھے۔ ابیک کے جانے کے بعد سے لے کر اب تک ذیان بالکل ٹھیک رہی تھی۔ عمل کے دوران جلالی باوا نے اپنے معمول میں تبدیلی کی تھی۔ تھپڑ کھانے کے بعد انہوں نے دوبارہ ذیان کو اکیلے میں اپنے پاس نہیں بلایا تھا۔ ذیان سے تھپڑ کھانے والی بات انہوں نے خود تک ہی محدود رکھی تھی۔ چلے کا دوسرا دور مکمل ہونے پہ جلالی باوا نے ذیان کی نسبت خاصے اطمینان کا اظہار کیا تھا۔
کیونکہ وہ بالکل نارمل رہی اسے کوئی دورہ نہیں پڑا تھا نہ ہی آتم توش اس پہ پھر سوار ہوا۔ جلالی باوا نے اسے صدفی صد صحت مند قرار دیا تھا۔ باقی کسر چلے کے تیسرے دور میں نکل جانی تھی۔
جلالی باواکے ٹرانس میں آ کر عتیرہ بیگم نے گھریلو باتیں بھی انہیں بتا دی تھیں۔

(جاری ہے)

اپنی امیر علی سے شادی کا احوال، ذیان کی پیدائش، امیر علی سے علیحدگی، جوان ہونے کے بعد ذیان کی خود سے نفرت سب کچھ ہی تو جلالی باوا کے علم میں آچکا تھا۔

جلالی باوا نفسیات انسانی کے ماہر تھے۔
قافیہ شناسی کا ہنر ان میں الگ سے تھا۔ وہ سائلوں کی نفسیات اور ان کی کمزوریوں سے کھیلتے تھے۔ اسی طریق پہ آہستہ آہستہ ان کے عقیدت مندوں میں اضافہ ہوا تھا۔ انہوں نے ہمدرد بن کر عتیرہ کی سب ہمدردیاں حاصل کرلی تھیں ہمدردیوں کے ساتھ ساتھ انہیں عتیرہ سے سود مند معلومات بھی حاصل ہوئی تھیں۔ ذیان تو سونے کا انڈہ دینے والی مرغی ثابت ہوئی تھی۔
چلے کے دوران انہوں نے عتیرہ بیگم کے ساتھ ساتھ افشاں بیگم سے بھی خوب مال پانی بٹورا تھا۔ افشاں بیگم بھی تو ان کے کہنے میں آگئی تھی اپنے طور پہ بھی وہ بہت سے پیروں فقیروں کے پاس گئی تھی انہیں شک تھا کہ ذیان پہ کسی نے کچھ سفلی علم نہ کروایا ہو۔ ان کے اس شک کی بناء پہ عامل جلالی باوا کی ملک محل میں آنے کی راہ ہموار ہوئی تھی۔ حالانکہ گھر کے تینوں مردوں کو جلالی باوا کے طریقہٴ علاج سے اختلاف تھا۔
ملک جہانگیر اور ملک ارسلان دونوں بھائی اپنی اپنی بیویوں کی وجہ سے خاموش تھے اور ملک ابیک افشاں بیگم کی وجہ سے چپ تھا۔ ورنہ اس نے جب رات کو ذیان کو جلالی باوا کے کمرے میں دیکھا تھا اس کا جی چاہ رہا تھا کہ مار مار کر باوا کا حلیہ ہی بگاڑ دے۔
بھلا ذیان کو تنہائی میں آدھی رات کو بلا کر کون سا علاج ہونا تھا۔ اس کی حساس حس شامہ نے جلالی باوا کے کمرے میں قدم رکھتے ہی ایک مخصوص بو فوراً محسوس کی تھی۔
اگرچہ یہ بہت ہی خفیف سی تھی لیکن اس نے جان لیا تھا کہ یہ شراب کی بو ہے۔ جلالی باوا نے قالین کے اس حصے پہ جہاں بوتل ٹوٹی تھی وہاں انگیٹھی کے انگارے پھینکے تھے تاکہ کسی کو شک نہ ہو لیکن اس احتیاط کے باوجود بھی ابیک کو معلوم ہوگیا تھا۔ تب ہی تو اسے شدید غصہ آیا تھا۔
جلالی باوا کی گھبراہٹ اور خوف وہراس اس نے کمرے میں قدم رکھتے ساتھ ہی محسوس کیا تھا بعد ازاں ذیان کے جن کی وجہ سے باوا کو خود کو سنبھالنے کا موقعہ مل گیا۔
ابیک ذیان کی طرف سے بے خبر نہیں تھا اس نے حویلی میں کام کرنے والے اپنے ایک اعتماد کے بندے کی ڈیوٹی لگائی۔
ابیک کا یہ ملازم انور بہت سمجھدار تھا۔ وہ کسی کی نظروں میں آئے بغیر جلالی باوا کی سرگرمیوں کی نگرانی کر رہا تھا۔ اگر جلالی باوا ذیان کو دوبارہ تنہائی میں طلب کرتا تو اس موقعہ پہ اسے لازمی اپنی موجودگی ثابت کرنی تھی ایک طرح سے وہ ذیان کی حفاظت کر رہا تھا۔
خیریت رہی اس دن کے بعد سے باوا جی کو عقل آگئی تھی۔ انہوں نے اپنی خوابیدہ تمناؤں کو تھپک تھپک کر سلا دیا تھا جو ذیان کے بھرپور حسن و شباب کو دیکھ کر ان کے دل میں بیدار ہوئی تھیں۔ انہوں نے ذیان کو باقیوں کی طرح ترنوالا سمجھا تھا مگر اس نے تو باوا جی کو لوہے کے چنے چبوا دئیے تھے۔
ابیک نے اپنے ایک پولیس ڈیپارٹمنٹ میں موجود قریبی دوست کو عامل جلالی باوا کے بارے میں تفصیلات مہیا کردی تھیں اب باقی کام اس کا تھا بہت جلد اس کے ہاتھ جلالی باوا کی موٹی چربیلی گردن کو ناپنے والے تھے۔
عامل جلالی باوا ذیان کے علاج کے آخری مر حلے میں تھے۔ اس نے شکر ادا کیا تھا کہ باوا جی نے پھر اسے اکیلے اپنی خلوت میں طلب نہیں کیا۔ اس رات ذیان نے باوا جی کی آنکھوں میں ناچتی ہوس فوراً محسوس کرلی تھی۔ باوا جی نے جو مشروب اسے پینے کے لیے دیا تھا وہ اس نے پھینک دیا تھا بوتل ٹوٹ گئی تھی۔ بابا جی کی نگاہوں کا سحر اسے بے بس کرتا رہا تھا۔
ایسا لگ رہا تھا اس کا ذہن عامل جلالی باوا کے قبضے میں جارہا ہے کیونکہ وہ پلک جھپکائے بغیر ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مقابلہ کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ انہوں نے اس کی چال اسی پہ آزمانے کی سعی لاحاصل کی تھی۔ ذیان کچھ دیر اور ان کی آنکھوں میں دیکھتی رہتی تو وہ اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہوچکے ہوتے۔ وہ ویسے بھی انسانی نفسیات اور کمزوریوں سے پوری طرح واقف تھے پہلی بار ہی بھانپ گئے تھے کہ ذیان ڈرامہ کر رہی ہے۔
ذیان جیسی بہت سی لڑکیوں کا جن انہوں نے اتارا تھا۔ مجبور بے بس لڑکیاں اپنی عزت کے ڈر سے خاموش ہوجاتی تھیں کچھ تو اپنی مجبوری کی وجہ سے لب سینے پہ مجبور تھیں کچھ کو بابا جی کا ڈر زبان نہ کھولنے دیتا۔
 باوا جی کے آستانے کے درو دیوار نے اپنے اندر ایسے بہت سے گھناؤنے راز چھپائے ہوئے تھے۔ وہ جن اتارنے کے ماہر تھے۔ ان کے پاس ایسی جتنی بھی لڑکیاں علاج کے غرض سے لائی گئی تھیں پھر زندگی بھر ان پہ جن نہیں آیا۔
ان لڑکیوں کے ماں باپ جلالی باوا کو دعائیں دیتے نہ تھکتے۔ جن کی وجہ سے تین چار لڑکیوں کی شادیاں رک گئی تھیں کیونکہ ان پہ آنے والے جن کسی صورت بھی یہ شادیاں نہیں ہونے دے رہے تھے۔ انہیں باوا جی کے پاس لایا گیا۔ اب وہی لڑکیاں اپنے اپنے شوہروں کے ساتھ خوشگوار زندگی بسر کر رہی تھیں۔
ذیان نے وہ بوتل کیا توڑی گویا بابا جی کا ٹرانس توڑ دیا جس نے اس کے ذہن کو اپنے کنٹرول میں لیا ہوا تھا۔
باوا جی کے گال پہ لگنے والا تھپڑ اس بات کا ثبوت تھا کہ وہ مکمل طور پہ ٹرانس سے باہر آچکی ہے۔ اس کی عزت جلالی باوا جیسے لٹیرے سے بچ گئی تھی۔
جلالی باوا نے اس کی عقل کی آنکھیں کھول دی تھیں۔ تب ہی تو اس رات ابیک کا سامنا ہونے کے بعد سے اس پہ آتم توش نہیں آیا تھا۔ اس نے آخری بار ملک ابیک کو اپنا رنگ دکھایا تھا۔ عتیرہ بے پناہ خوش تھیں عامل جلالی باوا واقعی بہت پہنچے ہوئے تھے۔
ذیان کے جن کو قابو کرلیا تھا۔ وہ اب نارمل طریقے سے معاملات زندگی میں حصہ لے رہی تھی۔
نیناں بہت خاموشی سے اس کا سکون و اطمینان نوٹ کر رہی تھی۔ ابیک کے جانے کے بعد وہ ٹھیک ہوگئی تھی۔ گویا اسے ابیک کی ذات اور موجودگی سے پرابلم تھی۔ نیناں کی ابیک کے ساتھ ہمدردی محبت میں ڈھل گئی تھی۔ ملک ابیک جیسے خوبرو کڑیل نوجوان کو وہ چھٹانک بھر ذیان ذہنی اذیت دے دے کر جذباتی طور پہ تباہ کر کے اس کے نازک محسوسات ارمانوں بھرے دل سے ظالمانہ طریقے سے کھیل رہی تھی۔
بلکہ اس نے پورے گھر کو عذاب میں ڈالا ہوا تھا۔ اسے اس کا ذرہ بھر احساس تک نہ تھا۔ الٹا سب اس کی فکر اور علاج کی کوشش میں ادھ موئے ہوئے جارہے تھے۔ نیناں کو پورا یقین تھا کہ ذیان ڈرامہ کر رہی ہے وہاب سے ملاقات کے بعد یہ بات ثبوت کو پہنچ گئی تھی۔ مگر اپنے خیالات کا اظہار وہ کر نہیں سکتی تھی۔ وہ محکوم اور ذیان حاکم تھی۔ ملک جہانگیر اور افشاں بیگم کی لاڈلی بہو۔
جس کے لیے بطور خاص عامل جلالی باوا کو گھر میں ٹھہرایا گیا تھا۔ عتیرہ اور ملک ارسلان نے پانی کی طرح پیسہ بہایا تھا۔ عامل جلالی باوا کے تو وارے نیارے ہوگئے تھے۔ اس بے حس لڑکی کو احساس تک نہ تھا۔ نہ جانے کس ذہنی ٹیڑھ کی وجہ سے وہ ایسا کر رہی تھی۔ ملک ابیک نے اسے بغیر کسی چیز کے قبول کیا تھا اسے تو شکر ادا کرنا چاہیے تھا۔ الٹا سب کو اذیت میں ڈالا ہوا تھا۔ بہت جلد اس کے ڈرامے کا نیناں کے ہاتھوں ڈراپ سین ہونے والا تھا۔ ملک ابیک اسے ملتا تو وہ اس کی پوجا کرتی وہ ذیان کی طرح ناشکری نہیں تھی۔ بہت جلد وہ ذیان کی جگہ لینے والی تھی۔
                                         ###

Chapters / Baab of Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja