Episode 88 - Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja

قسط نمبر 88 - میں گمان نہیں یقین ہوں - نبیلہ ابر راجہ

 ”ہاں عامل جلالی باوا نے پکی گارنٹی دی ہے کہ اب ذیان پہ جن نہیں آئے گا،ملک ارسلان نے عتیرہ کی بات میں گرہ لگائی۔“ اب ذیان پہ جن آ بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ ابیک کا جن ذیان کے جن سے بڑا ہے۔“ارسلان اسے چھیڑ رہے تھے۔ عتیرہ خوشی اور امید سے سرشار تھیں۔ فضا میں ان تینوں کے قہقہے کی چہکار تھی۔
ذیان ملک جہانگیر کے پاس بیٹھی انہیں ایک کتاب سے مختلف اقتباسات پڑھ کر سنا رہی تھی۔
افشاں بیگم ذیان کو نثار ہوجانے والی نگاہوں سے دیکھ رہی تھیں وہ اندرونی خوشی سے سرشار تھیں اتنے دن سے ذیان پہ جن نہیں آیا تھا اور نہ ہی دور دور تک کسی دورے کے آثار تھے۔ اس نے خوش اسلوبی کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کو خندہ پیشانی سے قبول کرلیا تھا۔ سب سے بڑھ کر اس کی گم صم کیفیت ختم ہوگئی تھی۔

(جاری ہے)

وہ ہنستی بولتی پہلے والی ذیان سے الگ ہی لگتی۔

اور تو اور اب وہ نوکرانیوں سے بھی بات چیت کرنے لگی تھی۔
عامل جلالی باوا کے عمل نے تو واقعی کام کردکھایا تھا۔ وہ جن اتارنے کی وجہ سے شہرت رکھتے تھے اور اس میں کوئی جھوٹ بھی نہیں تھا۔ ذیان ان کے علاج کا منہ بولتا ثبوت تھی۔ وہ واقعی اپنے کام کے ماہر تھے۔
”بابا جان کیا ہو رہا ہے؟“ ابیک ارسلان چچا کی طرف سے واپس آگیا تھا۔ ملک جہانگیر بستر پہ سیدھے ہو کربیٹھ گئے۔
ان کے دائیں طرف ذیان تھی جو انہیں کتاب پڑھ کر سنا رہی تھی۔ابیک کے آنے کے بعد وہ اس کی طرف متوجہ ہوئے تو ذیان نے کتاب بند کر کے گود میں رکھ لی۔ ”پرسکون زندگی سے لطف اندوز ہو رہا ہوں۔“ملک جہانگیر نے مسکرا کر جواب دیا۔ ”آپ پہلے سے کافی بہتر لگ رہے ہیں۔“ابیک ان کے پاس بیٹھ گیا۔ ”میں بس اپنی آنکھوں کی وجہ سے پریشان ہوں ٹھیک طرح سے پڑھ ہی نہیں سکتا ذیان کے ذریعے اپنا شوق پورا کرتا ہوں۔
“انہوں نے بہت محبت سے ذیان کی سمت دیکھا تھا۔
 ”میں آپ کو شہر لے جاؤں گا اچھے ڈاکٹر سے چیک اپ کراؤں گا۔“ابیک نے انہیں تسلی دی۔ ”اب ڈاکٹر کیا ٹھیک کریں گے مجھے۔جب سے آنکھوں میں موتیا اترا ہے یہ مسائل پیش آرہے ہیں آپریشن کروانے کے باوجودبھی کبھی کبھی تو سب کے چہرے ہی گُڈ مُڈ ہوجاتے ہیں رشتہ داروں کے علاوہ کسی کی شکل ہی نہیں پہچان پاتا میں۔
خیر بڑھاپے میں یہ سب توچلتا ہی ہے میں نے اسے جان کا روگ نہیں بنایا ہے۔ تمہاری شادی کی خوشی میں نے اپنے جیتے جی دیکھ لی ہے اب معاذ کی فکر ہے۔“
 ”بابا جان معاذ کا آخری سمیسٹر ہے وہ جلد ہی آجائے گا۔“ابیک نے نرمی سے ان کی جھریوں بھرے ہاتھ کو تھپکا۔ ملک جہانگیر نے اپنے کڑیل جوان بیٹے کو بڑی محبت سے دیکھا۔ ”تم نے ہمیشہ مجھے طاقت دی ہے۔
اور ہاں احمد سیال کے ہاں دعوت پہ بھی جانا ہے۔اس نے پورے گھر والوں کو بلایا ہے۔اس کی بیٹی پاکستان واپس جو آگئی ہے۔“ ملک جہانگیر نے ایک بار پھر یاد دہانی کروائی۔
”ہاں بابا جان میں چلا جاؤ ں گا۔“وہ سعادت مندی سے بولا۔ ”تم اکیلے نہیں جاؤ گے ذیان بھی ساتھ جائے گی اور واپسی پہ تم سیدھے گھر آؤ گے۔میں نے تم دونوں کو شادی کے بعد ایک بار بھی اکٹھے ہنستے بولتے نہیں دیکھا ہے۔
ابھی ٹکو کچھ دن گھر میں۔“افشاں بیگم نے ٹوکا تو وہ ہنسنے لگا۔
ذیان نے نظر بچا کر اسے دیکھا۔ کھدر کے کرتے شلوار میں ملبوس ٹانگ پہ ٹانگ چڑھائے بیٹھے وہ مغرور لگ رہا تھا۔ اس نے ایک بار بھی ذیان کی سمت نہیں دیکھا تھا۔ ”امی جان آپ کی بہو پہ اگر جن آگیا تو میرا کیا بنے گا۔“ ذیان کو اچھی طرح علم تھا وہ اس پہ طنز کر رہا ہے تب ہی تو اس پہ جیسے گھڑوں پانی پڑ گیا تھا۔
 ”اب جن نہیں آئے گا۔ جلالی باوا نے پکا کام کیا ہے۔“ وہ چکرا کر رہ گیا۔پہلے عتیرہ چچی اور اب افشاں بیگم عامل جلالی باوا کے گن گا رہی تھیں ان دونوں سادہ لوح کم عقل اور کمزور ایمان کی مالک خواتین کو علم ہی نہیں تھا کہ وہ بحیثیت عامل باوا کتنا بڑا فراڈ اور شیطان ہے۔اس کا ذکر سن کر ابیک کا موڈ آف ہوگیا تھا۔ ”چلو تم دونوں جاؤ اپنے کمرے میں جا کر آرام کرو۔
“افشاں بیگم نے حاکمانہ انداز میں بول کر بات ختم کرنی چاہی۔ابیک نے فوراً سعادت مندی سے سر ہلایا وہ ذیان سے پہلے اٹھ کر گیا۔
ذیان نے مرے مرے قدموں سے بیڈ روم کا رخ کیا۔ ابیک بیڈ کے بالکل کونے پہ لیٹا ہوا تھا۔ذیان کو آتا دیکھ کر اس نے کروٹ بدل کر اس کی طرف پشت کرلی۔
ذیان کے اندر چھن سے کچھ ٹوٹا تھا۔ ٹوٹی کرچیوں کی چبھن ناقابل برداشت تھی۔
اسے اپنی چیخیں روکنا مشکل ہوگیا۔ اس کی سسکیوں کی آواز فوراً ابیک کے کانوں تک پہنچی تھی۔ وہ جوتکیہ منہ پہ لیے لیٹا ہوا تھا۔ تکیہ منہ سے ہٹا کر اس کی طرف آیا جھٹکے سے کمبل اس کے منہ سے سرکایا۔ ”اب کیا پرابلم ہے سب کچھ آپ کی مرضی سے ہو رہا ہے میں آپ پہ کسی قسم کا کوئی شوہرانہ حق بھی نہیں جتا رہا ہوں جو آپ کو اس قسم کے ڈرامے کی ضرورت محسوس ہوئی۔
“ ابیک کا اشارہ اس کی لال آنکھوں کی طرف تھا۔ ذیان کو اس کی باتیں تیر کی طرح لگیں۔ اس کی باقی سسکیاں سینے میں ہی گھٹ گئیں۔
”میرے سر میں درد ہے اس لیے رونا آگیا تھا۔“اس نے بمشکل خود کو سنبھالا۔ ”تو کوئی پین کلر لے لیں۔ یا میری موجودگی کی وجہ سے آپ کو پرابلم ہورہی ہے۔بتا دیں میں دوسرے روم میں سوجاؤں گا۔ آپ سے ویسے بھی ڈر لگنے لگا ہے جانے کس وقت آپ پہ جن آجائے۔
اور میرا تماشہ بن جائے۔“ ابیک کا لہجہ نرم مگر الفاظ بہت کاٹ دار تھے۔ ایک بار پھر ذیان کا دل چاہا کہ وہ غائب ہوجائے۔
وہ ابیک کی بات کا جواب دئیے بغیر کمبل تان کر لیٹ گئی۔ ابیک بھی اپنی طرف آ کر لیٹ گیا۔
”امی جان کی وجہ سے یہاں آنے اور سونے پہ مجبور ہوں کیونکہ مجھے سب کی نظروں میں موضوع گفتگو بننا پسند نہیں ہے۔ پہلے ہی بہت تماشہ اور مذاق بن چکا ہے میرا، آپ کے جن کی وجہ سے۔
اندھیرے میں اس کی آواز برچھی کی مانند اس کے کانوں میں آ کر لگی۔ نہ چاہتے ہوئے بھی ایک بار پھر اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے۔
ذیان فیض احمد فیض کا نسخہٴ ہائے وفا ہاتھ میں پکڑے بیٹھی تھی۔ فیض کی شاعری اسے حد سے زیادہ پسند تھی۔ وہ کتاب میں پوری طرح کھوئی ہوئی تھی جب پاس پڑا اس کا سیل فون سریلے سر بکھیرنے لگا۔ اس نے نمبر دیکھے بغیر فون آن کر کے کان سے لگالیا۔
”ذیان فون بند مت کرنا ورنہ حد سے بھی زیادہ پچھتاؤ گی۔“ اس کی ہیلو کے جواب میں دوسری طرف سے وہاب اپنی مخصوص سفاک آواز میں بول رہا تھا۔ ذیان کی ریڑھ کی ہڈی میں سرد سی لہر دوڑ گئی۔ ”کیوں کیا ہے فون مجھے تم نے۔“ اس نے اپنے لہجہ میں اعتماد سمونے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے کہا۔ ”میں تو تمہارے گھر بھی آیا تھا کیا کسی نے بتایا نہیں تمہیں۔
تمہاری ماں سے مل کر گیا ہوں باتیں کی ہیں ان سے۔ تم یہ سمجھ رہی تھی کہ گھر چھوڑ کر بھاگ جاؤ گی تو بچ جاؤ گی مجھ سے۔ میں تمہیں پاتال سے بھی ڈھونڈ نکالتا۔ تم تو مل گئی ہو اب مجھے زرینہ خالہ کو تلاش کرنا ہے۔ بہت حساب ہیں تم دونوں کی طرف۔“
حیرتوں کے بہت سے پہاڑ اکٹھے ذیان کے سر پہ ٹوٹے تھے۔وہاب یہاں ملک محل میں آیا تھا اور اسے پتہ بھی نہیں چلا۔
وہ مما سے ملا اور انہوں نے بھی اس سے یہ بات چھپائی۔
وہ ملک محل میں کیسے پہنچا۔ کس نے اسے یہاں کاپتہ دیا تھا۔اس کا پرسنل نمبر وہاب تک کیسے پہنچا۔ اور اب وہ کس برتے پہ اسے اتنی بڑی بڑی دھمکیاں دے رہا تھا۔وہ ملک محل میں آگیا اور اسے ذرا بھی ڈر نہیں لگا۔
گارڈز تو کسی اجنبی شخص کو ملک محل کے گیٹ سے اندر تک نہیں داخل ہونے دیتے اور اس نے عتیرہ سے ملاقت بھی کرلی۔
وہ ان سوالوں کے جواب اپنے ذہن اور سوچ کے مطابق حاصل کرنے کی تگ و دو کر رہی تھی۔
”آئندہ مجھے فون کرنے کی کوشش مت کرنا۔“ذیان نے کمزور لہجہ میں اسے دھمکی دینے کوشش کی جیسے واقعی وہ ڈر جائے گا۔ اس کی توقع کے برخلاف وہ زور زور سے ہنسنے لگا۔ اس کی مسکراہٹ آج سے پہلے اسے کبھی اتنی مکروہ نہیں لگی تھی۔
”تمہیں فون کرنا کیسے چھوڑ دوں۔
تم میری زندگی کی ضمانت ہو میری محبت ہو۔کتنی مشکل سے تو تمہارا سراغ پایا ہے اور تم کہتی ہو کہ مجھے فون ہی نہ کرو۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ میں نے ٹوٹ کر محبت کی ہے تم سے ذیان اور تم میری محبت، چاہت وفا سب کچھ ٹھکرا کر مجھ سے دور یہاں آگئی۔ تم سوچتی ہوگی کہ میں کبھی بھی تم تک نہیں پہنچ پاؤں گا۔ لیکن دنیا گول ہے اور میرے لیے اتنی بڑی نہیں ہوئی ہے کہ تمہیں تلاش نہ کرسکوں۔
“اس بار وہ بڑی ملائمت سے بولا تھا۔ ”دیکھو مجھ سے ایسی باتیں مت کرو۔ میری شادی ہوگئی ہے،میرے گھر میں سے کسی کو پتہ چل گیا تو بہت برا ہوگا۔“وہ روہانسی ہو رہی تھی۔وہ وہاب کے ساتھ بات کرتے ہوئے پوری طرح چوکنا تھی اور اِدھر اُدھر بھی دیکھ رہی تھی۔ کوئی آتا تو اسے فوراً پتہ چل جاتا۔وہاب لمبی بات کرنے کے موڈ میں تھا۔ذیان نے اچانک لائن کاٹ کر اپنا سیل فون ہی آف کردیا۔

Chapters / Baab of Mein Guman Nahi Yaqeen Hon By Nabila Abar Raja