Episode 87 - Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 87 - میں گمان نہیں یقین ہوں - نبیلہ ابر راجہ

نیناں کی پراسرار گمشدگی کا سراغ لگانے کے لیے ابیک انڈسٹریل ہوم کی عمارت میں موجود تھا۔
کیونکہ اطلاعات کے مطابق وہ صبح اپنے معمول کے مطابق گھر سے انڈسٹریل ہوم جانے کے لیے نکلی۔پھر اس نے وہاں کچھ ٹائم گزارا اور طبیعت میں گرانی کی شکایت کرتے ہوئے وقت سے کافی پہلے اٹھ آئی۔ پھراس کے بعد وہ کہاں گئی یہ کسی کے علم میں بھی نہیں تھا۔
انڈسٹریل ہوم میں آنے سے پہلے اس نے اپنے کمرے میں خط چھوڑا تھا کیونکہ وہاں سے طبیعت کی خرابی کا عذر پیش کر کے وہ اپنے کہے کے مطابق گھر نہیں لوٹی تھی۔ یعنی جب وہ گھر سے نکلی تھی تو اس نے واپس لوٹنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔اس سے ایک رات پہلے اس نے ابیک کو کال کی تھی اور حویلی میں ایک نوجوان کی آمد کا ذکر کیا تھا۔ عارفہ نے بھی اسے ایک اہم بات بتائی تھی۔

(جاری ہے)

غائب ہونے سے کچھ دن پہلے وہ یہاں ایک اجنبی نوجوان کے ہمراہ آئی تھی جو کافی دیر اس کے آفس میں اس کے ساتھ موجود رہا تھا۔ عارفہ کے علاوہ دو تین اور عورتوں نے بھی اس نوجوان کو دیکھا تھا لیکن کسی کو بھی نہیں پتہ تھا کہ وہ کون تھا کہاں سے آیا تھا اور نیناں کے ساتھ اس کا کیا رشتہ تھا۔
ابیک اس کی پرسرار گمشدگی سے الجھتا جارہا تھا۔ ملک ارسلان نے بھی عتیرہ کے زور دینے کی وجہ سے نیناں کی بازیابی کے لیے پولیس سے رابطہ کیا تھا۔
ہر ممکن کو شش کے باوجود اس کا کوئی سراغ نہیں ملا تھا۔ پولیس کا کہنا تھا کہ وہ اپنی مرضی سے گئی ہے۔ کسی نے اس کے ساتھ زبردستی نہیں کی ہے۔ لیکن اس کے ہاتھ کا لکھا ہوا خط تمام تر دعوؤں اور قیاس آرائی کی نفی کر رہاتھا۔ اگر وہ اپنی خوشی سے اپنی مرضی سے کہیں گئی تھی تو اسے ایسا خط لکھنے کی کیا ضرورت تھی جس کو پڑھ کر وہ سب پریشان اور خدشات کا شکار ہوگئے تھے۔
ابیک اس کی گمشدگی سے حد درجہٴ پریشان تھا۔ وہ اس سے انسیت محسوس کرنے لگا تھا۔ بے شک اس نے ملک محل میں کم عرصہ گزارا تھا مگر کبھی کسی کو شکایت کا موقعہ نہیں دیا تھا۔ ابیک نے اسے ہمیشہ سر جھکائے کسی نہ کسی کام میں مصروف دیکھا تھا۔ اس نے نیناں کی صلاحیتوں کو بھانپتے ہوئے اسے سلائی کڑھائی کے سینٹر کا انچارج بنا دیا تھا اور وہ اس کے اعتماد پہ پوری اتری تھی۔
 عتیرہ بیگم اور ارسلان چچا اسے اپنے ساتھ لائے تھے ان کے مطابق وہ بے سہارا اور بے آسرا تھی ایک اتفاق کے نتیجے میں ان سے ٹکرائی اور وہ اسے ہمدردی میں اپنے ساتھ لے آئے۔ اس کے علاوہ ابیک سمیت کسی کو بھی نیناں کے بارے میں اور کچھ معلوم نہیں تھا۔ اگر نیناں بے سہارا اور بے آسرا تھی تو آفس میں جس نوجوان کو وہ اپنے ساتھ لائی تھی وہ کون تھا۔
بہت سے سوال اس کے ذہن میں ازخود پیدا ہو رہے تھے۔
نیناں نے ملک محل میں کسی اجنبی نوجوان کی آمد کا بھی ذکر کیا تھا۔ یہ بات اس کے ذہن سے نکل ہی گئی تھی۔ وہ گھر واپس جارہا تھا۔ سب سے پوچھ گچھ کے بعد بھی کوئی سرا ہاتھ نہیں لگا تھا سوائے اس اجنبی نوجوان کے جس کو ایک دن وہ اپنے ساتھ لائی تھی۔ پھر اس کے بعد اس نوجوان کو کسی نے بھی نہیں دیکھا تھا اور نیناں خود بھی غائب ہو گئی تھی۔
پتہ نہیں اس اجنبی لڑکی کی خاطر وہ کیوں اتنا پریشان ہو رہا تھا۔ حالانکہ ملک محل میں بسنے والے باقی سب افراد نے نیناں کی گمشدگی کو ذہنی طور پہ قبول کرلیا تھا اور چپ ہو کر بیٹھ گئے تھے۔ اس کی واپسی سے یہ قصہ ازسر نو تازہ ہوچکا تھا۔ اور وہ شد و مد سے اس کی گمشدگی کا سراغ لگانے کی کوشش کر رہا تھا۔
اسے ملک محل واپس آئے چوتھا دن تھا۔
ان چاروں دنوں میں وہ ایک بار بھی سکون سے نہیں بیٹھا تھا پوری طرح مایوس ہوئے بغیر اس کی تلاش میں جتا ہوا تھا۔ نیناں اس کی پریشانی سے واقف ہوجاتی تو اپنی دعاؤں کی قبولیت پہ سجدہ شکر بجا لاتی۔
                                         ###
احمد سیال بیٹی کی پاکستان واپسی پہ سب دوست احباب کو ڈنر پہ انوائیٹ کر رہے تھے۔ انہوں نے اس کی گمشدگی کے دوران بہت کرائیسس کو فیس کیا تھا خاص طور پہ سب ایک ہی سوال کرتے تھے کہ رنم سیال اچانک کیوں باہر چلی گئی ہے جبکہ ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا اس کا۔
احمد سیال اس دعوت کے ذریعے سب کی تسلی کروانا چاہ رہے تھے۔
یہ آئیڈیا رنم کا تھا۔ وہ ملک ابیک کی پوری فیملی سے ایک نئی حیثیت سے ملاقات کرنا چاہ رہی تھی۔ اس لیے احمد سیال نے جب ملک جہانگیر کو فیملی سمیت انوائیٹ کیا تو انہیں یہ جان کر ازحد خوشی ہوئی کہ احمد کی بیٹی پاکستان واپس آئی ہے۔
رنم نے واپس آ کر اپنی ایکٹوٹیز میں حصہ لینا شروع کردیا تھا۔
اس نے سب سے پہلے بیوٹی سیلون کا رخ کیا تھا۔ملک محل میں رہتے رہتے اس کی اسکن ہاتھ پاؤں کی نرمی اور بالوں کا بیڑہ غرق ہوگیا تھا۔اسے اپنا آپ پرانی کنڈیشن میں واپس لانا تھا۔ بیوٹی سیلون کے بعد اس نے مارکیٹس اور شاپنگ مالز کا رخ کیا۔
بیوٹی سیلون میں صرف کیا گیا ٹائم اس کے لیے اچھے نتائج لایا۔ وہ پرانی رنم نظر آنے لگی تھی۔
بالوں کی کٹنگ کروا کر اس نے انہیں نئی لک دی تھی یہ سٹائل پہلے سے بھی زیادہ اس پہ سوٹ کر رہا تھا۔
اس کی نرم چمکدار جلد کی شادابی گالوں کی سرخی بالوں کا ریشمی ملائم پن ہاتھوں پاؤں کی نرمی سب کچھ لوٹ آئی تھی۔
احمد سیال نے ملک جہانگیر کی فیملی کو انوائیٹ کرلیا تھا۔ ان کے بیٹے کی شادی ہوگئی تھی وہ بھی اپنی بیوی کے ساتھ آرہا تھا۔ رنم بے پناہ خوش تھی۔
پپا نے اس کا ملک محل میں نیناں والا روپ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنے دل میں دفن کردیا تھا۔
یہ حقیقت صرف وہی دونوں جانتے تھے کہ رنم اتنے ماہ کہاں اور کیسے رہی ہے۔وہ دونوں ہی نیناں نامی باب کو کھولنا نہیں چاہتے تھے۔ احمد سیال کو بس اتنا پتہ تھا کہ رنم پڑھنے کے لیے کینیڈا گئی تھی لیکن وہاں پپا کے بغیر اس کا دل نہیں لگا تو واپس آگئی۔ انہیں رنم سے بڑھ کر دنیا میں کچھ بھی عزیز نہیں تھا۔
اور رنم جانتی تھی دنیا میں اگر اس کے لیے سب سے بڑھ کر قابل اعتماد اور قابل بھروسہ رشتہ صرف احمد سیال ہی کا ہے۔
ملک ابیک ارسلان چچا کی طرف تھا۔ اس نے رات کا کھانا ان کے ساتھ ہی کھایا تھا۔
کھانے کے بعد ملازمہ موسم کے حساب سے کافی بنا کر لے آئی۔عتیرہ بھی ان دونوں کے پاس آ کر بیٹھ گئی تھیں۔ ملک ارسلان، ذیان کے بارے میں ابیک سے بات کر رہے تھے۔ وہ ایک باپ کی طرح اس کے لیے فکر مند تھے۔ ”ابیک اب ذیان بالکل ٹھیک ہے شکر ہے اللہ کا، جلالی باوا نے سب کچھ ٹھیک کردیا ہے۔“عتیرہ کا روئے سخن ابیک کی سمت تھا۔ اس کے لبوں پہ ایک پھیکی سی مسکراہٹ آ کر دم توڑ گئی۔

Chapters / Baab of Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja